سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلےکےبارے میں کہ التحیات میں شہادت کی انگلی اٹھانے کا درست طریقہ کیا ہےاور کیا یہ حدیث پاک سے ثابت ہے؟ نیز ایک حدیث پاک میں ہے ” يحركها “،یعنی نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انگلی کو حرکت بھی دیتے تھے ،تو اس کا کیا جواب ہے؟
جواب: التحیات میں کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے شہادت کی اُنگلی کے ذریعے اشارہ کرنا سنت ہےاور یہ صحیح احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے، اس کا درست طریقہ یہ ہے کہ جب نمازی التحیات میں کلمہ شہادت(اَشْهَدُ اَن لَّا اِلٰهَ اِلَّا ﷲ) پر پہنچے ، تو دائیں ہاتھ کی سب سے چھوٹی اور ساتھ والی اُنگلی بند کرے، انگوٹھے اور بیچ کی اُنگلی کا حلقہ بنائے اور”لَا“پر شہادت کی اُنگلی اٹھائے اور”اِلَّا“پررکھ دے اورسب اُنگلیاں پہلےکی طرح سیدھی کرلے یعنی شہادت کی انگلی کو مسلسل حرکت نہ دیتا رہے ۔
جہاں تک حضرت وائل بن حُجر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی روایت میں مذکور لفظ ” يحرّكها “ کی بات ہے ، تواس سے بھی انگلی کو اٹھانے اور اشارہ کرنے کے لیے حرکت دینا مراد ہے ،نہ کہ آخرِ نماز تک مسلسل حرکت دیتے رہنا،آخر اشارے کےلیے انگلی کو حرکت ہی دینی ہوگی، بغیر حرکت کے تو اشارہ نہیں ہوسکتا۔یہی نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےعملِ مبارک سے ثابت ہےاور جمہور علماء وفقہائے کرام ، امام اعظم،امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور کثیر محدثین عظام رَحِمَھُمُ اللہُ السَّلاَمْ کابھی یہی موقف ہے۔
تفصیل درج ذیل ہے :
(1) حدیثِ پاک میں ” يحركها“کا لفظ حرکت دینے کے معنی میں نہیں ہے،بلکہ یرفعھا اور یشیر کے معنی میں ہے ، یعنی نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُنگلی اٹھا کر اشارہ کرتے تھے نہ کہ اس کو ہلاتے رہتے تھے ، کیونکہ حرکت ديے بغیر انگلی اٹھانا ، ممکن ہی نہیں ،نیز یہ معنی مراد لینے سے دونوں احادیث میں مطابقت ہو جائے گی اور تعارض بھی باقی نہیں رہے گاجو ایسی صورت میں شرعاً مطلوب بھی ہے۔یونہی امام بیہقی ، امام ابن حجر عسقلانی اور علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِم نے بیان کیا ۔
(2)اور مسلسل حرکت نہ دینے پر یہ بات بھی دلیل ہےکہ اس حدیث پاک میں موجود لفظ ’’یدعو بھا ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تشہد میں اُنگلی کے ذریعے اللہ پاک کی وحدانیت کا اشارہ کیا،(گویا قول و فعل سے توحید باری تعالیٰ کا اقرار کیا) ، جیساکہ علامہ طیبی رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ نے بیان کیا ، تو جب اس اشارے سے مقصود اللہ پاک کی وحدانیت کو بیان کر ناہے ، تو واحد کے لیے اُنگلی سے ایک دفعہ ہی اشارہ کیا جاتاہے ، نہ کہ بار بارانگلی کو ہلایا جاتا ہے،بلکہ اگر اس کو مسلسل حرکت دی جائے ،توظاہرا مقصودکی مطابقت کے خلاف ہے کہ واحد کےلیے واحد انگلی سے واحد حرکت ہونی چاہیے نہ کہ متعدد حرکات۔اسی وجہ سے ”لَا“پر انگلی اٹھا کر ”اِلَّا“پر رکھنے کا حکم ہے کہ”لَا“پر انگلی اٹھانے سے غیر خدا کی نفی اور ”اِلَّا“پر رکھنے سے اس کی وحدانیت کے اثبات کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔
(3)اور اگر مان لیا جائے کہ ”يحركها “ سے مراد حرکت دینا ہی ہے ،تو برتقدیر ِ تسلیم ہم یہ کہتے ہیں کہ تب بھی حرکت نہ دینے کی روایت کو ترجیح حاصل ہو گی ، کیونکہ اُنگلی نہ ہلانے کی حدیث صیغۂ استمرار (كان يشير …ولا يحركها)کے ساتھ مروی ہے، جس سے مُعتاد عمل کی طرف اشارہ ملتاہے ۔ یعنی عموماً ایساہی کیا کرتے تھے اوراس کو بیان کرنے والے بھی حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ، جو مدینہ پاک میں ہی رہتے تھے ، اکثر صحبت ِ مصطفیٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فیض یاب ہو اکرتے تھے ، جبکہ انگلی ہلانےکا ذکر صرف حضرت وائل بن حجر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی حدیث کے ایک طریق میں ہے (جو زائدبن قدامہ سے ہے)، بقیہ طُرق میں انگلی ہلائے بغیر مطلق اشارہ کرنے کا بیان ہے ، نیز آپ مدینے سے دور علاقے سے تعلق رکھتے تھےاور چند بار ہی صحبت سے مشرف ہوئے ، آکر دینی تعلیمات سیکھ کر واپس چلے جایا کرتے تھے،توجو تقویت حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی روایت کو حاصل ہے وہ ان کی روایت کوحاصل نہیں ، لہٰذا اس بنیاد پر بھی اُنگلی نہ ہلانے کی روایت ترجیح پائے گی ،جیساکہ رفعِ یدین کے مسئلہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی رفعِ یدین نہ کرنے کی روایت کو حضرت وائل بن حجر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی حدیثِ رفع یدین پر ایک وجہِ ترجیح یہی ہے۔
(4)نیز عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ انگلی کو اِدھر اُدھر ہلائے بغیر رکھ دیا جائے ، کہ بار بار ہلاتے رہنا خشوع و خضوع سے مانع ہے کہ نگاہ گود میں رکھنی ہوتی ہے اور ران پر رکھی انگلی سے باربار اشارہ کریں گے ،تو توجہ بٹتی رہے گی اور یہ خشوع کے خلاف ہے۔
تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنے کے بارے میں صحیح مسلم ،جامع ترمذی ، سنن نسائی ودیگر کتبِ صحاح و سنن میں ہے،: ”عن عامر بن عبد اللہ بن الزبير، عن أبيه، قال:كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إذا قعد يدعو، وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى، ويده اليسرى على فخذه اليسرى، وأشار بإصبعه السبابة، ووضع إبهامه على إصبعه الوسطى“ترجمہ:حضرت عامر اپنےوالد حضرت عبدا للہ بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب قعدہ میں تشہد پڑھنے کےلیے بیٹھتے ،تواپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے اور انگوٹھے کو درمیان والی اُنگلی پر رکھتے(یعنی انگوٹھے اور انگلی کا حلقہ بنا لیتے )۔(الصحیح لمسلم، کتاب الصلاۃ ، باب صفۃ الجلوس فی الصلا ة ، جلد 1 ، صفحہ 260 ، مطبوعہ لاھور )
تشہد میں شہادت کی انگلی کو حرکت نہ دینے کے متعلق سُنَنْ ابی داؤد ، سنن نسائی ،سنن کبری للبیہقی ، شرح السنۃ للبغوی وغیرہاکتبِ احادیث میں ہے، واللفظ للاول :”عن عبد اللہ بن الزبير، أنه ذكر، أن النبي صلى اللہ عليه وسلم كان يشير بأصبعه إذا دعا، ولا يحركها، قال ابن جريج: وزاد عمرو بن دينار،قال:أخبرني عامر، عن أبيه، أنه رأى النبي صلى اللہ عليه وسلم يدعو كذلك“ترجمہ: حضرت سیدنا عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب دعاکرتے(یعنی تشہد میں کلمہ شہادت پر پہنچتے) تو انگلی مبارک سے اشارہ کرتے اور اُنگلی کوباربار ہلایا نہیں کرتے تھے۔ابنِ جریج کہتے ہیں کہ حضرت عمرو بن دینار رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مزید یہ ارشاد فرمایاکہ مجھے عامر نے اپنے والد حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے متعلق یہ خبر دی کہ انہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس طرح (اُنگلی کو حرکت دیے بغیر) اشارہ کرتے ہوئے دیکھاہے۔(سنن ابوداؤد،کتاب الصلاۃ ، باب الاشارة فی التشھد،جلد 1 ، صفحہ 150، مطبوعہ لاھور)
حدیث پاک میں مذکور لفظ” ولايحرّكها “ کے تحت شارحِ مصابیح علامہ حسین بن محمود شیرازی مُظْہِرِی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:727ھ) لکھتے ہیں: ”اختلف في تحريك الاصبع إذا رفعها للاشارة، الأصح أنه إذا رفعها يضعها من غير تحريك “ ترجمہ: جب نمازی اشارہ کےلیے انگلی اٹھائے ، تو انگلی کو حرکت دیتے رہنے کے متعلق اختلاف ہے،اصح قول یہ کہ جب شہادت پر انگلی اٹھائے تو اسے بغیر ہلائے، رکھ دے ۔ ( المفاتیح شرح المصابیح ، جلد2 ، صفحہ 158 ، مطبوعہ دار النور)
محیطِ برہانی ، فتاوی تاتارخانیہ،فتح القدیراور دیگر کتبِ فقہ میں ہے، واللفظ للآخر: ”وعن الحلواني يقيم الأصبع عند”لا إله “ ويضعها عند ”إلا اللہ“ ليكون الرفع للنفي والوضع للاثبات وينبغي أن يكون أطراف الأصابع على حرف الركبة“ ترجمہ:امام شمس الائمہ حلوانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے کہ نمازی لا الہ کے وقت انگلی اٹھائے گااور الااللہ پر گرا دے گا،تاکہ انگلی اٹھانا نفی شریک الٰہی کےلیے اور رکھنا اثباتِ وحدانیت کے لیے ہو جائے اور چاہیے کہ انگلیوں کےپورے گھٹنوں کے کنارے پر رکھے ۔(فتح القدیر ، کتاب الصلاۃ ، باب ، جلد 1، صفحہ 321 ، مطبوعہ کوئٹہ )
علامہ ابنِ عابدین شامی دمشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:” أنها سنة، يرفعها عند النفي ويضعها عند الاثبات، وهو قول أبي حنيفة ومحمد، وكثرت به الآثار والاخبار فالعمل به أولى، فهو صريح في أن المفتى به هو الاشارة بالمسبحة مع عقد الأصابع على الكيفية المذكورة لا مع بسطها فإنه لا إشارة مع البسط عندنا، ولذا قال في منية المصلي: فإن أشار يعقد الخنصر والبنصر ويحلق الوسطى بالابهام ويقيم السبابة“ ترجمہ:التحیات میں شہادت کی انگلی اٹھانا سنت ہے،نفی پر اٹھائے اور اثبات یعنی ’’الا اللہ ‘‘پر رکھ دے ،یہی امام اعظم ابو حنیفہ اور امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِما کا قول ہے ،اِسی پر کثیر احادیث و آثار مروی ہیں ،لہٰذا اِسی پر عمل اولیٰ ہےاوریہ روایات اس بات میں صریح ہیں کہ مفتی بہ قول یہ ہے کہ بقیہ انگلیوں کو بیان کردہ کیفیت کے مطابق بند کرکے شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے ،نہ کہ ہاتھ کوپھیلا کر ،کیونکہ ہمارے نزدیک ہاتھ پھیلا کر اشارہ نہیں کیا جائے گا،اسی وجہ سے منیۃ المصلّی میں کہا :جب اشارہ کرے تو چھوٹی اور اس کےساتھ والی انگلی کو بند کر ے ،انگوٹھے اور درمیان والی انگلی سے حلقہ بنا ئے اور شہادت کی انگلی کو اٹھائے۔(ردالمحتار مع الدرالمختار، کتاب الصلاۃ ،باب صفۃ الصلاۃ، جلد2، صفحہ266، مطبوعہ کوئٹہ)
سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:” اس (یعنی اشارہ کرنے کے)باب میں احادیث و آثار بکثرت وارد، ہمارے محققین کا بھی مذہبِ صحیح و معتمد علیہ (یہی)ہے،…علّامہ بدرالدین عینی نے تحفہ سے اس کا استحباب نقل فرمایا اور صاحب ِمحیط وملّا قہستانی نے سنّت کہا۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد6،صفحہ150،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
نماز کی سُنَن بیان کرتے ہوئے صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:” شہادت پر اشارہ کرنا(سنت ہے)، یوں کہ چھنگلیا اور اس کے پاس والی کو بند کرلے، انگوٹھے اور بیچ کی اُنگلی کا حلقہ باندھے اور” لَا “پر کلمہ کی انگلی اٹھائے اور” اِلَّا “پررکھ دے اور سب اُنگلیاں سیدھی کرلے۔ (بھار شریعت، جلد1، حصہ3، صفحہ530، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
حضرت وائل بن حجر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی حدیثِ پاک اور اس کے جوابات :
سنن ابوداؤد اور سنن نسائی میں ہے: ”حضرت وائل بن حجر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” ثم رفع أصبعه فرأيته يحركها يدعو بها“ترجمہ: پھر رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی انگلی کو اٹھایا ، (راوی فرماتے ہیں ) میں نے دیکھا کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انگلی کو حرکت دے کر ا س کےذریعے اشارہ کیا ۔(سنن نسائی ،کتاب السھو ،باب قبض الاصابع من الید الیمنی ، جلد 1، صفحہ187 ، مطبوعہ کراچی )
پہلے جواب کے جزئیات:
”يحركها “بمعنی یرفعھا ہونے کے متعلقعلامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:” (يحركها) ظاهره يوافق مذهب الامام مالك، لكنه معارض بما سيأتي أنه لا يحركها ويمكن أن يكون معنى يحركها يرفعها، إذ لا يمكن رفعها بدون تحريكها “ترجمہ:حدیث پاک کے الفاظ(يحركها) بظاہر امامِ مالک رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے مذہب کے موافق ہیں ،مگر یہ دوسری حدیث جس میں ’’لا يحركها ‘‘کے الفاظ ہیں ،اس کے معارض ہے،(لیکن دونوں کے درمیان یوں تطبیق )ممکن ہے کہ انگلی کو حرکت دینے سے مراد یہ ہوکہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ا ُنگلی کو اٹھایا ،اس لیے کہ حرکت دئیے بغیر اسے اٹھانا ، ممکن ہی نہیں،(لہٰذااس طرح احادیث میں تعارض بھی نہیں رہے گا)۔ (مرقاةالمفاتیح ، کتاب الصلاۃ ، باب التشھد ، جلد 2 ، صفحہ 633 ، مطبوعہ کوئٹہ )
”يحرك“بمعنی یشیر ہونے کے متعلق امام بیہقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:” فيحتمل أن يكون المراد بالتحريك الاشارة بها لا تكرير تحريكها فيكون موافقا لرواية ابن الزبير“ ترجمہ: اس بات کا احتمال ہے کہ انگلی کو حرکت دینے سے مراد اس سے اشارہ کرنا ہو،نہ کہ بار بار ہلانا ،لہٰذا یہ مراد لینے سے یہ روایت حضرت ابن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی روایت کے موافق ہو جائے گی (اور کوئی تعارض نہیں رہے گا)۔(سنن کبری ،جلد 2، صفحہ 189، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ،بیروت )
اوریہی بات امام ابنِ حجر عسقلانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ”التلخیص الحبیر “میں نقل کی ہے۔(التلخیص الحبیر ، جلد 1، صفحہ 628، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت )
علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:” ثم رفع اصبعہ ای المسبحۃ ورایتہ یحرکھا ای یشیر بھا اشارۃ واحدۃ عند الجمھور وقت الشھادۃ“ ترجمہ:پھر نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےکلمہ شہادت پڑھتے ہوئے شہادت کی انگلی کو اٹھایا اور(میں نےحرکت دیتے ہوئے دیکھا ) یعنی جمہور کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہےکہ ایک دفعہ اشارہ کرتے ہوئے دیکھا۔(رسائل ابن عابدین ،رسالة رفع الترددفي عقد الاصابع عند التشهد، جلد 1، صفحہ 131، مطبوعه دار عالم الكتب )
دوسرے جواب کے متعلق جزئیات:
یدعو سے اللہ پاک کی وحدانیت کی طرف اشارہ مراد ہونے کےمتعلق شارح ِ مشکوٰۃ علامہ طیبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں :” یدعو بھا ای یشیر بھا الی وحدانیۃ اللہ تعالیٰ فی حالۃ دعائہ“ترجمہ:یعنی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشہد کی حالت میں شہادت کی انگلی سے اللہ پاک کی وحدانیت کی طرف اشارہ کر رہے تھے ۔(شرح المشکوٰۃ للطیبی ،كتاب الصلاة ،باب التشهد ، جلد 3 ، صفحہ 1036، مطبوعہ رياض)
”لَا“پر انگلی اٹھانے سے غیر خدا کی نفی اور اِلَّا پر رکھنے سے اثباتِ وحدانیت کی طرف اشارہ ہونے کے متعلق اوپر محیطِ برہانی ، فتاوی تاتارخانیہ وغیرہاکے حوالے سے جزئیہ نقل کیا جا چکا ہے۔تیسرے جواب کے متعلق جزئیات:
حضرت وائل بن حجر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے متعلق امام ابنِ حجر عسقلانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:”وائل ابن حجر الحضرميصحابيجليل وكان من ملوك اليمن ثم سكن الكوفة ومات في ولاية معاوية “ترجمہ:حضرت وائل بن حجرحضرمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ جلیل القدر صحابیِ رسول ہیں اور آپ یمن کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ،پھر کوفہ میں سکونت پذیر ہوئے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں یہیں وصال فرمایا۔ (تقریب التھذیب ، صفحہ580 ، مطبوعہ دار الرشيد)
انگلی ہلانےکا ذکر صرف حضرت وائل بن حجر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی حدیث کے ایک طریق میں ہونے کے متعلق امام ابو بکر محمد بن اسحاق خزیمہ نیشاپوری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”ليس في شيء من الأخبار ” يحرّكها “ إلا في هذا الخبر ، زائد ذكره“ ترجمہ: زائد بن قدامہ کی اس روایت کےعلاوہ کسی روایت میں بھی ”يحركها“ کے الفاظ نہیں ہیں ۔(صیح ابن خزیمہ ،جلد 1،صفحہ 354 ، مطبوعہ المکتب الاسلامی ، بیروت )
فقہِ شافعی میں بھی اُنگلی نہ ہلانے کا قول، مختار ہے،چنانچہ امام نووی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 676ھ)لکھتے ہیں:” ونص الشافعی علی استحباب الاشارۃ للاحادیث السابقۃ قال اصحابنا : ولا یشیر بھا الا مرۃ واحدۃ ۔۔۔۔وھل یحرکھا عند الرفع بالاشارۃ؟ فیہ اوجہ، الصحیح الذی قطع بہ الجمھور انہ لا یحرکھا “ ترجمہ:اور امام شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے احادیث کی وجہ سے تشہد میں اشارہ کرنے کے استحباب کی صراحت فرمائی،اور ہمارے اصحاب ِشوافع نے فرمایاکہ صرف ایک دفعہ اشارہ کرے گااور کیا انگلی کو ہلائے گا؟تو اس میں مختلف اقوال ہیں ، اصح وہی ہے جو جمہور علماء نے بیان کیا کہ حرکت نہیں دے گا۔(المجموع شرح المذھب ،جلد 3 ، صفحه 454 ، مطبوعه دار الفكر )
اورفقہِ حنبلی کے امام،امام موفق الدین ابن قدامہ حنبلی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 620ھ)لکھتے ہیں:”ویشیر بالسبابۃ یرفعھا عند ذکر اللہ تعالیٰ فی تشھدہ کما رویناہ ولا یحرکھا ،لما روی عبد اللہ بن زبیر ان النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کان یشیر باصبعہ ولا یحرکھا“ ترجمہ:اور تشہد میں کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے شہادت کی انگلی اٹھا کر اس کے ذریعے اشارہ کرے گااور(مسلسل) حرکت نہیں دے گا، حضرت عبد اللہ بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی حدیث ِ پاک کی وجہ سے کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انگلی نہیں ہلایا کرتے تھے ۔(المغنی مع الشرح الکبیر ، جلد 1 ، صفحہ 383 ، مطبوعہ مکتبۃ القاھرۃ )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم