نمازکے فرائض

فرائض نماز

سات چیزیں نماز میں فرض ہیں:

(۱) تکبیر تحریمہ

(۲) قیام

(۳) قراء ت

(۴) رکوع

(۵) سجدہ

(۶) قعدہ اخیرہ

(۷) خروج بصنعہ ۔ [1](بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۵۰۶)

(۱) تکبیر تحریمہ:

حقیقۃً یہ شرائط نماز سے ہے مگر چونکہ افعال نماز سے اس کو بہت زیادہ اتصال ہے، اس وجہ سے فرائض نماز میں اس کا شمار ہوا۔

مسئلہ ۱: نماز کے شرائط یعنی طہارت و استقبال و ستر عورت و وقت۔ تکبیر تحریمہ کے ليے شرائط ہیں یعنی قبل ختم تکبیر ان شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، اگراللہ اکبر کہہ چکا اور کوئی شرط مفقود ہے، نماز نہ ہوگی۔ [2] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۲: جن نمازوں میں قیام فرض ہے، ان میں تکبیر تحریمہ کے ليے قیام فرض ہے، تو اگر بیٹھ کر اﷲ اکبر کہا پھر کھڑا ہوگیا، نماز شروع ہی نہ ہوئی۔ [3] (درمختار، عالمگیری)

مسئلہ ۳: امام کو رکوع میں پایا اور تکبیر تحریمہ کہتا ہوا رکوع میں گیا یعنی تکبیر اس وقت ختم کی کہ ہاتھ بڑھائے تو گھٹنے تک پہنچ جائے، نماز نہ ہوئی۔ [4] (عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۴: نفل کے ليے تکبیر تحریمہ رکوع میں کہی، نماز نہ ہوئی اور بیٹھ کر کہتا، تو ہو جاتی۔ [5] (ردالمحتار)

مسئلہ ۵: مقتدی نے لفظ اﷲ امام کے ساتھ کہا مگر اکبر کو امام سے پہلے ختم کر چکا، نماز نہ ہوئی۔[6] (درمختار)

مسئلہ ۶: امام کو رکوع میں پایا اور اللہ اکبر کھڑے ہو کر کہا مگر اس تکبیر سے تکبیر رکوع کی نیت کی، نماز شروع ہوگئی اور یہ نیت لغو ہے۔ [7] (درمختار)

مسئلہ ۷: امام سے پہلے تکبیر تحریمہ کہی، اگر اقتدا کی نیت ہے، نماز میں نہ آیا ورنہ شروع ہوگئی، مگر امام کی نماز میں شرکت نہ ہوئی، بلکہ اپنی الگ۔ [8] (عالمگیری)

مسئلہ ۸: امام کی تکبیر کا حال معلوم نہیں کہ کب کہی تو اگر غالب گمان ہے کہ امام سے پہلے کہی نہ ہوئی اور اگر غالب گمان ہے کہ امام سے پہلے نہیں کہی تو ہوگئی اور اگر کسی طرف غالب گمان نہ ہو، تو احتیاط یہ ہے کہ قطع کرے اور پھر سے تحریمہ باندھے۔[9](درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۹: جو شخص تکبیر کے تلفظ پر قادر نہ ہو مثلاً گونگا ہو یا کسی اور وجہ سے زبان بند ہو، اس پر تلفظ واجب نہیں، دل میں ارادہ کافی ہے۔[10] (درمختار)

مسئلہ ۱۰: اگر بطور تعجب اﷲ اکبر کہا یا مؤذن کے جواب میں کہا اور اسی تکبیر سے نماز شروع کر دی، نماز نہ ہوئی۔ [11] (درمختار)

مسئلہ ۱۱: اﷲ اکبر کی جگہ کوئی اور لفظ جو خالص تعظیم الٰہی کے الفاظ ہوں۔ مثلاً

اَللہُ اَجَلُّ یا اَللہُ اَعْظَمُ یا اَللہُ کَبِیْرٌ یا اَللہُ الْاَکْبَرُ یا اَللہُ الْکَبِیْرُ یا اَلرَّحْمٰنُ اَکْبَرُ یا اَللہُ اِلٰـہٌ یا لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ یا سُبْحَانَ اللہُ یا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ یا لَا اِلٰـہَ غَیْرُہٗ یا تَبَارَکَ اللہُ وغيرہا[12]الفاظ تعظیمی کہے، تو ان سے بھی ابتدا ہوجائے گی مگر یہ تبدیل مکروہ تحریمی ہے۔ اور اگر دُعا یا طلب حاجت کے لفظ ہوں۔ مثلاً

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ، اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ ، اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ وغیرہا الفاظ دُعا کہے تو نماز منعقد نہ ہوئی۔ یوہیں اگر صرف اکبر یا اجلّ کہا اس کے ساتھ لفظ اَللہُ نہ ملایا جب بھی نہ ہوئی۔

یوہیں اگر اَسْتَغْفِرُ اللہَ یا اَعُوْذُ بِاللہِ یا اِنَّا لِلّٰہِ یا لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ یا مَاشَاءَ اللہُ کَانَ یا بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کہا، تو منعقد نہ ہوئی اور اگر صرف اَللہُ کہا یا یَا اَللہُ یا اَللّٰھُمَّ کہا ہو جائے گی۔[13] (درمختار، ردالمحتار، عالمگیری)

مسئلہ ۱۲: لفظ اَللہُ کو اٰللہُ یا اَکْبَرْ کو اٰکْبَرْ یا اَکْبَارْ کہا، نماز نہ ہوگی بلکہ اگر اُن کے معانی فاسدہ سمجھ کر قصداً کہے، تو کافر ہے۔[14] (درمختار)

مسئلہ ۱۳: پہلی رکعت کا رکوع مل گیا، تو تکبیر اولیٰ کی فضیلت پا گیا۔ [15] (عالمگیری) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۵۰۶تا ۵۰۸)

(۲) قیام:

قیام کمی کی جانب اس کی حد یہ ہے کہ ہاتھ پھیلائے تو گھٹنوں تک نہ پہنچیں اور پورا قیام یہ ہے کہ سیدھا کھڑا ہو۔ [16] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۴: قیام اتنی دیر تک ہے جتنی دیر قراء ت ہے، یعنی بقدرِ قراء ت فرض، قیام فرض اور بقدرِ واجب ،واجب اور بقدرِ سنت، سنت۔ [17] (درمختار) یہ حکم پہلی رکعت کے سوا اور رکعتوں کا ہے، رکعت اُولیٰ میں قیام فرض میں مقدار تکبیر تحریمہ بھی شامل ہوگی اور قیام مسنون میں مقدار ثنا و تعوذ و تسمیہ بھی۔ (رضا)

مسئلہ ۱۵: قیام و قراء ت کا واجب و سنت ہونا بایں معنی ہے کہ اس کے ترک پر ترک واجب و سنت کا حکم دیا جائے گا ورنہ بجا لانے میں جتنی دیر تک قیام کیا اور جو کچھ قراء ت کی سب فرض ہی ہے، فرض کا ثواب ملے گا۔ [18] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۶: فرض و وتر و عیدین و سنت فجر میں قیام فرض ہے کہ بلا عذر صحیح بیٹھ کر یہ نمازیں پڑھے گا، نہ ہوں گی۔[19] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۷: ایک پاؤں پر کھڑا ہونا یعنی دوسرے کو زمین سے اٹھالینا مکروہ تحریمی ہے۔ اور اگر عذر کی وجہ سے ایسا کیا تو حرج نہیں۔[20] (عالمگیری)

مسئلہ ۱۸: اگر قیام پر قادر ہے مگر سجدہ نہیں کر سکتا تو اسے بہتر یہ ہے کہ بیٹھ کر اشارے سے پڑھے اور کھڑے ہو کر بھی پڑھ سکتا ہے۔[21] (درمختار)

مسئلہ ۱۹: جو شخص سجدہ کر تو سکتا ہے مگر سجدہ کرنے سے زخم بہتا ہے، جب بھی اسے بیٹھ کر اشارے سے پڑھنا مستحب ہے اورکھڑے ہو کر اشارے سے پڑھنا بھی جائز ہے۔ [22] (درمختار)

مسئلہ ۲۰: جس شخص کو کھڑے ہونے سے قطرہ آتا ہے یا زخم بہتا ہے اور بیٹھنے سے نہیں تو اسے فرض ہے کہ بیٹھ کر پڑھے، اگر اور طور پر اس کی روک نہ کر سکے۔ یوہیں کھڑے ہونے سے چوتھائی ستر کُھل جائے گا یا قراءت بالکل نہ کر سکے گا تو بیٹھ کر پڑھے اور اگر کھڑے ہو کر کچھ بھی پڑھ سکتا ہے تو فرض ہے کہ جتنی پر قادر ہو کھڑے ہو کر پڑھے، باقی بيٹھ کر۔[23] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۲۱: اگر اتنا کمزور ہے کہ مسجد میں جماعت کے ليے جانے کے بعد کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکے گا اور گھر میں پڑھے تو کھڑا ہو کر پڑھ سکتا ہے تو گھر میں پڑھے، جماعت میسر ہو تو جماعت سے، ورنہ تنہا۔ [24] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۲۲: کھڑے ہونے سے محض کچھ تکلیف ہونا عذر نہیں، بلکہ قیام اس وقت ساقط ہوگا کہ کھڑا نہ ہو سکے یا سجدہ نہ کر سکے یا کھڑے ہونے یا سجدہ کرنے میں زخم بہتا ہے یا کھڑے ہونے میں قطرہ آتا ہے یا چوتھائی ستر کھلتا ہے یا قراء ت سے مجبور محض ہو جاتا ہے۔ یوہیں کھڑا ہو تو سکتا ہے مگر اس سے مرض میں زیادتی ہوتی ہے یا دیر میں اچھا ہوگا یا ناقابلِ برداشت تکلیف ہوگی، تو بیٹھ کر پڑھے۔ [25] (غنیہ)

مسئلہ ۲۳: اگر عصا یا خادم یا دیوار پر ٹیک لگا کر کھڑا ہو سکتا ہے، تو فرض ہے کہ کھڑا ہو کر پڑھے۔[26] (غنیہ)

مسئلہ ۲۴: اگر کچھ دیر بھی کھڑا ہو سکتا ہے، اگرچہ اتنا ہی کہ کھڑا ہو کر اﷲ اکبر کہہ لے، تو فرض ہے کہ کھڑا ہو کر اتنا کہہ لے پھر بیٹھ جائے۔[27] (غنیہ)

تنبیہ ضروری: آج کل عموماً یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ جہاں ذرا بخار آیا یا خفیف سی تکلیف ہوئی بیٹھ کر نماز شروع کر دی، حالانکہ وہی لوگ اسی حالت میں دس دس پندرہ پندرہ منٹ بلکہ زیادہ کھڑے ہو کر اِدھر اُدھر کی باتیں کر لیا کرتے ہیں، ان کو چاہیے کہ ان مسائل سے متنبہ ہوں اور جتنی نمازیں باوجود قدرت قیام بیٹھ کر پڑھی ہوں ان کا اعادہ فرض ہے۔ يوہيں اگر ویسے کھڑا نہ ہو سکتا تھا مگر عصا یا دیوار یا آدمی کے سہارے کھڑا ہونا ممکن تھا تو وہ نمازیں بھی نہ ہوئیں، ان کا پھیرنا فرض۔ اﷲ تعالٰیتوفیق عطا فرمائے۔

مسئلہ ۲۵: کشتی پر سوار ہے اور وہ چل رہی ہے، تو بیٹھ کر اس پر نماز پڑھ سکتا ہے۔ [28](غنیہ) یعنی جب کہ چکر آنے کا گمان غالب ہو اور کنارے پر اُتر نہ سکتا ہو۔(بہارِ شریعت،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۵۰۸تا۵۱۰)

(۳) قراء ت:

قراء ت اس کا نام ہے کہ تمام حروف مخارج سے ادا کيے جائیں ،کہ ہر حرف غیر سے صحیح طور پر ممتاز ہو جائے اور آہستہ پڑھنے میں بھی اتنا ہونا ضرور ہے کہ خود سنے، اگر حروف کی تصحیح تو کی مگر اس قدر آہستہ کہ خود نہ سنا اور کوئی مانع مثلاً شور و غل یا ثقل سماعت [29] بھی نہیں، تو نماز نہ ہوئی[30] ۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۲۶: یوہیں جس جگہ کچھ پڑھنا یا کہنا مقرر کیا گیا ہے، اس سے یہی مقصد ہے کہ کم سے کم اتنا ہو کہ خود سن سکے، مثلاً طلاق دینے، آزاد کرنے، جانور ذبح کرنے میں۔ [31] (عالمگیری)

مسئلہ ۲۷: مطلقاً ایک آیت پڑھنا فرض کی دو رکعتوں میں اور وتر و نوافل کی ہر رکعت میں امام و منفردپر فرض ہے۔ اور مقتدی کو کسی نماز میں قراء ت جائز نہیں، نہ فاتحہ، نہ آیت، نہ آہستہ کی نماز میں، نہ جہر کی میں۔ امام کی قراء ت مقتدی کے ليے بھی کافی ہے۔ [32] (عامۂ کتب)

مسئلہ ۲۸: فرض کی کسی رکعت میں قراء ت نہ کی يا فقط ایک میں کی، نماز فاسد ہوگئی۔[33] (عالمگیری)

مسئلہ ۲۹: چھوٹی آیت جس میں دو یا دو سے زائد کلمات ہوں پڑھ لینے سے فرض ادا ہو جائے گا اور اگر ایک ہی حرف کی آیت ہو جیسے صۤ، نۤ، قۤ، کہ بعض قراء توں میں ان کو آیت مانا ہے، تو اس کے پڑھنے سے فرض ادا نہ ہوگا، اگرچہ اس کی تکرار کرے[34]۔ (عالمگیری، ردالمحتار) رہی ایک کلمہ کی آیت مُدْہَآمَّتَانِ ۶۴ اس میں اختلاف ہے اور بچنے میں احتیاط۔ [35]

مسئلہ ۳۰: سورتوں کے شروع میں بسم اﷲ الرحمن الرحیم ایک پوری آیت ہے، مگر صرف اس کے پڑھنے سے فرض ادا نہ ہوگا۔[36](درمختار)

مسئلہ ۳۱: قراء ت شاذہ سے فرض ادا نہ ہوگا، یوہیں بجائے قراء ت آیت کی ہجے کی، نماز نہ ہوگی۔ [37] (درمختار)

(۴) رکوع:

اتنا جھکنا کہ ہاتھ بڑھائے تو گھٹنے کو پہنچ جائیں، یہ رکوع کا ادنیٰ درجہ ہے۔ [38] (درمختار وغيرہ) اور پورا یہ کہ پیٹھ سيدھی بچھاوے۔

مسئلہ ۳۲: کُوزہ پشت [39] کہ اس کا کُب حد رکوع کو پہنچ گیا ہو، رکوع کے ليے سر سے اشارہ کرے۔ [40] (عالمگیری) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۵۱۳)

(۵) سجود:

حدیث میں ہے: ”سب سے زیادہ قرب بندہ کو خدا سے اس حالت میں ہے کہ سجدہ میں ہو، لہٰذا دُعا زیادہ کرو۔”[41] اس حدیث کو مُسلِم نے ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت کیا۔ پیشانی کا زمین پر جمنا سجدہ کی حقیقت ہے اور پاؤں کی ایک انگلی کا پیٹ لگنا شرط۔ [42] تو اگر کسی نے اس طرح سجدہ کیا کہ دونوں پاؤں زمین سے اٹھے رہے، نماز نہ ہوئی بلکہ اگر صرف انگلی کی نوک زمین سے لگی، جب بھی نہ ہوئی اس مسئلہ سے بہت لوگ غافل ہیں۔[43] (درمختار، فتاویٰ رضویہ)

مسئلہ ۳۳: اگر کسی عذر کے سبب پیشانی زمین پر نہیں لگا سکتا، تو صرف ناک سے سجدہ کرے پھر بھی فقط ناک کی نوک لگنا کافی نہیں، بلکہ ناک کی ہڈی زمین پر لگنا ضرور ہے۔ [44] (عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۳۴: رخسارہ یا ٹھوڑی زمین پر لگانے سے سجدہ نہ ہوگا خواہ عذر کے سبب ہو یا بلاعذر، اگر عذر ہو تو اشارہ کا حکم ہے۔[45] (عالمگیری)

مسئلہ ۳۵: ہر رکعت میں دو بار سجدہ فرض ہے۔

مسئلہ ۳۶: کسی نرم چیز مثلاً گھاس، روئی، قالین وغیرہا پر سجدہ کیا تو اگر پیشانی جم گئی یعنی اتنی دبی کہ اب دبانے سے نہ دبے تو جائز ہے، ورنہ نہیں۔[46](عالمگیری) بعض جگہ جاڑوں میں مسجد میں پیال[47] بچھاتے ہیں، ان لوگوں کو سجدہ کرنے میں اس کا لحاظ بہت ضروری ہے کہ اگر پیشانی خوب نہ دبی، تو نماز ہی نہ ہوئی اور ناک ہڈی تک نہ دبی تو مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوئی، کمانی دار[48] گدّے پر سجدہ میں پیشانی خوب نہیں دبتی لہٰذا نماز نہ ہوگی، ریل کے بعض درجوں میں بعض گاڑیوں میں اسی قسم کے گدّے ہوتے ہیں اس گدّے سے اتر کر نماز پڑھنی چاہیے۔

مسئلہ ۳۷: دو پہیا گاڑی یکّہ وغیرہ پر سجدہ کیا تو اگر اس کا جُوا[49]یا بَم[50] بیل اور گھوڑے پر ہے، سجدہ نہ ہوا اور زمین پر رکھا ہے، تو ہوگیا۔ [51] (عالمگیری) بہلی کا کھٹولا[52] اگر بانوں سے بنا ہوا ہو تو اتنا سخت بنا ہو کہ سر ٹھہر جائے دبانے سے اب نہ دبے، ورنہ نہ ہوگی۔

مسئلہ ۳۸: جوار، باجرہ وغیرہ چھوٹے دانوں پر جن پر پیشانی نہ جمے، سجدہ نہ ہوگا البتہ اگر بوری وغیرہ میں خوب کس کر بھر دئیے گئے کہ پیشانی جمنے سے مانع نہ ہوں، تو ہو جائے گا۔ [53] (عالمگیری)

مسئلہ ۳۹: اگر کسی عذر مثلاً اژدہام[54] کی وجہ سے اپنی ران پر سجدہ کیا جائز ہے۔ اور بلاعذر باطل اور گھٹنے پر عذر و بلاعذر کسی حالت میں نہیں ہوسکتا۔[55](درمختار، عالمگیری)

مسئلہ ۴۰: اژدہام کی وجہ سے دوسرے کی پیٹھ پر سجدہ کیا اور وہ اس نماز میں اس کا شریک ہے، تو جائز ہے ورنہ ناجائز، خواہ وہ نماز ہی میں نہ ہو یا نماز میں تو ہے مگر اس کا شریک نہ ہو، یعنی دونوں اپنی اپنی پڑھتے ہوں۔ (عالمگیری وغیرہ)

مسئلہ ۴۱: ہتھیلی یا آستین یا عمامہ کے پیچ یا کسی اور کپڑے پر جسے پہنے ہوئے ہے سجدہ کیا اورنیچے کی جگہ ناپاک ہے تو سجدہ نہ ہوا، ہاں ان سب صورتوں میں جب کہ پھر پاک جگہ پر سجدہ کر لیا، تو ہوگیا۔[56] (منیہ، درمختار)

مسئلہ ۴۲: عمامہ کے پیچ پر سجدہ کیا اگر ماتھا خوب جم گیا، سجدہ ہوگیا اور ماتھا نہ جما بلکہ فقط چھو گیا کہ دبانے سے دبے گا یا سر کا کوئی حصہ لگا، تو نہ ہوا۔[57](درمختار)

مسئلہ ۴۳: ایسی جگہ سجدہ کیا کہ قدم کی بہ نسبت بارہ اونگل سے زیادہ اونچی ہے، سجدہ نہ ہوا، ورنہ ہوگیا۔ [58] (درمختار)

مسئلہ ۴۴: کسی چھوٹے پتھر پر سجدہ کیا، اگر زیادہ حصہ پیشانی کا لگ گیا ہوگیا، ورنہ نہیں۔ [59] (عالمگیری) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۵۱۳تا ۵۱۵)

(۶) قعدۂ اخیرہ:

نماز کی رکعتیں پوری کرنے کے بعد اتنی دیر تک بیٹھنا کہ پوری التحیات یعنی رسولہ تک پڑھ لی جائے، فرض ہے۔ [60]

مسئلہ ۴۵: چار رکعت پڑھنے کے بعد بیٹھا پھر یہ گمان کر کے کہ تین ہی ہوئیں کھڑا ہوگیا، پھر یاد کر کے کہ چار ہو چکیں بیٹھ گيا پھر سلام پھیر دیا، اگر دونوں بار کا بیٹھنا مجموعتہبقدر تشہد ہوگیا فرض ادا ہوگیا، ورنہ نہیں۔ [61](درمختار)

مسئلہ ۴۶: پورا قعدۂ اخیرہ سوتے میں گزر گیا بعد بیداری بقدر تشہد بیٹھنا فرض ہے، ورنہ نماز نہ ہوگی، یوہیں قیام، قراء ت، رکوع، سجود میں اوّل سے آخر تک سوتا ہی رہا، تو بعد بیداری ان کا اعادہ فرض ہے، ورنہ نماز نہ ہوگی اور سجدۂ سہو بھی کرے، لوگ اس میں غافل ہیں خصوصاً تراویح میں، خصوصاً گرمیوں میں۔ [62] (منیہ، ردالمحتار)

مسئلہ ۴۷: پوری رکعت سوتے میں پڑھ لی، تو نماز فاسد ہوگئی۔ [63] (درمختار)

مسئلہ ۴۸: چار رکعت والے فرض میں چوتھی رکعت کے بعد قعدہ نہ کیا، تو جب تک پانچویں کا سجدہ نہ کیا ہو بیٹھ جائے ور پانچویں کا سجدہ کر لیا یا فجر میں دوسری پر نہیں بیٹھا اور تیسری کا سجدہ کر لیا یا مغرب میں تیسری پر نہ بیٹھا اور چوتھی کا سجدہ کرلیا، تو ان سب صورتوں میں فرض باطل ہوگئے۔ مغرب کے سوا اور نمازوں میں ایک رکعت اور ملا لے۔ [64] (غنیہ)

مسئلہ ۴۹: بقدر تشہد بیٹھنے کے بعد یاد آیا کہ سجدۂ تلاوت یا نماز کا کوئی سجدہ کرنا ہے اور کر لیا تو فرض ہے کہ سجدہ کے بعد پھر بقدر تشہد بیٹھے، وہ پہلا قعدہ جاتا رہا قعدہ نہ کریگا، تو نماز نہ ہوگی۔ [65] (منیہ)

مسئلہ ۵۰: سجدۂ سہو کرنے سے پہلا قعدہ باطل نہ ہوا، مگر تشہد واجب ہے یعنی اگر سجدۂ سہو کر کے سلام پھیر دیا تو فرض ادا ہوگیا، مگر گناہ گار ہوا۔ اعادہ [66] واجب ہے۔[67] (ردالمحتار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۵۱۵، ۵۱۶)

(۷) خروج بصنعہ:

یعنی قعدۂ اخیرہ کے بعد سلام و کلام وغیرہ کوئی ایسا فعل جو منافی نماز ہو بقصد کرنا، مگر سلام کے علاوہ کوئی دوسرا منافی قصداً پایا گیا، تو نماز واجب الاعادہ ہوئی اور بلاقصد کوئی منافی پایا گیا تو نماز باطل۔ مثلاً بقدر تشہد بيٹھنے کے بعد تیمم والا پانی پر قادر ہوا، یا موزہ پر مسح کيے ہوئے تھا اور مدت پوری ہوگئی يا عمل قلیل کے ساتھ موزہ اتار دیا، یا بالکل بے پڑھا تھا اور کوئی آیت بے کسی کے پڑھائے محض سننے سے یاد ہوگئی يا ننگا تھا اب پاک کپڑا بقدر ستر کسی نے لا کر دے دیا جس سے نماز ہو سکے یعنی بقدر مانع اس میں نجاست نہ ہو، یا ہو تو اس کے پاس کوئی چیز ایسی ہے جس سے پاک کر سکے يا یہ بھی نہیں، مگر اس کپڑے کی چوتھائی یا زیادہ پاک ہے يا اشارہ سے پڑھ رہا ہے اب رکوع و سجود پر قادر ہوگیا يا صاحب ترتیب کو یاد آیا کہ اس سے پہلے کی نماز نہیں پڑھی ہے اگر وہ صاحب ترتیب امام ہے تو مقتدی کی بھی گئی يا امام کو حدث ہوا اور امّی کو خلیفہ کیا اور تشہد کے بعد خلیفہ کیا تو نماز ہوگئی يا نماز فجر میں آفتاب طلوع کر آیا يا نماز جمعہ میں عصر کا وقت آگیا يا عیدین میں نصف النہار شرعی ہوگیا يا پٹی پر مسح کيے ہوئے تھا اور زخم اچھا ہو کر وہ گر گئی يا صاحب عذر تھا اب عذر جاتا رہا یعنی اس وقت سے وہ حدث موقوف ہوا یہاں تک کہ اس کے بعد کا دوسرا وقت پورا خالی رہا يا نجس کپڑے میں نماز پڑھ رہا تھا اور اسے کوئی چیز مل گئی جس سے طہارت ہو سکتی ہے يا قضا پڑھ رہا تھا اور وقت مکروہ آگیا يا باندی سر کھولے نماز پڑھ رہی تھی اور آزاد ہو گئی اور فوراً سر نہ ڈھانکا، ان سب صورتوں میں نماز باطل ہوگئی۔ [68] (عامۂ کتب)

مسئلہ ۵۱: مقتدی اُمّی تھا اور امام قاری اور نماز میں اسے کوئی آیت یاد ہوگئی، تو نماز باطل نہ ہوگی۔[69] (درمختار)

مسئلہ ۵۲: قیام و رکوع و سجود و قعدۂ اخیرہ میں ترتیب فرض ہے، اگر قیام سے پہلے رکوع کر لیا پھر قیام کیا تو وہ رکوع جاتا رہا، اگر بعد قیام پھر رکوع کریگا نماز ہو جائیگی ورنہ نہیں۔ یوہیں رکوع سے پہلے، سجدہ کرنے کے بعد اگر رکوع پھر سجدہ کرلیا ہو جائے گی، ورنہ نہیں۔ [70] (ردالمحتار)

مسئلہ ۵۳: جو چیزیں فرض ہیں ان میں امام کی متابعت مقتدی پر فرض ہے یعنی ان میں کا کوئی فعل امام سے پیشتر ادا کر چکا اور امام کے ساتھ یا امام کے ادا کرنے کے بعد ادا نہ کیا، تو نماز نہ ہوگی مثلاً امام سے پہلے رکوع یا سجدہ کر لیا اور امام رکوع یا سجدہ میں ابھی آیا بھی نہ تھا کہ اس نے سر اٹھا لیا تو اگر امام کے ساتھ یا بعدکو ادا کر لیا ہوگئی، ورنہ نہیں۔ [71] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۵۴: مقتدی کے ليے یہ بھی فرض ہے ، کہ امام کی نماز کو اپنے خیال میں صحیح تصور کرتا ہو اور اگر اپنے نزدیک امام کی نماز باطل سمجھتا ہے، تو اس کی نہ ہوئی۔ اگرچہ امام کی نماز صحیح ہو۔ [72] (درمختار) (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۵۱۶، ۵۱۷)


[1] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۲، ص۱۵۸۔۱۷۰.

[2] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، بحث شروط التحریمۃ، ج۲، ص۱۷۵.

[3] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۶۸.

[4] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۶۹. و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، بحث شروط التحريمۃ، ج۲، ص۱۷۶. بعض لوگ جلدی ميں اسی طرح کر گزرتے ہيں ان کی وہ نماز نہ ہوئی اس کو پھر پڑھيں۔ ۱۲ منہ حفظہ

[5] ۔۔۔۔۔۔”ردالمحتار”،کتاب الصلاۃ، بحث شروط التحريمۃ، ج۲، ص۲۱۹.

[6] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ فصل، ج۲، ص۲۱۸.

[7] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ، فصل، ج۲، ص۲۱۹.

[8] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۶۹.

[9] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ، فصل، ج۲، ص۲۱۹.

[10] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ،فصل، ج۲، ص۲۲۰.

[11] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ، فصل، ج۲، ص۲۱۹.

[12] ۔۔۔۔۔۔ یعنی اور اس کے علاوہ۔

[13] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۶۸.

[14] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ، فصل، ج۲، ص۲۱۸.

[15] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۶۹.

[16] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، بحث القيام، ج۲، ص۱۶۳.

[17] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۲، ۱۶۳.

[18] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، بحث القيام، ج۲، ص۱۶۳.

[19] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، بحث القيام، ج۲، ص۱۶۳.

[20] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۶۹.

[21] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۶۴.

[22] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص۱۶۴.

[23] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ و مبحث في الرکن الاصلي إلخ، ج۲، ص۱۶۴.

[24] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ و مبحث في الرکن الاصلي إلخ، ج۲، ص۱۶۵.

[25] ۔۔۔۔۔۔”غنیۃ المتملي”، فرائض الصلاۃ، الثاني، ص۲۶۱ ۔ ۲۶۷.

[26] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۲۶۱.

[27] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۲۶۲.

[28] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۲۷۴.

[29] ۔۔۔۔۔۔ یعنی اونچا سننے کا مرض۔

[30] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۶۹.

[31] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[32] ۔۔۔۔۔۔ مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح”، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، وارکانھا، ص۵۱.

[33] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۶۹.

[34] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب: تحقيق مھم فيما لوتذکر في رکوعہ انہ لم يقراء إلخ، ج۲، ص۳۱۳.

[35] ۔۔۔۔۔۔ امام اسبيجابی نے شرح جامع صغير و شرح مختصر امام طحاوی اور امام علاء الدين نے تحفۃ الفقہاء اور امام ملک العلما نے بدائع ميں اس سے جواز پر جزم فرمايا اور خلاف کا اصلا نام نہ ليا اور يہی اظہر من حيث الدليل ہے اور ظہيريہ و سراج وہاج و فتح القدير و شرح المجمع لابن ملک و درمختار ميں عدم جواز کو اصح کہا محقق صاحب فتح و ديگر شراح ہدايہ نے جو اسکی دليل ذکر کی محقق صاحب نے اس پر اعتراض کيا بہرحال احتياط اولیٰ ہے خصوصاً جبکہ مرجحين نے اسے تصريحاً اصح بتايا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ ۱۲

[36] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ، فصل، ج۲، ص۲۳۶.

[37] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ، فصل، ج۲، ص۲۲۶.

[38] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۲، ص۱۶۵.

[39] ۔۔۔۔۔۔ کبڑا۔

[40] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۷۰.

[41] ۔۔۔۔۔۔ صحيح مسلم”، کتاب الصلاۃ، باب ما يقال في الرکوع والسجود، الحديث: ۴۸۲، ص۲۵۰.

[42] ۔۔۔۔۔۔ مجدد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا عليہ رحمۃ الرحمن ”فتاویٰ رضويہ ” ميں فرماتے ہيں: ”حالتِ سجدہ ميں قدم کی دس انگليوں ميں سے ايک

کے باطن پر اعتماد مذہب معتمد اور مفتیٰ بہ ميں فرض ہے اور دونوں پاؤں کی تمام يا اکثر انگليوں پر اعتماد بعيد نہيں کہ واجب ہو، اس بنا پر جو

”حليہ” ميں ہے اور قبلہ کی طرف متوجہ کرنا بغير کسی انحراف کے سنت ہے۔”(ت) (”الفتاوی الرضویۃ ، ج۷، ص۳۷۶. )

[43] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۲، ص۱۶۷،۲۴۹۔۲۵۱. و الفتاوی الرضویۃ”، ج۷، ص۳۶۳۔۳۷۶.

[44] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۷۰.

[45] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۷۰.

[46] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۷۰.

[47] ۔۔۔۔۔۔ یعنی چاول کا بھس۔

[48] ۔۔۔۔۔۔ یعنی اسپرنگ والے۔

[49] ۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ لکڑی جو گاڑی يا ہَل کے بيلوں کے کندھے پر رکھی جاتی ہے۔

[50] ۔۔۔۔۔۔ یعنی گھوڑا گاڑی کا بانس جس ميں گھوڑا جوتا جاتا ہے۔

[51] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۷۰.

[52] ۔۔۔۔۔۔ یعنی بيلوں کی چھوٹی گاڑی کی چھوٹی سی چارپائی۔

[53] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۷۰.

[54] ۔۔۔۔۔۔ یعنی بھيڑ۔ مجمع۔

[55] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۷۰.

[56] ۔۔۔۔۔۔ منیۃ المصلي”، مسائل الفريضۃ الخامسۃ ای السجود، ص۲۶۳. و الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ، فصل، ج۲، ص۲۵۳.

[57] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ، فصل، ج۲، ص۲۵۲.

[58] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۲۵۷.

[59] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول، ج۱، ص۷۰.

[60] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[61] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۲ ص۱۷۰.

[62] ۔۔۔۔۔۔ منیۃ المصلي”، الفريضۃ السادسۃ و تحقيق التراويح، ص۲۶۷. و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، بحث شروط التحريمۃ، ج۲، ص۱۸۰.

[63] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۲، ص۱۸۱.

[64] ۔۔۔۔۔۔ غنیۃ المتملي”، السادس القعدۃ الاخيرۃ، ص۲۹۰.

[65] ۔۔۔۔۔۔ منیۃ المصلي”، الفريضۃ السادسۃ وھی القعدۃ الاخيرۃ، ص۲۶۷.

[66] ۔۔۔۔۔۔ یعنی لوٹانا۔ دہرانا۔

[67] ۔۔۔۔۔۔ ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل شفع من النفل صلاۃ، ج۲، ص۱۹۳.

[68] ۔۔۔۔۔۔

[69] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، المسائل الاثنا عشریۃ، ج۲، ص۴۳۵.

[70] ۔۔۔۔۔۔ ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، بحث الخروج بصنعہ، ج۲، ص۱۷۲.

[71] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، بحث الخروج بصنعہ، ج۲، ص۱۷۳.

[72] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج۲، ص۱۷۳.

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے