قراءت میں غلطی سے نماز فاسد ہونے سے متعلق ایک اہم اصول اور حکم

سوال:  کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  گزشتہ رات امام صاحب نے نمازِ مغرب پڑھاتے ہوئے قراءت میں غلطی کی ۔انہوں نے آیاتِ مبارکہ﴿وَ اِلَی الْجِبَالِ کَیۡفَ نُصِبَتْ  وَ اِلَی الْاَرْضِ کَیۡفَ سُطِحَتْ﴾میں’’ نُصِبَتْ ‘‘ کی جگہ ’’سُطِحَتْ ‘‘اور ’’سُطِحَتْ ‘‘ کی جگہ’’ نُصِبَتْ ‘‘پڑھ دیا ،پھر بعد میں  جب ان کو یہ بات بتائی گئی ،تو انہوں نے  اعلان کیا کہ ہماری نماز فاسد ہوگئی ہے،لہٰذا انہوں نے وہ نماز دوبارہ پڑھائی ۔پوچھنا یہ ہے کہ کیا واقعی اس صورت میں نماز فاسد ہوگئی تھی ؟

جواب:  جی ہاں ! پوچھی گئی صورت میں واقعی نماز فاسد ہوگئی تھی ،لہٰذا امام صاحب کا اس نماز کو دوبارہ پڑھانا بالکل درست ہے۔

   مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کسی نے نماز میں غلطی سے ایک کلمہ کی جگہ دوسراکلمہ پڑھ لیا اور وہ دونوں کلمے ایسے ہوں کہ جن کا معنیٰ ایک دوسرے کے موافق یا قریب قریب نہ ہو یعنی دوسرے کلمے کا معنیٰ پہلے سے بعید  ہواور دوسرا کلمہ قرآن کریم میں بھی موجود ہو، تو اس میں  طرفین(امام اعظم ابو حنیفہ و امام محمد رحمۃ اللہ علیہما ) اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کا اختلاف ہے۔ امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے نزدیک اس صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی، کیونکہ  ان کے نزدیک جب دونوں کلموں کے معنیٰ میں بہت زیادہ تغیر واقع نہ ہوا ہو ،اس وقت نماز فاسد نہ ہونے کے لیے اس کی مثل کلمہ کا قرآن کریم میں پایا جانا  کافی ہے،اگرچہ دونوں کے معنیٰ میں موافقت نہ ہو، جبکہ طرفین کے نزدیک اس صورت میں  نماز فاسد ہوجائےگی ، کیونکہ طرفین کے نزدیک دونوں کلموں کے معنیٰ ومفہوم میں موافقت و مناسبت ہونا  ضروری ہے ،اگرچہ تغیر فاحش نہ ہو ،یہی قول مختار و احوط ہے ۔

   لہٰذا پوچھی گئی صورت میں فسادِ نماز کا حکم دیا جائے گا ،کیونکہ کلمہ ’’ نُصِبَتْ ‘‘اور’’ سُطِحَتْ ‘‘کے معنیٰ و مفہوم میں بھی موافقت و مناسبت موجود نہیں ہے کہ’’ نُصِبَتْ ‘‘ نصب سے ہے ،جس کا معنیٰ ہے :”کسی چیز کو اس طرح رکھنا یا گاڑناکہ اس کا کچھ حصہ ابھرا ہوا رہے“ جبکہ’’ سُطِحَتْ ‘‘سطح سے ہے جس  کا معنیٰ :” کسی چیز کو چھت کی طرح برابر کردینا“ہے ،اسی لیے فقہائے کرام علیہم الرحمۃ  نے خاص اس صورت کے متعلق صراحتاًفسادِ نماز کا حکم ارشاد فرمایا  ہے۔

   اگر کسی نے نماز میں غلطی سے ایک کلمہ کی جگہ دوسراکلمہ پڑھ لیا اور ان دو کلموں کا معنیٰ و مفہوم باہم قریب قریب نہ ہو اور دوسرا کلمہ بھی قرآن کریم میں موجود ہو،توامام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے نزدیک اس صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی، جبکہ طرفین کے نزدیک فاسد ہوجائےگی،چنانچہ  غنیۃ المتملی میں ہے :”و ان لم تتقاربا و المبدلۃ فی القرآن تفسد علیٰ قیاس قولھماو لا تفسد علیٰ قیاس قول ابی یوسف “ترجمہ:اور اگر ان دونوں کلموں کا معنیٰ قریب قریب نہ ہو اور جس لفظ سے بدلا گیا وہ قرآن میں موجود ہو، تو طرفین کے قول کے قیاس کے مطابق نماز فاسد ہوجائے گی  اور امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے قول کے مطابق فاسد نہیں ہوگی ۔(غنیۃ المتملی،ص 488،مطبوعہ کوئٹہ)

   اس اختلاف کی وجہ طرفین و امام ابو یوسف علیہم الرحمۃ  کے  فسادِ نماز کے متعلق اصول کا مختلف ہونا ہے  اور احوط طرفین کا قول ہے ،چنانچہ رد المحتار میں ہے :” والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیّر المعنی تغییراً یکون اعتقادہ کفراً یفسد فی جمیع ذلک، سواء کان فی القرآن أو لا إلا ما کان من  تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تامّ وان لم یکن التغییر کذلک، فان لم یکن مثلہ فی القرآن والمعنی بعید متغیر تغیراً فاحشاً یفسد أیضاً کھذا الغبار مکان الغراب، وکذا إذا لم یکن مثلہ فی القرآن ولا معنی لہ کالسرائل باللام مکان السرائر، وان کان مثلہ فی القرآن والمعنی بعید ولم یکن متغیراً فاحشاً تفسد أیضاً عند ابی حنیفۃ و محمد، وھو الاحوط، وقال بعض المشائخ:لا تفسد لعموم البلوی، وھو قول أبی یوسف، وان لم یکن مثلہ فی القرآن ولکن لم یتغیر بہ المعنی نحو قیّامین مکان قوّامین فالخلاف علی العکس فالمعتبر فی عدم الفساد عند  عدم تغیر المعنی کثیراً وجود المثل فی القرآن عندہ والموافقۃ فی المعنی عندھما، فھذہ قواعد الائمۃ المتقدمین“  ترجمہ:اور متقدمین کے نزدیک قاعدہ یہ ہے کہ جو معنی کو اتناتبدیل کردے کہ جس کا اعتقاد کفر ہو،تو تمام صورتوں میں نماز فاسد ہوجائے گی،چاہےوہ بدل قرآن میں ہو یا نہ ہو ،اِلَّا یہ کہ  وقف تام کے ذریعے جملوں میں فصل کر کے جو تبدیلی ہو، اور اگر تبدیلی ایسی نہ ہو، تو اگر اس بدل لفظ کا مثل قرآن میں نہ ہو اور معنی بعید ہو اور تبدیلی فاحش جیسےغراب کی جگہ غبار تو بھی نماز فاسد ہو جائے گی، اسی طرح (نماز فاسدہوگی) اگر قرآن میں اس کا مثل نہ ہو  اور  نہ ہی اس کا کوئی معنی ہو جیسے سرائر کی جگہ سرائل،اور اگر اس کی مثل قرآن میں ہو اور معنی بعید ہو اور تغیر فاحش نہ ہو، تو بھی طرفین کے نزدیک فاسد ہوجائے گی،اور یہ احوط ہے، اور بعض مشائخ نے فرمایا: عمومِ بلوی کی وجہ سے فاسد نہیں ہوگی، اور یہ امام یوسف کا قول ہے،اور اگر اس کی مثل قرآن میں نہ ہو لیکن معنی تبدیل نہ ہو جیسے قوامین کی جگہ قیامین تو اختلاف برعکس ہوگا۔تو معنی میں تغیر فاحش نہ ہونے کی صورت میں نماز فاسد نہ ہونے  کے لیے امام یوسف کے نزدیک اس کی مثل  قرآن میں ہونا معتبر ہے ،جبکہ طرفین کے نزدیک معنی میں موافقت  معتبر ہے، تو یہ ہیں ائمہ متقدمین  کے قواعد ۔(ردالمحتار،ج1،صفحہ630، 631، دار الفکر،بیروت)

   اسی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ”جد الممتار“ میں فرماتے ہیں :”انھما لا یعتبران وجود  المثل ،انما المدار عندھما الموافقۃ فی المعنٰی و قد حکما الفساد عند بعد المعنٰی مع عدم فحش التغیر ۔۔اما عند ابی یوسف فلان المدار عندہ وجود المثل ۔۔۔فتحصل ان معنی الضابطۃ من قولہ (و ان لم یکن التغیر کک الخ) عند الامام و محمد :ان کل زلۃ تفسد الا ما وافق فی المعنٰی کقیامین ۔۔و عند ابی یوسف ان کل زلۃ لا مثل لھا فی القرآن تفسد و الا لا ،الا ان یتغیر المعنٰی تغیرا فاحشا ،ملتقطاً “ترجمہ:بلا شبہ طرفین قرآن میں مثل کے پائے جانے کا اعتبار نہیں کرتے ،ان کے نزدیک تو معنیٰ میں موافقت کے ہونے ہی پر دار و مدار ہے  اور بلا شبہ طرفین نے معنٰی کے بعید ہونے کے وقت بھی نماز کے فاسد ہوجانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، اگرچہ بہت زیادہ معنیٰ میں تغیر واقع نہ ہوا  ہو ،رہا  امام  ابو یوسف علیہ الرحمۃ کا معاملہ، تو  ان کے  نزدیک قرآن  میں مثل  کے  پائے جانے پر دار ومدار ہے ،تو  حاصل کلام یہ نکلا کہ علامہ شامی علیہ الرحمۃ کے قول ” و ان لم یکن التغیر الخ“ سے  طرفین کے ضابطہ کا معنیٰ یہ ہے کہ قراءت کی ہر غلطی نماز کو فاسد کردے گی،مگر جو معنیٰ میں موافق ہو (وہ فاسد نہیں کرے گی)جیسے قوامین کی جگہ قیامین پڑھنا ۔اور امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے نزدیک ہر وہ غلطی جس کا مثل قرآن میں موجود نہ ہو ،نماز کو فاسد کردے گی ورنہ نہیں الا یہ کہ معنیٰ میں بہت زیادہ تغیر آجائے۔(جد الممتار علیٰ رد المحتار،ج03،حاشیۃ1353،ص 370،371،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   قولِ امام کے مختار ہونے کی تصریح کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ”فتاوٰی رضویہ“ میں فرماتے ہیں :”بحالتِ فسادِ معنی فسادِ نماز کا حکم مذکور ہمارے امام صاحب اور ان کے اتباع ائمہ متقدمین رضی اللہ عنھم اجمعین کا مذہب تھا اور وہی احوط و مختار ہے۔ اجلہ محققین نے اسی کی تصریح فرمائی ’’ومعلوم ان الفتوی متی اختلف وجب الرجوع الی القول الامام‘‘ (ترجمہ:اور یہ بات معلوم ہے کہ جب اختلاف ہو، تو امام اعظم علیہ الرحمۃ  کے قول کی طرف رجوع کرنا واجب ہے)۔“(فتاوٰی رضویہ،ج06، ص 431،432،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   ’’نُصِبَت‘‘ اور’’ سُطِحَت ‘‘ کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے علامہ راغب اصفہانی  علیہ الرحمۃ ” مفردات الفاظ القرآن“ میں فرماتے ہیں:”نصب الشیئ وضعہ وضعا ناتئا کنصب الرمح و البناء و الحجر ۔۔جعلت  لہ سطحا و سطحت المکان جعلتہ فی التسویۃ کسطح قال: و الی الارض کیف سطحت“ ترجمہ: نصب الشی کا مطلب ہے کسی چیز کو اس طرح رکھنا کہ اس کا کچھ حصہ ابھرا ہوا رہے، جیسے نیزے،عمارت اور پتھر کو گاڑا جاتا ہے۔۔۔کہاجاتا ہے میں نے اس کے لیے  سطح بنائی اور میں نے مکان کو مسطح کیا ،یہ اس وقت بولتے ہیں جب مکان کو اس طرح برابر کیا جائے، جیسے چھت ہوتی ہے ،اللہ پاک نے ارشاد فرمایا اور (کیا وہ نہیں دیکھتے) زمین کی طرف کہ کیسے اس کو بچھایا گیا ہے۔(مفردات الفاظ القرآن،کتاب السین و النون،ص248،513،مطبوعہ المکتبۃ العصریہ،بیروت)

   ’’نُصِبَت ‘‘ اور’’ سُطِحَت ‘‘کے معنیٰ و مفہوم میں موافقت نہ ہونے کے سبب فقہائےکرام علیہم الرحمۃ اجمعین نے خاص اسی صورت میں فسادِ نماز کا حکم ارشاد فرمایا ہے ،چنانچہ  غنیۃ المتملی اور فتاوٰی بزازیہ میں ہے،واللفظ للآخر :”ذکر کلمۃ مکان کلمۃ اخرٰی ان قرب المعنیٰ نحو الحکیم مکان العلیم او الفاجر مکان الاثیم لا الیٰ الجبال کیف سطحت مکان نصبت لا تفسد علیٰ قیاس قول الثانی وکذا مکان رفعت  وعلیٰ قولھما تفسد“ترجمہ:ایک کلمے کو دوسرے کی جگہ ذکر کرنا ،اگر دونوں کا معنی قریب قریب ہو (تو نماز فاسد نہ ہوگی)  جیسے  علیم کی جگہ حکیم اور اثیم کی جگہ فاجر پڑھا نہ کہ الی الجبال کیف نصبت کی جگہ سُطِحَت پڑھا۔ اسی طرح رفعت کی جگہ دوسرا کلمہ پڑھا (کہ اس صورت میں )امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق تو نماز فاسد نہیں ہوگی ،جبکہ امام اعظم و امام محمد رحمۃ اللہ علیھما کے قول کےمطابق نماز فاسد ہوجائے گی۔(غنیۃ المتملی،ص 488،مطبوعہ کوئٹہ)(الفتاوٰی البزازیۃ ،جلد 01،صفحہ 43،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   خلاصۃ الفتاوٰی میں ہے :”و لو قرأ  افلا ینظرون الی قولہ و الی الجبال کیف سطحت مکان نصبت فعلی قول ابی یوسف لا یفسد و کذا نصبت مکان سطحت و خلقت مکان رفعت و علی قولھما ینبغی ان یفسد“ ترجمہ: اور کسی شخص نے ’’افلا ینظرون ‘‘والی آیات کی قراءت کی  اور’’ نصبت ‘‘ کی جگہ ’’و الی الجبال کیف سطحت ‘‘پڑھ دیا ،تو امام ابو یوسف کے قول کے مطابق نماز فاسد نہیں ہوگی اور اسی طرح ’’سطحت‘‘  کی جگہ ’’نصبت ‘‘اور ’’رفعت ‘‘ کی جگہ ’’خلقت ‘‘ پڑھنے کا معاملہ ہے، جبکہ طرفین کے قول کے مطابق  مناسب یہی ہے کہ نماز فاسد ہوجائے  گی ۔(خلاصۃ الفتاوٰی ،ج 01،ص 115،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے