سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ گلگت بلتستان کی طرف دور دراز دیہات میں ایک جگہ ہے جہاں پہاڑوں پر دو گاؤں کے درمیان ایک ندی بہتی ہے جس میں ویسے ہی گزرنا ممکن نہیں پانی بہت تیز بہتا ہے ، تو اہلِ علاقہ نے سوچا کہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت صرف پیدل گزرنے کے لئے لکڑی کا پُل اس کے اوپر بنوا لیتے ہیں ، کیونکہ وہاں شدید حاجت ہے ، دوسرا راستہ اختیار کرنے میں مشکل بھی زیادہ ہے اور ٹائم بھی زیادہ لگتا ہے۔ سوال یہ پوچھنا ہے کہ کیا زکوٰۃ کی رقم سے وہاں پر پُل تعمیر کروا سکتے ہیں ؟ اسی طرح زکوٰۃ کے پیسوں سےغریب آدمیوں کے لئے پانی کا کنواں نکلوا سکتے ہیں ؟
جواب: اگر علاوہ زکوٰۃ صاف رقم سے پل کی تعمیر کرنا ممکن ہے تو پھر زکوٰۃ کی رقم استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا فقہائے کرام نے پل وغیرہ مفادِ عامہ کے ان کاموں کے لئے حیلۂ شرعی کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے زکوٰۃ استعمال کرنے کی اجازت اس وقت دی ہے جہاں زکوٰۃ کے علاوہ صاف پیسوں کا بند و بست نہ ہو رہا ہو اور ان کاموں کی حاجت بھی شدید ہو۔
زکوٰۃ میں تملیک ( یعنی فقیرِ شرعی کو مالک بنانا ) شرط ہے اور کنواں کھدوانے اور پل تعمیر کروانے میں تملیک نہیں پائی جاتی اس موقع پرجب زکوٰۃ لگاناجائز ہو تو اس کا طریقہ یہ ہےکہ پہلے زکوٰۃ کی رقم کا فقیرِ شرعی کو مالک بنا دے ، پھر وہ فقیر اپنی مرضی سےکنواں کھدوالے یا پل تعمیر کروالے ، اس سے زکوٰۃ دینے والے اور فقیر دونوں کو ثواب ملے گا۔ ( تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق ، 1 / 251-مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر ، 1 / 222-بہار شریعت ، 1 / 890 )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم