قربانی واجب ہے کے بارہ حرف کی
نسبت سے قربانی کے 12 مادنی پھول
{1} بعض لوگ پورے گھر کی طرف سے صِرْف ایک بکرا قُربان کرتے ہیں حالانکہ بعض اَوقات گھر کے کئی اَفراد صاحِبِ نصاب ہوتے ہیں اور اِس بِنا پر ان ساروں پر قربانی واجِب ہوتی ہے ان سب کی طرف سے الگ الگ قربانی کی جائے ۔ایک بکرا جو سب کی طرف سے کیا گیا کسی کا بھی واجِب ادا نہ ہوا کہ بکرے میں ایک سے زیادہ حصّے نہیں ہوسکتے کسی ایک طے شدہ فردہی کی طرف سے بکرا قربان ہوسکتا ہے۔
{2} گائے ( بھینس)اوراُونٹ میں سات قربانیاں ہوسکتی ہیں ۔ (عالمگیری ج۵ص۳۰۴)
{3}نابالِغ کی طرف سے اگرچِہ واجِب نہیں مگر کر دینا بہتر ہے (اور اجازت بھی ضَروری نہیں )۔بالغ اولاد یا زَوجہ کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو اُن سے اجازت طلب کرے اگر ان سے اجازت لئے بِغیر کردی تو ان کی طرف سے واجِب ادا نہیں ہوگا۔ (عالمگیری ج۵ص۲۹۳،بہارِ شریعت ج۳ص۴۲۸ )اجازت دو طرح سے ہوتی ہے: (۱) صَراحَۃً مَثَلاً ان میں سے کوئی واضِح طورپر کہہ دے کہ میری طرف سے قربانی کردو (۲) دَلالۃً (UNDER STOOD) مَثَلاً یہ اپنی زَوجہ یا اولاد کی طرف سے قربانی کرتا ہے اوراُنہیں اس کا عِلْم ہے اوروہ راضی ہیں ۔ (فتاوٰی اہلسنّت غیر مطبوعہ)
{4}قربانی کے وَقْت میں قربانی کرنا ہی لازِم ہے کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی مَثَلاً بجائے قربانی کے بکرا یااُس کی قیمت صَدَقہ(خیرات) کردی جائے یہ ناکافی ہے۔(عالمگیری ج۵ص۲۹۳،بہارِ شریعت ج۳ص۳۳۵ )
{5}قربانی کے جانور کی عمر : ’’اونٹ ‘‘پانچ سال کا ، گائے دوسال کی ، بکرا (اس میں بکری ،دُنبہ ،دُنبی اوربھیڑ(نرو مادہ) دونوں شامل ہیں )ایک سال کا ۔ اس سے کم عمر ہوتو قربانی جائز نہیں ، زیادہ ہوتو جائز بلکہ افضل ہے۔ ہاں دُنبہ یا بَھیڑ کا چھ مہینے کا بچّہ اگر اتنا بڑا ہوکہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہوتو اس کی قربانی جائز ہے۔(دُرِّمُختارج۹ص۵۳۳) یادرکھئے!مُطلَقاًچھ ماہ کے دُنبے کی قربانی جائز نہیں ، اس کا اِتنا فَربَہ(یعنی تگڑا) اور قد آور ہونا ضَروری ہے کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا لگے۔اگر 6ماہ بلکہ سا ل میں ایک دن بھی کم عمر کا دُنبے یا بَھیڑ کا بچّہ دُور سے دیکھنے میں سال بھر کا نہیں لگتا تو اس کی قربانی نہیں ہو گی۔
{6}قربانی کا جانور بے عَیب ہونا ضَروری ہے اگرتھوڑا سا عیب ہو( مَثَلاً کان میں چِیرا یا سُوراخ ہو)تو قربانی مکروہ ہوگی اورزیادہ عیب ہوتو قربانی نہیں ہوگی ۔ (بہارِ شریعت ج۳ص۳۴۰ )
عیب دار جانوروں کی تفصیل جن کی قُربانی نہیں ہوتی
{7} ایسا پاگل جانور جو چَرتا نہ ہو ، اتنا کمزور کہ ہڈّیوں میں مَغْز نہ رہا،( اس کی علامت یہ ہے کہ وہ دُبلے پن کی وجہ سے کھڑا نہ ہو سکے)اندھا یا ایسا کانا جس کا کاناپن ظاہِر ہو ، ایسا بیمار جس کی بیماری ظاہِر ہو ،(یعنی جو بیماری کی وجہ سے چارہ نہ کھائے)ایسا لنگڑا جو خود اپنے پاؤں سے قُربان گاہ تک نہ جاسکے ، جس کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو،وحشی(یعنی جنگلی) جانور جیسے نِیل گائے ، جنگلی بکرایا خُنثیٰ جانور ( یعنی جس میں نر و مادہ دونوں کی علامتیں ہوں ) یا جَلّالہ جو صِرف غلیظ کھاتا ہو۔یا جس کا ایک پاؤں کاٹ لیا گیا ہو، کان،دُم یاچَکّی ایک تہائی (3 / 1)سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں ناک کٹی ہوئی ہو ، دانت نہ ہوں (یعنی جَھڑ گئے ہوں ) ، تھن کٹے ہوئے ہوں ، یا خشک ہوں ان سب کی قربانی نا جائز ہے۔ بکری میں ایک تھن کا خشک ہونا اورگائے، بھینس میں دو کا خشک ہونا، ’’ناجائز‘‘ ہونے کیلئے کافی ہے۔(دُرِّمُختارج۹ص۵۳۵۔۵۳۷،بہارِ شریعت ج۳ص۳۴۰،۳۴۱ )
{8}جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں اُس کی قربانی جائز ہے ۔اور اگر سینگ تھے مگرٹوٹ گئے،اگر جڑ سمیت ٹوٹے ہیں تو قربانی نہ ہوگی اور صرف اوپر سے ٹوٹے ہیں جڑ سلامت ہے تو ہوجائے گی ۔(عالمگیری ج۵ص ۲۹۷)
{9}قربانی کرتے وَقْت جانور اُچھلا کودا جس کی وجہ سے عیب پیدا ہوگیا یہ عیب مُضِر نہیں یعنی قربانی ہو جائے گی اور اگر اُچھلنے کودنے سے عیب پیدا ہوگیا اور وہ چھوٹ کر بھاگ گیا اور فورا ًپکڑکر لایا گیا اور ذَبْح کر دیا گیا جب بھی قربانی ہو جائے گی۔(بہارِ شریعت ج۳ص۳۴۲،دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۹ص۵۳۹)
{10} بہتر یہ ہے کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرے جبکہ اچّھی طرح ذَبْح کرنا جانتا ہو اوراگراچّھی طرح نہ جانتا ہوتو دوسرے کوذَبْح کرنے کا حکم دے مگر اِس صورت میں بہتر یہ ہے کہ وقتِ قربانی وہاں حاضِر ہو۔ ( عالمگیری ج۵ص۳۰۰)
{11} قربانی کی اوراُس کے پیٹ میں سے زندہ بچّہ نکلا تو اُسے بھی ذَبْح کر دے اور اُسے(یعنی بچّے کا گوشت) کھایا جا سکتا ہے اورمرا ہوا بچّہ ہوتو اُسے پھینک دے کہ مُردار ہے۔ (بہارِ شریعت ج۳ص۳۴۸)(قربانی ہو گئی اوراس مرے ہوئے بچّے کی ماں کا گوشت کھا سکتے ہیں )
{12} دوسرے سے ذَبْح کروایا اورخود اپنا ہاتھ بھی چُھری پر رکھ دیا کہ دونوں نے مل کرذَبْح کیا تو دونوں پر بِسْمِ اللّٰہِکہنا واجِب ہے ۔ایک نے بھی جان بوجھ کر چھوڑ دی یایہ خیال کر کے چھوڑ دی کہ دوسرے نے کہہ لی مجھے کہنے کی کیا ضَرورت ، دونوں صُورَتوں میں جانو ر حلال نہ ہوا۔(دُرِّمُختار ج ۹ ص ۵۵۱)
ذَبح میں کتنی رگیں کٹنی چاہئیں ؟
صَدرُالشَّریعہ،بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانامفتی امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں :جو رگیں ذَبْح میں کاٹی جاتی ہیں وہ چار ہیں ۔ حُلْقُوم یہ وہ ہے جس میں سانس آتی جاتی ہے، مُری اس سے کھانا پانی اترتا ہے ان دونوں کے اَغَل بَغَل اور دو رگیں ہیں جن میں خون کی رَوانی ہے ان کو وَدَجَین (وَ۔دَ۔جَیْن)کہتے ہیں ۔ ذَبْح کی چار رگوں میں سے تین کا کٹ جانا کافی ہے یعنی اس صورت میں بھی جانور حلال ہو جائے گا کہ اکثر کے لیے وُہی حکم ہے جوکُل کے لیے ہے اور اگر چاروں میں سے ہر ایک کا اکثر حصّہ کٹ جائے گا جب بھی حَلال ہو جائے گا اور اگر آدھی آدھی ہر رگ کٹ گئی اور آدھی باقی ہے تو حلال نہیں ۔(بہارِ شریعت ج ۳ ص ۳۱۲،۳۱۳)(ابلق گھوڑے سوار، ص۸ تا ۱۳)