(وجوبِ ادا کے شرائط)
یہاں تک وجوب کے شرائط کا بیان ہوا اور شرائطِ ادا کہ وہ پائے جائیں تو خود حج کو جانا ضروری ہے اور سب نہ پائے جائیں تو خود جانا ضروری نہیں بلکہ دوسرے سے حج کراسکتا ہے یا وصیت کر جائے مگر اس میں یہ بھی ضرور ہے کہ حج کرانے کے بعد آخر عمر تک خود قادر نہ ہو ورنہ خود بھی کرنا ضرور ہوگا۔ وہ شرائط یہ ہیں:
1 : راستہ میں امن ہونا یعنی اگر غالب گمانِ سلامتی ہو تو جانا واجب اور غالب گمان یہ ہو کہ ڈاکے وغیرہ سے جان ضائع ہو جائے گی تو جانا ضرور نہیں، جانے کے زمانے میں امن ہونا شرط ہے پہلے کی بدامنی قابلِ لحاظ نہیں۔ [1] (ردالمحتار، عالمگیری)
مسئلہ ۳۲: اگر بدامنی کے زمانے میں انتقال ہوگیا اور وجوب کی شرطیں پائی جاتی تھیں تو حجِ بدل کی وصیت ضروری ہے اور امن قائم ہونے کے بعد انتقال ہو اتو بطریق اولیٰ وصیت واجب ہے۔ [2] (ردالمحتار)
مسئلہ ۳۳: اگر امن کے لیے کچھ رشوت دینا پڑے جب بھی جانا واجب ہے اور یہ اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے مجبور ہے لہٰذا اس دینے والے پر مؤاخذہ نہیں۔ [3] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۳۴: راستہ میں چونگی وغیرہ لیتے ہوں تو یہ امن کے منافی نہیں اور نہ جانے کے لیے عذر نہیں۔ [4] (درمختار) یوہیں ٹیکہ کہ آج کل حجاج کو لگائے جاتے ہیں یہ بھی عذر نہیں۔
2 عورت کو مکہ تک جانے میں تین دن یا زیادہ کا راستہ ہو تو اُس کے ہمراہ شوہر یا محرم ہونا شرط ہے، خواہ وہ عورت جوان ہو یا بوڑھیا اور تین دن سے کم کی راہ ہو تو بغیر محر م اور شوہر کے بھی جاسکتی ہے۔[5]
محرم سے مراد وہ مرد ہے جس سے ہمیشہ کے لیے اُ س عورت کا نکاح حرام ہے، خواہ نسب کی وجہ سے نکاح حرام ہو، جیسے باپ، بیٹا، بھائی وغیرہ یا دُودھ کے رشتہ سے نکاح کی حرمت ہو، جیسے رضا عی بھائی، باپ، بیٹا وغیرہ یا سُسرالی رشتہ سے حُرمت آئی، جیسے خُسر، شوہر کا بیٹا وغیرہ۔
شوہر یا محرم جس کے ساتھ سفر کرسکتی ہے اُس کا عاقل بالغ غیر فاسق ہونا شرط ہے۔ مجنون یا نا بالغ یا فاسق کے ساتھ نہیں جاسکتی آزاد یا مسلمان ہونا شرط نہیں، البتہ مجوسی جس کے اعتقاد میں محارم سے نکاح جائز ہے اُس کے ہمراہ سفر نہیں کرسکتی۔ مراہق و مراہقہ یعنی لڑکا اور لڑکی جو بالغ ہونے کے قریب ہو ں بالغ کے حکم میں ہیں یعنی مراہق کے ساتھ جاسکتی ہے اور مراہقہ کو بھی بغیر محرم یا شوہر کے سفر کی ممانعت ہے۔ [6] (جوہرہ، عالمگیری، درمختار)
مسئلہ ۳۵: عورت کا غلام اس کا محرم نہیں کہ اُس کے ساتھ نکاح کی حرمت ہمیشہ کے لیے نہیں کہ اگر آزاد کردے تو اُس سے نکاح کرسکتی ہے۔ [7] (جوہرہ)
مسئلہ ۳۶: باندیوں کو بغیر محرم کے سفر جائز ہے۔[8] (جوہرہ)
مسئلہ ۳۷: اگرچہ زنا سے بھی حرمتِ نکاح ثابت ہوتی ہے، مثلاً جس عورت سے مَعَاذَ اللہزنا کیا اُس کی لڑکی سے نکاح نہیں کرسکتا، مگر اُس لڑکی کو اُس کے ساتھ سفر کرنا جائز نہیں۔[9] (ردالمحتار)
مسئلہ ۳۸: عورت بغیر محرم یا شو ہر کے حج کو گئی تو گنہگار ہوئی، مگر حج کرے گی تو حج ہو جائے گا یعنی فرض ادا ہوجائے گا۔[10] (جوہرہ)
مسئلہ ۳۹: عورت کے نہ شوہر ہے، نہ محرم تو اس پر یہ واجب نہیں کہ حج کے جانے کے لیے نکاح کرلے اور جب محرم ہے تو حج فرض کے لیے محرم کے ساتھ جائے اگرچہ شوہر اجازت نہ دیتا ہو۔ نفل اور منّت کا حج ہو تو شوہر کو منع کرنے کا اختیار ہے۔[11] (جوہرہ)
مسئلہ ۴۰: محرم کے ساتھ جائے تو اس کا نفقہ عورت کے ذمہ ہے، لہٰذااب یہ شرط ہے کہ اپنے اور اُس کے دونوں کے نفقہ پر قادر ہو۔[12] (درمختار، ردالمحتار)
3 جانے کے زمانے میں عورت عدّت میں نہ ہو، وہ عدّت وفات کی ہو یا طلاق کی، بائن کی ہو یا رجعی کی۔[13]
4 قید میں نہ ہو مگر جب کسی حق کی وجہ سے قید میں ہو اور اُس کے ادا کرنے پر قادر ہو تو یہ عذر نہیں اور بادشاہ اگر حج کے جانے سے روکتا ہو تو یہ عذر ہے۔[14] (درمختار، ردالمحتار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۶،صفحہ۱۰۴۳ تا ۱۰۴۶)
[1] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۵۳۰. و”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب المناسک، الباب الأول، ج۱، ص۲۱۸.
[2] ۔۔۔۔۔۔ ”ردالمحتار”، کتاب الحج، مطلب في قولھم یقدم حق العبد علی حق الشرع، ج۳، ص۵۳۰.
[3] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”و”ردالمحتار”، کتاب الحج، مطلب في قولھم یقدم حق العبد علی حق الشرع، ج۳، ص۵۳۰.
[4] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الحج، ج۳، ص۵۳۱.
[5] ۔۔۔۔۔۔ یہ ظاہر الروایہ ہے ۔ مگر ملا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری ”المسلک المتتقسط فی المنسک المتوسط” صفحہ 57پر تحریر فرماتے ہیں: ” امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رَحِمَہُمَا اللہُ تَعَالیٰ سے عورت کو بغیر شوہر یا محرم کے ایک دن کا سفر کرنے کی کراہیت بھی مروی ہے۔ فتنہ و فساد کے زمانے کی وجہ سے اسی قول( ایک دن) پرفتوی دینا چاہیے۔ ” (”المسلک المتقسط”، ص۵۷. ” ردالمحتار”،کتاب الحج ،ج۳ ،ص۵۳۳)
اعلی حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: عورت کو بغیر شوہر یا محرم کے ساتھ لیے سفر کو جانا حرام ہے ، اس میں کچھ حج کی خصوصیت نہیں ، کہیں ایک دن کے راستہ پر بغیر شوہر یامحرم جائے گی تو گناہ گار ہو گی۔(فتاوی رضویہ ، کتاب الحج ،ج۱۰ ص ۶۵۷ )
”بہارِ شریعت” حصہ 4 ،نماز مسافر کابیان، صفحہ 101 پرہے کہ ”عورت کو بغیر محرم کے تین دن یا زیادہ کی راہ جانا، ناجائز ہے بلکہ ایک دن کی راہ جانا بھی۔” (عالمگیری وغیرہ) لہذا اسی پر عمل کرنا چاہیے۔
[6] ۔۔۔۔۔۔ ” الجوھرۃ النیرۃ” ، کتاب الحج، ص۱۹۳. و”الدرالمختار”، کتاب الحج، ج۳، ص۵۳۱. و”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب المناسک، الباب الأول في تفسیر الحج و فرضیتہ… إلخ، ج۱، ص۲۱۸۔۲۱۹.
[7] ۔۔۔۔۔۔ ” الجوھرۃ النیرۃ” ، کتاب الحج، ص۱۹۳.
[8] ۔۔۔۔۔۔ ” الجوھرۃ النیرۃ” ، کتاب الحج، ص۱۹۳. ھکذا في الجوھرۃ النیرۃ لکن في شرح اللباب والفتوی : علی أنہ یکرہ في زماننا.( انظر:” ردالمحتار”،کتاب الحج ،ج۳ ،ص۵۳۲).
[9] ۔۔۔۔۔۔ ”ردالمحتار”، کتاب الحج، مطلب في قولھم یقدم حق العبد علی حق الشرع، ج۳، ص۵۳۱.
[10] ۔۔۔۔۔۔ ” الجوھرۃ النیرۃ” ، کتاب الحج، ص۱۹۳.
[11] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق۔
[12] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الحج، مطلب في قولھم یقدم حق العبد علی حق الشرع، ج۳، ص۵۳۲
[13] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الحج، مطلب فیمن حج بمال حرام، ج۳، ص۵۳۴.
[14] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الحج، مطلب في قولھم یقدم حق العبد علی حق الشرع، ج۳، ص۵۲۴.