والدصاحب فوت ہوئے،ترکے میں جوزمین حصے آئی ،ورثاء مل کراستعمال کررہے ہیں،جوفصل ہوتی ہے اسی سے کھاتے ہیں،لیکن صرف زمین پرہی انحصارنہیں ہےبلکہ اس کے علاوہ بھی آمدنی کے ذرائع ہیں جن سے ان کی گزربسرہوتی ہے،ان کااس زمین میں بننے والا حصہ ان کی حاجتِ اصلیہ سے زائد اور ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے،اس زمین کے علاوہ ان کے پاس ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی مالیت کے برابر حاجتِ اصلیہ سے زائد مال نہیں ہے توکیااس زمین کی وجہ سے ان پر قربانی لازم ہوگی یانہیں؟

سوال:والدصاحب فوت ہوئے،ترکے میں جوزمین حصے آئی ،ورثاء مل کراستعمال کررہے ہیں،جوفصل ہوتی ہے اسی سے کھاتے ہیں،لیکن صرف زمین پرہی انحصارنہیں ہےبلکہ اس کے علاوہ بھی آمدنی کے ذرائع ہیں جن سے ان کی گزربسرہوتی ہے،ان کااس زمین میں بننے والا حصہ ان کی حاجتِ اصلیہ سے زائد اور ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے،اس زمین کے علاوہ ان کے پاس ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی مالیت کے برابر حاجتِ اصلیہ سے زائد مال نہیں ہے توکیااس زمین کی وجہ سے ان پر قربانی لازم ہوگی یانہیں؟
جواب:دریافت کردہ صورت میں ان ورثاپرقربانی واجب ہوگی کیونکہ وراثت شریعت کی طرف سے مقررکردہ جبری ولازمی حق ہے جس میں مورث(یعنی اصل مالک)کے فوت ہوتے ہی وارث کی ملکیت ثابت ہوجاتی ہےاگرچہ قانونی طورپرابھی وارث کے نام نہ کیاگیاہو۔اورتقسیم سے پہلے مالِ وراثت،مالِ شرکت ہوتاہے اورمالِ شرکت میں جس شریک کااس کی حاجتِ اصلیہ(یعنی جن چیزوں کے بغیر زندگی گزارنا دشوار ہوتا ہے،جیسے رہنے کا مکان ، پہننے کے کپڑے ، کھانے کے لیے غلہ وغیرہ)سے زائدحصہ تنہایااس کی دیگرحاجتِ اصلیہ سے زائد مال و سامان کے ساتھ مل کر قربانی کے نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو،اس پرقربانی واجب ہوتی ہے۔
وجوبِ قربانی کے لیے نصاب کےبارے میں بدائع الصنائع میں ہے:
”فلا بد من اعتبار الغنٰى وهو أن يكون فی ملكه مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شئ تبلغ قيمته ذلك سوى مسكنه وما يتأثث به وكسوته وخادمه وفرسه وسلاحه و ما لا يستغنی عنه وهو نصاب صدقة الفطر“
ترجمہ:(قربانی کے وجوب کے لیے)مال داری کااعتبارضروری ہے اوروہ یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں دوسو درہم(ساڑھے باون تولہ چاندی) یا بیس دینار (ساڑھے سات تولہ سونا)ہوں یااس کی رہائش کے مکان،خانہ داری کے سامان،کپڑے،خادم، گھوڑا،ہتھیاراوروہ چیزیں جن کے بغیرگزارا نہ ہو ، کے علاوہ کوئی ایسی چیزہو ، جواس(دوسودرہم یابیس دینار)کی قیمت کوپہنچتی ہواوریہی صدقۂ فطرکانصاب ہے۔
(بدائع الصنائع ، کتاب التضحیۃ ، ج4 ، ص196 ، مطبوعہ کوئٹہ)
اورمورث کے فوت ہوتے ہی مالِ وراثت میں وارث کی ملکیت ثابت ہوجانے کے بارے میں فتاوی رضویہ میں ہے:”ارث جبری ہے کہ موتِ مورث پر ہروارث خواہ مخواہ اپنے حصۂ شرعی کامالک ہوتا ہے ، مانگے خواہ نہ مانگے ، لے یا نہ لے ، دینے کاعرف ہویا نہ ہو ، اگرچہ کتنی ہی مدت ترک کوگزر جائے ، کتنے ہی اشتراک در اشتراک کی نوبت آئے ، اصلاً کوئی بات میراثِ ثابت کو ساقط نہ کرے گی ، نہ کوئی عرف فرائض اللہ کو تغیر کر سکتا ہے ، یہاں تک کہ نہ مانگنا در کنار ، اگر وارث صراحۃً کہدے کہ میں نے اپنا حصہ چھوڑ دیا ، جب بھی اس کی ملک زائل نہ ہو گی ۔ “ ( فتاوٰی رضویہ ، ج26 ، ص113 )
اورمالِ وراثت کے مالِ شرکت ہونے کے بارے میں ردالمحتار میں ہے:
”یقع کثیرا من الفلّاحین و نحوھم ان احدھم یموت فتقوم اولادہ علی ترکتہ بلا قسمۃ و یعملون فیھا من حرث و زراعۃ و بیع و شراء و استدانۃ و نحو ذلک……ھی شرکۃ ملک کما حررتہ فی تنقیح الحامدیۃ،ثم رأیت التصریح بہ بعینہ فی فتاوی الحانوتی ، ملخصا “
ترجمہ : کسانوں وغیرہ میں کثرت سے ایساہوتاہے کہ ان میں سے کوئی ایک فوت ہوتاہے تواس کی اولاداس کاترکہ تقسیم کیے بغیراسے استعمال کرتی ہے اوروہ اس میں کاشت،کھیتی باڑی،خرید و فروخت ،قرض کا لین دین اوراسی طرح کے دیگر کام کرتے ہیں، ……یہ(یعنی مالِ وراثت میں ان کی شرکت) شرکتِ ملک ہے،جیساکہ میں نے اسے تنقیح الحامدیہ میں تحریر کیا ہے ،پھر میں نے فتاوی حانوتی میں اس کی بعینہٖ صراحت دیکھی۔
(رد المحتار ،کتاب الشرکۃ ، مطلب فیما یقع کثیرا فی الفلاحین الخ ، ج6 ، ص472 )
فتاوی رضویہ میں مالِ وراثت کے مالِ شرکت ہونے کے بارے میں فرمایا:
”اکثر ورثاء میں معمول ہوتا ہے کہ مورث مر گیا ، اس کے مال دیہات ، دکانات یوں ہی شرکت پر بلا تقسیم رہتے ہیں اور من جملہ ورثہ بعض وارث باقیوں کے اجازت و رضا مندی سے ان میں تصرف کرتے ہیں ، شرکتِ عقد نہیں ، شرکتِ ملک ہی ہے ۔ “
( فتاوٰی رضویہ ، ج16 ، ص107 )
مزیداسی فتاوی رضویہ میں مالِ شرکت میں قربانی کے بارے میں فرماتے ہیں:
”مالِ شرکت میں جس کاحصہ بقدرِنصاب نہ ہو،نہ اس کے پاس اپنااورکوئی خاص مال اتناہوکہ حصہ کے ساتھ مل کرنصاب کوپہنچ جائے،اس پرقربانی واجب نہیں یعنی نہ کرے گا تو گنہگار نہ ہو گا ۔ “ ( فتاوٰی رضویہ ، ج20 ، ص372 )
اسی میں ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
”قربانی واجب ہونے کے لیے صرف اتناضرورہے کہ وہ ایامِ قربانی میں اپنی تمام اصلی حاجتوں کے علاوہ 56 روپیہ(اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے دور میں رائج چاندی کا نصاب) کے مال کا مالک ہو ، چاہے وہ (یعنی اصلی حاجتوں کے علاوہ) مال نقد ہو یا بیل بھینس یا کاشت ۔ کاشتکار کے ہَل بیل اس کی حاجت اصلیہ میں داخل ہیں ، ان کا شمار نہ ہو۔ “
(فتاوٰی رضویہ ، ج20 ، ص370 )

(کتاب قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی )

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے