تکبیرِ تحریمہ کے وقت ہاتھ نہ اٹھانے کا شرعی حکم ؟

سوال:  کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ نمازی اگر تکبیرِ تحریمہ کے وقت ہاتھ نہ اٹھائے، تو کیا اس صورت میں وہ نماز دوبارہ ادا کرنا ہو گی؟ یا پھر سجدہ سہو کرلینے سے بھی نماز درست ادا ہوجائے گی ؟

جواب:  تکبیرِ تحریمہ کہتے وقت ہاتھوں کو اٹھانا سنتِ مؤکدہ ہے، لہذا  بلا عذر شرعی جان بوجھ کر تکبیرِ تحریمہ کے وقت ہاتھ نہ اٹھانا، اِساءت (یعنی برا عمل)ہے جبکہ اس کی عادت  بنالینا ،ناجائز و گناہ ہے ۔ البتہ اگر کوئی تکبیرِ تحریمہ کہتے وقت بھول کر یا جان بوجھ کر ہاتھوں کو بلند نہ کرے،بہر صورت اس کی نماز ہوجائے گی،  نہ تو نماز کو دہرانا لازم  ہوگا اور نہ ہی سجدہ سہو واجب ہوگا کہ نماز کی کسی سنت کو ترک کردینے سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا۔

   تکبیرِ تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو اٹھانا سنتِ مؤکدہ ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدر المختار   میں ہے:”(ولا یسن) مؤکداً ( رفع یدیہ الا فی) سبعۃ مواطن کما ورد، بناء علی ان الصفا والمروۃ واحد نظرا للسعی ثلاثۃ فی الصلوۃ (تکبیرۃ افتتاح وقنوت وعید و)خمسۃ فی الحج (استلام) الحجر (والصفا، والمروۃ وعرفات ، الجمرات)۔“یعنی  سات مقامات پر ہاتھ اٹھانا سنت مؤکدہ ہے جیسا کہ وارد ہوا ، اس پر بنا کرتے ہوئے کہ صفا و مروہ سعی کو دیکھتے ہوئے ایک ہی ہیں ، تین نماز میں ہیں ، تکبیر تحریمہ ، تکبیر قنوت ، عید کی تکبیر اور پانچ حج میں ، استلام حجر ، صفا ، مروہ ، عرفات اور جمرات کے وقت ۔(تنویر الابصار مع الدر المختار،  کتاب الصلوۃ ، ج02، ص263-262، مطبوعہ کوئٹہ)

   جد الممتار میں ہے:”لایترک رفع الیدین عند التکبیر لانہ سنۃ مؤکدۃ ولو اعتاد ترکہ یاثم“ یعنی تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھانا ترک نہ کرے کہ یہ سنت مؤکدہ ہے اور اس کی عادت بنائی تو گنہگار ہو گا۔(جد الممتار، باب صفۃ الصلوۃ، ج03، ص177، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   بہارِ شریعت میں ہے”تحریمہ کے ليے ہاتھ اٹھانا(سننِ نماز میں سے ہے)۔“(بہارِ شریعت،ج 01،ص 520، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   تکبیرِ تحریمہ کے وقت ہاتھ نہ اٹھائےتو نماز ادا ہوجائے گی۔ جیسا کہ محیطِ برہانی، بحر الرائق وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”و النظم للاول“إن ترك رفع اليدين جاز۔“یعنی اگر تکبیرِ تحریمہ کہتے وقت ہاتھوں کو بلند نہ کیا تب بھی نماز  ہوجائے گی۔ (المحيط البرهاني، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 291، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   سنن و مستحبات کو ترک کرنے پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا۔ جیسا کہ حلبی کبیری میں ہے:”لا یجب بترک السنن والمستحبات کالتعوذ والتسمیۃ والثناء والتامین“یعنی سنن و مستحبات جیسے تعوذ، تسمیہ، ثنا اور آمین کے چھوڑ دینے سے سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا۔ (حلبی کبیری، ص 455،سہیل اکیڈمی، لاھور)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ترکِ سنت سے متعلق کیے گئے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”نماز ہوگئی اور سجدہ سہو کی اصلاً حاجت نہیں۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 08، ص 216، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”سنن و مستحبات  مثلاً:تعوذ ، تسمیہ، ثنا، آمین ، تکبیراتِ انتقال کے ترک سے بھی سجدۂ سہو نہیں ، بلکہ نماز ہوگئی۔“(بہارِ شریعت،ج 01،ص 709، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے