تحقیر مساکین
تحقیر مساکین

تجسس

تجسس

تجسس کی تعریف:

لوگوں کی خفیہ باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کر ناتجسس کہلاتاہے ۔[1](باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۱۸)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں اِرشاد فرماتا ہے:( لَا تَجَسَّسُوْا)(پ۲۶، الحجرات: ۱۲) ترجمۂ کنزالایمان: ’’عیب نہ ڈھونڈو۔‘‘

صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’خزائن العرفان ‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چُھپے حال کی جستجو میں نہ رہوجسے اللہ تعالٰی نے اپنی ستّاری سے چُھپایا ۔ حدیث شریف میں ہے :گمان سے بچو گمان بڑی جھوٹی بات ہے اور مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو ، ان کے ساتھ حرص و حسد ، بغض ، بے مروتی نہ کرو، اے اللہ تعالی کے بندو بھائی بنے رہو جیسا تمہیں حکم دیا گیا ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، اس پر ظلم نہ کرے ، اس کو رسوا نہ کرے ، اس کی تحقیر نہ کرے ، تقوٰی یہاں ہے ، تقویٰ یہاں ہے ، تقویٰ یہاں ہے۔ (اور یہاں کے لفظ سے اپنے سینے کی طرف اشارہ فرمایا۔) آدمی کے لئے یہ برائی بہت ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر دیکھے ، ہر مسلمان مسلمان پرحرام ہےاس کا خون بھی ، اس کی آبرو بھی ، اس کا مال بھی ، اللہ تعالٰیتمہارے جسموں اور صورتوں اور عملوں پر نظر نہیں فرماتا لیکن تمہارے دلوں پر نظر فرماتا ہے ۔ (بخاری ومسلم) حدیث: جو بندہ دنیا میں دوسرے کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالٰی روزِ قیامت اُس کی پردہ پوشی فرمائے گا ۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۱۹)

حدیث مبارکہ،محشر کی رسوائی کا سبب:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’اے وہ لوگو! جو زبانوں سے توایمان لے آئے ہو مگر تمہارے دل میں ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا! مسلمانوں کوایذاء مت دو، اور نہ ان کے عیوب کو تلاش کرو کیونکہ جواپنے مسلمان بھائی کاعیب تلاش کرے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس کاعیب ظاہر فرما دے گا اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ جس کاعیب ظاہر فرما دے تو اُسے رسوا کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے تہہ خانہ میں ہو۔‘‘[2]

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’غیبت کرنے والوں ، چغل خور وں اورپاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ (قیامت کے دن )کتّوں کی شکل میں اٹھائے گا۔[3]

مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْحَنَّان فرماتے ہیں : ’’خیال رہے کہ تمام انسان قبروں سے بشکل انسانی اٹھیں گے پھر محشر میں پہنچ کر بعض کی صورتیں مسخ ہو جائیں گی۔‘‘[4] (یعنی بگڑ جائیں گی مَثَلاً مختلف جانوروں جیسی ہوجائیں گی۔) (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۲۰)

تجسس کے بارے میں تنبیہ:

تجسس یعنی اپنے کسی بھی مسلمان بھائی کے خفیہ عیوب کو تلاش کرنا یا اس کے لیے سعی کرنا شرعاً ممنوع ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۲۱)

تجسس کی مختلف صورتیں :

حضرت سیِّدُنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : ’’کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ دوسرے کے گھر میں کان لگائے تاکہ وہاں سے باجوں کی آواز سنے یا ناک کو اس لیے صاف کرے تاکہ شراب کی بو سونگھ سکے اور نہ ہی کپڑے میں چھپی ہوئی شے کو اس نیت سے ٹٹولے کہ باجے وغیرہ کی پہچان ہو اور نہ اس کے پڑوسیوں سے اس کے گھر میں ہونے والے معاملات دریافت کرے۔ لیکن اگر پوچھے بغیر خود ہی دو عادل شخص اسے بتادیں کہ فلاں شخص اپنے گھر میں شراب پی رہا ہے یا فلاں کے گھر میں شراب ہے جو اس نے پینے کےلیے رکھی ہے تو اس وقت وہ گھر میں داخل ہوسکتا ہے اور اجازت لینا بھی لازم نہیں ہوگا کیونکہ برائی کو ختم کرنے کے لی دوسرے کی ملک میں داخل ہو کر چلنا ایسا ہی ہے جیسے برائی سے منع کرتے ہوئے ضرورت پڑنے پر کسی کا سر پھاڑ دینا۔ البتہ! جن لوگوں کی خبر تو قبول کی جاتی ہے لیکن شہادت نہیں ، ان کے بتانے پر کسی کے گھر میں داخل ہوجانا محل نظر ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ اس سے باز رہے کیونکہ صاحب خانہ اس کا حق رکھتا ہے کہ بغیر اس کی اجازت کے کوئی اس کے گھر میں داخل نہ ہو اور مسلمان کو ثابت شدہ حق اس وقت ساقط نہیں ہوتا جب تک اس کے خلاف دو عادل شخص گواہی نہ دیں۔‘‘ [5] تک (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۲۱ ، ۳۲۲)

تجسس کے سات اسباب و علاج:

(1)…تجسس کا پہلا سبب بغض و کینہ اور ذاتی دشمنی ہے۔جب کسی مسلمان کا بغض و کینہ دل میں آجاتا ہے تو اس کا سیدھا کام بھی الٹا دکھائی دیتا ہےیوں نظریں اس کے عیوب تلاش کرنے میں لگی رہتی ہیں۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے دل کو مسلمانوں کے بغض وکینہ سے پاک وصاف کرے، اپنے دل میں مسلمانوں کی محبت پیدا کرنے کے لیے اس فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پیش نظر رکھے:’’جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی طرف محبت بھر ی نظر سے دیکھےاور اس کے دل یا سینے میں عداوت نہ ہوتو نگاہ لوٹنے سے پہلے دونوں کے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘ [6] اس طرح مسلمانوں کی محبت دل میں پیدا ہوگی اور ان کے عیوب تلاش کرنے سے بھی نجات نصیب ہوگی۔

(2)…تجسس کا دوسراسبب حسد ہےکیوں کہ حاسد کسی بھی قیمت پر محسود (یعنی جس سے حسد کیا جائے اس) کی عزت افزائی کی خواہش نہیں کرتا، بلکہ ہروقت اس کی نعمت چھن جانے کی خواہش رکھتا ہے۔لہٰذا حاسد عیب تلاش کرکے محسود کو بدنام کرنے کی کوشش میں لگا رہتاہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ حسد سے چھٹکارا حاصل کرے حسد کی تباہ کاریوں پر غور کرے کہ حسد ایک ایسا گناہ ہے جو نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو، حسد اللہ عَزَّ وَجَلَّ ورسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ناراضگی کا سبب ہے۔ نیز حاسدین کے عبرت ناک انجام پر بھی غور کرتا رہے۔

(3)…تجسس کا تیسراسبب چغل خوری کی عادت ہے۔محبتوں کے چورچغل خو ر کو کسی نہ کسی منفی پہلو کی ضرورت ہوتی ہےاسی لیےوہ ہر وقت مسلمانوں کے پوشیدہ عیوب کی تلاش میں لگا رہتاہے،پھر یہ عیب اِدھر اُدھربیان کرکے فتنے کا باعث بنتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ چغل خوری کی وعیدوں کو پیش نظر رکھے اور ان سے بچنے کی کوشش کرے۔ چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: (۱)’’چغل خور جنت میں ہر گز داخل نہ ہوگا۔‘‘[7] (۲) ’’چغل خور کو آخرت سے پہلے اس کی قبر میں عذاب دیا جائے گا۔‘‘[8]

(4)…تجسس کا چوتھاسبب چاپلوسی کی عادت ہے۔بعض اَفراد اپنے ہم منصب کے عیوب بلاضرورت شرعی اپنے افسر یا نگران وغیرہ تک پہنچا کراپنا اعتماد قائم کرتے اور ذاتی مفادات بھی حاصل کرلیتے ہیں ،ایسے لوگوں کی ترقی کا تمام تردارو مدار ’’چاپلوسی‘‘ پر ہوتا ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور مسلمانوں کی چاپلوسی سے بچے۔نیز یہ مدنی ذہن بنائے کہ کسی دوسرے مسلمان کی چاپلوسی کرکے جو مجھے ترقی اور عزت ملے گی وہ کس کام کی؟ یقیناً ایسی عزت کسی نہ کسی دن خاک میں مل جائے گی۔ ایسی عزت کا کیا فائدہ؟

(5)…تجسس کا پانچواں سبب نفاق ہےاسی لیے امام غزالی فرماتے ہیں : ’’مومن ہمیشہ اپنے دوست کی خوبیوں کوسامنے رکھتا ہے تاکہ اس کے دل میں عزت،محبت اور احترام پیدا ہو جبکہ منافق ہمیشہ بُرائیاں اور عیوب دیکھتاہے ۔‘‘[9] اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنی ذات سے نفاق کو دور کرنے کی عملی کوشش کرے ۔

(6)…تجسس کا چھٹاسبب شہرت اور مال ودولت کی ہوس ہے۔دوسروں کے عیب واضح کرکے شہرت حاصل کرنا آج کل ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے،آج کل لوگوں نے کئی ایسے ذرائع اختیار کیے ہوئے ہیں جن میں پہلے تومسلمانوں کے عیوب تلاش کیے جاتے ہیں پھر دیگر ذرائع سے اُس کی تشہیر کرکےسستی شہرت اورمالی نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنایوں مدنی ذہن بنائے کہ مسلمانوں کی دل شکنی اور حق تلفی مَعَاذَ اللہ وہ موذی مرض ہے کہ جو اعمال صالحہ کے پورے جسم کو بیکار کردیتا ہے۔ چنانچہ حضرت سیِّدُنا احمد بن حر ب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’کئی لوگ نیکیوں کی کثیر دولت لئے دنیا سے مالدار رخصت ہوں گے مگر بندوں کی حق تلفیوں کے باعث قیامت کے دن اپنی ساری نیکیاں کھو بیٹھیں گے اور یوں غریب و نادار ہوجائیں گے۔‘‘ [10] بعض علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے ایذاء مسلم کو بر ے خاتمے کے اسباب میں شمار کیا ہے۔ [11] لہٰذا مسلمانوں کے عیوب تلاش کرنے سے بندہ اپنے آپ کو بچائے کہ اس میں سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں۔

(7)… تجسس کا ساتواں سبب ’’منفی سوچ‘‘ ہے کہ جب کوئی شخص منفی سوچ کا حامل بن جاتا ہے تو پھر وہ تجسس جیسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے، ہروقت لوگوں کے عیوب کو تلاش کرنا اس کا وطیرہ بن جاتا ہے۔ اس کا علاج یہی ہے کہ بندہ ہمیشہ اپنی سوچ کو مثبت رکھے، بلا ضرورت تجسس اور لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کے بجائے ان کی خوبیوں پر نظر رکھے۔ نیز یہ بھی مدنی ذہن بنائے کہ ہم سب کا خالق ومالک عَزَّ وَجَلَّ جو ہمارے تمام اعمال سے واقف ہے جب وہ ہمارے عیوب کو کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتا تو ہم تو اس کے عاجز بندے ہیں ، ہمیں کیا حق پہنچتا ہے کہ اس کی مخلوق کے عیوب کو تلاش کرتے پھریں ؟ کسی نے کیا خوب کہا ہے:

عیبوں کو ڈھونڈتی ہے عیب جو کی نظر

جو خوش نظر ہیں وہ ہنر وکمال دیکھتے ہیں

(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۳۲۳ تا ۳۲۷)

47 باطِنِی مُہْلِکَات کی تعریفات

[1] ۔۔۔۔ احیاء العلوم، ج۲، ص۶۴۳، ج۳، ص۴۵۹ ماخوذا۔

[2] ۔۔۔۔ شعب الایمان ، باب فی تحریم اعراض الناس، ج۵، ص۲۹۶، حدیث: ۶۷۰۴ بتغیر۔

[3] ۔۔۔۔ التّوبیخ والتّنبیہ لابی الشیخ الاصبھانی، ص۹۷ ، رقم۲۲۰، الترغیب والترھیب، ج۳، ص۳۲۵ ، حدیث ۱۰۔

[4] ۔۔۔۔ مراٰۃ المناجیح، ج۶ ،ص۶۶۰۔

[5] ۔۔۔۔ احیاء العلوم، ج۲، ص۱۱۶۸۔

[6] ۔۔۔۔ شعب الایمان، باب في الحث على ترك الغل والحسد، ج۵، ص۲۷۱، حدیث: ۶۶۲۴ملتقطا۔

[7] ۔۔۔۔ بخاری ، کتاب الادب، باب مایقرأمن النمیمہ، ج۴، ص۱۱۵، حدیث: ۶۰۵۶۔

[8] ۔۔۔۔ بخاری،کتاب الوضو،باب من الکبائر ۔۔۔ الخ، ج۱، ص۹۵، حدیث:۲۱۶مفھوما۔

[9] ۔۔۔۔ احیاء العلوم، ج۲، ص۶۴۰۔

[10] ۔۔۔۔ تنبیہ المغترین، من اخلاقھم کثرت خوفھم۔۔۔الخ، ص۴۷۔

[11] ۔۔۔۔ شرح الصدور، ص ۲۷۔

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے