قربانی کا طریقہ
( چاہے قربانی ہو یا ویسے ہی ذَبْح کرنا ہو)سنّت یہ چلی آ رہی ہے کہ ذَبْح کرنے والا اور جانور دونوں قبلہ رُو ہوں ، ہمارے عَلاقے( یعنی پاک و ہند) میں قِبلہ مغرِب (WEST ) میں ہے، اس لئے سرِذَبیحہ (یعنی جانور کا سر)جُنُوب( SOUTH) کی طرف ہونا چاہئے تا کہ جانور بائیں (یعنی الٹے)پہلو لیٹا ہو،اور اس کی پیٹھ مشرِق(EAST) کی طرف ہو تا کہ اس کا مُنہ قبلے کی طرف ہو جائے، اور ذَبْح کرنے والا اپنا دایاں (یعنی سیدھا) پاؤں جانور کی گردن کے دائیں (یعنی سیدھے) حصّے(یعنی گردن کے قریب پہلو) پر رکھے اور ذَبْح کرے اور خود اپنا یا جانور کا مُنہ قبلے کی طرف کرنا ترک کیا تو مکروہ ہے۔( فتاوٰی رضویہ ج ۲۰ص ۲۱۶،۲۱۷)
قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھی جائے
اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۚ(۷۹)([1])اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶۲)([2]) لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰ لِکَ اُمِرْتُ وَاَنَامِنَ الْمُسْلِمِیْنَ([3])اور جانورکی گردن کے قریب پہلو پر اپنا سیدھا پاؤں رکھ کراَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَر۔([4])پڑھ کر تیز چُھری سے جلد ذَبْح کردیجئے ۔ قربانی اپنی طرف سے ہو توذَبح کے بعد یہ دعا پڑھئے: اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَ السَّلَامُ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم([5])اگردوسرے کی طرف سے قربانی کریں تو مِنِّیکے بجائے مِنْ کہہ کر اُس کا نام لیجئے ۔( بوقتِ ذَبح پیٹ پر گھٹنا یا پاؤں نہ رکھئے کہ اس طرح بعض اوقات خون کے علاوہ غذا بھی نکلنے لگتی ہے)
مَدَنی التجا:قربانی میں دیکھ کر دعا پڑھتے وَقت رسالے پر ناپاک خون نہ لگنے پائے اس کا خیال فرمائیے ۔
بکری جنّتی جانور ہے
بکری کی عزّت کرو اور اِس سے مٹّی جھاڑو کیونکہ وہ جنّتی جانور ہے۔ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخطّاب ج۱ص۶۹حدیث۲۰۱)
جانوروں پر رحم کی اپیل
گائے وغیرہ کوگرانے سے پہلے ہی قبلے کا تَعَیُّن کر لیا جائے ،لِٹانے کے بعد بِالخصوص پتھریلی زمین پر گھسیٹ کر قبلہ رُخ کرنا بے زَبا ن جانورکیلئے سخت اذیَّت کا باعث ہے ۔ ذَبْح کرنے میں اتنا نہ کاٹیں کہ چھری گردن کے مُہرے(ہڈی) تک پہنچ جائے کہ یہ بے وجہ کی تکلیف ہے پھر جب تک جانور مکمَّل طور پر ٹھنڈا نہ ہو جائے نہ اس کے پاؤں کاٹیں نہ کھال اُتاریں ، ذَبْح کر لینے کے بعد جب تک رُوح نہ نکل جائے چھری کٹے ہوئے گلے پر مَس(TOUCH) کریں نہ ہی ہاتھ۔بعض قصّاب جلد ’’ٹھنڈی ‘‘ کرنے کیلئے ذَبْح کے بعد تڑپتی گائے کی گردن کی زندہ کھال اُدھیڑ کر چُھری گھونپ کر دل کی رگیں کاٹتے ہیں ، اِسی طرح بکرے کوذَبْح کرنے کے فوراً بعد بے چارے کی گردن چٹخا دیتے ہیں ، بے زَبا نو ں پر اِس طرح کے مظالم نہ کئے جائیں ۔ جس سے بن پڑے اس کے لئے ضروری ہے کہ جانور کوبِلا وجہ اِیذا پہنچانے والے کو روکے ۔ اگر باوُجُودِ قدرت نہیں روکے گا تو خود بھی گنہگار اور جہنَّم کا حقدار ہو گا۔دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِداریمکتبۃُ الْمدینہ کی مطبوعہ 1197 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’بہارِ شریعت‘‘ جلد 3صَفْحَہ660پر ہے:’’ جانو ر پرظُلم کرنا ذِمّی کافرپر(اب دنیا میں سب کافر حَربی ہیں )ظلم کرنے سے زیادہ بُرا ہے اور ذِمّی پر ظلم کرنا مسلم پر ظلم کرنے سے بھی بُرا ہے کیوں کہ جانور کا کوئی مُعِین و مددگار اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا نہیں اس غریب کو اس ظلم سے کون بچائے!‘‘ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۹ص۶۶۲)
مرنے کے بعد مظلوم جانور مُسَلّط ہو سکتا ہے
ذَبْح کرنے کے بعد رُوح نکلنے سے قبل چُھریاں چلا کر بے زَبان جانوروں کو بِلاوجہ تکلیف دینے والوں کو ڈر جانا چاہئے کہیں مرنے کے بعد عذاب کیلئے یِہی جانور مُسَلَّط نہ کر دیا جائے۔دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ1012 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’جہنَّم میں لے جانے والے اعمال ‘‘جلد2 صَفْحَہ323 تا 324 پر ہے: انسان نے ناحق کسی چوپائے کو مارا یا اسے بھوکا پیاسا رکھا یا اس سے طاقت سے زیادہ کام لیا تو قِیامت کے دن اس سے اسی کی مثل بدلہ لیا جائے گا جو اس نے جانور پر ظلم کیایا اسے بھوکا رکھا۔ اس پر درجِ ذَیل حدیث ِ پاک دَلالت کرتی ہے۔چُنانچِہ رَحمت ِ عالَم ،نورِ مُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جہنَّم میں ایک عورت کو اس حال میں دیکھا کہ وہ لٹکی ہوئی ہے اور ایک بلّی اُس کے چِہرے اور سینے کو نوچ رہی ہے اور اسے ویسے ہی عذاب دے رہی ہے جیسے اس(عورت) نے دنیا میں قید کر کے اور بھوکا رکھ کراسے تکلیف دی تھی۔ اس روایت کا حکم تمام جانوروں کے حق میں عام ہے۔(اَلزَّواجِرُج۲ ص۱۷۴)
کر لے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی
قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
تُوبُوااِلیَ اللہ! اَسْتَغْفِرُاللہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
قُربانی کے وَقت تماشا دیکھنا کیسا؟
قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذَبْح کرنا افضل اور بوقتِ ذَبْح بہ نیّتِ ثوابِ آخِر ت وہاں حاضِر رہنا بھی افضل ۔مگراسلامی بہن صِرف اُسی صورت میں وہاں کھڑی ہو سکتی ہے جب کہ بے پردگی کی کوئی صورت نہ ہو مَثَلاً اپنے گھر کی چار دیواری ہو، ذَابح ( یعنی ذَبْح کرنے والا) محرم ہو اور حاضِرین میں بھی کوئی نا مَحرم نہ ہو۔ ہاں غیر محرم نابالغ لڑکا موجود ہو تو حرج نہیں ۔ محض حَظِّ نفس(یعنی مزہ لینے) کی خاطر ذَبْح ہونے والے جانور کے گرد گھیرا ڈالنا، اُس کے چِلّانے اور تڑپنے پھڑکنے سے لطف اندوز ہونا، ہنسنا ،قہقہے بلند کرنا اور اس کا تماشا بنانا سراسر غفلت کی علامت ہے ۔ ذَبْح کرتے وَقْت یااپنی قُربانی ہو رہی ہو اُس کے پاس حاضِر رہتے وَقْت ادائے سنَّت کی نیَّت ہو نی چاہئے اور ساتھ ہی یہ بھی نیَّت کرے کہ میں جس طرح آج راہِ خدا میں جانور قربان کر رہاہوں ،بوقتِ ضَرورت اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنی جان بھی قربان کردوں گا۔نیز یہ بھی نیَّت ہو کہ جانورذَبْح کرکے اپنے نفسِ اَمّارہ کو بھی ذَبْح کر رہا ہوں اور آیَندہ گناہوں سے بچوں گا۔ ذَبْح ہونے والے جانور پر رَحْم کھائے اور غور کرے کہ اگر اِس کی جگہ مجھے ذَبْحکیا جا رہا ہوتا اور لوگ تماشا بناتے اور بچّے تالیاں بجاتے ہوتے تو میری کیا کیفیت ہو تی!
ذَبیحہ کو آرام پہنچا یئے
حضرتِ سیِّدُنا شَدّاد بن اَوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ سیِّدُ الْمُرسَلین، خاتَمُ النَّبِیِّین ، جنابِ رحمۃٌ لِّلْعٰلمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اللہ تَعَالٰی نے ہر چیز کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے،لہٰذا جب تم کسی کو قتل کرو تو احسن(یعنی بہت اچّھے ) طریقے سے قتل کرو اور جب تم ذَبح کرو تو اَحسن(یعنی خوب عمدہ) طریقے سے ذَبح کرو اورتم اپنی چُھری کو اچّھی طرح تیز کرلیا کرواورذَبیحہ کو آرام دیا کرو۔ (صَحیح مُسلِمص۱۰۸۰ حدیث۱۹۵۵)بوقتِ ذَبْح رضائے الٰہی کی نیّت سے جانور پر رَحْم کھانا کارِثواب ہے جیساکہ ایک صَحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی : یارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! مجھے بکری ذَبْح کرنے پر رَحْم آتا ہے ۔ فرمایا:’’ اگر اس پر رَحْم کرو گے اللہ عَزَّ وَجَلَّ بھی تم پر رَحْم فرمائے گا۔ (مُسندِ اِمام احمد بن حنبلج۵ ص ۳۰۴حدیث ۱۵۵۹۲)
جانور کو بھوکا پیاسا ذَبح نہ کریں
صَدرُالشَّریعہ،بَدرُالطَّریقہحضرتِ علّامہ مولانامفتی امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں :قربانی سے پہلے اُسے چارا پانی دے دیں یعنی بھوکا پیاسا ذَبْح نہ کریں اور ایک کے سامنے دوسرے کو نہ ذَبْح کریں اور پہلے سے چُھری تیز کر لیں ایسا نہ ہو کہ جانور گرانے کے بعد اُس کے سامنے چُھری تیز کی جائے۔(بہار شریعت جلد ۳ ص ۳۵۲ ) یہاں ایک عجیب و غریب حکایت مُلاحَظہ ہو چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا ابو جعفر عَلَیہ رَحمَۃُ اللّٰہِ الاکبر فرماتے ہیں : ایک بار میں نے ذَبْح کیلئے بکری لِٹائی اِتنے میں مشہور بُزُرگ حضرتِ سیِّدُنا ایّوب سَختِیانی(سَخْ۔تِ۔یانی) قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی اِدھر آ نکلے ، میں نے چُھری زمین پر ڈال دی اور گفتگو میں مشغول ہوا، دَریں اَثنا بکری نے دیوارکی جَڑ میں اپنے کُھروں سے ایک گڑھا کھودا اور پاؤں سے چُھری اُس میں دھکیل دی اور اُس پر مِٹّی ڈال دی! حضرتِ سیِّدُنا ایّوب سَختِیانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرمانے لگے:ارے دیکھو تو سہی! بکری نے یہ کیا کیا! یہ دیکھ کر میں نے پُختہ عزْم کر لیا کہ اب کبھی بھی کسی جانور کو اپنے ہاتھ سیذَبْح نہیں کروں گا۔ ( حیاۃُ الحیوان ج۲ ص۶۱)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس حکایت سے مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ یہ مُراد نہیں کہ ذَبْح کرناکوئی غَلط کام ہے ۔ بس اِس طرح کے واقِعات بُزُرگوں کے غلبۂ حال پر مَبنی ہوتے ہیں ۔ ورنہ مسئلہ یہی ہے کہ اپنے ہاتھ سے ذَبْح کرنا سنّت ہے۔
بکری چُھری کی طرف دیکھ رہی تھی
سرکارِ ابد قرار، شافِعِ روزِ شمار، بِاِذنپَرْوَرْدَگار دوعالم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک آدمی کے قریب سے گزرے، وہ بکری کی گردن پر پاؤں رکھ کر چُھری تیز کر رہا تھااور بکری اس کی طرف دیکھ رہی تھی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے ارشاد فرمایا:’’کیا تم پہلے ایسا نہیں کر سکتے تھے؟ کیا تم اسے کئی موتیں مارنا چاہتے ہو؟ اسے لٹانے سے پہلے اپنی چُھری تیز کیوں نہ کر لی؟‘‘(اَلْمُستَدرَک لِلحاکم ج۵ ص۳۲۷ حدیث ۷۶۳۷،اَلسّنَنُ الکُبری لِلْبَیْہَقِی ج۹ ص۷۱ ۴ حدیث۹۱۴۱، مُلْتَقَطًا مِنَ الْحَدِیْثَین)
ذَبح کیلئے ٹانگ مت گھسیٹو!
امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک شخص کو دیکھا جو بکری کو ذَبْح کرنے کے لئے اسے ٹانگ سے پکڑ کر گھسیٹ رہا ہے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا : تیرے لئے خرابی ہو، اسے موت کی طرف اچّھے انداز میں لے کر جا۔ (مُصَنَّفعَبْد الرَّزّاق ج۴ص ۳۷۶حدیث ۸۶۳۶)
مکّھی پر رَحم کرنا باعثِ مغفِرت ہو گیا
کسی نے خواب میں حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی کو دیکھ کر پوچھا:ما فَعلَ اللّٰہُ بِکَ؟ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا؟ جواب دیا : اللہ عَزَّ وَجَلَّنے مجھے بخش دیا،پوچھا: مغفِرت کا کیا سبب بنا؟ فرمایا: ایک مکّھی سیاہی(INK) پینے کے لئے میرے قلم پر بیٹھ گئی ،میں لکھنے سے رک گیا یہاں تک کہ وہ فارِغ ہو کر اُڑگئی۔(لطائفُ الْمِنَن وَالْاَخلاق لِلشَّعرانی ص۳۰۵)
مکّھی کو مارنا کیسا؟
یادرہے! مکھیاں تنگ کرتی ہوں تو ان کو مارنا جائز ہے تاہم جب بھی حُصولِ نَفْعْ یا دَفعِ ضَرر(یعنی فائدہ حاصِل کرنے یا نقصان زائِل کرنے) کیلئے مکھی یا کسی بھی بے زَبان کی جان لینی پڑے تو اُس کو آسان سے آسان طریقے پر مارا جائے خوامخواہ اُس کو بار بار زندہ کُچلتے رہنے یاایک وار میں مار سکتے ہوں پھر بھی زخم کھا کر پڑے ہوئے پر بِلاضَرورت ضَربیں لگاتے رہنے یا اُس کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اُس کو تڑپا نے وغیرہ سے گُریز کیا جائے۔ اکثر بچّے نادانی کے سبب چیونٹیوں کو کچلتے رہتے ہیں اُن کو اِس سے روکا جائے ۔ چیونٹی بہت کمزور ہوتی ہے چٹکی میں اٹھانے یا ہاتھ یا جھاڑو سے ہٹانے سے عُمُوماً زخمی ہوجاتی ہے، موقع کی مُناسَبَت سے اس پر پھونک مار کر بھی کام چلایاجا سکتا ہے۔
قُربانی میں عقیقے کا حصّہ
قربانی کی گائے یا اُونٹ میں عقیقے کا حصّہ ہو سکتا ہے۔(رَدُّالْمُحتار ج ۹ص۵۴۰)
…[1] ترجَمۂ کنزالایمان:میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان وزمین بنائے ایک اُسی کا ہو کر اور میں مشرکوں میں نہیں ۔( پ۷، الانعام ۷۹ )
…[2] ترجَمۂ کنزالایمان:بے شک میری نَماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ہ کیلئے ہے جو رب سارے جہان کا ( پ۸، الانعام ۱۶۲)
…[3] اس کا کوئی شریک نہیں مجھے یہی حکم ہے اور میں مسلمانوں میں ہوں ۔
…[4] اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) تیرے ہی لیے اور تیری دی ہوئی توفیق سے، اللہ کے نام سے شروع اللہ سب سے بڑا ہے۔
…[5] اے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ)تومجھ سے ( اس قربانی کو) قبول فرماجیسے تونے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام اور اپنے حبیب محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قبول فرمائی۔ )بہارِ شریعت ج۳ص۳۵۲(