عاشر کا بیان
زراعت اور پھلوں کی زکاۃ
اﷲ عَزَّوَجَل فرماتا ہے:
(وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ ﳲ) پ۸، الانعام: ۱۴۱.کھیتی کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو۔
حدیث ۱: صحیح بخاری شریف میں ابن عمر رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْھُمَا سے مروی، رسول اﷲ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں: ”جس زمین کو آسمان یا چشموں نے سیراب کیا یا عشری ہو یعنی نہر کے پانی سے اسے سیراب کرتے ہوں، اُس میں عشر ہے اور جس زمین کے سیراب کرنے کے لیے جانور پر پانی لاد کر لاتے ہوں، اُس میں نصف عشر [1] یعنی بیسواں حصہ۔”
حدیث ۲: ابن نجار انس رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہُ سے راوی، کہ حضور (صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم) فرماتے ہیں: کہ ”ہر اُس شے میں جسے زمین نے نکالا، عشر یا نصف عشر ہے۔”[2](بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۵،صفحہ۹۱۴)
مسائل فقہیہ
زمین تین قسم ہے:
(۱) عشری۔ (۲) خراجی۔ (۳) نہ عشری، نہ خراجی۔
اوّل و سوم دونوں کا حکم ایک ہے یعنی عشر دینا۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی زمینیں خراجی نہ سمجھی جائیں گی، جب تک کسی خاص زمین کی نسبت خراجی ہونا دلیل شرعی سے ثابت نہ ہو لے۔ عشری ہونے کی بہت سی صورتیں ہیں مثلاً مسلمانوں نے فتح کیا اور زمین مجاہدین پر تقسیم ہوگئی یا وہاں کے لوگ خودبخود مسلمان ہوگئے، جنگ کی نوبت نہ آئی یا عشری زمین کے قریب پڑتی تھی، اسے کاشت میں لایا یا اُس پڑتی کو کھیت بنایا جو عشری و خراجی دونوں سے قرب و بعد کی یکساں نسبت رکھتی ہے یا اس کھیت کو عشری پانی سے سیراب کیا یا خراجی و عشری دونوں سے یا مسلمان نے اپنے مکان کو باغ یا کھیت بنا لیا اور اسے عشری پانی سے سیراب کرتا ہے ۔یا عشری و خراجی دونوں سے یا عشری زمین کافر ذمّی نے خریدی، مسلمان نے شفعہ میں اُسے لے لیا یا بیع فاسد ہوگئی یا خیار شرط یا خیار رویت کی وجہ سے واپس ہوئی یا خیار عیب [3] کی وجہ سے قاضی کے حکم سے واپس ہوئی ۔
اور بہت صورتوں میں خراجی ہے مثلاً فتح کر کے وہیں والوں کو احسان کے طور پر واپس دی یا دوسرے کافروں کو دے دی یا وہ ملک صلح کے طور پر فتح کیا گیا یا ذمّی نے مسلمان سے عشری زمین خرید لی یا خراجی زمین مسلمان نے خریدی یا ذمّی نے بادشاہِ اسلام کے حکم سے بنجرکو آباد کیا یا بنجر زمین ذمّی کو دے دی گئی یا اسے مسلمان نے آباد کیا اور وہ خراجی زمین کے پاس تھی یا اسے خراجی پانی سے سیراب کیا۔ خراجی زمین اگرچہ عشری پانی سے سیراب کی جائے، خراجی ہی رہے گی
اور خراجی و عشری دونوں نہ ہوں، مثلاً مسلمانوں نے فتح کر کے اپنے لیے قیامت تک کے لیے باقی رکھی یا اس زمین کے مالک مر گئے اور زمین بیت المال کی مِلک ہوگئی۔
مسئلہ ۱: خراج دو قسم ہے:
(۱) خراج مقاسمہ کہ پیداوار کا کوئی حصہ آدھا یا تہائی یا چوتھائی وغیرہا مقرر ہو، جیسے حضورِ اقدس صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے یہودِ خیبر پر مقرر فرمایا تھا۔ اور
(۲) خراج مؤظف کہ ایک مقدار معیّن لازم کر دی جائے خواہ روپے، مثلاً سالانہ دو روپے بیگھہ یا کچھ اور جیسے فاروقِ اعظم رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مقرر فرمایا تھا۔
مسئلہ ۲: اگر معلوم ہو کہ سلطنت اسلامیہ میں ا تنا خراج مقرر تھا تووہی دیں، بشرطیکہ خراج مؤظف میں جہاں جہاں فاروقِ اعظم رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مقدار منقول ہے، اس پر زیادت نہ ہو اور جہاں منقول نہیں اس میں نصف پیداوار سے زیادہ نہ ہو۔ یوہیں خراج مقاسمہ میں نصف سے زیادت نہ ہو اور یہ بھی شرط ہے کہ زمین اُتنے دینے کی طاقت بھی رکھتی ہو۔ [4] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۳: اگر معلوم نہ ہو کہ سلطنتِ اسلام میں کیا مقرر تھا تو جہاں جہاں فاروقِ اعظم رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مقرر فرمادیا ہے، وہ دیں اور جہاں مقرر نہ فرمایا ہو نصف دیں۔[5] (فتاویٰ رضویہ)
مسئلہ ۴: فاروقِ اعظم رَضِیَ اﷲُ تَعَالی عَنْہُ نے یہ مقرر فرمایا تھا کہ ہر قسم کے غلّہ میں فی جریب ایک درم اور اُس غلّہ کا ایک صاع اور خربوزے، تربوز کی پالیز اور کھیرے، ککڑی، بیگن وغیرہ ترکاریوں میں فی جریب پانچ درم انگور و خرما کے گھنے باغوں میں جن کے اندر زراعت نہ ہو سکے۔ دس درم پھر زمین کی حیثیت اور اس شخص کی قدرت کا اعتبار ہے، اس کا اعتبار نہیں کہ اُس نے کیا بویا یعنی جو زمین جس چیز کے بونے کے لائق ہے اور یہ شخص اُس کے بونے پر قادر ہے تو اس کے اعتبار سے خراج ادا کرے، مثلاً انگور بو سکتا ہے تو انگور کا خراج دے، اگرچہ گیہوں بوئے اور گیہوں کے قابل ہے تو اس کا خراج ادا کرے اگرچہ جَو بوئے۔ جریب کی مقدار انگریزی گز سے ۳۵ گز طول، ۳۵ گز عرض ہے اور صاع دو سو اٹھاسی ۲۸۸ روپیہ بھر اور دس درم کے ۹ ــــ ۳ ۵ پائی پانچ درم ۶ عہ / ۴ ــــ ۴ ۵ پائی اور ایک درم ۴ / ۵ ــــ ۱۹ ۲۵ پائی۔[6] (درمختار)
مسئلہ ۵: جہاں اسلامی سلطنت نہ ہو، وہاں کے لوگ بطورِ خود فقرا وغیرہ جو مصارفِ خراج ہیں، اُن پر صرف کریں۔
مسئلہ ۶: عشری زمین سے ایسی چیز پیدا ہوئی جس کی زراعت سے مقصود زمین سے منافع حاصل کرنا ہے تو اُس پیداوار کی زکاۃ فرض ہے اور اس زکاۃ کا نام عشر ہے یعنی دسواں حصہ کہ اکثر صورتوں میں دسواں حصہ فرض ہے، اگرچہ بعض صورتوں میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ لیا جائے گا۔[7] (عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۷: عشر واجب ہونے کے لیے عاقل، بالغ ہونا شرط نہیں، مجنون اور نابالغ کی زمین میں جو کچھ پیدا ہوا اس میں بھی عشر واجب ہے۔[8] (عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ ۸: خوشی سے عشر نہ دے تو بادشاہِ اسلام جبراً لے سکتا ہے اور اس صورت میں بھی عشر ادا ہو جائے گا، مگر ثواب کا مستحق نہیں اور خوشی سے ادا کرے تو ثواب کا مستحق ہے۔ [9] (عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ ۹: جس پر عشر واجب ہوا، اُس کا انتقال ہوگیا اور پیداوار موجود ہے تو اس میں سے عشر لیا جائے گا۔ [10] (عالمگیری)
مسئلہ ۱۰: عشر میں سال گزرنا بھی شرط نہیں، بلکہ سال میں چند بار ایک کھیت میں زراعت ہوئی تو ہر بار عشر واجب ہے۔[11](درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۱: اس میں نصاب بھی شرط نہیں، ایک صاع بھی پیداوار ہو تو عشر واجب ہے اور یہ شرط بھی نہیں کہ وہ چیز باقی رہنے والی ہو اور یہ شرط بھی نہیں کہ کاشتکار زمین کا مالک ہو یہاں تک کہ مکاتب و ماذون نے کاشت کی تو اس پیداوار پر بھی عشر واجب ہے، بلکہ وقفی زمین میں زراعت ہوئی تو اس پر بھی عشر واجب ہے، خواہ زراعت کرنے والے اہلِ وقف ہوں یا اُجرت پر کاشت کی۔[12](درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۲: جو چیزیں ایسی ہوں کہ اُن کی پیداوار سے زمین کے منافع حاصل کرنا مقصود نہ ہو اُن میں عشر نہیں، جیسے ایندھن، گھاس، نرکل، سنیٹھا، جھاؤ، کھجور کے پتّے، خطمی، کپاس، بیگن کا درخت، خربزہ، تربز، کھیرا، ککڑی کے بیج۔ یوہیں ہر قسم کی ترکاریوں کے بیج کہ اُن کی کھیتی سے ترکاریاں مقصود ہوتی ہیں، بیج مقصود نہیں ہوتے۔ یوہیں جو بیج دوا ہیں مثلاً کندر، میتھی، کلونجی اوراگر نرکل، گھاس، بید، جھاؤ وغیرہ سے زمین کے منافع حاصل کرنا مقصود ہو اور زمین ان کے لیے خالی چھوڑ دی تو اُن میں بھی عشر واجب ہے۔[13] (درمختار، ردالمحتار وغیرہما)
مسئلہ ۱۳: جو کھیت بارش یا نہر نالے کے پانی سے سیراب کیا جائے، اس میں عُشر یعنی دسواں حصہ واجب ہے اور جس کی آبپاشی چرسے[14] یا ڈول سے ہو، اس میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ واجب اور پانی خرید کر آبپاشی ہو یعنی وہ پانی کسی کی مِلک ہے، اُس سے خرید کر آبپاشی کی جب بھی نصف عشر واجب ہے اور اگر وہ کھیت کچھ دنوں مینھ کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہےاور کچھ دنوں ڈول چر سے سے تو اگر اکثر مینھ[15]کے پانی سے کام لیا جاتا ہے اور کبھی کبھی ڈول چرسے سے تو عشر واجب ہے، ورنہ نصف عشر۔ [16] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۴: عشری زمین یا پہاڑ یا جنگل میں شہد ہوا، اس پر عشر واجب ہے۔ یوہیں پہاڑ اور جنگل کے پھلوں میں بھی عشر واجب ہے، بشرطیکہ بادشاہِ اسلام نے حربیوں اور ڈاکوؤں اور باغیوں سے اُن کی حفاظت کی ہو، ورنہ کچھ نہیں۔ [17] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۵: گیہوں، جَو، جوار، باجرا، دھان [18] اور ہر قسم کے غلّے اور السی، کسم، اخروٹ، بادام اور ہر قسم کے میوے، روئی، پھول، گنا، خربزہ، تربز، کھیرا، ککڑی، بیگن اور ہر قسم کی ترکاری سب میں عشر واجب ہے[19]، تھوڑا پیدا ہو یا زیادہ۔ [20] (عالمگیری)
مسئلہ ۱۶: جس چیز میں عشر یا نصف عشر واجب ہوا اس میں کُل پیداوار کا عشر یا نصف عشر لیاجائے گا، یہ نہیں ہوسکتا کہ مصارف زراعت، ہل بیل، حفاظت کرنے والے اور کام کرنے والوں کی اُجرت یا بیج وغیرہ نکال کر باقی کا عشر یا نصف عشر دیا جائے۔[21](درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۷: عشر صرف مسلمانوں سے لیا جائے گا، یہاں تک کہ عشری زمین مسلمان سے ذمّی نے خرید لی اور قبضہ بھی کر لیا تو اب ذمّی سے عشر نہیں لیا جائے گا بلکہ خراج لیا جائے گا اور مسلمان نے ذمّی سے خراجی زمین خریدی تو یہ خراجی ہی رہے گی۔ اُس مسلمان سے اس زمین کا عشر نہ لیں گے بلکہ خراج لیا جائے۔ [22] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۸: ذمّی نے مسلمان سے عشری زمین خریدی پھر کسی مسلمان نیشفعہ میں وہ زمین لے لی یا کسی وجہ سے بیع فاسد ہوگئی تھی اور بائع کے پاس واپس ہوئی یا بائع کو خیار شرط تھا یا کسی کو خیار رویت تھا اس وجہ سے واپس ہوئی یا مشتری کو خیار عیب تھااور حکم قاضی سے واپس ہوئی، ان سب صورتوں میں پھر عشری ہی ہے اور اگر خیار عیب میں بغیر حکم قاضی واپس ہوئی تو اب خراجی ہی رہے گی۔[23] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۹: مسلمان نے اپنے گھر کو باغ بنا لیا، اگر اس میں عشری پانی دیتا ہے تو عشری ہے اور خراجی پانی دیتا ہے تو خراجی اور دونوں قسم کے پانی دیتا ہے، جب بھی عشری اور ذمّی نے اپنے گھر کو باغ بنایا تو مطلقاً خراج لیں گے۔ آسمان اور کوئیں اور چشمہ اور دریا کا پانی عشری ہے اور جو نہر عجمیوں نے کھودی اس کا پانی خراجی ہے۔ کافروں نے کوآں کھودا تھا اور اب مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا یا خراجی زمین میں کھودا گیا وہ بھی خراجی ہے۔ [24] (عالمگیری، درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۰: مکان یا مقبرہ میں جو پیداوار ہو، اُس میں نہ عشر ہے نہ خراج۔ [25] (درمختار)
مسئلہ ۲۱: زفت اور نفط کے چشمے عشری زمین میں ہوں یا خراجی میں اُن میں کچھ نہیں لیا جائے گا، البتہ اگر خراجی زمین میں ہوں اور آس پاس کی زمین قابل زراعت ہو تو اس زمین کا خراج لیا جائے گا، چشمہ کا نہیں اور عشری زمین میں ہوں تو جب تک آس پاس کی زمین میں زراعت نہ ہو کچھ نہیں لیا جائے گا، فقط قابلِ زراعت ہونا کافی نہیں۔ [26] (درمختار)
مسئلہ ۲۲: جو چیز زمین کی تابع ہو،جیسے درخت اور جو چیز درخت سے نکلے جیسے گوند اس میں عشر نہیں۔ [27] (عالمگیری)
مسئلہ ۲۳: عشر اس وقت لیا جائے جب پھل نکل آئیں اور کام کے قابل ہو جائیں اور فساد کا اندیشہ جاتا رہے، اگرچہ ابھی توڑنے کے لائق نہ ہوئے ہوں۔[28] (جوہرہ نیرہ)
مسئلہ ۲۴: خراج ادا کرنے سے پیشتر اُس کی آمدنی کھانا حلال نہیں۔ یوہیں عشر ادا کرنے سے پیشتر مالک کو کھانا حلال نہیں، کھائے گا تو ضمان دے گا۔ یوہیں اگر دوسرے کو کھلایا تو اتنے کے عشر کا تاوان دے اور اگر یہ ارادہ ہے کہ کُل کا عشر ادا کر دے گا تو کھانا حلال ہے۔[29] (عالمگیری، درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۵: بادشاہِ اسلام کو اختیار ہے کہ خراج لینے کے لیے غلّہ کو روک لے مالک کو تصرف نہ کرنے دے اور اس نے کئی سال کا خراج نہ دیا ہو اور عاجز ہو تو اگلی برسوں کا معاف ہے اور عاجز نہ ہو تو لیں گے۔ [30] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۶: زراعت پر قادر ہے اور بویا نہیں تو خراج واجب ہے اور عشر جب تک کاشت نہ کرے اور پیداوار نہ ہو واجب نہیں۔[31] (درمختار )
مسئلہ ۲۷: کھیت بویا مگر پیداوار ماری گئی مثلاً کھیتی ڈوب گئی یا جل گئی یا ٹیری کھا گئی یا پالے اور لُو سے جاتی رہی تو عشر و خراج دونوں ساقط ہیں، جب کہ کُل جاتی رہی اور اگر کچھ باقی ہے تو اس باقی کا عشر لیں گے اور اگر چوپائے کھا گئے تو ساقط نہیں اور ساقط ہونے کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ اس کے بعداس سال کے اندراس میں دوسری زراعت طیار نہ ہو سکے اور یہ بھی شرط ہے کہ توڑنے یا کاٹنے سے پہلے ہلاک ہو ورنہ ساقط نہیں۔ [32] (ردالمحتار)
مسئلہ ۲۸: خراجی زمین کسی نے غصب کی اور غصب سے انکار کرتا ہے اور مالک کے پاس گواہ بھی نہیں، تو اگر کاشت کرے خراج غاصب پر ہوگا۔[33] (درمختار)
مسئلہ ۲۹: بیع وفا یعنی جس بیع میں یہ شرط ہو کہ بائع جب ثمن مشتری کو واپس دے گا تو مشتری مبیع پھیر دے گا تو جب خراجی زمین اس طور پر کسی کے ہاتھ بیچے اور بائع کے قبضہ میں زمین ہے تو خراج بائع پر اور مشتری کے قبضہ میں ہو اور مشتری نے بویا بھی تو خراج مشتری پر۔ [34] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۳۰: طیار ہونے سے پیشتر زراعت بیچ ڈالی تو عشر مشتری پر ہے، اگرچہ مشتری نے یہ شرط لگائی کہ پکنے تک زراعت کاٹی نہ جائے بلکہ کھیت میں رہے اور بیچنے کے وقت زراعت طیار تھی تو عشر بائع پر ہے اور اگر زمین و زراعت دونوں یا صرف زمین بیچی اور اس صورت میں سال پورا ہونے میں اتنا زمانہ باقی ہے کہ زراعت ہو سکے، تو خراج مشتری پر ہے ورنہ بائع پر۔ [35] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۳۱: عشری زمین عاریۃً دی تو عشر کاشتکار پر ہے مالک پر نہیں اور کافر کو عاریت دی تو مالک پر عشر ہے۔[36] (عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ ۳۲: عشری زمین بٹائی پر دی تو عشر دونوں پر ہے اور خراجی زمین بٹائی پر دی تو خراج مالک پر ہے۔ [37] (ردالمحتار)
مسئلہ ۳۳: زمین جو زراعت کے لیے نقدی پر دی جاتی ہے، امام کے نزدیک اُس کا عشر زمیندار پر ہے اور صاحبین [38] کے نزدیک کاشتکار پر اور علامہ شامی نے یہ تحقیق فرمائی کہ حالت زمانہ کے اعتبار سے اب قول صاحبین پر عمل ہے۔[39]
مسئلہ ۳۴: گورنمنٹ کو جو مالگذاری دی جاتی ہے، اس سے خراج شرعی نہیں ادا ہوتا بلکہ وہ مالک کے ذمہ ہے اُس کا ادا کرنا ضروری اور خراج کا مصرف صرف لشکر اسلام نہیں، بلکہ تمام مصالح عامہ مسلمین ہیں جن میں تعمیر مسجد و خرچ مسجد و وظیفہ امام و مؤذن و تنخواہ مدرسینِ علمِ دین و خبر گیری طلبہ علمِ دین و خدمتِ علمائے اہلسنت حامیانِ دین جو وعظ کہتے ہیں اور علمِ دین کی تعلیم کرتے اور فتوے کے کام میں مشغول رہتے ہوں اور پُل و سرا بنانے میں بھی صرف کیا جا سکتا ہے۔ [40] (فتاویٰ رضویہ)
مسئلہ ۳۵: عشر لینے سے پہلے غلّہ بیچ ڈالا تو مصدق کو اختیار ہے کہ عشر مشتری سے لے یا بائع سے اور اگر جتنی قیمت ہونی چاہیے اُس سے زیادہ پر بیچا تو مصدق کو اختیار ہے کہ غلّہ کا عشر لے یا ثمن کا عشر اور اگر کم قیمت پر بیچا اور اتنی کمی ہے کہ لوگ اتنے نقصان پر نہیں بیچتے تو غلّہ ہی کا عشر لے گا اور وہ غلّہ نہ رہا تو اُس کا عشر قرار دے کر بائع سے لیں یا اُس کی واجبی قیمت۔[41] (عالمگیری)
مسئلہ ۳۶: انگور بیچ ڈالے تو ثمن کا عشر لے اور شیرہ کر کے بیچا تو اسکی قیمت کا عشر لے۔[42] (عالمگیری) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ۵،صفحہ۹۱۴ تا ۹۲۱)
[1] ۔۔۔۔۔۔ ”صحیح البخاري”، کتاب الزکاۃ، باب في العشر فیما من ماء السماء… الخ، الحدیث: ۱۴۸۳، ج۱، ص۵۰۱.
[2] ۔۔۔۔۔۔ ”کنزالعمال”، کتاب الزکاۃ، زکاۃ النبات والفواکہ، الحدیث: ۱۵۸۷۳، ج۶، ص۱۴۰.
[3] ۔۔۔۔۔۔ بیع فاسد، خیار شرط، خیار رویت اور خیار عیب کی تفصیلی معلومات کے لیے بہارِ شریعت حصہ ۱۱، ملاحظہ فرمائیں۔
[4] ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الجہاد، باب العشر و الخراج و الجزیۃ، مطلب في خراج المقاسمۃ، ج۶، ص۲۹۲ ۔ ۲۹۴.
[5] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الرضویۃ” ، ج۱۰، ص۲۳۸.
[6] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الجہاد، باب العشر و الخراج و الجزیۃ، ج۶، ص۲۹۲.
[7] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الزکاۃ، الباب السادس في زکاۃ الزرع والثمار، ج۱، ص۱۸۵.
[8] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، وغیرہ.
[9] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الزکاۃ، الباب السادس في زکاۃ الزرع والثمار، ج۱، ص۱۸۵.وغیرہ.
[10] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[11] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الزکاۃ، باب العشر، ج۳، ص۳۱۳.
[12] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[13] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الزکاۃ، باب العشر، ج۳، ص۳۱۵، وغیرہما.
[14] ۔۔۔۔۔۔ یعنی چمڑے کا بڑا ڈول۔
[15] ۔۔۔۔۔۔ بارش۔
[16] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الزکاۃ، باب العشر، ج۳، ص۳۱۳ ۔ ۳۱۶.
[17] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الزکاۃ، باب العشر، ج۳، ص۳۱۱ ۔ ۳۱۳.
[18] ۔۔۔۔۔۔ چاول۔
[19] ۔۔۔۔۔۔ مثلاً دس مَن میں ایک مَن، دس سیر میں ایک سیر یا دس پھل میں ایک پھل۔
[20] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الزکاۃ، الباب السادس في زکاۃ الزرع والثمار، ج۱، ص۱۸۶.
[21] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الزکاۃ، باب العشر، مطلب مہم: في حکم اراضی مصر… إلخ، ج۳، ص۳۱۷.
[22] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۳۱۸.
[23] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الزکاۃ، باب العشر، مطلب مہم: في حکم اراضی مصر… إلخ، ج۳، ص۳۱۸.
[24] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۳۱۹، و ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الزکاۃ، الباب السادس في زکاۃ الزرع والثمار، ج۱، ص۱۸۶.
[25] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الزکاۃ، باب العشر، ج۳، ص۳۲۰.
[26] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۳۲۱.
[27] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الزکاۃ، الباب السادس في زکاۃ الزرع والثمار، ج۱، ص۱۸۶.
[28] ۔۔۔۔۔۔ ”الجوہرۃ النیرۃ”، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الزروع و الثمار، ص۱۶۲.
[29] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الزکاۃ، الباب السادس في زکاۃ الزرع والثمار، ج۱، ص۱۸۷. و ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الزکاۃ، باب العشر، مطلب مہم: في حکم اراضی مصر… إلخ، ج۳، ص۳۲۱.
[30] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الزکاۃ، باب العشر، مطلب مہم: في حکم اراضی مصر… إلخ، ج۳، ص۳۲۲.
[31] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الزکاۃ، باب العشر، ج۳، ص۳۲۳.
[32] ۔۔۔۔۔۔ ”ردالمحتار”، کتاب الزکاۃ، باب العشر، مطلب مہم: في حکم اراضی مصر… إلخ، ج۳، ص۳۲۳.
[33] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الزکاۃ، باب العشر، ج۳، ص۳۲۳.
[34] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الزکاۃ، باب العشر، مطلب مہم: في حکم اراضی مصر… إلخ، ج۳، ص۳۲۴.
[35] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[36] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الزکاۃ، الباب السادس في زکاۃ الزرع والثمار، ج۱، ص۱۸۷.
[37] ۔۔۔۔۔۔ ”ردالمحتار”، کتاب الزکاۃ، باب العشر، مطلب: ھل یجب العشرعلی المزارعین في الاراضی السلطانیۃ، ج۳، ص۳۲۷ ۔ ۳۲۸.
[38] ۔۔۔۔۔۔ فقہ حنفی میں امام ابو یوسف اور امام محمد رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیھما کو کہتے ہیں۔
[39] ۔۔۔۔۔۔ ”ردالمحتار”، کتاب الزکاۃ، باب العشر، مطلب مہم: في حکم اراضی مصر وشام السلطانیۃ، ج۳، ص۳۲۵.
[40] ۔۔۔۔۔۔ ”الفاوی الرضویۃ” (الجدیدۃ)، کتاب الزکاۃ، رسالہ افصح البیان، ج۱۰، ص۲۲۳.
[41] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الزکاۃ، الباب السادس في زکاۃ الزرع والثمار، ج۱، ص۱۸۷.
[42] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتای الھندیۃ”، کتاب الزکاۃ، الباب السادس في زکاۃ الزرع والثمار، ج۱، ص۱۸۷.