نماز کے ایک رکن میں تین بار کھجانے سے نماز کا حکم

سوال:  کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ ایسے امام صاحب جو نماز میں ایک رکن میں تین سے زائد  بار ہاتھ اٹھا کر خارش کریں  اور یہ عمل اُن کی عادت میں شامل ہو ، تو ایسے امام صاحب کے پیچھے پڑھی گئی نماز وں کا کیا حکم ہو گا؟

جواب:  پوچھی گئی صورت میں امام صاحب نے جتنی نمازیں ایسے پڑھائیں کہ ایک رُکن ، مثلاً قیام ،  رُکوع یاسُجود  میں کم از کم  تین بار کھجانا پایا گیا تھا ، وہ ساری نمازیں نہ ہوئیں،امام صاحب اور مقتدیوں پر  اُن نمازوں  کو لوٹانا ضروری ہے ، کیونکہ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ نماز میں ایک رُکن میں تین مرتبہ ہاتھ اٹھانا عملِ کثیر ہے  اور نماز میں ہر وہ عمل جو عملِ کثیر ہو ، نماز کو فاسد کر دیتا ہے ، لہٰذا   ایک رُکن میں تین بار کھجانے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور جتنی نمازوں میں امام صاحب  نے یہ عمل کیا، امام صاحب  کی وہ نمازیں ادا نہ ہوئیں اور  جتنے لوگوں نے امام کے ساتھ یہ نمازیں پڑھیں اُن کی بھی  نہ ہوئیں ،  کیونکہ مقتدی کی نماز کی  بنا امام کی نماز پر ہوتی ہے اور امام کی نماز فاسد ہونے سے مقتدی کی  نماز بھی فاسد قرار پاتی ہے    ۔

   یاد رہے ! بیان کردہ مسئلہ میں تین بار کھجانے سے مراد یہ ہے کہ تین بار ہاتھ  اٹھانا پایا جائے ، خواہ یوں کہ کھجا کر ہاتھ باندھ لیا پھر کھجایا اور ہاتھ باندھ لیا پھر تیسری بار ہاتھ اٹھا کر کھجایا ، خواہ   اس طرح کہ ایک ہی دفعہ ہاتھ اپنے اصلی  مقام سے  اٹھایا پھر باندھنے سے پہلے تین مختلف جگہوں پر خارش کی،  مثلاً : سر پراستعمال کیا،وہاں سے اٹھاکربازوپر،پھروہاں سے اٹھاکررانوں پر،تو  یہ  بھی تین مرتبہ ہی ہاتھ اٹھاکر استعمال کرناہے ، نہ کہ ایک مرتبہ ، البتہ اگر ایک بار ہاتھ اٹھایا اور ایک ہی  جگہ پر  رکھ کر چند مرتبہ حرکت دی  ، تو یہ  ایک ہی مرتبہ کھجانا کہلائے گا  ،  اس سے نماز نہیں ٹوٹے گی اور بلا ضرورت یہ بھی نہیں کرنا چاہیے کہ  مکروہ و ناپسندیدہ عمل  ہے  ۔

   ایک رُکن میں تین بار ہاتھ اٹھا کر کھجانے  سے نماز فاسد ہونے کے متعلق علامہ طاہر بن عبد الرشید بخاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ  (سالِ وفات : 542ھ ) لکھتے ہیں :” وان حک ثلاثا فی رکن واحد تفسد صلاتہ  ، ھذا اذا رفع یدہ فی کل مرۃ  اما اذا لم یرفع فی کل مرۃ فلایفسد صلاتہ لانہ حک واحد “  ترجمہ : اور  اگر ایک رکن میں تین بار کھجایا  ، تو نماز فاسدہو جائے گی ، یہ تب  ہے جبکہ  ہر مرتبہ ہاتھ اٹھایا ہو ، بہر حال اگر ہر مرتبہ ہاتھ نہیں اٹھایا ، تو نماز فاسد نہیں ہو گی ،کیونکہ یہ ایک بار ہی کھجانا ہے ۔ (خلاصۃ الفتاوی ، کتاب الصلاۃ ،  مایفسد  و مالا یفسد ، جلد 1، صفحہ 129 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   علامہ محمد بن ابراہیم حلبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ (سالِ وفات:956ھ/1049ء) لکھتےہیں:”(ولو حك)المصلي (جسده مرة أو مرتين) متواليتين (لا تفسد) لقلته (وكذا)لا تفسد (إذا فعل) الحك (مرارا غير متواليات) بأن لم يكن في ركن واحد (ولو فعل) ذلك (مرارا متواليات تفسد) لأنه عمل كثير “ترجمہ :  اور اگر نمازی نے اپنے جسم کو مسلسل دو مرتبہ کھجایا ، تو عملِ قلیل ہونے کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوگی ، اسی طرح جب یہ کھجانا دو سے زائد  چند بار  ہو ، مگر مسلسل نہ ہو ، یعنی ایک رُکن میں نہ ہو  ، تب بھی نماز نہیں ٹوٹے گی اور اگر   مسلسل یعنی ایک ہی رکن میں دو بار سے زائد کھجایا ، تو نماز فاسد ہو جائے گی  ، کیونکہ یہ عملِ کثیر ہے ۔ (غنية المستملي شرح منیۃ المصلی  ، مفسدات الصلاۃ ، صفحه 387 ، مطبوعه لاهور )

   سیّدی  اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے سوال ہوا کہ  نماز میں بار بار خارش ہو رہی ہو  ، تو کیا کرے ،آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جواباً ارشاد فرمایا :”ضبط کرے، اور نہ ہوسکے یا اس کے سبب نماز میں دل پریشان ہو ،توکھجالے ،  مگر ایک رکن  ، مثلاً قیام یا قعود یارکوع یاسجود میں تین بار نہ کھجاوے ،  دوبارتک اجازت ہے۔ “(فتاویٰ رضویہ، جلد7،صفحہ384،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اور مقتدی کی نماز کی  بِنا امام کی نماز پر ہوتی  ہے ، چنانچہ عملِ کثیر کی بنا  پر نماز فاسد ہونے کے ایک مسئلے میں   مذکورہ   اُصول بیان  کرتے ہوئے علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ  (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:”اما صلاة ‌الامام فلأنه عمل كثير وصلاة القوم مبنية عليها “ ترجمہ  : بہر حال  امام کی نماز اس لیے فاسد ہوئی کہ عملِ کثیر  واقع ہوااور مقتدیوں کی نماز اس لیے  کہ  اُن کی نماز کی بنا امام کی نماز پر ہوتی ہے ۔ (ردالمحتار مع  الدر المختار، کتاب الصلاۃ ،باب الامامۃ ، جلد2، صفحہ342، مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

   اور امام کی نماز فاسد ہونے سے مقتدیوں کی نماز فاسد ہو جانے کے متعلق علامہ ابنِ عابدین شامی قدس سرہ السامی لکھتے ہیں:” أن ‌صلاة ‌الامام ‌متضمنة لصلاة المقتدي، فإذا صحت ‌صلاة ‌الامام صحت صلاة المقتدي إلا لمانع آخر، وإذا فسدت صلاته فسدت صلاة المقتدي لأنه متى فسد الشيء فسد ما في ضمنه ، ملتقطا“ ترجمہ :امام کی نماز مقتدی کی نماز کو شامل ہوتی ہے ،پس جب امام کی نماز صحیح ہو گی ، تومقتدی کی نما زبھی صحیح ہو گی ،جبکہ کوئی اور مانع نہ ہو اور جب امام کی نماز فاسد ہو گی ، تومقتدی کی نماز بھی فاسد ہو جائے گی ، کیونکہ جب کوئی شے  فاسد ہوتی ہے ، تو اس  کے ضمن میں موجود چیز بھی فاسد  ہو جاتی ہے ۔ (ردالمحتار مع  الدرالمختار، کتاب الصلاۃ ،باب الامامۃ ، جلد2، صفحہ340، مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ ، بیروت )

   اورنماز میں تین بار ہاتھ اٹھانے کی مراد کو واضح اور اس کا حکم بیان کرتے ہوئے صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:”ایک رکن میں تین بار کھجانے سے نماز جاتی رہتی ہے، یعنی یوں کہ کھجا کر ہاتھ ہٹا لیا پھر کھجایا پھر ہاتھ ہٹالیا وعلیٰ ہذا اور اگر ایک بار ہاتھ رکھ کر چند مرتبہ حرکت دی،  تو ایک ہی مرتبہ کھجانا کہا جائے گا۔ “

 (بھار شریعت،مفسداتِ نماز کا بیان ، جلد1، حصہ3، صفحہ614، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی )

   اور بلا ضرورت ایک دفعہ ہاتھ اٹھانا بھی مکروہ ہے ، جیساکہ فتاوی عالمگیری  میں ہے:” ولو كان الحك مرة واحدة يكره ،كذا في الخلاصة ‘‘ترجمہ: اوراگرخارش کرناایک مرتبہ ہو،تومکروہ ہے ،اِسی طرح خلاصۃ الفتاوی  میں ہے ۔(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ، النوع الثاني، جلد1 ، صفحہ 104 ، مطبوعہ کوئٹہ  )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے