سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ زید روزانہ نمازِ فجر کا وقت شروع ہونے سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے تہجد کی نماز کے لیے اور لوگوں کو جگانے کے لیے مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کرتا ہے، جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ زید کا اعلان کرنا کیسا ہے؟ لوگوں کے منع کرنے پر زید کہتا ہے کہ میرے اعلان کرنے سے بہت سے لوگ نیکی کرتے اور تہجد پڑھتے ہیں اور مزید یہ بھی کہتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں بھی لوگوں کو نمازِ تہجد کے لیے جگایا جاتا تھا، لہٰذا میرا اعلان کرنا درست ہے۔ ہمیں رہنمائی فرمائیں کہ اِس کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب: نماز تہجد بلاشبہ ایک عظیم عبادت اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تقرُّب کا بہترین ذریعہ ہے اور اِس کے لیے اپنے گھر کے اَفراد کو مناسب طریقے سے بیدار کرنا بھی عمدہ وَصْف ہے، مگر نمازِ تہجد کے لیے مسجد کے اسپیکر سے اعلان کرنا، کہ علاقے والے بھی تہجد کے لیے بیدار ہوں اور نمازِ تہجد پڑھیں، تو یہ اعلان اگرچہ نیک نیتی سے ہی کیا جا رہا ہے، مگر اہلِ علاقہ اور بالخصوص مسجد کے قریبی گھر والوں کے لیے سخت تکلیف اور اذیت کا سبب ہے، لہٰذا شرعی اعتبار سے اس وقت اعلان کرنے کی اجازت نہیں۔
ہمارا دینِ اسلام ایک دوسرے کی راحت و آرام کا خیال رکھنے، مشکل وقت میں دوسروں کے کام آنے، کسی کو تکلیف نہ دینے اور اپنے باہمی تعلّقات ملنساری، حُسن ِ اَخلاق اورخیرخواہی پر اُسْتُوار کرنے کا حکم دیتا ہے، لہٰذا معاشرےمیں نقصان پہنچانے والے اُمور مثَلاً بے جا شدّت اور ایذا رسانی کا سبب بننا ہر گز درست نہیں۔ قرآنی فرامین، سیرتِ مصطفیٰ اور احکاماتِ شرعیہ سے یہی درس ملتا ہے کہ نیکی ضرور کی جائے، مگر دوسرے لوگوں کو ایذا نہ دی جائے، اور بالخصوص اپنی نیکی کے لیے دوسرے کی نیند میں خلل ڈالنا تو مزید ناپسندیدہ امر ہے، چنانچہ ایک دفعہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رات کے وقت بقیع مبارک ، تشریف لے جانے لگے تو آہستہ سے اٹھے، اپنی چادر اٹھائی، بغیر آواز پیدا کیے اپنے نعلین شریف پہنے اور آہستہ سے دروازہ کھولا اور بند کیا اور بقیع مبارک تشریف لے گئے، چنانچہ اِسی حدیث میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو ایسا کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا خیال یہ تھا کہ تم سو چکی ہو، تو مجھے یہ مناسب نہیں لگا کہ میں اپنے کسی بھی عمل کی آواز سے تمہاری نیند میں خلل پیدا کروں اور تمہیں بیدار کروں۔
چنانچہ ابوحسین امام مسلم بن حجاج قشیری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(وِصال:261ھ/875ء) ایک طویل حدیث روایت کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں:” ظن أن قد رقدت فأخذ رداءه رويدا، وانتعل رويدا، وفتح الباب فخرج. ثم أجافه رويدا۔۔۔ظننت أن قد رقدتِ فكرهت أن أوقظكِ “ترجمہ: آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خیال کیا میں سو گئی ہوں، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آہستہ سے اپنی چادر اٹھائی، آہستہ سے اپنے جوتے پہنے اور آہستہ سے دروازہ کھولا، نکلے، پھر آہستہ سے اس کو بند کر دیا۔۔۔( وجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:)میں نے خیال کیا کہ تم سو چکی ہو تو میں نے اِس چیز کو پسند نہیں کیا کہ تمہیں بیدار کروں۔(الصحیح لمسلم، جلد02 ، صفحه 670،مطبوعه دار احیاء التراث العربی، بیروت)
اپنی نیکی کے لیے دوسرے کی نیند میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں، چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1252ھ /1836ء) سونے والے کے پاس بیٹھ کر تلاوتِ قرآن کرنے کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں:”في الفتح عن الخلاصة: رجل يكتب الفقه وبجنبه رجل يقرأ القرآن فلا يمكنه استماع القرآن فالإثم على القارئ وعلى هذا لو قرأ على السطح والناس نيام يأثم اهـ أي لأنه يكون سببا لإعراضهم عن استماعه أو لأنه يؤذيهم بإيقاظهم تأمل“ ترجمہ:”فتح القدیر“ میں ”خلاصۃ الفتاویٰ“ سے منقول ہے کہ ایک شخص مسائلِ شرعیہ لکھ رہا ہے اور اُس کے پہلو میں کوئی فرد قرآن پاک کی تلاوت شروع کر دے اور اُس لکھنے والے کے لیے قرآنِ پاک کی تلاوت توجہ سے سننا ممکن نہ ہو تو تلاوت کرنے والے کو گناہ ہو گا۔ اِسی بنیاد پر یہ مسئلہ ہے کہ اگر کوئی چھت پر بلند آواز سے تلاوتِ قرآن کرے اور ارد گرد لوگ سو رہے ہوں تو قرآن پڑھنے والا گنہگار ہو گا، کیونکہ یہ پڑھنے والا خود اُن سونے والوں کے نہ سُن پانے کا سبب بن رہا ہے یا گنہگار ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ اپنی تلاوت سے اُنہیں جگا کر اور نیند میں خلل ڈال کر ایذا دے رہا ہے۔ اِس مسئلہ پر خوب غور کرو۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد02، صفحہ329، مطبوعہ کوئٹہ )
بوقتِ تہجد اذان دینے کے متعلق شمس الائمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:483ھ/1090ء) لکھتے ہیں:”في الأذان للفجر قبل الوقت إضرار بالناس لأنه وقت نومهم“ترجمہ:فجر کے لیے وقت سے پہلے اذان دینے میں لوگوں کو ضرر دینا پایا جاتا ہے، کیونکہ یہ لوگوں کے سونے کا وقت ہوتا ہے۔(المبسوط، جلد01، صفحہ135، مطبوعہ دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان)
فتاویٰ عالَمگیری میں ہے:”ليس لغير الصلوات الخمس والجمعة نحو السنن والوتر والتطوعات والتراويح والعيدين أذان ولا إقامة كذا في المحيط“ترجمہ:پانچ نمازوں اور جمعے کے سواباقی نمازوں مثلاً وتر، نوافل، تراویح، عیدین میں اذان و اقامت نہیں، جیسا کہ ”المحیط “میں ہے۔(الفتاوى الھندیۃ، جلد01، صفحہ53،مطبوعہ کوئٹہ )
جہاں تک سائل کا یہ کہنا ہے کہ زمانہِ مصطفیٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں بھی فجر سے پہلے اذان دی جاتی تھی، تو سوال یہ ہے کہ اگر واقعی فجر سے پہلے اذان ہوتی تھی ، تو کیا وہ صرف اذان تھی یا کوئی آدھے گھنٹے کا لیکچر، نظم و نثر کا بیان؟ پھر وہ اذان اسپیکر کے بغیر تھی کہ سب کو مناسب سے آواز جائے یا آج کے کان پھاڑ اسپیکروں کی آواز تھی کہ جس کی وجہ سے لوگ مسجد کے قریب گھر لینے سے بھی بھاگتے ہیں؟ آج کے حالات میں تو مسجدوں کے فرض نمازوں کی اذان کے اسپیکر بھی آدھے سے آدھے کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ فجر سے پہلے ہی بچوں، بیماروں کو پریشان کرنے کے لیے اذیت ناک بلند آواز میں اذان یا لیکچر شروع کردیا جائے۔
زمانہ نبوی میں فجر سے پہلے اذان ہونے، نہ ہونے کے متعلق مجتہد فی المسائل ابو جعفر علامہ اَحمدبن محمد طحاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:321ھ/933ء) دونوں طرح کی احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:”ثم اعتبرنا ذلك أيضا من طريق النظر لنستخرج من القولين ، قولا صحيحا فرأينا سائر الصلوات ، غير الفجر لا يؤذن لها إلا بعد دخول أوقاتها. واختلفوا في الفجر ، فقال قوم: التأذين لها قبل دخول وقتها. وقال آخرون: بل هو بعد دخول وقتها. فالنظر على ما وصفنا أن يكون الأذان لها كالأذان لغيرها من الصلوات ، فلما كان ذلك بعد دخول أوقاتها ، كان أيضا في الفجر كذلك. فهذا هو النظر ، وهو قول أبي حنيفة رضي اللہ عنه ، ومحمد وسفيان الثوري۔۔۔عن إبراهيم، قال: شيعنا علقمة إلى مكة ، فخرج بليل فسمع مؤذنا يؤذن بليل فقال: «أما هذا فقد خالف سنة أصحاب رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ، لو كان نائما كان خيرا له فإذا طلع الفجر ، أذن» فأخبر علقمة أن التأذين قبل طلوع الفجر ، خلاف لسنة أصحاب رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم“ترجمہ: پھر ہم نے غور وفکر اور قیاس کے طور پر بھی اس کا جائزہ لیا، تا کہ دونوں طرح کے اقوال میں سے قولِ صحیح کا استخراج کر سکیں، تو ہم نے دیکھا کہ فجر کے علاوہ دیگر نمازوں کے لیے دخول ِوقت کے بعد ہی اذان دی جاتی ہے۔ فجر میں اختلاف ہوا، ایک قوم کہتی ہے کہ اس کے لیے وقت سے پہلے اذان دی جائے اور دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ نہیں، بلکہ وہ بھی دخول وقت کے بعد ہو گی ۔ تو جو کچھ ہم نے بیان کیا، اس پر قیاس کا تقاضا ہے کہ اس کے لیے اذان بھی اُسی طرح ہو، جس طرح دیگر نمازوں کے لیے ہوتی ہے، جب وہ وقت داخل ہونے کے بعد ہوتی ہے، تو فجر کے لیے بھی اِسی طرح ہو گی، یہی قیاس ہے اور یہی امام ابو حنیفہ ، امام محمد اور امام سفیان ثوری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہم کا قول ہے۔حضرت ابراہیم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت علقمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو مکہ مکرمہ کی طرف الوداع کہا، آپ رات کو نکلے، تو ایک مؤذن کو رات کے وقت اذان دیتے ہوئے سنا، فرمایا: اِس شخص نے رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ کرام کی مخالفت کی ہے۔ اگر یہ سویا رہتا تو اچھا تھا، صبح ہوتی تو اذان کہتا۔ حضرت علقمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے بتایا کہ طلوعِ فجر سے پہلے اذان کہنا صحابہ کرام کے طریقے کے خلاف ہے۔(شرح معانی الآثار، جلد01، صفحہ 97، مطبوعہ لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم