قضا نماز کے ہوتے ہوئے نوافل پڑھنے کا حکم‎

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جس بندے کے  فرائض باقی ہیں یعنی ان کی قضا اس کے ذمے ہے ، تو کیا اس کی سنتیں او ر نوافل قبول ہوں گے یا نہیں؟ اگر نہیں تو سنن ترمذی شریف کی حدیث کے مطابق قیامت والے دن فرائض کی کمی کو پورا کرنے کے لیے سنت اور نوافل کو کیوں لایا جائے گا؟
 
 
 جواب: اولاً شرعی  مسئلہ سمجھ لیں کہ اگر کسی کی  فرض نمازیں  باقی ہیں ، توحکم ہے کہ  انہیں جلد سے جلد ادا کرے اور حاجت کے کاموں کے علاوہ  فارغ اوقات میں قضا نمازیں پڑھتا رہے اور نوافل پڑھے یا نہ پڑھے اس حوالے سے شرعی حکم یہ ہے کہ سنن مؤکدہ تولازماً پڑھے گاکہ ان کی شریعت میں بہت تاکید آئی ہے ، حتی کہ جو شخص ان کو چھوڑنے کی عادت بنا لے ، وہ گنہگار و فاسق ہے۔ اس کے علاوہ سنن غیر مؤکدہ اور وہ نوافل جن کے بارے میں فضائل وارد ہوئے ہیں ، جیسے تہجد چاشت، اوابین  وغیرہ بھی پڑھ سکتا ہے اور ان سے ہٹ کر زائد نوافل پڑھنے کے بجائے اپنی قضا نمازیں ادا کرتا رہےکہ نوافل کے بجائے قضا نمازیں پڑھنا زیادہ اہم و ضروری ہے، کیونکہ نوافل نہ پڑھنے پر کچھ نہیں ہوگا ، لیکن قضا نمازیں ذمے پر باقی رہیں ، توآدمی  عذاب کا مستحق ہوگا۔

     تنویر الابصارو درمختار  میں ہے :”(ويجوز تأخير الفوائت) وان وجبت على الفور (لعذر السعی على العيال وفی الحوائج على الأصح)“یعنی فوت شدہ نمازوں  کی ادائیگی اگرچہ فوری طور پر واجب ہے ، لیکن عیال کی پرورش اور حاجت کے کاموں میں  سعی و کوشش کے عذر کی وجہ سے تاخیر جائز ہے  اصح قول کے مطابق۔

     علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں : ”أی ما يحتاجه لنفسه من جلب نفع ودفع ضره وأما النفل  فقال فی المضمرات: الاشتغال بقضاء الفوائت أولى وأهم من النوافل الا سنن المفروضة وصلاة الضحى وصلاة التسبيح والصلاة التی رويت فيها الأخبار اهـ ط أی كتحية المسجد والأربع قبل العصر والست بعد المغرب“یعنی انسان کو اپنی ذات کے لیے جس نفع کو حاصل کرنے کی اور جس نقصان کو اپنے سے دور کرنے کی حاجت ہے ، اس کے عذر سے تاخیر جائز ہے اور جہاں تک نفل کا معاملہ ہے ، تو مضمرات میں ہے کہ قضا نمازوں کی ادائیگی میں مشغول  ہونا یہ نوافل  پڑھنے سے زیادہ اہم و اَولی ہے ،  مگر یہ کہ فرضوں کی سنتیں اور چاشت کی نماز اور نمازتسبیح اور وہ نماز ، جس کے بارے میں اخبار وارد ہوئی ہیں یعنی تحیۃ المسجد اور عصرسے قبل والی چار رکعتیں اور مغرب کے بعد والی چھے رکعتیں( کہ ان کو پڑھنے میں حرج نہیں۔)(رد المحتارعلی الدر المختار ،جلد2،صفحہ646، مطبوعہ کوئٹہ)

     طحطاوی علی المراقی میں ہے :” والاشتغال بقضاء الفوائت أولى وأهم من النوافل الا السنة المعروفة وصلاة الضحى وصلاة التسبيح والصلاة التی وردت فی الأخبار فتلك بنية النفل وغيرها بنية القضاء كذا فی المضمرات عن الظهيرية وفتاوى الحجة ومراده بالسنة المعروفة المؤكدة وقوله وغيرها بنية القضاء مراده به أن ينوی القضاء اذا أراد فعل غير ما ذكر فانه الأولى بل المتعين“ترجمہ: قضا نمازوں کی ادائیگی میں مشغول  ہونا یہ نوافل  پڑھنے سے زیادہ اہم و اَولی ہے ، سوائے معروف سنتوں کے اور چاشت وتسبیح کی نماز کے اور اس نماز کے ، جس کے بارے میں اخبار وارد ہوئی ہیں ۔ یہ نمازیں نفل کی نیت سے پڑھے اور اس کے علاوہ قضا کی نیت سے پڑھے۔ ایسا ہی مضمرات میں ظہیریہ کے حوالے سے ہے اور فتاوی الحجۃ میں ہے : معروف سنتوں سے مراد مؤکدہ سنتیں ہیں اور یہ جو کہا کہ ” اس کے علاوہ قضا کی نیت سے پڑھے۔ “ تواس کا مطلب یہ ہے کہ ان مذکوره نمازوں کے علاوہ کوئی نماز پڑھنا چاہے ، تو قضا کی نیت کر لے ، کیونکہ یہ زیادہ اولی ہے ، بلکہ یہی متعین ہے۔(طحطاوی علی المراقی، صفحہ447، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

     سنن مؤکدہ کی اہمیت و شرعی حکم بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں :”سنتیں بعض مؤکدہ ہیں کہ شریعت میں اس پر تاکید آئی ، بلاعذر ایک بار بھی ترک کرے ، تو مستحقِ ملامت ہے اورترک کی عادت کرے ، تو فاسق، مردود الشہادۃ، مستحقِ نار ہے اور بعض ائمہ نے فرمایا کہ ”وہ گمراہ ٹھہرایا جائے گا اور گنہگار ہے اگرچہ اس کا  گناہ واجب کے ترک سے کم ہے۔“ تلویح میں ہے کہ اس کا ترک قریب حرام کے ہے، اس کا تارک مستحق ہے کہ معاذ اللہ! شفاعت سے محروم ہو جائے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا: ” جو میری سنت کو ترک کرے گا، اسے میری شفاعت نہ ملے گی۔“(بهار شریعت، جلد1، صفحہ662، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

     لہذا سنن مؤکدہ تو ہر صورت پڑھنی ہی پڑھنی ہیں اورایسا شخص اگر  سنن غیر مؤکدہ و نوافل پڑھے تو وہ مقبول ہیں یا نہیں ؟ تو اس حوالے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، صحابہ و اولیاء و مشائخ سے مروی ہونے والی روایات میں واضح طور پر بیان فرمایا گیا  ہے کہ جو شخص فرائض چھوڑ کر نوافل میں مشغول رہتا ہے ، اللہ عزوجل اس کے نوافل بھی قبول نہیں فرماتا ، ہاں اگر یہ شخص توبہ کر کے اپنی قضا نمازیں ادا کر لیتا ہے ،  تو اب اللہ عز وجل  سے امید ہے کہ اللہ عزوجل اس کے تمام نوافل بھی قبول فرما لے گا اور اس کو ثواب بھی عطا فرمائے گا۔

     سنن کبری للبیہقی ، شعب الایمان ، کنزالعمال وغیرہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: والنظم للاول” مثل المصلی كمثل التاجر لا يخلص له ربحه حتى يخلص له رأس ماله كذلك المصلی لا تقبل نافلته حتى يؤدی الفريضة“ترجمہ : نمازی کی مثال تاجر کی طرح ہےکہ اس کا نفع کھرا نہیں ہوتا ، جب تک وہ اپنا راس المال کھرا نہ کر لے ۔ یونہی نمازی کے نفل قبول نہیں ہوتے ، جب تک وہ اپنے فرائض نہ ادا کر لے۔(السنن الكبرى للبيهقی، جلد2، صفحہ541، دار الكتب العلمیہ، بيروت)

     یونہی رمضان شریف کے فرض روزوں کے بارے میں بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین مروی ہیں کہ جس کے ذمے فرض روزے ہیں ، وہ اگر نفلی روزے رکھے ، تو وہ نفلی روزے قبول نہ ہوں گے ، جب تک وہ اپنے فرض روزے پورے نہ کر لے ۔ چنانچہ مسند احمدو طبرانی اوسط  و جامع الصغیر (برمز حسن) میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ومن صام تطوعا وعليه من رمضان شیء لم يقضه فانه لا يتقبل منه حتى يصومه  “یعنی  جو نفلی روزہ رکھے اور اس پر رمضان کا کوئی روزہ باقی ہو ، جس کی اس نے قضا نہیں کی ، تو اس کا یہ نفلی روزہ قبول نہیں ہوگا ، جب تک وہ فرض روزہ نہ رکھ لے۔(مسند احمد، جلد14، صفحہ269، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

     امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے اس  موضوع کی کچھ روایات اپنے فتاوی میں بیان فرمائیں اور اس عنوان کی تشریح فرمائی ۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں :” شیطان کا بڑا دھوکا ہے کہ آدمی کو نیکی کے پردے میں ہلاک کرتا ہے۔ نادان سمجھتا ہی نہیں، نیک کام کررہا ہوں اور نہ جانا کہ نفل بے فرض نرے دھوکے کی ٹٹی (یعنی فریب ومغالطہ میں ڈالنے والی چیز)ہے، اس کے قبول کی امید تو مفقود اور اس کے ترک کا عذاب گردن پر موجود۔ اے عزیز! فرض خاص سلطانی قرض ہے اور نفل گویا تحفہ و نذرانہ۔ قرض نہ دیجیے اور بالائی بیکار تحفے بھیجیے ، وُہ قابلِ قبول ہوں گے ؟ خصوصاً اس شہنشاہ  غنی کی بارگاہ میں جو تمام جہان و جہانیاں سے بے نیاز ۔۔۔  لاجرم محمد بن المبارک بن الصباح اپنے جزءِ املا اور عثمان بن ابی شیبہ اپنی سنن اور ابو نعیم حلیۃ الاولیاء اور ہناد فوائد اور ابن جریر تہذیب الآثار میں عبد الرحمٰن بن سابط و زید و زبید پسرانِ حارث و مجاہد سے راوی: لما حضرابابکر الموتُ دعا عمر فقال اتق ﷲ یا عمر واعلم ان لہ عملا بالنھار لا یقبلہ باللیل و عملا باللیل لا یقبلہ بالنھار واعلم انہ لایقبل نافلۃ حتی تؤدی الفریضۃالحدیث۔یعنی جب خلیفۂ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم سیّد ناصدیقِ اکبر رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی نزع کا وقت ہوا ، امیر المومنین فاروق اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ کو بلا کر فرمایا: اے عمر !اﷲ سے ڈرنا اور جان لو کہ اﷲکے کچھ کام دن میں ہیں کہ انہیں رات میں کرو ، تو قبول نہ فرمائے گا اور کچھ کام رات میں کہ انہیں دن میں کرو ، تو مقبول نہ ہوں گے اور خبردار رہو کہ کوئی نفل قبول نہیں ہوتا ،  جب تک فرض ادا نہ کرلیا جائے ۔ الحدیث

     حضور پُر نور سیدنا غوث اعظم مولائے اکرم حضرت شیخ محی الملۃ و الدین ابو محمد عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی کتاب مستطاب فتوح الغیب شریف میں کیا کیا جگر شگاف مثالیں ایسے شخص کے لیے ارشاد فرمائی ہیں ، جو فرض چھوڑ کر نفل بجالائے۔ فرماتے ہیں: اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے کسی شخص کو بادشاہ اپنی خدمت کے لیے بلائے ۔ یہ وہاں تو حاضر نہ ہُوا اور اس کے غلام کی خدمتگاری میں موجود رہے ، پھر حضرت امیرالمومنین مولی المسلمین سید نا مولیٰ علی مرتضیٰ کرم اﷲتعالیٰ وجہہ سے اس کی مثال نقل فرمائی کہ جناب ارشاد فرماتے ہیں : ایسے شخص کا حال اس عورت کی طرح ہے ، جسے حمل رہا ۔ جب بچّہ ہونے کے دن قریب آئے ، اسقاط ہوگیا ۔ اب وہ نہ حا ملہ ہے نہ بچّہ والی۔ یعنی جب پُورے دنوں پر اگر اسقاط ہو ، تو محنت تو پُوری اٹھائی اور نتیجہ خاک نہیں کہ اگر بچہ ہوتا ، تو ثمرہ خود موجود تھا ۔ حمل باقی رہتا ، تو آگے امید لگی تھی ۔ اب نہ حمل نہ بچّہ، نہ اُمید نہ ثمرہ اور تکلیف وہی جھیلی ، جو بچّہ والی کو ہوتی۔ ایسے ہی اس نفل خیرات دینے والے کے پاس سے روپیہ تو اٹھا ، مگر جبکہ فرض چھوڑا ، یہ نفل بھی قبول نہ ہُوا ، تو خرچ کا خرچ ہوا اور حاصل کچھ نہی۔ اسی کتاب مبارک میں حضور مولیٰ رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ:فان اشتغل بالسنن والنوافل قبل الفرائض لم یقبل منہ واھین۔یعنی فرض چھوڑ کر سنّت و نفل میں مشغول ہوگا ، یہ قبول نہ ہوں گے اور خوار کیا جائے گا۔

     یُوں ہی شیخِ محقق مولانا عبدالحق محدّث دہلوی قدس سرہ نے اس کی شرح میں فرمایا کہ ترک آنچہ لازم و ضروری ست واہتمام بآنچہ نہ ضروری است از فائدہ عقل و خرد وراست چہ دفع ضرر اہم ست برعاقل از جلب نفع بلکہ بحقیقت نفع دریں صورت منتقی است۔لازم اور ضروری چیز کا ترک اور جو ضروری نہیں اس کاا ہتمام عقل وخرد میں فائدہ سے دُور ہے ، کیونکہ عاقل کے ہاں حصولِ نفع سے دفعِ ضرر اہم ہے ، بلکہ اس صورت میں نفع منتفی ہے۔

     حضرت شیخ الشیوخ امام شہاب الملۃ و الدین سُہروردی قدس سرہ العزیز عوارف شریف کے باب الثامن و الثلثین میں حضرت خواص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل فرماتے ہیں : ” بلغنا ان ﷲلایقبل نافلۃحتی یؤدی فریضۃ یقول ﷲتعالیٰ مثلکم کمثل العبد السوء بداء بالھدایۃ قبل قضاء الدین“ہمیں خبر پہنچی کہ اﷲعزّوجل کوئی نفل قبول نہیں فرماتا ، یہاں تک کہ فرض ادا کیا جائے۔ اﷲتعالیٰ ایسے لوگوں سے فرماتاہے :کہاوت تمہاری بد بندہ کی مانند ( یعنی تمہاری مثال اس برے بندے کی طرح ) ہے ، جو قرض ادا کرنے سے پہلے تحفہ پیش کرے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ178تا180، رضا فاؤنڈیشن ،لاهور)

     چونكہ یہ سوال اس شخص کے بارے میں تھا ، جو زکوۃ دینے کے بجائے نفلی صدقہ وخیرات کرتا رہتا تھا ، لہٰذا اسے سمجھاتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:” جب تک زکوٰۃ پُوری پُوری نہ ادا کرے ، ان افعال(یعنی نفلی خیرات و وقف وغیرہ)پر امیدِ ثواب و قبول نہیں۔۔۔۔  تجھے تو فکر کرنی تھی ، جس کے باعث عذابِ سلطانی  سےبھی نجات ملتی اور آج تک کہ یہ وقف ومسجد و خیرات بھی سب قبول ہوجا نے کی اُمید پڑتی۔۔۔  وہ نیک تدبیر یہی ہے کہ زکوٰۃ نہ دینے سے توبہ کیجیے ۔آج تک جتنی زکوٰۃ گردن پر ہے ، فوراً دل کی خوشی کے ساتھ اپنے رب کا حکم ماننے اور اسے راضی کرنے کو ادا کر دیجیے۔۔۔۔ ایسا کرتے ہی اب تک جس قدر خیرات دی ہے ، وقف کیا ہے، مسجد بنائی ہے، ان سب کی بھی مقبولی کی اُمید ہوگی کہ جس جُرم کے باعث یہ قابلِ قبول نہ تھے ، جب وہ زائل ہوگیا ، انہیں بھی باذن اﷲتعالیٰ شرفِ قبول حاصل ہوگیا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ182، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

     ترمذی شریف کی وہ حدیث پاک ، جس کی طرف سائل نے اشارہ کیا وہ یوں ہے :” فان انتقص من فريضته شیء قال الرب عز وجل: انظروا هل لعبدی من تطوع فيكمل بها ما انتقص من الفريضة ثم يكون سائر عمله على ذلك “ترجمہ: اگر بندے کے فرضوں میں کمی ہوگی تو رب تعالیٰ فرمائے گا کہ دیکھو  ! کیا میرے بندے کے پاس کچھ نفل ہیں ، ان سے فرض کی کمی پوری کردی جائے گی، پھر بقیہ اعمال اسی طرح ہوں گے۔(سنن ترمذی، جلد2، صفحہ270، مطبوعہ مصطفی البابی، مصر)

     اس حدیث میں جو نوافل سے فرضوں کی کمی پوری کرنے کا فرمایا گیا ، تو اس کے مختلف معانی علماء نے بیان فرمائے ہیں ۔ ایک معنی یہ ہے کہ فرضوں  میں  رکوع و سجود یا خشوع وخضوع وغیرہ کے اعتبار سے جو نقص آیا تھا ، وہ نوافل سے پورا کر دیا جائے گا اور ایک معنی اگرچہ یہ بھی بیان کیا گیا کہ جس نے فرض نہیں پڑھے ، اللہ عزوجل اس کی جگہ  نفل قبول فرما لے گا ، لیکن  یہ اللہ عزوجل کے فضل و رحمت کا بیان ہے نہ کہ عدل کا ۔ یعنی اگر اللہ عزوجل نے ایسے بندے پر فضل و رحمت  فرمایا ، تو اس کے نفلوں کو فرضوں کی جگہ قبول فرما لے گا اور اگر ایسا نہ ہوا ، بلکہ عدل کا معاملہ فرمایا ، تو پھر اللہ عزوجل  چاہے گا  ، تو اسے فرض چھوڑنے کے گناہ پر عذاب فرمائے گا۔

     حلیۃ الاولیاء کی ایک روایت سے اس کی تشریح ہوتی ہے ۔ چنانچہ اس  میں ہے کہ حضرت سفیان ثوری رضی اللہ تعالی نے حضرت علی بن حسن رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ روایت پڑھی(جس کا کچھ حصہ یہ ہے):” وأنه يحاسب العبد يوم القيامة بالفرائض  فان جاء بها تامة قبلت فرائضه ونوافله  وان لم يؤدها وأضاعها لحقت النوافل بالفرائض  فان شاء غفر له  وان شاء عذبه“یعنی بروز قیامت بندے سے فرائض کا حساب لیا جائے گا، اگر وہ مکمل  فرائض لایا  ، تو اس کے فرائض اور نوافل قبول کر لیے جائیں گے اور اگر اس نے فرائض ادا نہ کیے تھے ، بلکہ انہیں ضائع کیا تھا ، تو نوافل فرائض سے ملائے جائیں گے ، پھر اللہ چاہے ، تو اسے بخش دے اور چاہے ، تو اسے عذاب فرمائے۔( حلیۃالأولياء، جلد7، صفحہ35، مطبوعہ دار الکتاب العربی، بیروت)

     یونہی علامہ ابن رجب حنبلی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :”ان الله اذا شاء أن يغفر لعبد أكمل فرائضه من نوافله وذلك فضل من عنده يفعله مع من يشاء أن يرحمه ولا يعذبه“ترجمہ:  اللہ عز وجل جب اپنے بندے کی مغفرت کرنا چاہتا ہے ، تو اس کے فرائض کو اس کے نوافل سے پورا فرما دیتا ہے  اور یہ اس کاذاتی  فضل ہے ۔ وہ جس پر رحم کر کے اسے عذاب سے بچانا چاہے ، اس کے ساتھ یہ فضل فرماتا ہے۔   (فتح الباری لابن رجب، جلد5، صفحہ145، مكتبۃالغرباءالأثریۃ، المدینۃ المنورۃ)

     لہٰذا جس شخص  پر قضا نمازیں ہوں ، اسے اس روایت کو بنیاد بنا کر نوافل کی کثرت  کے بجائے اوپر والی روایات کو بھی مد نظر رکھتے  ہوئے زائد نوافل کی جگہ زیادہ سے زیادہ قضا نمازیں پڑھنی چاہیے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

کیا رات میں تنہا نفل پڑھنے والا بلند آواز سے قراءت کر سکتا ہے؟

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے