سوال: میرے پاس صرف سات تولے سونا ہے ،جس پر سال بھی گزر چکا ہے ، اس کےعلاوہ کچھ نہیں ہے، شرعی رہنمائی فرمائیے کہ کیا مجھ پر زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے ؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کے پاس صرف یہی سونا ہے، اس کے علاوہ سونا ، چاندی، تجارت کا سامان اور رقم وغیرہ نہیں ہے ، تو جس نصاب پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے ، اس کے اعتبار سے آپ صاحبِ نصاب نہیں ہیں کہ صرف سونا ہو، تو فرضیتِ زکوٰۃ کے لیے اس کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے، لہٰذا اس حالت میں سال پورا ہونے پر بھی آپ پر زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی ، البتہ اگر سونے کے ساتھ کچھ چاندی ، اگرچہ ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو یا سامانِ تجارت یا ضرورت سے زائد رقم ہوخواہ سوروپے ہی کیوں نہ ہوں اور وہ سب مل کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو جائے ، تو زکوٰۃ کا نصاب بن جائے گا، اس لیے کہ اب سونے کے نصاب کا اعتبار نہیں ہو گا، بلکہ چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا جائے گا ۔
صرف سونا ہو ، توساڑھے سات تولہ سے کم میں زکوٰۃ لازم نہ ہونے کے بارے میں رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:”ليس فيما دون مائتي درهم شيء، ولا فيما دون عشرين مثقالا من الذهب شيء “ترجمہ:دو سو درہم (ساڑھے باون تولہ چاندی)سے کم میں کوئی چیز نہیں ہے اور بیس مثقال (ساڑھے سات تولہ سونے) سے کم میں کوئی چیز نہیں ہے۔ (نصب الرایۃ ،کتاب الزکاۃ ، فصل فی الذھب ، جلد 2 ، صفحہ 396 ، مطبوعہ مؤسسۃ الریان ، بیروت )
علامہ علاؤالدین سمرقندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:540ھ/1145ء) لکھتےہیں:”اما الذھب المفرد ان یبلغ نصابا و ذلک عشرون مثقالا ففیہ نصف مثقال و ان کان اقل من ذلک فلا زکاۃ فیہ“ ترجمہ:بہرحال صرف سونا ہو، تو اگر وہ نصاب کو پہنچے، تو اس میں نصف مثقال زکوٰۃ فرض ہو گی اور سونے کا نصاب بیس مثقال(یعنی ساڑھے سات تولہ ) سونا ہے اور اگر سونا اس سے کم ہو، تو اس میں زکوٰۃ فرض نہیں ہو گی۔(تحفۃ الفقھاء، جلد1، صفحہ 266 ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
اگر سونا ساڑھے سات تولہ سے کم ہواوراس کےساتھ مالِ زکوۃ میں سے کسی اور جنس کا کوئی بھی مال( مثلاً چاندی، روپیہ پیسہ، مالِ تجارت، پرائز بانڈ وغیرہ )موجود ہو،تو اس صورت میں وجوبِ زکوۃ کا نصاب ’’ساڑھے52 تولے چاندی کی مالیت‘‘ہے، چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے:” تضم قیمۃ العروض الی الذھب و الفضۃ و یضم الذھب الی الفضۃ بالقیمۃ فیکمل بہ النصاب لأن الكل جنس واحد “ ترجمہ: سامان کی قیمت کو سونے چاندی کی قیمت کے ساتھ ملایا جائے گا اور سونے کو قیمت کے اعتبار سے چاندی کے ساتھ ملایا جائے گا تاکہ نصاب مکمل ہو جائے ، کیونکہ یہ سب ایک ہی جنس سے ہیں۔(تبیین الحقائق، كتاب الزکوٰۃ ، باب زکوٰۃ المال ، جلد1،صفحہ 281، مطبوعہ المطبعۃ الکبری ، القاھرہ )
مفتی محمد وقار الدین رضوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1413ھ/1992ء) لکھتے ہیں:”سونے کی مقدار ساڑھے سات تولے اور چاندی کی مقدار ساڑھے باون تولے ہے۔جس کے پاس صرف سونا ہے، روپیہ پیسہ ، چاندی اور مالِ تجارت بالکل نہیں ، اس پر سوا سات تولے تک سونے میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے، جب پورے ساڑھے سات تولہ ہو گا، تو زکوٰۃ فرض ہو گی، اسی طرح جس کے پاس صرف چاندی ہے ، سونا ، روپیہ پیسہ اور مالِ تجارت بالکل نہیں ہے، اس پر باون تولے چاندی میں بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہے، جب ساڑھے باون تولہ پوری ہو یا اس سے زائد ہو، تو زکوٰۃ فرض ہوگی ، لیکن اگر چاندی اور سونا دونوں یا سونے کے ساتھ روپیہ پیسہ ، مالِ تجارت بھی ہے، اِسی طرح صرف چاندی کے ساتھ روپیہ پیسہ اور مالِ تجارت بھی ہے، تو وزن کا اعتبار نہ ہو گا، اب قیمت کا اعتبار ہو گا، لہٰذا سونا چاندی ، نقد روپیہ اور مالِ تجارت سب کو ملا کر ، اگر ان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے، تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔“ (وقار الفتاوی، جلد 2،صفحہ 384 ، 385،بزم وقار الدین ، کراچی)
لیکن یہ یاد رہے کہ ایسا بہت مشکل ہوتا ہے کہ کسی کے پاس سات تولے سونا تو ہو لیکن اضافی کچھ بھی نہ ہو حتی کہ سو پچاس روپے بھی نہ ہوں۔ اس لئے اچھی طرح خیال کرکے ہی مسئلے پر عمل کریں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم