سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ نماز میں سورۃ الاخلاص کی قراءت کرتے ہوئےاگر کسی نے غلطی سے لفظ” الصَّمَدُۚ “کی جگہ’’ السمد‘‘ پڑھ دیا ،تو اس کی نمازکا کیا حکم ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں نماز درست ادا ہو گئی۔
مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ قراءت کرتے ہوئے ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف پڑھ دیا، تو اعتبار معنی کا ہے ، اگر معنی فاسد ہو جائیں، تو نماز فاسد ہو گی اورمعنی فاسدنہ ہوں ،تو نمازفاسدنہیں ہوتی۔لفظ ’’صمد‘‘ کاایک معنی ہمیشہ باقی رہنے والی ذات ہے،یونہی لفظ’’ سمد‘‘ ہمیشہ کے معنی میں بھی مستعمل ہے، لہذا لفظ صمد کی جگہ ’’سمد‘‘ کہنے سے معنوی طور پر کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی ،جس کی وجہ سے نماز ہو جائے گی، البتہ جان بوجھ کرایک حرف کی جگہ دوسرا حرف پڑھنا اگرمحض سستی و لاپرواہی کے سبب ہو،تو سخت حرام اور گناہ ہے اور غلطی سے ایسا ہو گیا، تو کوئی گناہ نہیں ۔
فتاوی قاضی خان میں ہے:’’ولو قرا السمد بالسین قال شمس الائمۃ السرخسی رحمہ اللہ تعالی و عبد الواحد الشیبانی لا تفسد صلوتہ‘‘ ترجمہ: اگر (صمد کو ) سین کے ساتھ ’’سمد ‘‘ پڑھا، تو شمس الائمہ سرخسی علیہ الرحمۃ اور عبد الواحد شیبانی نے فرمایا اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی۔(فتاوی قاضی خان ، کتاب الصلوۃ ، فصل فی قراءۃ الخ ،ج1، ص129، مطبوعہ کراچی)
عالمگیری میں ہے :’’ اذا قرء حرفاً مکان حرف و لم یغیر المعنی ۔۔۔ لا یفسد“ترجمہ: اگر ایک حرف کی جگہ دوسراحرف پڑھا اورمعنی متغیر نہ ہوئے ،تو نماز فاسد نہیں ہو گی ۔(عالمگیری ، کتاب الصلوۃ ، ج1، ص79، مطبوعہ پشاور)
بہار شریعت میں ہے:”(قراء ت میں غلطی ہو جانے)کے باب میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر ایسی غلطی ہوئی جس سے معنی بگڑ گئے، نماز فاسد ہوگئی، ورنہ نہیں۔۔۔۔ ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف پڑھنے سے اگر معنی فاسد ہوں ،نماز نہ ہوئی۔“(بھار شریعت ، ج1، ص 554، 557، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
درست مخارج سے قراءت نہ کرنے سے متعلق مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”مسئلہ کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص صحیح ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہے، پھر بھی صحیح ادا نہیں کرتا ،تو وہ ضرور بالقصد قرآن مجید کو غلط پڑھتا ہے اور قرآن مجید غلط پڑھنا قصداً اسے بدلنا ہے، مگر چونکہ اس کی نیت تحریفِ قرآن کی نہیں، بلکہ وہ سستی اور لاپرواہی سے ایسا کرتا ہے، اس لیے کافر تو نہ ہوگا، البتہ شدید گنہگار ضرور ہوگا۔“(حاشیہ فتاوی امجدیہ، ج01،ص88، مکتبہ رضویہ، کراچی)
’’صمد‘‘ کا معنی بیان کرتے ہوئے علا مہ ابن اثیر جزری علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:’’في أسماء اللہ تعالى الصمد هو السيد الذي انتهى إليه السودد وقيل هو الدائم الباقي ‘‘ ترجمہ: اللہ تعالی کے ناموں میں ’’صمد ‘‘ہے، یہ وہ سردار ہے جس پر سرداری ختم ہو جائے ، اور کہا گیا یہ وہ ذات ہے جو ہمیشہ باقی رہے۔(النھایۃ ، ج3، ص52، المکتبۃ العلمیہ)
(النھایۃ ، ج3، ص52، المکتبۃ العلمیہ)لفظ’’ سمد ‘‘ کا معنی بیان کرتے ہوئے علامہ مجد الدین فیروز آبادی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:’’وهو لك سمدا أي سرمدا‘‘ ترجمہ: یہ ہمیشہ کے لیے تمہارا ہے ۔(القاموس المحیط ، ج1، ص289، مؤسسۃ الرسالہ)
تاج العروس میں ہے :”سمد ثبت في الأرض ودام عليه و هو لك أبدا سمدا أي سرمدا، عن ثعلب ولا أفعل ذالك أبدا سمدا سرمدا“ ترجمہ: ’’سمد ‘‘ کا معنی ہے زمین پر موجود ہونا اور اس پر ہمیشہ رہنا ، یہ ہمیشہ کے لیے تمہاری ہے ، ثعلب سے مروی ہے کہ (لا افعل ذالک ابدا سمدا )میں یہ کام کبھی نہیں کروں گا ، میں ’’ سمد‘‘ سرمد یعنی ہمیشگی کے معنی میں ہے ۔(تاج العروس ، ج8، ص212، دار الھدایۃ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم