رحمٰن نام رکھنا کیسا ؟

    کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والدین نے میرا نام رحمٰن رکھا ہے ۔ مجھےاب معلوم ہوا ہے کہ فقط رحمٰن نام رکھنا درست نہیں ہے ۔ میرے ڈاکومنٹس وغیرہ میں بھی یہی نام لکھا ہوا ہے ، کیا اس کو تبدیل کروانا ہوگا ؟ برائے کرم حوالہ جات کے ساتھ بیان فرمائیے گا ، کسی کو مطمئن کرنا ہے ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کو رحمٰن کہنا یا کسی کا نام رحمن رکھنا حرام ہے۔ رحمٰن اسی ہستی کو کہتے ہیں جس کی رحمت ہر ایک  پر عام ہو ، جو حقیقی انعام فرمانے والا ہو اور ایسی ذات صرف اور صرف اللہ تعالی کی ہے، اسی وجہ سے اجلہ فقہاء ومحدثین نے’’ رحمٰن‘‘ نام  کا اللہ تعالی کے ساتھ خاص  ہونا بیان  کیا ہے اور اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور  پر اس کے اطلاق کو حرام قرار دیا ہے ، لہٰذا اپنے ڈاکومنٹس میں  بھی اس کو تبدیل کروائیں اور عبد الرحمن لکھوائیں ۔

    امام غزالی ،امام بیضاوی، شیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی اور حضرت علامہ علی قاری رحمہم اللہ تعالی فرماتے ہیں: والنظم للآخر ’’كان معنى الرحمن هو المنعم الحقيقي تام الرحمة عميم الإحسان، ولذلك لا يطلق على غيره تعالى‘‘ رحمن کا معنی ہے وہ منعم حقیقی جس کی رحمت تام اور احسان عام ہو ، اسی لیے اس کا اطلاق اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور پر نہیں کیا جاسکتا ۔

(المقصد الاسنی فی شرح اسماءاللہ الحسنی ، صفحہ 63  ، مطبوعہ قبرص ۔ تحفۃ الابرار شرح مصابیح السنۃ ، جلد 2 ، صفحہ 26 ، مطبوعہ دار النوادر۔ لمعات التنقیح شرح مشکاۃ المصابیح ، جلد 5 ، صفحہ 60 ، مطبوعہ دار النوادر۔ مرقاۃ المفاتیح ، جلد 4 ، صفحہ 1564 ، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت)

    امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:’’ ولا يطلق الرحمن إلا على الله تعالى من حيث إن معناه لا يصح إلا له إذ هو وسع كل شيء رحمة “اور رحمن کا اطلاق اللہ تعالی کے علاوہ کسی پر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کا معنی اللہ تعالی ہی کے لیے درست ہوسکتا ہے اس لیے کہ اللہ تعالی ہی کی رحمت ہر شے کو گھیرے ہوئے ہے ۔ 

(المفردات فی غریب القرآن ، صفحہ 347 ، مطبوعہ دار القلم ، بیروت )

    غیر اللہ کا نام رحمن رکھنے کے حرام ہونے کے  حوالے سے علامہ محمد بن محمد بن مصطفی حلبی حنفی ، علامہ ابن علان صدیقی شافعی، اور سیدی علامہ عبد الغنی نابلسی  رحمہم اللہ تعالی فرماتے ہیں : والنظم للثالث : ” واعلم أن التسمي بهذا الاسم حرام وكذا التسمي بأسماء الله تعالى المختصة به كالرحمن والقدوس والمهيمن وخالق الخلق ونحوها “ یعنی اس نام (ملک الاملاک حقیقی استغراقی معنی کا لحاظ کرتے ہوئے) پر نام رکھنا حرام ہے ۔ اسی طرح ان ناموں کے ساتھ جو اللہ تعالی کے ساتھ مختص ہیں نام رکھنا حرام ہے جیسے  رحمن قدوس مھیمن خالق الخلق وغیرہ۔

(بریقہ محمودیہ شرح طریقہ محمدیہ ، جلد 3 ، صفحہ 236 ، مطبوعہ مطبعۃ الحلبی   ۔ الفتوحات الربانية على الأذكار النوويه ، جلد 6 ، صفحہ 113 ، مطبوعہ جمعیۃ النشر والتآلیف الازھریہ۔ الحدیقۃ الندیۃ ، جلد 4 ، صفحہ 174 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

    صدر الشریعہ بدر الطریقہ علامہ امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:’’ عبد اللہ وعبد الرحمٰن بہت اچھے نام ہیں مگر اس زمانہ میں یہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ بجائے عبد الرحمن اوس شخص کو بہت سے لوگ رحمن کہتے ہیں اور غیر خدا کو رحمن کہنا حرام ہے ۔‘‘

(بھار شریعت ، حصہ 15 ، صفحہ 356 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

    بلکہ بعض علما ءنے اس کو کفر بھی لکھا ہے ۔ اصل اس میں یہ ہے کہ وہ نام جو اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہیں ، ان کا غیر اللہ پر اطلاق کفر ہے، جیسے قدوس ، قیوم، مھیمن، رحمن وغیرہ ۔

    مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خان صاحب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:’’عبد القدوس کو عبد القدوس ، عبد الرحمن کو عبد الرحمن اور عبد القیوم کو عبد القیوم ، اور عبد اللہ کو عبد اللہ ہی کہنا فرض ہے ، یہاں عبد کا حذف اشد حرام وکفر ہوگا ۔ والعیاذ باللہ تعالی ۔ فتاوی ظہیریہ پھر شرح فقہ اکبر میں فرمایا :من قال لمخلوق يا قدوس أو القيوم أو الرحمن كفر. مختصرا بلکہ یہاں تک ظہیریہ میں فرمایا گیا أو قال اسما من اسماء الخالق كفر فتاوی ظہیریہ کی اس عبارت کی بنا پر بظاہر عبد القادر کو قادر کہنا بھی کفر ٹھہرے گا مگر اس صورت میں کہ اس کی مراد معنی لغوی ہوں اور وہ کہاں ہوتے ہیں ، شرح فقہ اکبر  میں ہے وهو يفيد أن من قال لمخلوق يا عزيز ونحوه يكفر أيضا إلا ان أراد بها المعنى اللغوي لا الخصوص الاسمي  ۔

    مگر بات یہی ہے کہ بعض اسمائے الہیہ جو اللہ عزوجل کے لیے مخصوص ہیں جیسے اللہ قدوس رحمن قیوم وغیرہ انہیں کا اطلاق غیر پر کفر ہے ۔ ان اسماء کا نہیں جو اس کے ساتھ مخصوص نہیں ، جیسے عزیز ، رحیم ، کریم ، عظیم ، علیم ، حی وغیرہ ۔ ‘‘

(فتاوی مصطفویہ ، صفحہ 90 ، مطبوعہ شبیر برادر ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے