نماز میں قراءت کرتے ہوئے تشدید چھوڑدینے کا حکم

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نمازی "تَبَّتْ یَدَاۤ اَبِیْ لَهَبٍ وَّ تَبَّؕ(۱)” میں ” وَّ تَبَّ ط” کی با کو وقف کی صورت میں بغیر تشدید کے پڑھے تو نماز کا کیا حکم ہوگا ؟

جواب: فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق تشدید کو ترک کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی، لہذا پوچھی گئی صورت میں اس نمازی کی نماز فاسد نہیں ہوگی ۔

   چنانچہ  فتاوٰی عالمگیری، فتاوٰی قاضی خان، فتاوٰی شامی اور خلاصۃ الفتاوٰی  وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”والنظم للاول“( ومنها ترك التشديد والمد في موضعهما ) لو ترك التشديد في قوله ” اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ ط” أو قرأ ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لا” وأسقط التشديد على الباء۔ المختار أنها لا تفسد “یعنی اعرابی غلطیوں میں سے ایک غلطی تشدید اور مد کو ترک کرنا بھی ہے لہذا اگر نمازی ” اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ ط ” میں ” اِیَّاكَ ” کی تشدید کو چھوڑدے یا پھر وہ ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لا ” میں” رَبِّ "کی باء کی تشدید کو ساقط کردے تو مختار قول کے مطابق  اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔ (فتاوٰی عالمگیری، کتاب الصلوٰۃ، ج 01، ص 81 ،   مطبوعہ پشاور)

   سیدی اعلیٰ حضرت    علیہ الرحمہ ایک سوال  کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”خطا فی الاعراب یعنی حرکت،سکون ، تشدید ، تخفیف، قصر،مد کی غلطی میں علمائے متاخرین رحمہ اﷲ علیہم اجمعین کا فتو ی تو یہ ہے کہ علی الاطلاق اس سے نماز نہیں جاتی۔ “(فتاوٰی رضویہ، ج 06، ص 251، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”تشدید کو تخفيف پڑھا جیسے  ( اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ) میں ی پر تشدید نہ پڑھی،  ( اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) میں ب پر تشدید نہ پڑھی،  ( قُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً ) میں ت پر تشدید نہ پڑھی، نماز ہوگئی۔ “ (بہارِ شریعت، ج 01، ص 554، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   یہاں تک تو پوچھے گئے سوال کا جواب تھا کہ ” وَّ تَبَّ ط ” کی "ب”کو وقف کی صورت میں بغیر تشدید کے پڑھنے یعنی ایک "ب”کو چھوڑنے سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔ورنہ ایک لفظ تو کیا قرآن پاک کے ایک حرف میں بھی قصداً غلطی کرنا یا اسے چھوڑدینا سخت ناجائز و حرام اور گناہ کا کام ہے کہ اس میں کلام اللہ کی تحریف ہے اور  یہ قرآن پاک کو غلط پڑھنا ہے جس سے احتراز لازم ہے۔   ہاں! سہواً یا مغالطے سے  ایسا ہوجائے تو اس صورت میں گناہ نہیں کہ اس امت سے خطاء و نسیان معاف کیا گیا ہے ۔

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں:”قرآن میں کسی حرف کو قصداً بدلنا نماز میں ہو خواہ بیرونِ نماز حرام قطعی و گناہِ عظیم، افتراء علی اللہ و تحریفِ کتابِ کریم ہے۔‘‘(فتاوٰی رضویہ، ج 06، ص 305، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملخصاً)

   سہواً یا مغالطے سے قرآن غلط پڑھا تو گناہ نہیں۔ جیسا کہ فتاوٰی رضویہ میں ہے:” حرف صحیح ادا کرنے کا قصد کیا پھر کچھ نکلے اس پر مواخذہ نہیں ” لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ط"(اﷲ تعالٰی کسی ذی نفس کو اسکی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں ٹھہراتا)۔ ‘‘(فتاوٰی رضویہ، ج 06، ص 273، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مزید ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”علمائے متاخرین نے بنظرِ تیسیر جو تو سیعیں کیں وُہ عندالتحقیق صورت لغزش و خطا سے متعلق ہیں کہ صحیح جانتا ہے اور صحیح پڑھ سکتا ہے مگر زبان سے بہک کر غلط ادا ہوگیا۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ، ج 06، ص 281، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   حضرت علامہ محمدشریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فتاوی امجدیہ کے حاشیہ میں فر ماتے ہیں:”مسئلہ کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص صحیح ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہے پھر بھی صحیح ادا نہیں کرتا تو وہ ضرور بالقصد قرآن مجید کو غلط پڑھتا ہے، اور قرآن مجید غلط پڑھنا قصداً اسے بدلنا ہے، مگر چونکہ اس کی نیت تحریفِ قرآن کی نہیں بلکہ وہ سستی اور لاپرواہی سے ایسا کرتا ہے، اس لیے کافر تو نہ ہوگا، البتہ شدید گنہگار ضرور ہوگا۔“(فتاوی امجدیہ، ج01،ص88، مکتبہ رضویہ، کراچی)

   مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”کسی ایک حرف قرآن کا بدل لینا بھی تحریف و کفر ہے جب کہ قصداً اس کا ارادہ ہو اور لفظ اصل اورمحرف میں امتیاز و تغیر ہو ورنہ نہیں۔۔۔۔۔خطا یا سہو اور نسیان سے یہ حکم نہیں۔ “(فتاویٰ بحر العلوم، ج 01، ص 539، شبیر برادرز لاہور، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صلاۃ التسبیح کی نماز پڑھنے کا طریقہ

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے