پُختہ مزار اور قُبّہ بنانا
سوال:قبروں پرمزارات بناناکیسا ہے؟
جواب: انبیاءِ کرامعَـلَـيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَاماورمشائخ و علماء واولیاءِ عِظام عَلَیْہِمُ الرَّحْمَۃُ کی قبروں پر مزار بنایاجاسکتاہے شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں۔ علامہ اسمٰعیل حقی رَحْمَةُ اللهِ تَعَالٰی عَلَيْهِ قرآنِ کریم کی آیت(اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ) (پ۱۰،التوبة:۱۸) کے تحت فرماتے ہیں:’’علماء اوراولیاء صالحین کی قبروں پر عمارت بنانا جائز کام ہے جبکہ اس سے مقصود ہولوگوں کی نگاہوں میں عظمت پیداکرناکہ لوگ اس قبر والے کوحقیر نہ جانیں۔‘‘[1]
علامہ ابنِ عابدین شامی رَحْمَةُ اللهِ تَعَالٰی عَلَيْهِ فرماتے ہیں:’’اگرمیّت مشائخ اورعلماء اورساداتِ کرام میں سے ہو تواس کی قبر پر عمارت بنانامکروہ نہیں ہے۔‘‘[2]
سوال:کیا یہ کام صرف پاک وہند میں ہوتا ہے ؟
جواب: اَلْـحَمْـدُ لـِلّٰـهِ عَزَّوَجَلَّپوری دنیا میں اولیاءِ کرام کے مزارات و مَقابر صدیوں سے موجود ہیں جو سلف صالحین کے عمل پر شاہد ہیں۔خود ہمارے پیارے آقا و مولیٰ محمد مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کے روضۂ مبارکہ پر سبز سبز گنبد قائم ہے اس سے بڑھ کر جواز کی اور کیا دلیل چاہئے علماء و صُلحاء صدیوں سے وہاں حاضر ہوتے ہیں اور ان کے سامنے یہ گنبد بنا ہوا ہے جو بلا شبہ جواز کی دلیل ہے بعض نادان مسلمانوں کے ذہنوں میں بد مذہب اس حوالے سے شُبہات و وَساوِس ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تَعَالٰی ان سے مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔
سوال:کیا قبر کو پختہ بنا سکتے ہیں؟
جواب:میّت کے ساتھ قبر کے متّصل حصے کو پختہ کرنا مکروہ ہے۔ اگر قبر باہر سے پختہ اور اندر سے کچی ہوتو اس میں حرج نہیں۔
سوال:کیا قبر پر نشانی کے لئے کَتَبَہ یا پتھر وغیرہ لگا سکتے ہیں؟
جواب:مسلمانوں کا اپنے عزیز و اَقارب کی قبرو ں پر نشانی و پہچان کیلئے کَتَبَہ لگانا جائز ہے۔
حدیثِ مبارک:ابوداؤد کی روایت ہے کہ’’جب حضو ر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے حضرت عثمان بن مظعون رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دفن فرمایا تو ان کی قبر کے سِرہانے ایک پتھر نصب فرمایا اور فرمایا کہ میں اس ( پتھر)سے اپنے بھائی کو جانتا رہوں گا اور انکی قبر کے ساتھ میرے گھروالوں میں سے جن کا انتقال ہوگا انہیں دفن کروں گا۔‘‘[3]
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ قبر پر یادداشت کیلئے پتھر لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ہاں عام قبور پر لگائے گئے کَتَبَہ پر کوئی مُقدَّس کلام نہیں لکھنا چاہئے کہ کہیں بے ادبی نہ ہو جبکہ مزارات پر عموماً عمارت ہوتی ہے جس سے بے ادبی کا اندیشہ بھی نہیں ہوتا۔لہٰذا جہاں حفاظت کا اچھا انتظام ہو وہاں کَتَبَہ پر کوئی مُقدَّس کلام لکھنے میں بھی حرج نہیں ۔ (بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنت،حصہ دوم،صفحہ ۱۰۳،۱۰۴)
[1] ۔۔۔۔ روح البیان، التوبة، تحت ا لآية ۱۸،۳ / ۴۰۰۔
[2] ۔۔۔۔ ردالمحتار، کتاب الصلاة، مطلب فی دفن المیت، ۳ / ۱۷۰ ۔
[3] ۔۔۔۔ ابوداود،کتاب الجنائز، باب فی جمع الموتی فی قبر، ۳ / ۲۸۵،حدیث:۳۲۰۶