نماز میں عورت کے سر کے لٹکے ہوئے بالوں کا حکم ؟

سوال:  کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ نماز کے اندر ستر عورت کے معاملے میں عورت کے سر سے نیچے لٹکتے ہوئے بال جدا عضو ہیں یاجو بال سر پر ہیں ان سمیت یہ ایک عضو ہیں؟

جواب:  ستر عورت کے معاملے میں جو بال عورت کے سر پرہوتے ہیں ،وہ سر والے عضو میں شامل ہیں اور سر  سے لٹکتے ہوئےبال یعنی جو کانوں سے نیچے ہیں، وہ جدا عضو ہیں ،حتی کہ دوران نمازاگر سر کانوں تک ڈھکا ہوا ہے، لیکن لٹکنے والے ان بالوں کاچوتھائی حصہ کھل گیااوراس حالت میں ایک مکمل رکن(جیسے رکوع یاسجدہ)اداکرلیا یاتین بار سبحان اللہ کہنے کی مقدار تک  کھلارہا،یابلاضرورت خود کھولا،تونماز فاسد ہوجائےگی اور اگرتکبیر تحریمہ اسی حالت میں کہی، تو  نماز شروع ہی نہ ہوگی۔

   ہدایہ میں ہے:”والشعروالبطن والفخذکذالک یعنی علی ھذاالاختلاف لان کل واحدعضو علی حدۃ،والمراد بہ النازل من الرأس ھوالصحیح“ترجمہ:بال،پیٹ اور ران بھی اسی طرح ہیں یعنی اسی اختلاف پر ہیں، کیونکہ ان میں سے ہر ایک علیحدہ عضو  ہے اور بالوں سے مراد جو سر سے لٹک رہے ہیں،یہ ہی صحیح ہے۔ (ھدایہ،کتاب الصلاۃ،باب شروط الصلاۃ،ج1،ص93،مطبوعہ لاھور)

   حلبۃالمجلی شرح منیۃ المصلی  میں ہے:”فقال الفقیہ ابواللیث :ان انکشف ربع المسترسل فسدت صلاتھاکذا فی اکثر الفتاوی۔فھواذن عورۃ،وفی شرح الجامع الصغیر لفخرالاسلام:وقدجمع فی الاصل فی موضع بین الرأس والشعر۔والمراد من الرأس ماعلیہ من الشعر،فثبت ان الشعر الآخر عورۃ “ ترجمہ: فقیہ ابواللیث نے فرمایا :اگر لٹکنے والے بالوں کا ایک چوتھائی حصہ کھلا،تو نماز فاسد ہوجائے گی،اسی طرح اکثر فتاوی میں ہے،لہٰذا یہ ستر ہیں اور فخر الاسلام کی شرح جامع الصغیر میں ہے:کتاب الاصل میں ایک مقام پر سر اور بالوں کو جمع کیااور سر سے مراد وہ بال ہیں، جوسر پر ہیں ،تو ثابت ہواکہ دوسرے بال (جدا)عورت ہیں ۔(حلبۃ المجلی شرح منیۃالمصلی،ستر العورۃ،ج1،ص589،دارالکتب العلمیہ،بیروت)

   عنایہ میں ہے:”واماالمسترسل وھومانزل الی اسفل من الاذنین“ترجمہ:مسترسل بال وہ جوکانوں سےنیچے لٹک رہے ہوں۔(عنایہ علی ھامش فتح القدیر،کتاب الصلاۃ،باب شروط الصلاۃ ،ج1،ص268،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے : ”بال یعنی سر سے نیچےجولٹکتے ہوئے بال ہیں، وہ جداعورت ہیں ۔“(فتاوی رضویہ،ج6،ص40،رضافاونڈیشن،لاھور)

   اسی میں ہے:”جدا جدا اعضاء بیان کرنے میں یہ نفع ہے کہ ان میں ہر عضو کی چوتھائی پر احکام جاری ہیں،مثلاً:(۱) اگر ایک عضو کی چہارم کھل گئی ،اگر چہ اس کے بلا قصد ہی کھلی ہو اور اس نے ایسی حالت میں رکوع یا سجود یا کوئی رکن کامل ادا کیا تو نماز بالا تفاق جاتی رہی۔(۲)اگر صورت مذکورہ میں پورا رکن تو ادا نہ کیا، مگر اتنی دیر گزر گئی جس میں تین بار سُبحٰن اﷲ کہہ لیتا، تو بھی مذہب  مختار پر جاتی رہی۔(۳)اگر نمازی نے بالقصد ایک عضو کی چہارم بلا ضرورت کھولی ،تو فوراً نماز جاتی رہی،اگرچہ معاً چھپالے، یہاں ادائے رکن یا اُس قدر دیر کی کچھ شرط نہیں۔(۴)اگر تکبیر تحریمہ اُسی حالت میں کہی کہ ایک عضو کی چہارم کھلی ہے، تو نماز سرے سے منعقد ہی نہ ہو گی، اگرچہ تین تسبیحوں کی دیر تک مکشوف نہ رہے۔“(فتاوی رضویہ،ج6،ص30،رضافاونڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے