سوال:صاحب نصاب تھے لیکن قربانی نہ کی،اس طرح سابقہ چار،پانچ سالوں کی قربانیاں رہتی ہوں توکیااب کی بار قربانی پرگائے وغیرہ بڑاجانورلے کراس سال کی قربانی کابھی حصہ رکھ لیں اورسابقہ ان سالوں کی قربانی کے لیے ہرسال کاحصہ شامل کرلیں ،توکیاایساکرسکتے ہیں؟
جواب:دریافت کردہ صورت میں ایسا نہیں ہوسکتا کہ ان کے بدلے میں اس سال بڑے جانورمیں حصے کی صورت میں یابکرا ،بکری قربان کردیں،اس طرح کرنے سے سابقہ قربانیاں ادا نہیں ہوسکتیں بلکہ ان سابقہ سالوں کی قربانی نہ کرنے کی وجہ سے ان سالوں کی قربانیوں کے بدلے بکریوں کی قیمت صدقہ کرنالازم ہےکیونکہ صاحبِ نصاب پر قربانی کے ایا م اگر گز ر جائیں اور جانور بھی قربانی کے لیے نہ خریدا ہو ، تو پھر بکری کی قیمت صدقہ کرنا لازم آتی ہے اوراگراس سال گزشتہ سالوں کی نیت سے بڑے جانور میں حصہ ڈالیں گے،توموجودہ سال کی قربانی تواداہوجائے گی مگرباقی سابقہ سالوں کی طرف سے ادا نہ ہو گی،محض نفلی ہوں گی اورایسی صورت میں سارے کا سارا گوشت ( یعنی موجودہ سال والی اور دوسری قربانیوں کا گوشت ) بھی صدقہ کرنا ہوگا ۔
بدائع الصنائع میں ہے:
’’انھا لاتقضی بالاراقۃ لأن الاراقۃ لا تعقل قربۃ وانما جعلت قربۃ بالشرع فی وقت مخصوص فاقتصر کونھا قربۃ علی الوقت المخصوص فلا تقضی بعد خروج الوقت‘‘
ترجمہ:قربانی کی قضا خون بہانے (یعنی جانور ذبح کرنے)سے نہیں ہوسکتی ،کیونکہ خون بہانا عقلاً قربت نہیں ہے ،اسے شرع کی وجہ سے ایک وقت مخصوص میں قربت قرار دیا گیا ہے ،تو اس کا قربت ہونا وقت مخصوص تک ہی محدود ہوگا ،وقت کے ختم ہونے کے بعد اس طرح قضا نہیں ہوسکتی۔
(بدائع الصنائع ، جلد4، صفحہ 202 ، مطبوعہ کوئٹہ)
اسی میں ایام نحر کے بعد قیمت لازم ہونے کے بارے میں ہے:
’’وان کان لم یوجب علی نفسہ ولا اشتری وھو موسر حتی مضت أیام النحر تصدق بقیمۃ شاۃ تجوز فی الأضحیۃ ‘‘
ترجمہ:اگرقربانی اپنے اوپرخود واجب نہیں کی تھی اور نہ ہی قربانی کے لیے جانور خریدا تھااور وہ صاحب نصاب بھی تھا (اور اس نے قربانی نہیں کی) یہاں تک کہ ایام نحر گزر گئے ،تو اب ایک ایسی بکری کی قیمت صدقہ کرے گا جس کی قربانی جائز ہوتی ہو۔
(بدائع الصنائع ، جلد4، صفحہ 203 ، مطبوعہ کوئٹہ)
سابقہ یعنی گزشتہ سالوں کی نیت سے حصہ ڈالنے کے متعلق رد المحتار میں ہے:
”لو كان أحدهم مريدا للأضحية عن عامه وأصحابه عن الماضی تجوز الأضحية عنه ونية أصحابه باطلة وصاروا متطوعين ، وعليهم التصدق بلحمها وعلى الواحد“
ترجمہ : ( بڑے جانور میں ) شرکاء میں سے کسی ایک نے موجودہ سال کی قربانی کی نیت کی اور باقیوں نے گزشتہ سالوں کی ، تو موجودہ سال والے کی نیت درست ہوجائے گی اور اس کے ساتھیوں کی نیت باطل ہوگی اور ان کی قربانیاں نفل ہوں گی اوران پراوراس اکیلے پر ( جس نے موجودہ سال کی نیت کی تھی ، ان سب پر ) گوشت صدقہ کرنا لازم ہوگا۔
( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الاضحیۃ ، جلد 9 ، صفحہ 540 )
بہارشریعت میں ہے:
’’غنی نے قربانی کے لیے جانور خرید لیا ہے تو وہی جانور صدقہ کردے او ر ذبح کر ڈالا تو وہی حکم ہے جو مذکور ہوا اور خریدا نہ ہو تو بکری کی قیمت صدقہ کرے۔ ‘‘
(بہارشریعت ، جلد 3 ، حصہ 15 ، صفحہ 338 )
مزید اسی میں ہے:
’’قربانی کے دن گزر گئے اور اس نے قربانی نہیں کی اور جانور یا اس کی قیمت کو صدقہ بھی نہیں کیا یہاں تک کہ دوسری بقرعید آ گئی اب یہ چاہتا ہے کہ سال گزشتہ کی قربانی کی قضا اس سال کرلے ، یہ نہیں ہوسکتا ،بلکہ اب بھی وہی حکم ہے کہ جانور یا اس کی قیمت صدقہ کرے۔
(بہارشریعت ، جلد 3 ، حصہ 15 ، صفحہ 339 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)
گزشتہ سالوں کی قربانی کی نیت سے حصہ ڈالا تو اس کے متعلق بہارِ شریعت میں ہی ہے:
”شرکا میں سے ایک کی نیت اس سال کی قربانی ہے اور باقیوں کی نیت سال گزشتہ کی قربانی ہے ، تو جس کی اس سال کی نیت ہے اوس کی قربانی صحیح ہے اور باقیوں کی نیت باطل ، کیونکہ سال گزشتہ کی قربانی اس سال نہیں ہوسکتی ۔ ان لوگوں کی یہ قربانی تطوّع یعنی نفل ہوئی اور ان لوگوں پر لازم ہے کہ گوشت کو صدقہ کر دیں ،بلکہ ان کا ساتھی جس کی قربانی صحیح ہوئی ہے ، وہ بھی گوشت صدقہ کر دے۔ “
(بہار شریعت،جلد3،حصہ15 ،صفحہ343،مکتبۃ المدینہ،کراچی)