سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری ٹانگ کا مسئلہ ہے کہ میں قعدے میں دو زانو ہوکر نہیں بیٹھ سکتا لہٰذا میں قعدہ میں چوکڑی مارکر بیٹھتا ہوں۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا میں اس صورت میں جماعت کرواسکتا ہوں؟
جواب: دوران نماز ، قعدہ میں بلاعذرِ شرعی چار زانو بیٹھنا مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ اس میں سنّت طریقے کا ترک ہے،سنّت طریقہ یہ ہے کہ الٹا پاؤں بچھا کراس پر بیٹھ جائے اورسیدھا پاؤں کھڑا رکھے اور اس کی انگلیاں قبلہ رُو ہوں۔ ہاں اگر عذر کے سبب نمازی چارزانو بیٹھتا ہے تو مکروہ نہیں۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ پوچھی گئی صورت میں آپ کا قعدہ میں چوکڑی مار کر بیٹھنا شرعاً مکروہ نہیں، لہذا اگر آپ امامت کے اہل ہیں تو آپ جماعت کرواسکتے ہیں ۔
بلاعذرِ شرعی نماز میں چوکڑی مار کر بیٹھنا مکروہ تنزیہی ہے۔ جیسا کہ ہدایہ میں ہے:”ولا یتربّع الا من عذر لانّ فیہ ترک سنّۃ القعود “ یعنی نمازی بلاعذر چوکڑی مار کر نہ بیٹھے کیونکہ اس طرح بیٹھنا ترک سنت ہے۔
سنت کے تحت بنایہ میں ہے:”وھی افتراش رجلہ الیسریٰ والجلوس علیھا ونصب الیمنٰی وتوجیہ اصابعہ الی القبلۃ واما فی حالۃ العذر فلانہ یبیح ترک الواجب فاولیٰ ان یبیح ترک المسنون“یعنی نماز میں بیٹھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ اپنابایاں پاؤں بچھادے اوراس پر بیٹھ جائے اور دائیں پاؤں کوکھڑا کردے اور انگلیوں کا رخ قبلہ کو رکھے البتہ عذر کی حالت میں چار زانو بیٹھنے کی اجازت ہے کیونکہ عذرمیں جب واجب چھوڑنے کی اجازت ہے تو سنّت چھوڑنے کی تو بدرجہ اولیٰ اجازت ہوگی ۔ (البنایۃ شرح الھدایۃ، کتاب الصلاۃ، ج02،ص511،مطبوعہ ملتان)
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:”)و) کرہ (التربع) تنزیھاً لترک الجلسۃ المسنونۃ (بغیر عذر) “یعنی بلاعذرنماز میں چار زانو بیٹھنا مکروہ تنزیہی ہےکیونکہ یہ بیٹھنے کے مسنون طریقےکاترک ہے ۔
مذکورہ بالا عبارت کے تحت فتاوٰی شامی میں ہے:” (قولہ:بغیر عذر)اما بہ فلا؛ لان الواجب یترک مع العذر فالسنۃ اولی “یعنی عذر کی صورت میں چارزانو بیٹھنا مکروہ نہیں کیونکہ جب عذر کے سبب واجب چھوڑا جاسکتا ہے تو سنت بدرجہ اولیٰ چھوڑی جاسکتی ہے۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج02،ص498،مطبوعہ کوئٹہ)
صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”نماز میں بغیر عذر چار زانو بیٹھنا مکروہ ہے اور عذر ہو تو حرج نہیں۔“(بہار شریعت،ج01،حصہ3،ص632، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ ”زید ایک سنی درسگاہ کا طالبِ علم ہے۔ مسائلِ شرعیہ ضروریہ سے بخوبی آگاہ ہے۔ صحیح الطہارت اور صحیح القراءت ہے۔ مگر کمر سے پیر تک مرض جھولہ اور فالج کے باعث لاٹھی کے سہارے لنگڑاتے ہوئے چلتا ہے۔ نماز کا قیام اور رکوع تو سنت کے مطابق ادا کرتا ہے۔ لیکن سجدہ کی حالت میں بوجہ مجبوری داہنے پاؤں کے انگوٹھے کا محض سرا لگتا ہے اور دوسرے پیر کی چار انگلیوں کے صرف سرے لگتے ہیں پیٹ نہیں لگ پاتے باقی فرائض سنت کے مطابق ادا کرتا ہے تو ایسی صورت میں زید مذکور ، عالم اور غیر عالم کی امامت کرسکتا ہے یا نہیں؟ زید کے پیچھے نماز پڑھنے میں شرعاً کوئی حرج تو نہیں۔“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”وقتِ مجبوری جب پورا قیام فرض (کما فی الاحدب) اور استقراء علی الارض (کما فی الاعرج) حاصل نہ ہونے کی صورت میں بھی امامت درست ہے تو حالتِ سجدہ میں صرف انگوٹھا یا بعض واجب انگلیوں کا پیٹ زمین پر نہ لگنا صحت امامت کے لیے کب حرج بن سکتا ہے؟ بلا شبہ یہاں بھی امامت صحیح اور درست ہے اقتداء کرنے میں حرج نہیں۔ “(فتاوٰی فیض الرسول،ج01،ص282-281 ، شبیر برادرز، لاہور، ملخصاً و ملتقطاً)
واضح رہے کہ امامت کی چند شرائط ہیں جن کا خیال رکھنا امام بننے کے لئے ضروری ہے۔
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”امام اُسے کیا جائے جس کی طہارت صحیح ہو، قراءت صحیح ہو، سُنّی صحیح العقیدہ ہو، فاسق نہ ہو، اس میں کوئی بات نفرتِ مقتدیان کی نہ ہو، مسائلِ نماز و طہارت سے آگاہ ہو۔ “(فتاوی رضویہ ، ج 10، ص 619، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)
بہار شریعت میں ہے:” مرد غیرمعذور کے امام کے ليے چھ شرطیں ہیں: (۱) اسلام۔ (۲) بلوغ۔ (۳) عاقِل ہونا۔ (۴) مرد ہونا۔ (۵) قراءت۔ (۶) معذور نہ ہونا۔“(بہار شریعت ، ج01، ص561-560، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم