سجدہ سہو میں شک ہوا ،تو حکم

  کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلےکے بارے میں کہ اگرزید کو سجدہ سہو میں شک ہوا کہ اس نے ایک سجدہ کیا ہے ،اس لیے وہ دوسرا سجدہ سمجھتے ہوئے جب تیسرے سجدے میں گیا، تو اسے یقین ہوگیا کہ وہ پہلے ہی دوسجدے کرچکا ہے،اب زید کیا کرے گا؟ کیا اس تیسرے سجدے کی وجہ سے دوبارہ سجدہ سہو کرے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سجدہ سہو کی ادائیگی میں جب شک ہوجائے ،تو تحری کرنے کا حکم ہے ،یعنی جس کو شک ہو، وہ غوروتفکرکرے ،جس طرف اس کا دل جمے وہی صورت اختیارکرے ،یعنی اگراس کا غالب گمان یہ ہو کہ اس نے سجدہ سہو کا ایک سجدہ کیا ہے، تو اب دوسرا سجدہ بھی کرلے اور اگرغالب گمان ہو کہ وہ دونوں سجدے کرچکا ہے،تو اب مزید کوئی سجدہ نہ کرے ،بلکہ اگرتیسرے سجدے میں جاکرغالب گمان ہوگیا کہ پہلے دوسجدے کرچکا ہے، تو اب فورا سجدے کو ختم کرکے تشہد کی طرف لوٹ آئے۔نیزسجدہ سہو میں اس بھول کی وجہ سے مزید کوئی سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا، بلکہ وہی پہلے والے دو سجدے ہی اس بھول کے ازالے کے لیے بھی کافی ہیں،کیونکہ ایک نماز میں سجدہ سہو میں تکرار نہیں ہوتی۔

   کتاب الاصل میں امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:” قلت أرأيت رجلا صلى فسها فی صلاته فلما فرغ من صلاته سجد لسهوه فشك فلم يدر أسجد لسهوه واحدة أو اثنتين قال يتحرى الصواب فان كان أكثر رأيه أنه سجد سجدة واحدة سجد أخرى وان كان أكثر رأيه أنه سجد سجدتين لسهوه تشهد وسلم “ ترجمہ: میں نے عرض کی کہ آپ کیا فرماتے ہیں اس بارے میں کہ ایک شخص نماز میں بھول گیا ،جب اس نے تمام ارکان ادا کرلیے تو سجدہ سہو کیا ،پھر اسے شک ہوگیا کہ معلوم نہیں اس نےایک سجدہ کیا ہے یا دو؟ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا:وہ تحری کرے ،اگراس کا غالب گمان یہ ہو کہ اس نے ایک سجدہ کیا ہے، تو دوسرا سجدہ بھی کرے اور اگر اس کا غالب گمان ہو کہ اس نے دونوں سجدے کرلیے ہیں، تو تشہد پڑھ کرسلام پھیردے۔        (کتاب الاصل جلد1،صفحہ200،مطبوعہ بیروت)

   مبسوط للامام السرخسی میں ہے:”(وان کان شک فی سجود السھو  عمل بالتحری ولم یسجد للسھو )لما بینا أن تکرار سجودالسھو فی صلاۃ واحدۃ غیرمشروع ،ولانہ لو سجد بھذا السھو ربما یسھو فیہ ثانیا وثالثا فیؤدی الی ما لا نھایۃ لہ۔“ ترجمہ:اگرسجدہ سہو ہی میں شک واقع ہوگیا، تو تحری پرعمل کرے گا اور سجدہ سہو کی اس بھول کی وجہ سے مزید کوئی سجدہ سہو نہیں کرے گا،کیونکہ ہم نے پیچھے بیان کردیا کہ ایک نماز میں سجدہ سہو کی تکرار مشروع نہیں ہے۔دوسری بات یہ کہ اگر اس بھول کی وجہ سے مزید سجدہ سہو کرے، تو ہوسکتا ہے کہ اس مزید سجدہ سہو میں پھر بھول ہوجائے ،تو پھرتیسری مرتبہ سجدہ سہو کرے گا ،پھرتیسرے میں بھول ہوگئی، تو پھرسجدہ سہو کرے گا ،اس طرح تو سجدہ سہو کی کوئی حد ہی نہیں رہے گی۔(مبسوط لسرخسی، جلد1، صفحہ389 ،مطبوعہ کوئٹہ)

وتر میں دعائے قنوت کے کچھ الفاظ بھولے سے رہ جائیں تو کیا حکم ہے ؟

   تحفۃ الفقہاء میں ہے:”لو سھا فی سجود السھو لایجب علیہ السھو ،لان تکرار سجود السھو غیرمشروع“ ترجمہ:اگرسجدہ سہو میں بھول ہوگئی، تو مزید سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا،کیونکہ سجدہ سہو کی تکرار مشروع نہیں ہے۔(تحفۃ الفقھاء صفحہ214،مطبوعہ بیروت)

   اسی مبسوط میں ہے:” (اذا سھا فی صلاتہ مرات لایجب علیہ الا سجدتان)لقولہ علیہ السلام سجدتان تجزئان عن کل زیادۃ او نقصان‘‘ ترجمہ:اگرایک نماز میں ایک سے زیادہ مرتبہ بھولا، تب بھی دوسجدے ہی سہو کے لازم ہوں گے،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:دو سجدے ہی ہرقسم کی زیادتی اورکمی کے لیے کفایت کریں گے۔(مبسوط لسرخسی، جلد1،صفحہ389،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارشریعت میں ہے:”ایک نماز میں چند واجب ترک ہوئے ،تو وہی دو سجدے سب کے لیے  کافی ہیں۔ “(بھار شریعت، جلد1،حصہ4،صفحہ710،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے