سوال: رمضان المبارک میں وتر کی جماعت کروائی جاتی ہے تو جس نے فرض جماعت کےساتھ پڑھائے ہوں وتر کی جماعت بھی وہی کرائےیا کوئی اور بھی کراسکتاہے؟
جواب: جس نے فرض پڑھائے اس کے علاوہ دوسرا شخص وتر پڑھاسکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ فتاوی ہندیہ میں ہے” جاز أن يصلي الفريضة أحدهما ويصلي التراويح الآخر وقد كان عمر – رضي الله تعالى عنه – يؤمهم في الفريضة والوتر وكان أبي يؤمهم في التراويح، كذا في السراج الوهاج“ترجمہ: یہ جائز ہے کہ ایک شخص عشا کے فرض پڑھائے دوسرا تراویح۔اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عشا کے فرض کی امامت کرتے تھے اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تراویح کی۔اسی طرح سراج الوہاج میں ہے۔(فتاوی ہندیہ،کتاب الصلاۃ،فصل فی التروایح،ج 1،ص 116،دار الفکر،بیروت)
نوٹ:ہاں اگر کسی نے عشاء کی نماز ہی جماعت سے نہ پڑھی ہو تو وہ وترکی جماعت میں شامل نہ ہو،بلکہ تنہاپڑھے ، لہذایہ شخص وتروں کی امامت بھی نہ کروائے ۔
ردالمحتارمیں ہے "ثم رایت القہستانی ۔۔۔۔قال لکنہ اذالم یصل الفرض معہ لایتبعہ فی الوتر اھ” ترجمہ:پھرمیں نے قہستانی میں دیکھاکہ اس نے کہا:لیکن جب عشاء کےفرض امام کے ساتھ نہ پڑھےہوں تو وتربھی امام کے ساتھ نہ پڑھے۔(ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،ج02،ص603،دارالمعرفۃ،بیروت)
ردالمحتارکی اس عبارت کی وضاحت کرتے ہوئے امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :” اقول معلوم ان الضمیر فی قولہ لایتبعہ للامام مطلقا لالخصوص ھذا الامام فان من صلی الفریضۃ منفردا لیس لہ ان یدخل فی جماعۃ الوتر لامع ھذا الامام ولامع غیرہ فکذلک فی قولہ معہ "ترجمہ: میں کہتاہوں یہ بات واضح ہے کہ ”لایتبعہ” میں ضمیر کامرجع خاص امام نہیں بلکہ مطلق امام ہے کہ کسی بھی امام کے ساتھ وترنہیں پڑھے گا، کیونکہ جس نے فرض اکیلے پڑھے ہوں وہ کسی امام کے ساتھ وتر باجماعت نہیں پڑھ سکتا خواہ یہ امام ہو یا کوئی اور ہو، اور اسی طرح اس کے قول ”معہ” میں بھی ضمیر کامرجع عام ہے۔ ( یعنی عشاء کے فرض کسی بھی امام کے پیچھے نہیں پڑھے۔)(فتاوی رضویہ، ج07،ص557،558،رضافاونڈیشن،لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم