جانوروں کے حلال وحرام اعضاء
سوال:بازاروں میں توعام طورپرلوگوں کودیکھاگیا ہے کہ کپورے بڑے شوق سے کھاتے ہیں توکیاواقعی ان کاکھاناجائزنہیں؟
جواب:سیّدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت علیہ رحمۃ الرحمن اس سوال کاجواب دیتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں:
’’حلال جانورکے سب اجزاء حلال ہیں مگربعض کہ حرام یاممنوع یامکروہ ہیں۔
(۱)رگوں کاخون،(۲)پتّا،(۳)پُھکنا،(۴و۵)علامات مادہ ونر،(۶)بیضے۔
(۷)غدود،(۸)حرام مغز،(۹)گردن کے دوپٹّھے کہ شانوں تک کھنچے ہوتے ہیں،(۱۰)جگرکاخون،(۱۱)تلی کاخون،(۱۲)گوشت کاخون کہ بعدذبح گوشت میں سے نکلتاہے،(۱۳)دل کاخون،(۱۴)پت یعنی وہ زردپانی کہ پتّے میں ہوتا ہے،(۱۵)ناک کی رطوبت کہ بھیڑمیں اکثرہوتی ہے،(۱۶)پاخانہ کا مقام،(۱۷)اوجھڑی،(۱۸)آنتیں،(۱۹)نطفہ،(۲۰)وہ نطفہ کہ خون ہوگیا،(۲۱)وہ کہ گوشت کالوتھڑاہوگیا،(۲۲)وہ کہ پوراجانوربن گیااورمردہ نکلایابے ذبح مر گیا۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج20،ص241)
مذکورہ اشیاء میں سے بعض کاکھاناحرام،بعض کاممنوع اوربعض مکروہ ہیں جانوروں میں جوان کے علاوہ اعضاء ہیں ان کاکھاناحلال ہے شرعاًان کے کھانے میں نہ کوئی حرج ہے اورنہ کوئی کراہت ہے۔
سوال:بازاروں میں توعام طورپرلوگوں کودیکھاگیاہے کہ کپورے بڑے شوق سے کھاتے ہیں توکیاواقعی ان کاکھاناجائزنہیں؟
سوال:جی ہاں!واقعی اس کاکھاناجائزنہیں ہے اوراس کے عدمِ جوازکوصرف فقہائے اسلام نے ہی بیان نہیں کیابلکہ ان کی کراہت توحدیث میں بھی بیان کی گئی ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے:
’’کان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یکرہ من الشاۃسبعا:الدم والمرارۃ والذکروالانثیین والحیاوالغدۃوالمثانۃ قال :وکان اعجب الیہ صلی اللہ علیہ وسلم مقدمھا‘‘
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ذبیحہ جانورکے سات اعضاء کومکروہ قراردیتے تھے۔
(وہ سات اعضاء یہ ہیں)خون پتہ،ذکر،کپورے،شرمگاہ،غدوداورمثانہ، فرمایا:اورآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوبکری کے ذبیحہ کااگلاحصہ(یعنی دستی اورگردن)پسندتھا۔
(سنن الکبری للبیہقی،ج14،ص401)
درمختارمیں ہے:
’’اذاماذکیت شاۃ فکلھا سوی سبع ففیھن الوبال فحاء ثم خاء ثم غین۔ودال ثم میمان وذال انتھی فالحاء الحیاء وھوالفرج والخاء الخصیۃ والغین الغدۃ والدال الدم المسفوح والمیمان المرارۃ والمثانۃ والذال الذکر‘‘
ترجمہ:جب بکری ذبح کی گئی توسات اجزاء کہ جن میں وبال ہے،کے علاوہ کوکھاؤ،سات یہ ہے:حاء،پھرخاء،پھرغین اوردال،پھردومیم اورذال،انتہیٰ۔حاء حیاکی وہ شرمگاہ،خاء خصیہ کی،غین غدودکی،دال دمِ مسفوح کی،اوردومیم مرارہ(پتّہ)اورمثانہ،اورذال ذَکرہے۔
(درمختار،ج10،ص478)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’ما یحرم اکلہ من اجزاء الحیوان الماٗکول سبعۃ الدم المسفوح والذکر والانثیان والقبل والغدۃ والمثانۃ والمرارۃ ‘‘
ترجمہ:حلال جانور میں سات اجزاء ایسے ہیں جن کا کھانا حرام ہے۔(1)بہنے والاخون،(2)ذکریعنی عضوتناسل،(3)کپورے،(4)فرج،(شرمگاہ)،(5)غدود، (6)مثانہ،(7)پتہ۔
(فتاوی عالمگیری ،ج5،ص290)
فتاوی رضویہ میں جب سوال ہواکہ ’’کہ بدنِ حیوان ماکول اللحم میں کیاکیاچیزیں مکروہ ہیں؟‘‘توآپ علیہ الرحمہ نے جواباً ارشادفرمایا:
’’سات چیزیں توحدیثوں میں شمارکی گئیں:(1)مرارہ یعنی پتہ(2)مثانہ یعنی پھکنا(3)حیایعنی فرج’’شرمگاہ‘‘(4)ذکر’’عضوتناسل‘‘(5)انثیین’’کپورے‘‘(6)غدہ
’’غدود‘‘(7)دم یعنی خون مسفوح’’بہنے والاخون‘‘۔
(فتاوی رضویہ،ج20،ص234)
اَبَلق گھوڑے سوال میں ہے:
’’کپورے کوخُصیَہ ،فَوطہ یابَیضَہ بھی کہتے ہیں ان کاکھانامکروہِ تحریمی ہے۔یہ بیل،بکرے وغیرہ (نَریعنی مُذَکَّر)میں نُمایاں ہوتے ہیں۔مُرغے (نَر)کاپیٹ کھول کرآنتیں ہٹائیں گے توپیٹھ کی اندرونی سطح پرانڈے کی طرح سفیددوچھوٹے چھوٹے بیج نُمانظرآئیں گے یہی کپورے ہیں۔ان کونکال دیجئے۔افسوس!مسلمانوں کی بعض ہوٹلوں میں دل،کلیجی کے علاوہ بیل ،بکرے کے کپورے بھی توے پربھون کرپیش کئے جاتے ہیں غالِباً ہوٹل کی زَبان میں اس ڈِش کو’’کٹاکٹ‘‘کہاجاتاہے۔(شایداس کو’’کٹاکٹ‘‘اِس لئے کہتے ہیں کہ گاہک کے سامنے ہی دِل یاکپورے وغیرہ ڈال کرتیزآوازسے توے پرکاٹتے اوربھونتے ہیں اس سے ’’کٹاکٹ‘‘کی آوازگونجتی ہے)۔
(اَبَلق گھوڑے سوار،ص40)
(قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی)