آخر درست کیا؟
سنتوں پر عمل کیوں کریں؟
* مفتی محمد قاسم عطاری
ماہنامہ فروری 2021
دینِ اسلام سے مسلمانوں کی وابستگی ، اس پر فریفتگی اور خواہشات و لذات کے طوفان برپا ہونے کے باوجود ایک بڑی تعداد کا دینی تعلیمات پر عمل ، غیروں کی نظر میں بہت کھٹکتا ہے۔ اسلام کی اثر آفرینی سے مسلمانوں کو دور کرنے کے لئے جن طریقوں سے دین پر حملے ہورہے ہیں ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دین کے نام پر ہی لوگوں کو دین سے دور کردیا جائے۔ یہ طریقہ کئی انداز میں استعمال کیا جاتا ہے ، جن میں سے ایک یہ ہے کہ مغرب سے مرعوب اور مغربی تہذیب کی عظمت کے گُن گانے والے لبرل اسکالرز ، سنتوں اور مستحبات پر عمل چھڑوانے کے لئے کہتے ہیں کہ “ ہم لوگوں کے لئے دین میں آسانی پیدا کررہے ہیں ، کیونکہ لوگ دین سے دور ہوتے جارہے ہیں اور ہم آسانیاں پیدا کرکے لوگوں کو دین کے قریب لارہے ہیں۔ سنت پر عمل چونکہ مشکل ہے اس لئے ہم صرف فرض و واجب کی بات کرتے ہیں اور عبادات و معاملات اور دیگر امورِ حیات میں سنتوں کی اہمیت بیان نہیں کرتے۔ “
اس دلیلِ خام کا جواب یہ ہے کہ یہاں دو چیزیں ہیں : ایک یہ کہ اگر کوئی شخص سنتوں کو فرض و واجب کی طرح ضروری قرار دیتا ہے ، تو وہ یقیناً غلطی کرتا ہے۔ مثلاً بیٹھ کر کھانا پینا یا تراویح سنت ہے یا نمازوں کی فرض رکعتوں سے پہلے یا بعد پڑھی جانے والی رکعتیں(وتر کے علاوہ سب ) سنت و نفل ہیں اور کوئی انہیں واجب و لازم کہے ، تو وہ شخص واضح طور پر غلطی کررہاہے۔ یہ ایک مختلف معاملہ ہے۔ لیکن یہاں دوسری چیز یہ ہے کہ کیا ہمیں سنتوں کی ترغیب دینی چاہئے اور لوگوں کو سکھانی چاہئیں یا سنتوں کو اصلاً اہمیت نہ دی جائے؟ یہ اصل بحث طلب معاملہ ہے۔ دین کی اعلیٰ درجے کی تعلیم ، گہرے دینی شعور اور سلف صالحین کا ذوق رکھنے والے اہلِ علم یہ کہتے ہیں کہ لبرل اسکالرز کی یہ سوچ حقیقت میں دین کے مقاصد و مصالح کو سمجھنے میں بڑی بنیادی غلطی کا سبب ہے۔
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جملہ سنتوں پر عمل کی ترغیب دیناکئی وجوہ سے اہم اور مطلوب ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ سنت پر عمل در آمد کی سب سے بنیادی وجہ ایک مسلمان کےلئے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع کا حکم دیا چنانچہ فرمایا : (قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ)ترجمہ : اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ (پ3 ، اٰلِ عمرٰن : 31) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور فرمایا : (وَّ اتَّبِـعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّۚ-) ترجمہ : اور میری طرف رجوع کرنے والے آدمی کے راستے پر چل۔ (پ21 ، لقمٰن : 15) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور یقیناً نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے بڑھ کر اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔ اس اتباع میں بلا شک و شبہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیروی بغیر کسی قید کے ہے اور اس میں فرائض و واجبات و سنن و مستحبات سب شامل ہیں۔
دوسری بات کہ اللہ کریم نے رسالت مآب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیاتِ طیبہ کو بہترین رول ماڈل قرار دیا چنانچہ فرمایا : (لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ)ترجمہ : بیشک تمہارے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ (پ21 ، احزاب : 21) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس اسوہ کامل میں جیسے فرائض و واجبات داخل ہیں ، ایسے ہی ان میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عبادات و معاملات و معاشرت کے غیر واجب امور بھی شامل ہیں۔
تیسری بات یہ ہے سنتوں پر عمل میں دین کی بہت سی حکمتیں ہیں جن میں سے کچھ کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں صرف ضروری کام ہی نہیں کرتے ، بلکہ ایسے کام بھی کرتے ہیں ، جو اس ضروری کی ادائیگی یا تکمیل میں مفید و معاون ہوں ، جیسے تعلیمی زندگی میں نصابی کتابوں کے ساتھ غیر نصابی کتابیں پڑھتے ہیں یا پیشہ ورانہ زندگی میں اپنے شعبے کی ضروری مہارتوں کے ساتھ کچھ متعلقہ غیر ضروری مہارتیں بھی حاصل کرتے ہیں۔ یونہی ہم کسی بڑی مصیبت سے بچنے کے لئے ان چیزوں سے بھی بچتے ہیں ، جو اس مصیبت میں ڈالنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں مثلاً بخارسے بچنے کے لئے خود کو سردی سے بچاتے ہیں۔ اسی طرح معمولاتِ زندگی میں ایک اور چیز بھی ہے کہ کسی بنیادی مقصد کی ضروری تکمیل کے ساتھ اس سے متعلقہ تزیین و تحسین کے کام بھی کرتے ہیں جیسے گھر کی بنیادی عمارت کے ساتھ ماربل فرش اور رنگ و روغن وغیرہ کرتے ہیں۔ ان تمام امور میں منطق یہ ہے کہ بعض چیزیں فی نفسہ ضروری نہیں ہوتیں ، لیکن وہ کسی ضروری چیز تک پہنچانے والی یا کسی غلط کام سے بچنے میں ڈھال ہوتی ہیں یا اصل شے کے حسن و خوبی میں اضافہ کردیتی ہیں۔
اسی طرح کا معاملہ سنتوں اور مستحبات کا ہے۔ انہیں سمجھنے کے لئے اِن مثالوں پر غور کریں کہ کبھی کسی ایسے آدمی کے متعلق سنا یا دیکھا یا پڑھا ہے کہ وہ تراویح کی بیس رکعتیں تو پڑھتا ہو ، لیکن عشاء نہ پڑھتا ہو ، یا فجر یا کسی بھی دوسری نماز کی سنتیں تو پڑھ لے ، لیکن فرض رکعتیں نہ پڑھے ، یا تہجد تو پڑھے ، لیکن فجر نہ پڑھے ، یقینا ایسا شخص نہیں مل سکتا ، کیونکہ جو آدمی وہ نمازیں پڑھ رہا ہے جو ضروری نہیں ، تو ضروری تو بدرجہ اولیٰ ادا کرے گا۔ یہی معاملہ دیگر عبادات میں ہے کہ ایسا نہیں ہوتا کہ ایک آدمی رجب اور شعبان کے سارے روزے رکھے ، لیکن رمضان کے چھوڑ دے۔ خلاصہ یہ ہے کہ نوافل اپنے متعلقہ فرائض کے قریب لے جانے والے ہوتے ہیں۔
یونہی انسانی فطرت یہ ہے کہ جب کوئی انسان چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھتا ہے تو اسی قسم سے تعلق رکھنے والی بڑی چیزوں کا زیادہ خیال رکھتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی مشکوک چیز سے تو بچتا ہو ، لیکن قطعی حرام کام کا بے خوف و خطر ارتکاب کرلے۔ اسی حکمت کی طرف حدیث میں اشارہ فرمایا گیا ہے کہ شاہی چراگاہ کے قریب جانور چرائے گا تو جانور چراگاہ میں جاپڑیں گے ، لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ کناروں سے بھی دور رہے تاکہ اصل ممنوع میں نہ جاپڑے۔ یہ وہی ڈھال والا معاملہ ہے کہ ایک غیر ممنوع چیز کسی ممنوع کے لئے ڈھال بن گئی ، بلکہ بعض اوقات تو اس سے بھی زیادہ دلچسپ صورتِ حال سامنے آتی ہے کہ بعض مستحبات فی نفسہ تو مستحب ہی ہوتے ہیں ، لیکن وہ گناہوں کے آگے ایسے ڈھال بن جاتے ہیں کہ کوئی دوسرا ضروری عمل بھی اس طرح ڈھال نہیں بنتا۔ مثلاً اگر کسی کے سرپر عمامہ ہے ، جو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت ہے یا سر پر چادر ہے ، جو بزرگانِ دین کا معمول رہا ہے۔ اس لباس یعنی عمامہ اور اس پر چادر کے ساتھ کوئی شخص سینما نہیں جائے گا ، کیونکہ اس کا لباس ہی اسے روک دے گا۔ اگر کسی نے جانا بھی ہوگا تو پہلے وہ اس سنت و مستحب کو چھوڑے گا ، پینٹ شرٹ یا کوئی عام لباس پہنے گا پھر ہی سینما جانے کی ہمت کرےگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ سر پر عمامہ باندھ کر یا ٹوپی رکھ کر ، داڑھی شریف کے ساتھ بن ٹھن کے سینما چلا جائے۔ اب غور کریں کہ یہاں ایک سنت اور ایک مستحب نے فلم دیکھنے کے حرام عمل سے بچا دیا اور صرف یہی نہیں ، بلکہ ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی داڑھی عمامے والا دکاندار ہو اور بالفرض سودا بیچنے میں ڈنڈی مارنے لگے ، تو لوگ اسے بول دیتے ہیں کہ ارے بھائی! کمال کرتے ہو ، مولوی ہوکر اس طرح کا کام کررہے ہو یا داڑھی رکھ کر اس طرح کا کام کررہے ہو ، یا عمامہ پہن کر اس طرح کا کام کررہے ہو۔ ایک اور مثال لیں ، اگر کوئی باعمامہ شخص نماز کے وقت آرام سے بیٹھ کر لوگوں سے بات چیت میں مصروف رہے اور نماز پڑھنے کے لئے نہ اُٹھے ، تو بقیہ افراد جو خود نماز پڑھنے والے نہ بھی ہوں ، وہ بھی اس باعمامہ شخص سے کہہ دیں گے کہ جناب! اذان ہوگئی ہے ، جماعت ہورہی ہے ، آپ نماز پڑھ لیں ، تو گویا صرف اس کا مسنون عمامہ اسے نماز کے لئے اٹھنے پر مجبور کردے گا۔ ان سب مثالوں کا نتیجہ کیا نکلا؟ یہی کہ یہ سنتیں اور مستحبات لوگوں کی نظر میں بھی ڈھال بنی ہوئی ہیں۔
سنتوں کے حوالے سے ایک اور پہلو یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ کا حُسن اِن کے ذریعے ہوتا ہے : مثلاً ناف سے لے کر گھٹنے کے نیچے تک لباس پہننا فرض ہے ، لیکن پورا بدن لباس میں چھپا ہو ، یہ سنت ہے اور یہی اچھا لگتا ہے۔ یونہی چلتے پھرتے کھانا تو کھایا جاسکتا ہے ، لیکن تمیز و تہذیب سے بیٹھ کر کھانے میں ہی حسن ہے۔ اسی طرح کسی سے ملاقات میں الفاظِ آداب کہے بغیر اپنے موضوع کی بات شروع کی جاسکتی ہے ، لیکن اسے بدتہذیبی شمارکیا جاتا ہے ، جبکہ ملاقات میں سلام سے ابتدا سنت ہے اور موقع کی مناسبت سے مسکراہٹ بھی سنت ہے اور ان سے ملاقات میں نکھار آجائے گا۔ یونہی ہر نماز میں مخصوص رکعات فرض ہیں ، لیکن ان کے اول و آخر کی سنتیں قربِ خداوندی میں اضافے اور نماز میں خشوع و خضوع میں اضافے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اسی طرح حج فرض ہے ، لیکن زندگی میں سنت عمرے کرتے رہنا ، محبتِ الٰہی کی لذت سے سرشار کردیتا ہے۔ رمضان کے فرض روزے حصولِ تقویٰ کا ذریعہ بنتے ہیں ، لیکن سال بھر وقتاً فوقتاً نفلی مسنون روزے ، اس تقویٰ کی کیفیت کو برقرار رکھنے میں معاون بنتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے ضروری یہی ہے کہ ہم حرام و گناہ سے بچیں اور فرائض و واجبات ادا کریں ، لیکن سنتیں چھوڑ کر نہیں بلکہ ان پر عمل کے ساتھ ، کیونکہ سنتیں ہمارے لئے فرائض کی ادائیگی ، تکمیل ، حُسن و خوبی میں اضافے اور گناہوں سے بچنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
دنیا چاند پر پہنچ گہی اور مولانا حضرات ابھی کہنا کیسا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* دارالافتاء اہلِ سنّت عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی