سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک اسلامی بہن کو مہینے کے آخر میں سیلری ملے گی، لیکن وہ ابھی ادھار لے کر زکوٰۃ ادا کرنا چاہتی ہے، پھر جیسے ہی اس کی سیلری آئے گی تو وہ ادھار واپس کردے گی۔
آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس صورت میں وہ اسلامی بہن دھار لے کر زکوٰۃ ادا کرسکتی ہے؟؟رہنمائی فرمادیں۔
جواب: جی ہاں! پوچھی گئی صورت میں مذکورہ خاتون قرض کو وقت پر ادا کرنے پر قادر ہے تو ادھار لے کر زکوٰۃ ادا کرسکتی ہے، شرعاً اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔
چنانچہ علامہ شامی علیہ الرحمہ ردالمحتارمیں لکھتے ہیں:”ولو لم يكن عنده مال فأراد أن يستقرض لأداء الزكاة إن كان أكبر رأيه أنه يقدر على قضائه فالأفضل الاستقراض وإلا فلا لأن خصومة صاحب الدين أشد۔“ یعنی اگرزکٰوۃ کی ادائیگی کے لیے مال نہیں ہواور یہ چاہتاہے کہ قرض لے کر اداکرے ۔تواگرغالب گمان قرض اداہوجانے کاہے توبہتریہ ہے کہ قرض لے کر اداکرے ورنہ نہیں اس لیے کہ قرض خواہ کااپنے حق کے لیے جھگڑاکرنازیادہ سخت ہوتاہے۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الزکاۃ، ج 03، ص 228، مطبوعہ کوئٹہ)
بہارِ شریعت میں ہے:” اگر (زکاۃ)نہ دی تھی اور اب دینا چاہتا ہے، مگر مال نہیں جس سے ادا کرے اور یہ چاہتا ہے کہ قرض لے کر ادا کرے تو اگر غالب گمان قرض ادا ہو جانے کا ہے تو بہتر یہ ہے کہ قرض لے کر ادا کرے ورنہ نہیں کہ حق العبد حق اﷲ سے سخت تر ہے۔“ (بہار شریعت،ج01، ص891-890، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملخصاً)
فتاویٰ اہلسنت کتاب الزکوٰۃ میں ہے:”(صورتِ مسئولہ میں) شوہر یا بہن سے قرض لے کر زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے۔ البتہ قرض اسی صورت میں لیا جائے جب قرض ادا کرنا، ممکن ہو۔“(فتاویٰ اہلسنت کتاب الزکوٰۃ، ص 179، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم