سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ نماز فجر یا عصر کی سنتیں اگر توڑ دیں یا فاسد ہوگئیں، تو کیا وقت باقی ہونے کی صورت میں فرض پڑھنے سے پہلے یا فرض پڑھنے کے بعد اسی وقت پڑھ سکتے ہیں؟ دونوں صورتوں کا حکم بیان فرمادیں۔
جواب: نماز فجر یا عصر کی سنتیں اگر توڑ دی جائیں یا فاسد ہو جائیں ، دونوں ہی صورتوں میں ان کی قضا کرنا واجب ہے، لہذا فرض سے پہلے ہی اگر ان کی قضا کرلی جائے تو وہ سنتیں ادا ہوجائیں گی۔ البتہ فرض پڑھ لینے کے بعد ان سنتوں کی قضا کرنا شرعاً جائز نہیں کہ یہ قضا نماز واجب لغیرہ ہے جو ایک اعتبار سے نفل کے حکم سے ملحق ہے۔ اور نمازِ فجر و عصر کے بعد کسی بھی قسم کی نفل نماز پڑھنا جائز نہیں۔ ان سنتوں کی قضا ایسے وقت میں پڑھی جائے گی جس میں نفل نماز پڑھنا جائز ہے۔مثلاً عصر کی سنتیں کسی وجہ سے نیت باندھ کر توڑ دیں پھر عصر کا مکروہ وقت شروع ہو گیا، اب صرف فرض پڑھے گا ۔ یہ سنتیں اگرچہ نیت باندھنے کی وجہ سے واجب ہو گئی تھیں ان کی قضا غیر مکروہ وقت میں کی جائے گی ۔
نفل نماز شروع کر کے توڑ دینے سے قضا واجب ہوجاتی ہے جیسا کہ ہدایہ میں ہے: ”ومن دخل في صلاة التطوع أو في صوم التطوع ثم أفسده قضاه۔“یعنی جس نے نفل نماز یا روزہ شروع کر کے توڑ دیا تو اس پر قضا لازم ہے ۔(ہدایہ مع الفتح القدیر، کتاب الصوم ، فصل کان مریضا الخ ، ج02، ص360، مطبوعہ بیروت)
سنتیں شروع کرکے وقت میں ادا کرلیں تو وہ ادا ہوں گی جیسا کہ رد المحتار میں منقول ہے:”لو شرع فیھا ثم قطعھا ثم اداھا کانت سنۃ و زادت وصف الوجوب بالقطع۔ نہر عن عقد الفرائد۔ “یعنی سنتیں شروع کرکے توڑدیں پھر انہیں وقت ہی میں ادا کرلیا تو وہ سنت ادا ہو گی، مگر توڑدینے کے سبب وجوب کا وصف زائد ہوگا۔ (یہ مسئلہ )”نہر” میں "عقد الفرائد ” سے منقول ہے ۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 561، مطبوعہ کوئٹہ)
بہارِ شریعت میں ہے:”سنت کی منت مانی اور پڑھی سنت ادا ہوگئی۔ یوہیں اگر شروع کرکے توڑ دی پھر پڑھی جب بھی سنت ادا ہوگئی۔“ (بہارِ شریعت، ج 01، ص 666، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
فجرو عصر کی سنتیں فاسد ہوگئیں تو ان کی قضا فرض کے بعد جائز نہیں جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے:”لو أفسد سنة الفجر ثم قضاها بعد صلاة الفجر لم يجزه كذا في محيط السرخسي“ یعنی فجر کی سنتیں فاسد کردیں پھر فجر کی نماز کے بعد قضا کی، تو یہ عمل جائز نہیں، جیسا کہ محیط سرخسی میں ہے۔( الفتاوی الھندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقيت، ج 01، ص 53، مطبوعہ پشاور)
فجر اور عصر کے بعد واجب لغیرہ نماز پڑھنا جائز نہیں کہ یہ نفل ہی کے حکم میں ہے۔ جیسا کہ تبیین الحقائق میں وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:” كل ما كان واجبا لغيره كالمنذور وركعتي الطواف والذي شرع فيه، ثم أفسده ملحق بالنفل حتى لا يصليها في هذين الوقتين؛ لأن وجوبها بسبب من جهته فلا يخرج من أن يكون نفلا في حق الوقت“ یعنی ہر واجب لغیرہ جیسے منت مانی ہوئی نماز، طواف کی دو رکعتیں، وہ نفل نماز جسے شروع کرکے فاسد کردیا ہو، یہ سب نفل سے ملحق ہے، حتی کہ یہ نمازیں دو اوقات (بعد طلوعِ فجر و بعد نمازِ عصر) نہیں پڑھ سکتے کیونکہ ان(نوافل) کا وجوب بندے کی طرف سے ہے لہذا یہ نمازیں وقت کے اعتبار سے نفل ہی شمار ہوں گی ۔(تبیین الحقائق، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 87، مطبوعہ ملتان)
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے: ’’(وکرہ نفل) قصداً ولو تحیۃ المسجد (وکل ما کان واجباً )۔۔۔ (لغیرہ) وھو ما یتوقف وجوبہ علی فعلہ (کمنذور ورکعتی طواف وسجدتی سھو والذی شرع فیہ)۔۔۔( ثم افسدہ و) لو سنۃ الفجر (بعد صلاۃ فجر و) صلاۃ (عصر) ‘‘ ترجمہ: بعد فجر و عصر قصداً نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے، اگرچہ تحیۃ المسجد ہو، یونہی ہر واجب لغیرہ یعنی وہ نماز جس کا وجوب بندےکے فعل پر موقوف ہو، جیسے منت، طواف کی رکعتیں ، سجدہ سہو اور ایسی نفل نماز جسے شروع کر کے فاسد کر دیا ہو، اگرچہ سنت فجر ہو ، (پڑھنا مکروہ ہے )۔(تنویر الابصار مع الدر المختار ، کتاب الصلوۃ، ج 02، ص 44، مطبوعہ پشاور)
فاسد سنتیں واجب لغیرہ کے حکم میں ہیں ان سنتوں کی قضا غیرمکروہ وقت میں ادا کی جائے گی۔ جیسا کہ فتاویٰ شامی میں نقل ہے:” واعلم أن الأوقات المكروهة نوعان: الأول الشروق والاستواء والغروب۔ والثاني ما بين الفجر والشمس، وما بين صلاة العصر إلى الاصفرار۔۔۔۔والنوع الثاني ينعقد فيه جميع الصلوات التي ذكرناها من غير كراهة، إلا النفل والواجب لغيره فإنه ينعقد مع الكراهة، فيجب القطع والقضاء في وقت غير مكروه“یعنی تم جان لو کہ مکروہ وقت دو قسموں کے ہیں۔ پہلی قسم میں سورج کے طلوع اور استواء اور غروب ہونے کا وقت داخل ہے۔ دوسری قسم نمازِ فجر کا وقت شروع ہونے کے بعد سے سورج طلوع ہونے کا درمیانی وقت اور نمازِ عصر کے فرض ادا کرنے کے بعد سے سورج کے زرد ہونے تک ۔۔۔۔۔۔ پس دوسری قسم کے مکروہ وقت میں مذکورہ تمام نمازیں (فرض اور وتر کی قضا وغیرہ) بغیر کراہت کے منعقد ہوجاتی ہیں البتہ نفل اور واجب لغیرہ نمازیں کراہت کے ساتھ منعقد ہوتی ہیں، لہذا ان نمازوں کو توڑنا اور غیرِ مکروہ وقت میں ان کی قضا کرنا واجب ہے۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 42، مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً)
نہر الفائق میں ہے:”أما المنذور في الوقت المكروه فيصح وكذا النفل بدليل وجوب القضاء بقطعه إلا أنه يجب قطعه وقضاؤه في وقت غیر مكروه في ظاهر الرواية“یعنی مکروہ اوقات میں منت والے نفل پڑھنا درست ہے یونہی نفل پڑھنا بھی درست ہے ۔ دلیل یہ ہے کہ نفل توڑنے پر قضا واجب ہے مگر ظاہر الروایہ کے مطابق اس وقت شروع کر دی تو نماز کو توڑنا اور غیر مکروہ وقت میں اس کی قضا کرنا واجب ہے۔(النھر الفائق، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 165، دار الكتب العلمية، بیروت)
فتاوٰی رضویہ میں ہے :”طلوع سے پہلے (سنتِ فجر)قضاکرنے میں فرض فجر کے بعد نوافل کاپڑھنا ہے اور یہ جائز نہیں۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 07، ص 425، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہارِ شریعت میں ہے:”فرض سے پیشتر سنت فجر شروع کرکے فاسد کر دی تھی اور اب فرض کے بعد اس کی قضا پڑھنا چاہتا ہے، یہ بھی جائز نہیں۔۔۔۔ نمازِ عصر سے آفتاب زرد ہونے تک نفل منع ہے ،نفل نما زشروع کرکے توڑ دی تھی اس کی قضا بھی اس وقت میں منع ہے اور پڑھ لی تو ناکافی ہے، قضا اس کے ذمہ سے ساقط نہ ہوئی۔ “(بہارِ شریعت، ج 01، ص 456، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم