رد قادیانیت کورس کلاس1 ختم نبوت منعی

آج کے لیکچر میں  5 بنیادی ٹاپکس پر گفتگو ہوگی:

  • عقیدہ ختم نبوت کیا ہے؟

  • عقیدہ ختم نبوت کے منکر کاحکم؟

  • ضروریات دین کیا ہیں؟

  • عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت؟

  • منکرین ختم نبوت کی تاریخ؟

 

 

 

 

 

 

 

عقیدہ ختم  نبوت کیا ہے؟

اللہ جل شانہ نے دنیا میں لوگوں کی اصلاح کے لئے وقتا فوقتا انبیاء کرام مبعوث فرمائے، اور پھر بالآخراس سلسلہ کو ختم فرمایا اور یہ سلسلہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی ذات مبارکہ پرختم ہوا، اور اس ختم نبوت کا مطلب یہی ہے کہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انبیاء ومرسلین علیهم الصلاة والسلام میں سب سے آخر میں مبعوث ہوئے اور اللہ جل شانہ نے نبوت ورسالت کا سلسلہ آپ ﷺ پرختم فرمادیا، اور اب آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں یا آپ کے بعد کسی کو نبوت ملنا محال ہے، اور یہ عقید درکھنا ضروریات دین سے ہے، جس کا انکار کرنے والا کا فر و مرتد ہے، جیسا کہ سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”حضور پر نور خاتم النبین سید المرسلین ﷺ کا خاتم یعنی بعثت میں سب انبیاء ومرسلین علیھم السلام سے آخر میں ہو نا بلا تاویل و بلا تخصیص ضروریات دین سے ہے۔

(فتاوی رضویہ، ج 14، ص 334 ، رضا فاؤنڈیشن لاہور )

عقیدہ ختم  نبوت کے منکر کاحکم؟

          دینی مسئلہ جتنا اہم اور بڑا ہواس کا انکار بھی اسی کے مطابق جرم ہوگاجب کہ ختم نبوت کا مسئلہ ضروریات دین سے ہے ،لہذاجو اس کا منکر ہو یا اس میں ادنی شک وشبہ کو بھی راہ دے، کافر مرتد ملعون ہے ۔ (فتاوی رضویہ، ج 14، ص 334 ، رضا فاؤنڈیشن لاہور ) ایک اور مقام پر سیدی اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ” جس طرح لا الہ الا اللہ مانا اللہ سبحانہ و تعالی کو احد صمد لا شریک لہ جاننا فرض اول و مناط ایمان ہے یونہی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و خاتم النبین مانتا ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی جدید کی بعثت کو یقینا محال و باطل جاننا فرض اجل و جزء ایمان ہے ولکن رسول الله و خاتم النبيين نص قطعی قرآنی ہے اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا نہ شاک کہ ادنی ضعیف احتمال خفیف سے تو ہم خلاف رکھنے والا قطعا اجماعا کا فرملعون مخلد فی النیر ان ہے، نہ کہ ایسا کہ وہی کا فر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کا فرنہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے کافر ہونے میں شک و تردد کو راہ دے وہ بھی کافر، یہ جو میں کہ رہا ہوں میرا فتوی نہیں اللہ واحد قہار کا فتوی ہے خاتم الانبیاء الا خیار کا فتوی ہے علی مرتضی و بتول زہر او حسن مجتبی و شہید کر بلا تمام ائمہ اطہار کا فتوی ہے۔ (فتاوی رضویہ ج 15 ص631 رضا فاؤنڈیشن لاہور )

ضروریات دین کیا ہیں؟

          ضروریات دین وہ مسائل دین ہیں جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں، جیسے اللہ عزوجل کی وحدانیت ، انبیاء کی نبوت ، جنت و نار اور حشر ونشر و غیر با او مثلا یہی  اعتقاد که حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبین ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔

اور عوام سے مراد وہ مسلمان ہیں جو طبقہ علماء میں شمار نہیں کئے جاتے مگر علماء کی صحبت سے شرفیاب ہوں اور مسائل علمیہ سے ذوق رکھتے ہوں نہوہ کہ جنگل اور پہاڑوں کے رہنے والے ہوں جو کلمہ بھی صحیح نہیں پڑھ سکتے ، کہ ایسے لوگوں کا ضروریات دین سے ناواقف ہونا اس ضروری کو غیر ضروری نہکرے دے گا البتہ ان کے مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ضروریات دین کے منکر نہ ہوں اور یہ اعتقادر کھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے،ان سب پر اجمالا ( یعنی جتنے بھی عقائد ضروریات دین سے ہیں ان سب پر ایمان لائے ہوں۔

 (بہار شریعت حصہ اول ص 173 مكتبة المدينه )

عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت؟

          اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے ختمِ نبوت کے مسئلہ کو اتنی اہمیت دی ہے اور قرآن و حدیث میں اس قدر صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اب کسی ذی ہوش اور صاحبِ عقل و خرد انسان کے لیے اس مسئلے کے بارے میں ایک لمحہ کے لیے بھی تردد اور شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔

عقیدۂ ختم نبوت کی  اہمیت کے پیش نظر قرآن نے دعوائے نبوت کے احتمال و امکان کا سد باب کرنے کے لیے کم و بیش ایک سو تیس مرتبہ خاتم النبیین ﷺ کی ختم نبوت کا اعلان فرمایا اور صاحب قرآن نے دو سو دس سے بھی زائد احادیث میں اپنی زبان حق ترجمان سے اس عقیدہ کی حقانیت کی گواہی دی۔

عقیدۂ ختم نبوت کا اثبات ایک سو سے زائد قطعی الدلالۃ آیات مبارکہ اور سینکڑوں احادیث مبارکہ سے ہوتاہے۔ یہ عقیدہ اس قدر قطعیت کے ساتھ ثابت شدہ ہے کہ اس پر مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی۔ کسی مسئلے پر قرآن کی ایک آیت ہی شک و شبہ سے بالاتر موجود ہو تو بطور نص حکم کے اعتبار سے کسی اور ثبوت کی گنجائش نہیں رہ جاتی چہ جائیکہ اتنی کثیر تعداد میں قرآنی آیات عقیدہ ٔ ختم نبوت کی تائید کرتی ہوں۔ مستزاد یہ کہ کثیر تعداد میں احادیث متواترہ نے عقیدۂ ختم نبوت کو اس قدر قطعیت کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ پورے ذخیرہ احادیث میں کسی موضوع پر اس کی مثال نہیں ملتی۔

 تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی آمد سے قبل امم سابقہ خاتم الانبیاء کی آمد کا خصوصاً انتظار کیا کرتی تھیں مگر جونہی خاتم الانبیاء کی تشریف آوری ہوئی اقوام عالم کا یہ انتظار اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔

 چنانچہ عقیدۂ ختم نبوت قرآن و حدیث کی رو سے ایک متفق علیہ عقیدہ ہے جس پر پوری امت مسلمہ کا اجماع ہے۔

عقیدہ ختم نبوت اتنا ضروری اور اہم عقیدہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے عالم ارواح میں، عالم دنیا میں، عالم برزخ میں، عالم آخرت میں، حجتہ الوداع کے موقع پر ،درود شریف میں اور معراج کے موقع پر اس کا تذکرہ کروایا۔

عالم ارواح میں عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ “

وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَخَذۡتُمۡ عَلٰی ذٰلِکُمۡ اِصۡرِیۡ ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا ؕ قَالَ فَاشۡہَدُوۡا وَ اَنَا مَعَکُمۡ مِّنَ الشّٰہِدِیۡنَ۔

(آل عمران آیت نمبر 81)

ترجمہ:(اور ( ان کو وہ وقت یاد دلاؤ ) جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں ، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس ( کتاب ) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے ، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے ، اور ضرور اس کی مدد کرو گے ۔ اللہ نے ( ان پیغمبروں سے ) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے کہا : تو پھر ( ایک دوسرے کے اقرار کے ) گواہ بن جاؤ ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں)

اس آیت کریمہ میں بھی حضورﷺ کی آمد کا ذکر ہے کہ اگر وہ آخری نبی کسی دوسرے نبی کے زمانہ نبوت میں آ گئے تو اس نبی کو اپنی نبوت چھوڑ کر نبی آخر الزماںﷺ کی پیروی کرنی پڑے گی ۔ یعنی عالم ارواح میں بھی حضور ﷺ کی ختم نبوت کا تذکرہ ہورہا ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام اور عقیدہ ختم نبوت

 صحابی رسول حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آخری نبی، رسولِ ہاشمی سکی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا توانہیں ان کی ولاد دکھائی گئی، آپ نے اپنی اولاد میں سے بعض کو بعض سے افضل دیکھا، پس آپ نے سب سے آخر میں بلند اور روشن نور دیکھا، عرض کیا یا رَب ! مَنْ هَذَا؟ اے اللہ پاک ! یہ کون ہے؟ ارشاد ہوا: اے آدم! یہ آپ کے بیٹے احمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) ہیں، یہی آؤں ہیں، یہی آخر ہیں، یہی وہ ہیں جو (روز قیامت) سب سے پہلے شفاعت کریں گے ، انہیں کی شفاعت سب سے پہلے قبول کی جائے گی۔ (تاریخ دمشق)

”عالم دنیا میں عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ”

عالم دنیا میں سب سے پہلے سیدنا آدم علیہ السلام پیدا ہوئے لیکن حضور ﷺ نے فرمایا کہ

”انی عنداللہ مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طیینتہ”

میں اس وقت بھی ( لوح محفوظ میں) آخری نبی لکھا ہوا تھا جب آدم علیہ السلام ابھی گارے میں تھے۔

(مشکوۃ حدیث نمبر 5759 ، کنزالعمال حدیث نمبر 31960)

اللہ تعالٰی نے دنیا میں جس نبی کو بھی بھیجا اس کے سامنے حضور ﷺ کے آخری نبی ہونے کا ذکر یوں فرمایا ۔

“لم یبعث اللہ نبیا آدم ومن بعدہ الا اخذ اللہ علیہ العھد لئن بعث محمدﷺ وھو حی لیومنن بہ ولینصرنہ “

حق تعالی نے انبیاء کرام علیہم السلام میں سے جس کو بھی مبعوث فرمایا تو یہ عہد ان سے ضرور لیا کہ اگر ان کی زندگی میں محمدﷺ تشریف لے آئیں تو وہ ان پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں۔

(تفسیر ابن جریر (عربی) جلد 5 صفحہ 540 تفسیر آیت نمبر 80 سورہ آل عمران طبع مصر 2001ء)

اس کے علاوہ حضورﷺ نے فرمایا کہ

“بین کتفی آدم مکتوب محمد رسول اللہ خاتم النبیین”

آدم علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان محمد رسول اللہﷺ آخری نبی لکھا ہوا تھا ۔

(خصائص الکبری جلد 1 صفحہ 19 طبع ممتاز اکیڈمی لاہور )

اس کے علاوہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہﷺ لما نزل آدم بالھند واستوحش فنزل جبرائیل ۔ فنادی باالاذان اللہ اکبر مرتین۔ اشھد ان لا الہ الااللہ مرتین۔ اشھد ان محمد الرسول اللہ مرتین۔ قال آدم من محمد۔ فقال ھو آخر ولدک من الانبیاء ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ آدم علیہ السلام جب ہند میں نازل ہوئے تو ان کو (بوجہ تنہائی) وحشت ہوئی تو جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور اذان پڑھی۔ اللہ اکبر 2 بار پڑھا ۔ اشھد ان لا الہ الااللہ 2 بار پڑھا ۔ اشھد ان محمد الرسول اللہ 2 بار پڑھا۔ آدم علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا محمدﷺ کون ہیں تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعت میں سے آپ کے آخری بیٹے ہیں۔

(کنزالعمال حدیث نمبر 32139)

”عالم برزخ یعنی عالم قبر میں عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ”

قبر میں جب فرشتے مردے سے سوال کریں گے کہ تیرا رب کون ہے اور تیرا دین کیا ہے اور تیرے نبی کون سے ہیں۔ تو مردہ جواب دے گا کہ

ربی اللہ وحدہ لاشریک لہ الاسلام دینی محمد نبی وھو خاتم النبیین فیقولان لہ صدقت۔

میرا رب وحدہ لاشریک ہے ۔ میرا دین اسلام ہے ۔ اور محمدﷺ میرے نبی ہیں اور وہ آخری نبی ہیں۔ یہ سن کر فرشتے کہیں گے کہ تو نے سچ کہا ۔

(تفسیر درمنثور (عربی)جلد 14 صفحہ 235 تفسیر سورة الواقعہ آیت نمبر 83 مطبوعہ مصر 2002ء

تفسیر درمنثور (اردو ترجمہ) جلد 6 صفحہ 404 تفسیر سورة الواقعہ آیت نمبر 83 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور 2006ء )

”عالم آخرت میں بھی عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ”

“عن ابی ھریرۃ فی حدیث الشفاعتہ فیقول لھم عیسی علیہ السلام ۔۔۔‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ، ‏‏‏‏‏‏أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتِمُ الْأَنْبِيَاءِ”(بخاری حدیث نمبر 4712)

(حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت میں ذکر کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ۔ جب لوگ حضرت عیسی علیہ السلام سے قیامت کے روز شفاعت کے لئے عرض کریں گے تو وہ کہیں گے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس جاؤ ۔ لوگ میرے پاس آیئں گے اور کہیں گے اے اللہ کے رسول محمدﷺ آخری نبی)

لیجئے قیامت کے دن بھی حضورﷺ کی ختم نبوت کا تذکرہ ہوگا۔

”حجتہ الوداع میں ختم نبوت کا تذکرہ”

“عن ابی امامتہ قال قال رسول اللہﷺ فی خطبتہ یوم حجتہ الوداع ایھاالناس انہ لانبی بعدی ولا امتہ بعدکم”

(حضرت ابوامامتہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے خطبہ حجتہ الوداع میں فرمایا اے لوگو! نہ میرے بعد کوئی نبی ہوگا اور نہ تمہارے بعد کوئی امت ہوگی)(کنزالعمال حدیث نمبر 12918 )

 عہد نبوی سے لے کر آج تک تاریخ اسلام شاہد ہے کہ امتِ مسلمہ نے کبھی بھی کسی جھوٹے مدعی نبوت کو برداشت نہیں کیا۔ خلیفۂ راشد اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اوائل دور میں مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف ہونے والی جنگِ یمامہ میں سات سو صرف حفاظِ قرآن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی جانوں کا قیمتی نذرانہ پیش کرکے عقیدۂ ختم نبوت کا دفاع کیا۔ شمعِ ختم نبوت کے پروا نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں سینکڑوں کی تعداد میں شہید ہو گئے مگر ختمِ نبوت کی حرمت پر حرف نہ آنے دیا۔ صحابہ کرام کی یہ عظیم قربانی امت کے لیے ایک عملی پیغام تھاکہ دعوائے نبوت کے فتنہ کی سر کوبی کے لئے اسلامی ریاست کسی بھی ممکنہ اقدام سے تامل نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ صدیقی سے لے کر آج تک امت مسلمہ نے تحفظ ختم نبوت کی خاطر کبھی بڑی سے بڑی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا۔ سنت صدیقی کو زندہ رکھتے ہوئے صدیوں بعد شہرِ لاہور نے بھی تحریکِ ختم نبوت میں دس ہزار جانوں کا نذرانہ تحفظِ ختم نبوت کے لیے پیش کر دیا۔

بلاشبہ ہمارے نزدیک ختمِ نبوت ہی کا دوسرا نام عشقِ رسول ﷺ ہے جو کہ ہر مسلمان کے ایمان کی اساس ہے، اس لیے اس عقیدہ کی حفاظت اور پاسبانی میں اُمتِ مسلمہ کی زندگی مضمر ہے۔ اس غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر امت ابتداء ہی سے اس عقیدہ کے بارے میں بہت حساس رہی ہے اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ اسے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ آقاے دو جہاں ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کے تصور ہی سے مسلمان کا رشتہ اپنے نبی ﷺ سے کٹ جاتا ہے۔ اسی لیے امت ہمیشہ دامنِ مصطفی ﷺ کو آخری سہارا جانتے ہوئے مضبوطی سے تھامے رکھتی ہے۔ ناموسِ مصطفی ﷺ کے تحفظ میں اسے پروا نہیں، جان جاتی ہے تو جائے مگر اس رشتہ مصطفوی پر آنچ نہ آنے پائے۔ یہی اس امت کی پہچان رہی ہے۔ بارہا ایسا ہوا کہ شمع رسالت کے پروانے ہر رشتے کو بالائے طاق رکھ کر یہ کہتے ہوئے دہلیز مصطفی ﷺ پر نقد جاں ہار گئے۔

 

 

 

منکرین ختم نبوت کی تاریخ:

          مخبر صادق ﷺ نے اس امر کی پیشین گوئی فرمائی تھی کہ جھوٹے مدعیان نبوت ضرور آئیں گے اور ان کا آنا تعجب اور حیرانگی کی بات بھی نہیں بلکہ یہ تو اس فرمانِ مصطفی ﷺ کی صداقت کی دلیل ہے جس میں آپ ﷺ نے جھوٹے مدعیانِ نبوت کی پیشین گوئی فرمائی ہے۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

سَیَکُوْنُ فِي أُمَّتِي ثَـلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ، کُلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنهُ نَبِيٌّ، وَأَنـَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَانَبِيَّ بَعْدِي۔

1۔ ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون، 4: 499، رقم: 2219
2۔ أبو داؤد، السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلھا، 4: 97، رقم: 4252

’’میری امت میں تیس کذاب ہوں گے جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘

بد بخت جھوٹے مدعیانِ نبوت اور ان کا عبرت ناک انجام :

دو بدبخت(مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی) ایسے تھے، جنہوں نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے دور مبارک میں دعوٰی نبوت کیا – جیساکہ ’’بخاری شریف ‘‘میں ہے :

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے  روایت ہے کہ حضور رسالت مآب (ﷺ) کے دور مبارک میں مسیلمہ کذاب آکر کہنے لگا اگر محمد (ﷺ) مجھے اپنا (معاذ اللہ) جانشین مقرر کر دیں تو میں ان کی پیروی کرنے کے لئے تیار ہوں اور اپنی قوم کے بہت سے آدمی لے آیا پس سیدی رسول اﷲ (ﷺ) اس کی طرف تشریف لے گئے اور آپ (ﷺ) کے ساتھ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ  تھے اور رسول اﷲ (ﷺ) کے دست اقدس میں شاخ کا ایک ٹکڑا تھا حتیٰ کہ آپ (ﷺ) مسیلمہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس پہنچے اور ارشاد فرمایا: اگر تم مجھ سے اس شاخ کے ٹکڑے کا بھی سوال کرو گے تو میں تم کو یہ نہیں دوں گا(خلافت نبوت میں حصہ تو دور کی بات ہے)تیرے متعلق جو اللہ پاک کی تقدیر ہے تو اس سے نہیں بھا گ سکتا اگر تو نے (اسلام سے) پیٹھ پھیری، تو اﷲ عزوجل تمہیں تباہ و برباد کر دے گا اور بے شک میں تمہیں وہی کچھ دیکھ رہا ہوں جو خواب میں دکھایا گیا تھا –

جوخواب کا ذکر مبارک ہے اس کی تفصیل صحیح بخاری میں یہ ہے :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدی رسول اﷲ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:  جس وقت میں سویا ہوا تھا کہ میں نے(خواب میں ) اپنے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن دیکھے، تو مجھے ان دونوں کی وجہ سے فکر لاحق ہوئی، تو خواب میں میری طرف یہ وحی فرمائی گئی کہ میں ان پر پھونک ماروں، پس میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں (کنگن) اڑ گئے -پس میں نے اس خواب کی تعبیر یہ لی کہ میرے بعد دو جھوٹوں کا ظہور ہوگا، ان میں سے ایک عنسی ہے اور دوسرا یمامہ کا رہنے والا مسیلمہ کذاب ہے-

مسیلمہ کذاب ملعون کو نتائج کی پروا کئے بغیر سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے واصل ِجہنم فرمایا- اس کے بارے میں شارحِ بخاری علامہ غلام رسول سعیدیؒ  فرماتے ہیں:

’’یہ (بدبخت)9ھ میں مدینہ منورہ آیا یہ وفود کے آنے کا سال تھا-امام ابن إسحاق رضی اللہ عنہ  نے فرمایا :جب یہ وفد سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں گیاجس میں مسیلمہ کذاب بھی تھا اور جب یہ واپس یمامہ گیا تو مسیلمہ کذاب (لعنۃ اللہ علیہ) مرتد ہو گیا اور نبوت کا دعوٰی کیا، اس کو یمامہ میں حضرت وحشی رضی اللہ نے قتل کیا تھا،جس وقت اس کو قتل کیاگیا،اس کی عمر 150 سال تھی-

اسود عنسی کے بارے میں شارحِ بخاری علامہ غلام رسول سعیدی فرماتے ہیں:

 اس کا نام الاسود الصنعانی ہے،اس کو ایک صحابی رسول (ﷺ)حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے صنعا ء میں قتل کیا -یہ سیدی رسول اللہ کی حیات مبارک کا واقعہ ہے اس وقت آپ (ﷺ) کی طبیعت مبارک ناساز تھی اور اسی میں آپ (ﷺ) کا وصال مبارک بھی ہوا،حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اس کے قتل کی بشارت عطافرمائی تھی‘‘- 

اب ذیل میں حضوررسالت مآب (ﷺ) کی بعثت اور آپ (ﷺ) کے تشریف لانے کے بعد جنہوں نے دعوٰی نبوت کی ناپاک جسارت کی ان کے بارے میں کتب احادیث اور دیگر مستند کتب سے اخذ کرکے انتہائی اختصار کے ساتھ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں –

(3) سجاح بنت الحارث بن سوید یہ مسیلمہ ہی کے دور میں ایک عورت تھی جس نے نبوت کا دعوی کیا اس کے دعوے کی وجہ سے مسیلمہ کی شہرت ماند پڑنے لگی، ادھر جب سید ناصدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی سربراہی میں لشکر اسلام مسلیمہ کی سرکوبی کے لئے بھیجا تو آگے چل کر پتا چلا کہ ایک نہیں بلکہ دو مشتر کہ دشمنوں سے سامنا ہونے والا ہے، مسیلمہ بڑا عیار و چالاک تھا اس نے سجاح کی طاقت کا اندازہ لگا لیا تھا لہذا اسے اپنے ساتھ ملانے کے لئے نکاح کا راستہ اختیار کیا لیکن اس نکاح کا بجائے فائدہ کے نقصان ہونے لگاوہ اس طرح کہ سجاح کے لشکری بددل ہونے لگے اور اس کا ساتھ چھوڑنے لگے سجاح بھی سمجھ گئی اور خاموشی سے وہاں سے نکل گئی اور قبیلہ بنو تغلب میں آکر رہنے لگی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ میں جب قحط سالی ہوئی اس وقت یہ اپنے قبیلے کے ساتھ بصرہ آگئی اور سب کے ساتھ اس نے بھی اسلام قبول کر لیا اور پر ہیز گاری کی زندگی گزارنے لگی اس طرح بصرہ ہی میں اس کا انتقال ہو گیا اور صحابی رسول حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کا جنازہ پڑھایا۔

(4) طلیحہ بن خویلد بن نوفل اسدی: بی شخص بنو اسد کی طرف منسوب ہے جو خیبر کے آس پاس آباد تھا یہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری زمانہ میں مرتد ہوا، اور نبوت کا دعوی کر کے خلق خدا کو گمراہ کرنے لگا، یہاں تک کہ خود حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اپنی خود ساختہ نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دینے لگا، حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی سرکوبی کے لیے حضرت ضرار بن از در رضی اللہ تعالی عنہ کی سربراہی میں ایک لشکر جرار روانہ فرمایا اس جنگ میں طلیحہ اپنی فوج کے ہمراہ فرار ہو گیا۔

جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ظاہری ہو گیا تو طلیحہ کے ساتھ مانعین زکوۃ بھی مل گئے ، سید ناصدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا خالد بن ولید کی سربراہی میں طلیحہ کے مقابلے میں ایک لشکر بھیج طلحہ شکست کو دیکھتے ہوئے ملک شام کی طرف فرار ہو گیا، البتہ کچھ عرصہ کے بعد یہ تو بہ کر کے مشرف بہ اسلام ہو گیا، اور جنگ قادسیہ میں بڑی جوانمردی کے ساتھ کفار کا مقابلہ کیا۔

(5) مختار بن ابوعبید ثقفی: یہ جلیل القدرصحابی ابو عبید بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کا ناخلف بیٹا تھا، اہل علم تھا مگر ظاہر باطن کے خلاف،ابتدائی طور پر خارجی مذہب رکھتا تھا اور اہل بیت سے بغض رکھتا تھا ، شہادت امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی کے بعد اقتدار حاصل کرنے کے مقصد سے ایک منصوبہ بنایا اور اہل بیت کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی محبت کا دم بھرنے لگا اور دعوی کیا کہ اس کا مقصد قاتلان حسین سے انتقام لینا ہے جس کی بنا پر کثیر لوگ اس کے لشکر میں شامل ہو گئے اور یوں اس نے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قاتلوں کو چن چن کر مارا۔

اس بنا پر اس کی شہرت میں بے پناہ اضافہ ہوا، جس کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس نے نبوت کا دعوی کر دیا، سید نامصعب بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نےاس کے ساتھ حروراء کے مقام پر جنگ کی جس کے نتیجے میں یہ واصل جہنم ہوا۔ ( کتاب عقیدہ ختم نبوت)

(6) حارث بن سعید دمشقی: اس نے استدارج اور شعبدوں سے شہرت حاصل کی ، جب لوگ زیادہ ہونے لگے تو اس نے ۶۹ ہجری میں نبوت کا دعوی کر دیا ،اس کی خبر خلیفہ عبدالملک بن مروان کو ہوئی ، خلیفہ نے اس کی گرفتاری کا حکم دیا۔ یہ خلیفہ کے سپاہیوں کے پہنچنے سے پہلے ہی فرار ہو گیا اور بیت المقدس میں جا کر لوگوں کو گمراہ کرنے لگا اور وہاں گرفتار ہوا اور خلیفہ کی خدمت میں لایا گیا، خلیفہ نے اس جھوٹے مدعی نبوت کو سولی چڑھا دیا، یوں اس فتنہ کا خاتمہ ہوگیا۔

 (7) مغیرہ بن سعید : بی شخص والی کوفہ خالد بن عبد اللہ کا آزاد کردہ غلام تھا جس نے امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ کے وصال سے پہلے امامت اور پھر ۱۹ ھجری میں نبوت کا دعوی کر دیا، اس شخص کو سحر اور جادو میں عبور حاصل تھا جس سے کام لیتے ہوئے اس نے لوگوں کے دلوں میں اپنی بزرگی اور عقیدت کا سکہ جمایا، جب خالد بن عبد اللہ عراق کا حاکم تھا تو اسے معلوم ہوا کہ مغیرہ اپنے آپ کو نبی کہتا ہے اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کر چکا ہے تو اس نے اس کی گرفتاری کا حکم دیا، یہ اپنے چھ حواریوں کے ساتھ گرفتار ہوا خالد بن عبداللہ نے تصدیق کے بعد اسے زندہ جلوا دیا۔

(8) بیان بن سمعان تمیمی : 19 ہجری میں نبوت کا دعوی کیا یہ شخص ہندؤوں کی طرح تناسخ اور حلول کا عقیدہ رکھتا تھا خالد بن عبداللہ حاکم کوفہ نے مغیرہ بن سعید کے ساتھ اسے بھی گرفتار کر کے دربار میں بلایا اور جب مغیرہ کو زندہ جلا دیا گیا تو خالد نے بیان سے کہا کہ تیرا دعوی ہے کہ تو اسم اعظم جانتا ہے اس کے ذریعے فوج کو شکست دے سکتا ہے لہذا اب تو یہ کر کہ مجھے اور میرے عملے کو جو تیری ہلاکت کے درپے ہیں، ہلاک کر دے مگر چونکہ وہ جھوٹا تھا اس لئے کچھ نہ بولا اور نہ ہی کچھ کر سکا تو خالد نے اسے بھی زندہ جلا دیا۔

(9) اسحاق اخرس : بی شخص شمالی افریقہ کا رہنے والا تھا اس نے اپنی جھوٹی نبوت چمکانے سے پہلے قبل آسمانی کتابوں کے علوم حاصل کئے اور مختلف زبانیں سیکھیں، شعبدہ بازیوں میں مہارت حاصل کی اور خلق خدا کو گمراہ کرنے کے لئے اصفہان آکر ایک مدرسہ قائم کیا اور پھر کچھ عرصہ بعد نبوت کا دعوی کر دیا کئی لوگ اس کے دام فریب میں پھنس گئے اس طرح اس نے اچھی خاصی قوت حاصل کر لی اور اپنے عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد لے کر بصرہ، عمان اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں میں دھاوا بول دیا، خلیفہ جعفر منصور کے لشکر سے اسحاق کے بڑے بڑے معرکے ہوئے آخر کارخلیفہ فتحیاب ہوا اور اسحاق ما را گیا۔

(10) صالح بن ظریف: شخص اصل میں یہودی تھا اندلس میں نشو و نما پائی ، وہاں سے مغرب کے جاہل اور وحشی بربری قبائل میں رہائش اختیار کی اور انہیں شعبدے دکھا کر اپنا مطیع کر کے ان پر حکومت کرنے لگا، ہشام بن عبدالملک کے دور خلافت میں صالح بن ظریف نے نبوت کا دعوی کیا اور شمالی افریقہ میں اس کی حکومت مستحکم ہوئی یہ شخص ۴۷ سال تک نبوت کے جھوٹے دعوے کے ساتھ اپنی قوم کے سفید وسیاہ کا مالک رہا ۱۷۴ ہجری میں گوشہ نشین ہو گیا اور اسی حالت میں مر گیا۔

(11) استاد سمیس خراسانی: اس نے ہرات، بجستان کے علاقوں میں اپنی نبوت کا دعوی کیا اور لوگ اس کثرت سے اس کے معتقد ہوئے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں تین لاکھ آدمیوں کی ایک جماعت بن گئی ، خلیفہ منصور نے اس کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر روانہ کیا جسے سیس خراسانی نے شکست دی، خلیفہ نے دوبارہ ایک تجربہ کارسپہ سالار کی سربراہی میں چالیس ہزار کی فوج اس پر لشکر کشی کے لئے روانہ کی جس میں جھوٹا مدعی نبوت استاد سیس کو شکست فاش ہوئی اور اس کے ستر ہزار آدمی مارے گئے ہیں نے پہاڑوں میں چھپ کر جان بچائی تاہم بعد میں یہ پکڑا گیا اور خدم بن خزیمہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔

(12) حمدان بن اشعث قرمطی : شخص کو فہ کا رہنے والا تھا ابتدا ءزہد و تقوی کی طرف مائل تھا پھر فرقہ باطنیہ کے ایک فرد سے ملنے کے بعد نعمت ایمان سے محروم ہوا، اور الحاد وزندقہ کا سرغنہ بنا، اس کے ماننے والے قرامطی یا قرامطہ کہلاتے ہیں پہلے اس نے اپنے ماننے والوں پر پچاس نمازیں فرض کیس پھر ان کی شکایت پر اس نے کم کر کے چار کر دیں، نئی اذان ایجاد کی ، وحی کے نزول کا دعوی کیا اور اپنے ماننے والوں پر دو روزے فرض کئے ، شراب حلال کر دی غسل جنابت کا حکم ختم کر دیا قبلہ کعبتہ اللہ کی بجائے بیت المقدس کو قرار دیدیا۔ ابتدائی صدیوں میں اسلام کو جن فتنوں کا سامنا کرنا پڑا ان میں قرامطہ کا فتنہ ایک بڑا فتنہ تھا اس گروہ نے لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا یہ لوگ کعبہ اللہ کے انہدام کے در پے بھی ہوئے، ابوطاہر قرامطی حجر اسود اٹھا کر یمن لے گیا، حمدان حاکم کوفہ کی طرف سے ہر وقت گرفتاری کا خوف رہتا تھا بالآخر شام کی طرف بھاگ گیا، پھر اس کا کیا ہوا، کدھر گیا کچھ معلوم نہ ہو سکا۔

(13) علی بن محمد خارجی: یہ رے شہر کے مضافات میں پیدا ہوا، اس کا تعلق خوارج کے فرقہ از راقہ سے تھاے ۲۰ ہجری میں اس نے نبوت کا دعوی کیا کئی قبائل اس کے مطیع ہو گئے بہر حال حاکم بصرہ نے اس کے ساتھ متعدد جنگیں کیں بالآخر چودہ سال کی متعدد جنگوں کے بعد یقتل ہوا اور اس کا فتنہ اپنے انجام کو

پہنچا۔ (14) حامیم یا عامیم بن من اللہ اس نے سرزمین ریف میں نبوت کا دعوی کیا اور اپنی شریعت گڑہی، مشخص ۳۱۹ ہجری میں ایک جنگ کے دوران واصل جہنم ہوا۔

(15) علی بن فضل یمنی: یہ شخص یمن کے علاقے صنعاء کا رہنے والا تھا اس کا فتنہ انیس سال تک جار ہا اور ۳ ۳۰ ہجری میں واصل جہنم ہوا۔ (16) عبدالعزیز باسندی: اس نے ۳۲۲ ہجری میں نبوت کا دعوی کیا انتہائی مکار شخص تھا، یہ بھی ایک جنگ کے دوران واصل جہنم ہوا۔ اس طرح ان جھوٹے مدعیوں کی تعداد ۲۸ تک پہنچتی ہے، کچھ مذکور ہوئے باقیوں کے نام یہ ہیں، ابوالقاسم احمد بن قسی ۵۵۰ ہجری میں مرا، ابوالطیب احمد بن حسین منیتی ،عبدالحق بن سبعین مرسی ، بایزید روشن جالندھری، با بک بن عبداللہ، ابو منصور عیسی برخواطی ، اصفر قلمی ،عبدالعزیز طرابلسی، بہاءاللہ ۔

(17)نهاوند:سواد علاقہ سے ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا۔ کثیر سوادیہ نے اس کی اتباع کی اور اپنی جائیدادیں بیچ کر اس کے پیسے اس شخص کو دے دیئے۔ یہ وہ سارا مال لوگوں میں خرچ کر دیتا تھا۔ اس نے اپنے چار پیر و کارو کے نام خلفائے راشدین کے نام پر رکھے۔

( الكامل في التاريخ، جلد 8 ، صفحہ 517 ، دار الكتاب العربي، بيروت)

(18)متنبی:یہ شخص شام سے آیا اور فنون ادب میں مہارت رکھتا تھا۔ اس نے نبوت کا دعوی کیا اور کثیر لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کر دیا۔ سیف الدولہ بادشاہ سے مل گیا اور بعد میں اس سے الگ ہو گیا۔ کوفہ جاتے ہوئے راستہ میں قتل کر دیا گیا۔

( المختصر في أخبار البشر ، جلد 2، صفحہ 105، المطبعة الحسينية المصرية)

(19)ابو عیسی اصبھانی؛اس نے نبوت کا دعوی کیا اور یہ بھی کہا کہ اللہ عزو جل نے اسے معراج کروائی اور اللہ عزوجل نے اس کےسر پر ہاتھ پھیرا ہے۔( البدء و التاريخ، جلد 4 ، صفحہ 35، مكتبة الثقافة الدينية)

(20) مرزاغلام احمدقادیانی:1835ء میں قادیان (بھارت) میں شیطان کا سینگ طلوع ہوا اور 1908ء میں بیت الخلاء میں عبرت ناک موت سے دوچار ہوکر واصل جہنم ہوا- اس نے 1889ء میں جماعت ِ احمدیہ کی بنیاد رکھی۔

 

منتہیٰ مطلب اور یہ نام رکھنے کا حکم

 

30 جھوٹے نبوت کے دعویداروں پر موجود حدیث پر اشکال اور اس کا جواب

صحیح بخاری کی حدیث ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَابُونَ قَرِيبًا مِنْ ثَلَاثِينَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللهِ ” ترجمہ : قیامت قائم نہ ہو گی جب تک تیس کے قریب دجال کذاب نہ نکلیں گے ، ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ اللہ عزوجل کا رسول ہے۔

(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام ، جلد 4، صفحہ 200، حديث 3609 ، دار طوق النجاة، مصر )

حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جھوٹے نبوت کے دعویدار تیں ہوں گے جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ تیس سےزائد ہیں۔

جواب: اس حدیث کی شرح میں علمائے کرام نے دیگر احادیث کی روشنی میں فرمایا کہ اس حدیث میں مقصود جھوٹوں کی کثرت میں مبالغہ ہے نہ کہ مخصوص تعداد بیان کرنا، کیونکہ احادیث میں ان کی مختلف تعداد بیان کی گئی ہے۔ مسند احمد کی حدیث پاک میں تیس (۳۰) سے زیادہ ہونے کا بھی فرمایا ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا ليَكُونَنَّ قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ، وَكَذَابُونَ ثَلَاثُونَ أَوْ أَكْثَرُ “ ترجمہ : ضرور قیامت سے قبل مسیح دجال آئے گا اور تیس یا اس سے زائد جھوٹے آئیں گے۔

( مسند الإمام أحمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة، مسند عبد الله بن عمر رضي الله عنهما ، جلد 9 صفحہ 504، حدیث 5694، مؤسسة

الرسالة، بيروت)

ایک حدیث پاک میں ستر (۷۰) کی تعداد بھی بتائی گئی ہے چنانچہ مجمع الزوائد کی حدیث پاک ہے ”عن عبد الله بن عمرو ، قال : قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم: «لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ سَبْعُونَ كَذَّابًا» ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہو گی جب تک ستر جھوٹے نہ نکلیں گے۔ (مجمع الزوائد، کتاب الفتن، باب ما جاء في الكن ابين الذين بين يدي الساعة، جلد 7، صفحہ 644 ، حدیث 12490، دار الفكر ، بيروت) لہذا حضور علیہ السلام کے فرمان کا مطلب یہ نہیں کہ فقط 30 لوگ نبوت کا دعوی کریں گے بلکہ غیبی خبر کا مطلب یہ ہے کہ کہ کثیر لوگ نبوت کا دعوی کریں گے ۔ ایک تاویل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حدیث پاک میں جن تیس جھوٹوں کی صراحت ہے اس سے مراد وہ جھوٹے نبوت کے دعویدار ہیں جنہوں نے نبوت کا دعویٰ کر بڑے بڑے فتنہ بھر پا کرنے ہیں، یعنی جھوٹے تو کثیر ہوں گے لیکن تیس بڑے فتنہ باز ہوں گے جیسے مسیلمہ کذاب، بہاء اللہ ، اور مرزا قادیانی وغیرہ تھے۔ کیونکہ حدیث پاک میں ” كَذَّابُونَ“ کے ساتھ ” دَجَّالُونَ“ بھی آیا ہے جس میں كَذَّابُونَ“ سے مراد جھوٹے اور ” دَجَّالُونَ “ سے مراد بڑے فتنہ باز ہیں جیسا کہ آخری زمانہ میں دجال بہت بڑا فتنہ ہو گا۔

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے