بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ؕ
نَماز کا بیان
ایمان و تصحیح عقائد مطابق مذہب اہل سنت و جماعت کے بعد نماز تمام فرائض میں نہایت اہم واعظم ہے۔ قرآن مجید و احادیث نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالتَّسْلِیْم اس کی اہمیت سے مالا مال ہیں ،جا بجا اس کی تاکید آئی اور اس کے تارکین ([1]) پر وعید فرمائی،اللہ پاک نے قرآن پاک کی سورۂ البقرۃ آیت 3 میں متقی لوگوں کا دوسرا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔نماز قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز کے ظاہری اور باطنی حقوق ادا کرتے ہوئے نمازپڑ ھی جائے۔نماز کے ظاہری حقوق یہ ہیں کہ ہمیشہ، ٹھیک وقت پر پابندی کے ساتھ نماز پڑھی جائے اورنماز کے فرائض، سنن اور مستحبات کا خیال رکھا جائے اور تمام مفسدات و مکروہات سے بچا جائے جبکہ باطنی حقوق یہ ہیں کہ آدمی دل کوغیرُاللہکے خیال سے فارغ کرکے ظاہروباطن کے ساتھ بارگاہِ حق میں متوجہ ہواوربارگاہِ الٰہی میں عرض و نیاز اور مناجات میں محو ہو جائے۔(بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۱۱۵-۱۱۷، جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۱۸، ملتقطاً)
نماز قائم کرنے کے فضائل اور نہ کرنے کی وعیدیں :
قرآنِ مجید اور احادیث میں نماز کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے فضائل بیان کئے گئے اور نہ پڑھنے والوں کی مذمت بیان کی گئی ہے چنانچہ سورہ ٔ مومنون میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
’’ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)‘‘(مؤمنون: ۱-۲)
ترجمۂکنزالعرفان:بیشک(وہ) ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔
اسی سورت میں ایمان والوں کے مزید اوصاف بیان کرنے کے بعد ان کا ایک وصف یہ بیان فرمایا کہ
’’ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)‘‘ (مؤمنون: ۹)
ترجمۂکنزالعرفان:اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
اور ان اوصاف کے حامل ایمان والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘(مؤمنون: ۱۰-۱۱)
ترجمۂکنزالعرفان: یہی لوگ وارث ہیں۔یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
نماز میں سستی کرنے والوں اورنمازیں ضائع کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
’’اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ-یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘(النساء: ۱۴۲)
ترجمۂکنزالعرفان:بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ کو فریب دینا چاہتے ہیں اور وہی انہیں غافل کرکے مارے گا اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں توبڑے سست ہوکر لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں۔
اور ارشاد فرمایا:
’’فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ(۵۹) اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓىٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ شَیْــٴًـا‘‘(مریم: ۵۹-۶۰)
ترجمۂکنزالعرفان:تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غَی سے جاملیں گے مگر جنہوں نے توبہ کی اور ایمان لائے اور نیک کام کئے تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔
حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس نے میرے اِس وضو کی طرح وُضو کیا پھر اس طرح دورکعت نماز پڑھی کہ ان میں خیالات نہ آنے دے تو اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ (بخاری، کتاب الوضوئ، باب الوضوء ثلاثًا ثلاثًا، ۱ / ۷۸، الحدیث: ۱۵۹)
حضرت عقبہ بن عامررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سید المُرسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’جوبھی مسلمان اچھے طریقے سے وُضو کرتا ہے ،پھرکھڑے ہو کراس طرح دو رکعت نمازپڑھتا ہے کہ اپنے دل اور چہرے سے متوجہ ہوکر یہ دو رکعتیں ادا کرتا ہے تواس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے ۔(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب الذکر المستحبّ عقب الوضو ء، ص۱۴۴، الحدیث: ۱۷(۲۳۴))
حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’جس نے نماز پر مداومت کی تو قیامت کے دن وہ نماز اس کے لیے نور ،برہان اور نجات ہو گی اور جس نے نماز کی محافظت نہ کی تو اس کے لیے نہ نور ہے، نہ برہان ،نہ نجات اور وہ قیامت کے دن قارون ، فرعون ، ہامان اور اُبی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (مسند امام احمد ، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص، ۲ / ۵۷۴، الحدیث: ۶۵۸۷)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضوراقدسصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’جس نے جان بوجھ کرنماز چھوڑی تو جہنم کے اُس دروازے پر اِس کا نام لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ داخل ہوگا۔(حلیۃ الاولیاء، ۷ / ۲۹۹، الحدیث: ۱۰۵۹۰)(تفسیر صراط الجنان، ج۱، ص ۷۰)
[1] ۔۔۔ تارِک کی جمع، چھوڑنے والے۔