سوال:مزیدیہ بھی کہ کیااونٹ کاگوشت کھانے کے بعد وضو کرنالازم ہے؟اگر لازم نہیں تو ان روایات کا کیا جواب ہوگا ؟
’’عن جابر ابن سمرۃ ان رجلا سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتوضاء من لحوم الغنم قال ان شئت فتوضاء وان شئت فلا تتوضاء قال انتوضاء من لحوم الابل قال نعم۔۔۔الخ ‘‘
ترجمہ:حضرت جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے پوچھا کہ کیاہم بکری کاگوشت کھانے کے بعد وضو کریں؟توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایااگرتم چاہوتووضو کرلواوراگرچاہو تو نہ کرو،اس نے عرض کیاکہ ہم اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کریں؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا،ہاں ۔
اور’’عن البراء ابن عازب قال سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن الوضوء من لحوم الابل فقال توضئوا منھا وسئل عن الوضوء من لحوم الغنم فقال لا تتوضئوا منھا‘‘
ترجمہ:حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونٹ کاگوشت کھاکروضو کرنے کے متعلق پوچھاگیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایااسے کھانے کے بعدوضو کرو،اوربکری کاگوشت کھا کروضو کرنے کے بارے میں پوچھا گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایااسے کھاکر وضو نہ کرو۔
جواب:اونٹ کاگوشت کھانے کے بعد وضو کرنا لازم نہیں بلکہ مستحب ہے۔
اورسوال میں مذکوراحادیث مبارکہ کے بارے میں علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یاتووہ احادیث منسوخ ہیں یاان سے لغوی وضو(یعنی ہاتھ منہ دھونا)مرادہے وگرنہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا عمل اسکے خلاف نہ ہوتا۔
اونٹ کاگوشت کھانے کے بعد وضوکے مستحب ہونے کے بارے میں علامہ شیخ حسن بن عمار بن علی شرنبلالی رضی اللہ عنہ تحریرفرماتے ہیں:’’وبعد اکل لحم جزور‘‘ ترجمہ:’’ اور اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد بھی وضو کرنا مستحب ہے۔‘‘(مراقی الفلاح شرح نورالایضاح مع طحطاوی، ص85)
بہارِشریعت میں ہے:’’اوراونٹ کاگوشت کھانے(کے بعد)۔۔۔۔وضو مستحب ہے ۔‘‘ ( بہار شریعت ، حصہ دوم، ج1،ص302)
اورسوال میں مذکورجابربن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی روایت کے تحت امام محی الدین ابوزکریایحیٰ بن شرف نووی علیہ رحمۃ اللہ الوالی تحریرفرماتے ہیں:’’فاختلف العلماء فی اکل لحم جزور فذہب الاکثرون الیٰ انہ لا ینقض الوضوء ممن ذہب الیہ الخلفاء الاربعۃ الراشدون ابو بکر وعمر وعثمان و علی وابن مسعود وابی بن کعب وابن عباس وابو الدرداء وابوطلحۃ وعامر بن ربیعہ وابوامامہ وجماہیر التابعین ومالک وابوحنیفۃ والشافعی واصحابہم ۔۔۔۔۔۔وقد اجاب الجمھور عن ھذا الحدیث بحدیث جابر کان آخرالامرین من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ترک الوضوء مما مست النار‘‘
ترجمہ:’’اونٹ کاگوشت کھانے سے وضوٹوٹنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے،اکثر علماء اس بات کی طرف گئے ہیں کہ یہ وضونہیں توڑتاوہ علماء جن کایہ مذہب ہے ان میں سے چندایک کے نام یہ ہیں چاروں خلفائے راشدین( یعنی)حضرت ابوبکراورحضرت عمراورحضرت عثمان اورحضرت علی اور حضرت عبداللہ ابن مسعوداورحضرت ابی بن کعب اورحضرت عبداللہ ابن عباس اورحضرت ابودرداء اورحضرت ابوطلحہ اورحضرت عامربن ربیعہ اورحضرت ابوامامہ اوراکثر تابعین اورامام مالک اورامام ابوحنیفہ اورامام شافعی اوران کے اصحاب رضی اللہ عنھم اجمعین،اورجمہور نے اس روایت کاجواب حدیث جابر سے دیاکہ سرکار علیہ السلام کاآخری عمل یہ تھاکہ ان چیزوں کے تناول فرمانے کے بعد کہ جن کو آگ نے پکایا آپ وضو نہ فرماتے‘‘۔
(شرح النووی علی المسلم،کتاب الحیض،باب الوضوء من لحوم الابل،ج1،ص158)
ملاعلی قاری علیہ رحمۃ اللہ القوی مذکورہ حدیث کے تحت یوں تحریرفرماتے ہیں:’’المراد منہ غسل الیدین والفم لما فی لحم الابل من رائحۃ کریھۃ ودسومۃ غلیظۃ بخلاف لحم الغنم او منسوخ بحدیث جابر‘‘
ترجمہ:’’اونٹ کا گوشت کھانے کے بعدوضو کرنے سے دونوں ہاتھوں اور منہ کا دھونا مراد ہے کیونکہ اونٹ کے گوشت میں ناپسندیدہ بو اورسخت چکناہٹ ہوتی ہے یا وہ روایت حدیث جابر سے منسوخ ہے ۔ ‘‘
(مرقاۃ المفاتیح،باب مایوجب الوضوئ،الفصل الاول،ج2،ص29)
عارف باللہ،شیخ محقق،حضرت مولاناشاہ عبدالحق محدث دہلوی،جابربن سمرہ والی روایت کے تحت کچھ یوں لکھتے ہیں:
’’تین ائمہ(امام ابوحنیفہ،امام شافعی،امام مالک رضی اللہ عنھم)کے نزدیک یہ حدیث منسوخ ہے یاوضوسے اس کالغوی معنیٰ(ہاتھ منہ دھونا)مرادہے۔پھرسوال جواب کی صورت میں لکھتے ہیں:’’لغوی معنیٰ کی صورت میں اونٹ کے گوشت اوربکری کے گوشت میں کیافرق ہے؟جبکہ چکناہٹ جووضو کاسبب ہے دونوں میں موجودہے لہذااونٹ کے گوشت سے تووضو لازم ہوجائے مگربکری کاگوشت کھانے سے وضولازم نہ ہوحالانکہ علت دونوں میں مشترک ہے اس کی کیاوجہ ہے؟ہم کہتے ہیں ہوسکتا ہے کہ اونٹ کاگوشت کھانے سے وضو کرنے کاحکم اس لئے ہوکہ اونٹ کے گوشت میں قدرے بدبوپائی جاتی ہے مگربکری کے گوشت میں بدبونہیں ہوتی۔
(اشعۃاللمعات مترجم،کتاب الطھارۃ، باب ما یوجب الوضوئ، ج1،ص553)
ڈاکٹر وہبہ زحیلی حضرت براء بن عازب والی روایت کے جواب میں کچھ یوں لکھتے ہیں:
’’وقال الجمھور ۔۔۔لا ینقض الوضوء باکل لحم الجزور ،لما رواہ جابر قال:کان آخر الامرین من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ترک الوضوء مما مست النار ،ولانہ ماکول کسائر الماکولات ‘‘
ترجمہ:’’جمہورعلماء فرماتے ہیں کہ اونٹ کاگوشت کھانے سے وضونہیں ٹوٹتاکیونکہ حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ سرکار علیہ السلام کاآخری عمل یہ تھاکہ ان چیزوں کے تناول فرمانے کے بعدکہ جن کو آگ نے پکایاآپ وضونہ فرماتے۔نیزدوسری بات یہ بھی ہے کہ اونٹ کاگوشت بھی تودیگرکھائی جانیوالی چیزوں کی طرح ہے‘‘۔
(الفقہ الاسلامی وادلتہ،المطلب السابع نواقض الوضوء ،ج1،ص435)
اورامام ابوجعفراحمدبن محمدطحاوی(المتوفیٰ321ھ)اونٹ کے گوشت سے وضو ٹوٹنے والی روایات کے جواب میں کچھ یوں لکھتے ہیں :
’’فقالوالا یجب الوضوء للصلوٰۃ باکل شئی من ذلک وکان من الحجۃ لھم فی انہ قد یجوز ان یکون الوضوء الذی ارادہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ھو غسل الید ۔۔۔۔وقد روینا فی الباب الاول فی حدیث جابر ان آخر الامرین من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تر ک الوضوء مما غیرت النار فاذا کان ما تقدم منہ ھوالوضوء مما مست النار وفی ذٰلک لحوم الابل وغیرھا کان فی ترکہ ذٰلک ترک الوضوء من لحوم الابل ایضا، ۔۔۔واما من طریق النظر فانا قد رء ینا الابل والغنم سواء فی حل بیعھماوشرب لبنھما وطھارۃ لحومھما وانہ لا تفترق احکامھما فی شئی من ذٰلک فالنظر علی ذٰلک انھما فی اکل لحومھما سواء فکما کان لا وضوء فی اکل لحوم الغنم فکذٰلک لا وضوء فی اکل لحوم الابل ‘‘
ترجمہ:’’فقہاء فرماتے ہیں کہ کسی چیزکے بھی کھانے کی وجہ سے نمازکیلئے وضو کرنالازم نہیں ہوتا،وہ اپنی دلیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:ہوسکتاہے کہ سرکارعلیہ السلام کی مرادوضوسے ہاتھ دھوناہو،اورہم نے پہلے باب میں حدیث جابربیان کی ہے کہ سرکارعلیہ السلام کاآخری عمل یہ تھا کہ ان چیزوں کے تناول فرمانے کے بعد کہ جن کو آگ نے پکایا آپ وضو نہ فرماتے جبکہ اس سے پہلے آپ علیہ السلام کے بارے میں گزرا کہ جن کو آگ نے پکایا آپ علیہ السلام ان کے تناول کرنے کے بعد وضو فرماتے اور ان چیزوں میں اونٹ کا گوشت وغیرہ سب آتے تھے،چنانچہ جب آپ علیہ السلام نے ان چیزوں کے کھانے کے بعد وضو کرنا ترک فرمادیا تو اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد بھی وضو کرنا ترک فرمادیا،اور اگر ہم عقلی اعتبار سے بھی دیکھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اونٹ اور بکری اپنے خرید و فروخت کے حلال ہونے اور ان کا دودھ پینے کے حلال ہونے اور انکے گوشت کے پاک ہونے میں جب برا بر ہیں توعقل یہی کہتی ہے کہ وہ دونوں گوشت کے کھائے جانے کے حکم میں بھی برابر ہے پس جس طرح بکری کاگوشت کھانے کے بعدوضوکرنالازم نہیں اسی طرح اونٹ کاگوشت کھانے کے بعدبھی وضوکرنالازم نہیں۔
(شرح معانی الآثار،باب اکل ماغیرت النار ھل یوجب الوضوء ام لا،ج1،ص54)
امام محقق احمدبن ابراہیم المعروف شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،اونٹ کے گوشت سے وضوٹوٹنے والی روایات کے بارے میں کچھ یوں لکھتے ہیں:
’’وعندی انہ کان فی اول الاسلام ثم نسخ ‘‘
ترجمہ:’’میرے نزدیک اونٹ کے گوشت سے وضو ٹوٹنے والی روایات کا حکم اسلام کے شروع میں تھابعدمیں منسوخ ہوگیا تھا‘‘۔
(حجۃ اللہ البالغہ، موجبات الوضوئ، الوضوء من لحوم الابل ،ج1،ص504،قدیمی )
سوال میں مذکورروایات کے منسوخ ہونے یااس سے لغوی وضومرادہونے پردلیل،مندرجہ ذیل روایات بھی ہیں کہ جن میں اجل صحابہ کاعمل بیان کیاگیا ہے کہ اونٹ کے گوشت کے متعلق ان کاکیانظریہ تھا۔
’’عن ابی جعفر قال:اتی ابن مسعود بقصعۃ من الکبد والسنام ولحم الجزور فاکل ولم یتوضاء‘‘
ترجمہ:’’حضرت ابوجعفررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے پاس کلیجی اوراونٹ کی کوہان اوراونٹ کاگوشت لایا گیاتوآپ نے اسکوتناول فرمایا اور وضو نہ فرمایا۔
(السنن الکبریٰ ، کتاب الطھارۃ، باب التوضئی من لحوم الابل ،ج1،ص268)
اورامام حافظ ابوبکرعبداللہ بن محمدبن ابی شیبہ،اس بارے میں کئی ایک روایات ذکرکرتے ہیں:
’’عن یحیٰ بن قیس قال رء یت ابن عمر اکل لحم جزور شرب لبن الابل وصلی ولم یتوضاء‘‘
اور’’حدثنا حفص عن لیث عن طاؤس وعطاومجاھدانھم کانوا لا یتوضئوون من لحوم الابل والبانھا‘‘
اور’’عن ابی سبرۃ النخعی ان عمر ابن الخطاب اکل لحم جزور ثم قال فصلی ولم یتوضاء‘‘
اور’’عن عبد اللہ بن الحسن ان علیا اکل لحم جزور ثم صلی ولم یتوضاء ‘‘
اور’’عن رفاعۃ بن سلم قال رء یت سوید بن غفلۃ اکل لحم جزور ثم صلی ولم یتوضاء‘‘
اور’’عن ابراہیم قال: لیس فی لحم الابل والبقر والغنم وضوء ‘‘
ان سب روایات کامفہوم کچھ یوں بنتاہے کہ:حضرت ابن عمراورحضرت لیث اورحضرت طاؤس اورحضرت عطا اورحضرت مجاھداور حضرت فاروق اعظم اور حضرت علی اور حضرت سوید بن غفلۃ اور حضرت ابراہیم رضی اللہ عنھم اجمعین ان سب حضرات صحابہ اور تابعین کا نظریہ اور عمل یہی تھا کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور یہ حضرات خود بھی اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد نیاوضوکئے بغیر نماز ادافرمالیتے تھے ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ،من کان لا یتوضاء من لحم الابل،ج 1،ص 50,51)
(قربانی کے احکام از شیخ الحدیث مفتی عرفان احمد عطاری مدنی)