نماز میں کتنی قراءت کرنا سنت ہے ؟

سوال:  کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ امام کو کس نماز میں کتنی قراءت کرنا سنت ہے؟

جواب:  وقت کی کمی اورنمازیوں کےتکلیف میں پڑنےکااندیشہ نہ ہو،توامام اورمنفردکےلیےسنّت ہےکہ فجراورظہرمیں طوالِ مفصل میں سے،عصراورعشاء میں اوساطِ مفصل میں سےاورمغرب میں قصارِ مفصل میں سےکسی سورت کی قراءت کریں اوراگروقت کم ہے،تووقت کی رعایت کرتےہوئےقراءت کی جائےاوراگرسنّت قراءت کرنےسےکسی نمازی کےآزمائش میں پڑنےکاخوف ہے،تواتنی طویل قراءت کرنا،جائزنہیں،لہٰذاایسی صورتِ حال میں اتنی قراءت کرناہی سنّت ہے،جس سےمقتدیوں کوآزمائش کاسامنانہ ہو،جیساکہ نبیِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک دفعہ ایک بچےکےرونےکی آوازسن کرنمازکومختصرفرمایا،کیونکہ اس بچےکی ماں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےپیچھےنمازاداکررہی تھی۔

   طوال، اوساط اورقصارِ مفصل کی تفصیل :

   طوالِ مفصل:”سورۃ الحجرات “سے ”سورۃ البروج “سے پہلے تک۔

   اوساطِ مفصل:”سورۃ البروج “سے ”سورۃ البینۃ“ سے پہلے تک۔

   قصارِ مفصل:”سورۃ البینۃ“سے ”سورۃ الناس “ تک۔

   نمازمیں مسنون قراءت کےمتعلق سنن نسائی شریف میں ہے:”عن سلیمان بن یسار رضی اللہ عنہ عن ابي هريرة  قال: ما صلیت وراء أحد أشبہ صلاة برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من فلان، قال سليمان:كان يطيل الركعتين الاوليين من الظهر، ويخفف الاخريين ، ويخفف العصر، ويقراء في المغرب بقصار المفصل، ويقراء في العشاء بوسط المفصل ویقراء فی الصبح بطول المفصل “ترجمہ: حضرت سلیمان بن یسار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے،وہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نےفرمایا:میں نے کسی ایسے شخص کے پیچھے نماز ادا  نہیں کی جو فلاں سے زیادہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مشابہ نماز ادا کرتا ہو،حضرت سلیمان نے فرمایا کہ(جس امام کی بات کی تھی)وہ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں   طویل قراءت کرتےاور دوسری دو رکعتوں  میں ہلکی،عصر میں کچھ کم قراءت کرتےاور مغرب کی نماز میں قصارِ مفصل سے،عشا میں اوساطِ مفصل اور صبح کی نماز یعنی فجر میں طوالِ مفصل سے قراءت کرتےتھے ۔(سنن النسائی، تخفیف القیام والقراءۃ ،جلد1 ،  صفحہ154، مطبوعہ لاھور)

   قراءتِ مسنونہ کی مقداربیان کرتےہوئے علامہ شمس الدین تمرتاشی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1004ھ) لکھتے ہیں:” یسن فی الحضر لامام ومنفرد طوال المفصّل فی الفجر والظھر واوساطہ فی العصر والعشاء وقصارہ فی المغرب ای فی کل رکعۃ سورۃ “ ترجمہ: حالتِ اقامت میں امام اور منفرد دونوں کے لیے فجر اور ظہر میں طوالِ مفصل، عصر اور عشاء میں اوساطِ مفصل اور مغرب میں قصارِ مفصل میں سےپڑھنا سنت ہے، یعنی ہر رکعت میں اِن میں سے ایک سورت (پڑھی جائے گی)۔(تنوير الابصار ودرمختار مع ردالمحتار ، جلد2، صفحہ317،مطبوعہ کوئٹہ)

   شیخ الاسلام و المسلمین  اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”قرآن عظیم سورۂ حجرات سے آخر تک مفصل کہلا تاہے، اس کے تین حصے ہیں، حجرات سے بروج تک طوال مفصل ،بروج سے لم یکن تک اوساط مفصل ،لم یکن سے ناس تک قصار مفصل ،سنّت یہ ہے کہ فجر و ظہر میں ہر رکعت میں ایک پوری سورت طوال مفصل سے پڑھی جائے اورعصر و عشاء میں ہر رکعت میں ایک کامل سورت اوساط مفصل سے اورمغرب کی ہر رکعت میں ایک سورت کاملہ قصارمفصل سے،اگروقت تنگ ہویاجماعت میں کوئی مریض یا بوڑھا یا کسی شدیدضرورت والاشریک جس پر اتنی دیرمیں ایذاو تکلیف و حرج ہوگا، تو اس کا لحاظ کرنا لازم ہے، جس قدر میں وقت مکروہ نہ ہونے پائے اور اس مقتدی کو تکلیف نہ ہو اسی قدر پڑھیں اگر چہ صبح میں ”انا اعطینا “و ”قل ھواﷲ احد “ ہوں یہی سنت ہے اور جب یہ دونوں باتیں نہ ہوں تو اس طریقہ مذکورہ کا ترک کرنا صبح یاعشاء میں قصارمفصل پڑھنا ضرور خلاف سنت و مکروہ ہے مگر نماز ہوجائے گی۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد6، صفحہ331، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور )

   دورانِ قراءت مقتديوں کی پریشانی کالحاظ کرنےکے متعلق صحیح بخاری شریف میں ہے:”عن ابی مسعود الانصاری قال:قال رجل:یارسول اللہ لا اکاد ادرک الصلاۃ مما یطول بنا فلان، فما رایت النبی  صلی اللہ علیہ وسلم فی موعظۃ اشد غضبا من یومئذ، فقال:ایھا الناس انکم منفرون فمن صلی بالناس فلیخفف فان فیھم المریض والضعیف وذا الحاجۃ “ترجمہ: حضرت ابومسعود انصاری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ  ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہو سکتا ہے کہ میں جماعت کے ساتھ نماز ادا نہ کر سکوں اس سبب سےکہ فلاں شخص ہمیں طویل قراءت کے ساتھ نماز پڑھاتا ہے،(حضرت ابو مسعود کہتے ہیں کہ )میں نے نصیحت کرنےکے لحاظ سے اُس دن سے زیادہ کبھی نبی پاک  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جلال میں نہیں دیکھا،آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:اےلوگو! تم(لوگوں کو)متنفّرکرتےہو، تو جوشخص  بھی لوگوں کو نماز پڑھائے اُسے چاہیےکہ قراءت میں تخفیف کرے، کیونکہ نمازیوں میں مریض ،کمزوراور کام کاج والے بھی ہوتے ہیں ۔(صحیح بخاری، باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم اذا رای ما یکرہ، جلد1،  صفحہ19، مطبوعہ کراچی)

   اِس حدیثِ مبارک کی شرح میں علامہ بدرالدین عینی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:855ھ/1451ء) لکھتےہیں:”وانما غضب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لانہ کرہ التطویل فی الصلاۃ من اجل ان فیھم المریض ونحوہ فاراد الرفق والتیسیر بامتہ و لم یکن نھیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام  من التطویل لحرمتہ لانہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کان یصلی فی مسجدہ ویقراء بالسور الطوال مثل سورۃ یوسف وذلک لانہ کان یصلی معہ اجلۃ اصحابہ ومن اکثر ھمہ طلب العلم والصلاۃ “ترجمہ:بلاشبہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے غضب اس لیےفرمایا کہ آپ نے  جماعت میں بیماروغیرہ کے  موجود ہونے کی وجہ سے نماز کے طول دینے کو ناپسند جانا تھا، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی امت پر نرمی اور سہولت کاارادہ فرمایا اورآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قراءت لمبی کرنے سے منع فرمانا بنفسہ اُس تلاوت کے حرام ہونے کی وجہ سے ہرگز نہیں تھا، کیونکہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو خود اپنی مسجدمیں امامت کرواتے ہوئے لمبی سورتیں تلاوت فرمایا کرتے تھے، مثلاً سورۃ یوسف اوریہ(یعنی طویل قراءت  اس لیے فرماتے) کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جلیل القدرصحابہ اور وہ لوگ نماز ادا کیا کرتے تھے کہ جن کا طلبِ علم اور  نماز کےلیےسب سے زیادہ جذبہ ہواکرتاتھا۔(عمدۃ القاری، جلد2، کتاب العلم، صفحہ161، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)

   اسی طرح بخاری شریف میں ہے:”عن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال:إني لأقوم في الصلاة أريد أن أطول فيها فأسمع بكاء الصبي فأتجوز في صلاتي،كراهية أن أشق على أمه “ترجمہ: نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا کہ میں  نماز میں کھڑا ہوتاہوں اور میری خواہش ہوتی ہے کہ نماز میں لمبی(قراءت)کروں پھر میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں ، تو نماز کو مختصر کر دیتا ہوں، کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں کہ بچے کی ماں  کومشقت ہو۔(صحیح بخاري، باب من أخفّ الصلاة عندبکاء الصبي، جلد1،صفحہ 98، مطبوعہ کراچی )

   شیخ الاسلام و المسلمین  اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:” جماعت میں 999 آدمی دل سے چاہتے ہیں کہ امام بڑی بڑی سورتیں پڑھے،  مگر ایک شخص بیماریا ضعیف بوڑھا یا کسی کام کا ضرورت مند ہے کہ اس پرتطویل بار(بوجھ) ہوگی اسے تکلیف پہنچے گی،تو امام کو حرام ہے کہ تطویل کرے،  بلکہ ہزار میں سے اس ایک کے لحاظ سے نماز پڑھائے جس طرح مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صرف اس عورت اوراُس کے بچے کے خیال سے نمازِ فجر معوّذتین سے پڑھا دی ، اور معاذ ابن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پر تطویل میں سخت ناراضی فرمائی،یہاں تک کہ رخسار ہ مبارک شدّتِ جلال سے سرخ ہوگئے۔ “(فتاویٰ رضویہ، جلد6، صفحہ324، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے