نماز عصر مغرب سے بیس منٹ پہلے (مکروہ وقت میں ) پڑھی تو کیا حکم ہے ؟

سوال:  کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ اگرکسی نے عصرکے مکروہ وقت میں جو پاک وہندمیں مغرب سے پہلے تقریبا20منٹ شمارکیاگیاہے ،اس میں اس دن کی عصرکی نمازاداکی ،توکیاوہ نماز واجب الاعادہ ہوگی ؟

جواب:  بلاعذرشرعی نمازعصرکی ادائیگی میں اس قدرتاخیرکرنا،کہ مکروہ وقت شروع ہوجائے ،مکروہ تحریمی،ناجائزوگناہ ہے،لیکن یہ یادرہے کہ یہ کراہت صرف تاخیرکرنے میں ہے اورجہاں تک نمازکی ادائیگی کامعاملہ ہے،تو اس میں کوئی کراہت نہیں آئے گی،اسی کی معتبرمتون وشروح و فتاوی میں تصریح فرمائی گئی ہےاورواجب الاعادہ وہ نمازہوتی ہے ،جوکراہت تحریمی کے ساتھ اداکی جائے ،اوراس دن کی عصراس وقت میں اداکی گئی، تووہ  کراہت تحریمی کے ساتھ ادانہیں ہوگی، لہذاواجب الاعادہ  بھی نہیں ہوگی۔

   رشیدالدین ابوعبداللہ محمدبن رمضان رومی حنفی علیہ الرحمۃ(متوفی616ھ)’’الینابیع  فی معرفۃ الاصول والتفاریع‘‘ میں فرماتے ہیں:’’وان صلّى في هذه الأوقات الثلاثة واجبا کان عليه أو فرضا أو منذورا فإنه يعيدها إلا عصر يومه، وصلوة الجنازة، وسجدة التلاوة التي تلاها في هذه الأوقات ‘‘  ترجمہ:اوراگرکسی نے ان تین اوقات میں اپنے اوپرلازم واجب یافرض یامنت کی نمازاداکی تووہ اس کولوٹائے گا،سوائے اس دن کی عصراورنمازجنازہ اور اس  تلاوت کےسجدہ کے کہ جس کی تلاوت  انہی اوقات میں کی ۔ ( الینابیع  فی معرفۃ الاصول والتفاریع،کتاب الصلوۃ،باب الاوقات التی تکرہ فیھاالصلوۃ،ص46،مخطوطہ)

   امام یوسف بن عمر بن یوسف کادوری رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی 832ھ)’’جامع المضمرات فی شرح مختصر الامام القدوری‘‘ میں فرماتے ہیں:”ولو صلّى في هذه الأوقات الثلاثة واجبا عليه أو فرضا أو منذورا فإنه يعيدها إلا عصر يومه، وصلاة الجنازة، وسجدة التلاوة التي تلاها في هذه الأوقات“ترجمہ:اوراگرکسی نے ان تین اوقات میں اپنے اوپرواجب یافرض یامنت کی  نمازاداکی تووہ اس کولوٹائے گا،سوائے اس دن کی عصراورنمازجنازہ اور اس   تلاوت کےسجدہ کے کہ جس کی تلاوت  انہی اوقات میں کی ۔(جامع المضمرات،کتاب الصلاۃ،ج 1،ص 420،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   تفصیل اس کی یہ ہے :

    نمازکاوقت اس کے وجوب کاسبب ہوتاہے اورسبب اگرکامل ہو،تووجوب بھی کامل ہوتاہے اورجب وجوب کامل ہو،تواب اس کی ناقص وقت میں ادائیگی نہیں کی جاسکتی اوراگرسبب ناقص ہو،تووجوب بھی ناقص ہوتاہے اوراب اس کی ناقص وقت میں ادائیگی کی جاسکتی ہے کہ جیسا وجوب تھا،ادائیگی بھی ویسی ہی کی گئی ہے ۔ اوراس صورت میں اس میں کوئی کراہت نہیں آتی، لہذااس کے واجب الاعادہ ہونے کاحکم بھی نہیں لگایاجائے گا۔

   عصرکے وقت کے دوحصے ہوتے ہیں :ایک مکروہ وقت سے پہلے اورایک مکروہ وقت۔مکروہ وقت سے پہلے والاحصہ کامل ہے،تواس کی وجہ سے وجوب بھی کامل ہے اورمکروہ وقت ناقص ہے، تواس کی وجہ سے وجوب بھی ناقص ہے۔اورنمازکاسبب وہ جزء بنتاہے،جس میں نمازکی ادائیگی کی جائے ۔ پس جب ناقص وقت میں وجوب بھی ناقص ہے تواب اسی وقت میں اگراس کی ادائیگی کی جائے گی،توجیساوجوب تھاویسی ادائیگی ہوگئی ،توکسی قسم کانقص بندے کی طرف سے نہیں آیا،تونمازبھی واجب الاعادہ نہیں ہوگی ۔لیکن یہ یادرہے کہ بلاعذرشرعی ناقص وقت تک نمازکو مؤخر کرنا، ناجائزوحرام ہے ۔

   نظائر:

   اس کی نظیرسجدہ تلاوت اورنمازجنازہ ہیں کہ یہ اگرمکروہ وقت سے پہلے لازم ہوچکے تھے ،توان کووقت مکروہ تک مؤخر کرنا،جائزنہیں اوراگریہ مکروہ وقت میں ہی لازم ہوئے یعنی آیت سجدہ کواسی وقت تلاوت کیایاجنازہ اسی وقت میں لایاگیا،تواب مکروہ وقت میں ان کی ادائیگی میں کوئی کراہت نہیں ۔اوراس کی وجہ وہی بیان کی جاتی ہے ،جونمازعصرکے متعلق بیان کی جاتی ہے، یعنی جیساوجوب تھا،ویسی ہی ادائیگی کی گئی ہے ۔

   متون معتبرہ:

   الکافی فی الفروع للحاکم،جوظاہرالروایہ کی جامع ہے،اس میں ہے:”ویکرہ ان یؤخر صلاۃ العصر الی ان تتغیر الشمس فان صلاھا حین تغیرت الشمس قبل ان یغیب اجزاہ“ترجمہ:اورعصرکی نمازکوسورج کے متغیرہونے تک  موخرکرنا،مکروہ ہے، پس اگر سورج غروب ہونے سے پہلے ،سورج متغیرہونے کے وقت  اسے اداکیاتواسے کفایت کرجائے گی ۔ (الکافی فی الفروع،کتاب الصلاۃ،باب مواقیت الصلاۃ،ص 9،مخطوطہ)

   امام مظفر الدین احمد بن علی ابن ساعاتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی 694ھ) متن معتبرمجمع البحرین میں فرماتے ہیں:”وتکرہ مع الشروق والاستواء والغروب الا  عصر یومہ “ترجمہ:سورج طلوع ہوتے وقت اورجب وہ نصف النہارپرہواوراس کے غروب ہوتے وقت نمازمکروہ ہے ،سوائے اس  دن کی عصرکے ۔(مجمع البحرین،کتاب الصلاۃ،فصل فی الاوقات التی تکرہ فیھا الصلاۃ،ص 109،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   متن معتبر’’الاصلاح ‘‘میں ہے:’’ الاعصریومہ‘‘ترجمہ:عصرکے مکروہ وقت میں نمازپڑھناجائزنہیں، سوائے اس دن کی عصرکے ۔

   اس کے تحت شرح ایضاح میں ہے:’’ لانہ اداھاکماوجبت لان سبب الوجوب آخرالوقت ان لم یودقبلہ والافالجزء المتصل بالاداء ،فاذااداھا کماوجبت لایکرہ فعلھافیہ ،انمایکرہ تاخیرھاالیہ  وھذاکالقضاء لایکرہ فعلہ بعدماخرج الوقت وانمایحرم تفویتہ‘‘ ترجمہ:کیونکہ اس نے اسے اسی صفت سے اداکیاہے،جس صفت سے یہ واجب ہوئی،کیونکہ وجوب کاسبب،وقت کاآخری حصہ ہے،جبکہ اس سے پہلے ادانہ کیاہو،وگرنہ وہ جزء ہے جوادائیگی کے ساتھ متصل ہے،پس جب وہ اسے اسی صفت سے اداکرے جس صفت سے لازم ہوئی ہے، تواس وقت میں اس کااداکرنا،مکروہ نہیں ہوگا،مکروہ توصرف اس وقت تک تاخیرکرناہے ۔اوریہ قضاکی طرح ہے کہ وقت نکل جانے کے بعداس کاکرنا،مکروہ نہیں ،فقط اس کوفوت کرناحرام ہوتاہے ۔(الایضاح فی شرح الاصلاح،کتاب الصلاۃ،ج01،ص90،دارالکتب العلمیہ)

   کنزالدقائق میں ہے:’’ ومنع عن الصلاة وسجدة التلاوة وصلاة الجنازة عند الطلوع والاستواء والغروب إلا عصر يومه ‘‘ ترجمہ: سورج طلوع ہوتے وقت اورجب وہ نصف النہارپرہواوراس کے غروب ہوتے وقت نماز،سجدہ تلاوت اور نماز  جنازہ ممنوع ہے ،سوائے اس  دن کی عصرکے ۔ (کنزالدقائق، کتاب الصلاۃ،ص22،ضیاء العلوم پبلی کیشنز،راولپنڈی)

   بحرمیں کنزکی اس عبارت کی وضاحت یوں فرمائی گئی :’’واستثنى المصنف من المنع عصر يومه فأفاد أنه لا يكره أداؤه وقت التغير‘‘ترجمہ:اورمصنف نے ممانعت سے اس دن کی عصرکو مستثنیٰ فرماکریہ افادہ فرمایاہے کہ سورج متغیرہونے کے وقت اس دن کی عصرکی نمازکی ادائیگی مکروہ نہیں ہے ۔ (بحرالرائق،کتاب الصلاۃ،ج01،ص 435،مطبوعہ کوئٹہ)

   نہرالفائق میں ہے:’’ (و) عند (الغروب إلا عصر يومه) لأنه مأمور بالأداء فيه وهو غير مكروه إنما المكروه التأخير كما مر قال في الكافي: وقيل: الأداء مكروه أيضا ۔۔۔۔إلا أن الأليق بكلامه الأول لمن تأمل ‘‘ ترجمہ:اورسورج ڈوبتے وقت نمازمکروہ ہے ،سوائے اس دن کی عصرکے کیونکہ  اس وقت میں اس کی ادائیگی کااسے حکم دیاگیاہے اور ادائیگی مکروہ نہیں ہے ،مکروہ توصرف تاخیرہے،جیساکہ پیچھے گزرا۔کافی میں فرمایا:’’اورایک قول یہ کیاگیاہے کہ ادائیگی بھی مکروہ ہے ۔مگریہ ہے کہ  غورکرنے والے کے لیے صاحب کنزکے کلام کے زیادہ لائق پہلاقول ہے۔(نھرالفائق،کتاب الصلاۃ،ج01،ص166،مطبوعہ کراچی)

   اورتبیین الحقائق میں اس کی وضاحت یوں فرمائی:وقوله إلا عصر يومه أي لا يمنع عصر يومه ولا يكره الأداء في وقت الغروب لأنه أداهاکماوجبت‘‘ ترجمہ:یعنی اس دن کی عصرکی نمازممنوع نہیں ہے اورنہ سورج ڈوبتے وقت اس کی ادائیگی مکروہ ہے، کیونکہ اسے اسی صفت کے ساتھ اس نے اداکیاہے ،جس صفت کے ساتھ واجب ہوئی تھی۔(تبیین الحقائق،کتاب الصلوۃ،ج01،ص230،مطبوعہ کوئٹہ)

   نوٹ:ان عبارات سے واضح ہواکہ کنزالدقائق میں اس دن کی عصرکی ادائیگی کوغیرمکروہ قراردیاگیاہے ۔

   ملتقی الابحرمیں بھی اسی طرح کی عبارت ہے:’’ ومنع عن الصلاة وسجدة التلاوة وصلاة الجنازة عند الطلوع والأستواء والغروب إلا عصر يومه ‘‘ ترجمہ: سورج طلوع ہوتے وقت اورجب وہ نصف النہارپرہواوراس کے غروب ہوتے وقت نماز،سجدہ تلاوت اور نماز  جنازہ ممنوع ہے ،سوائے اس  دن کی عصرکے۔(ملتقی الابحر،کتاب الصلاۃ،ص 10،مخطوطہ)

   عبد الرحیم بن ابی بکر مرعشی علیہ الرحمۃ (متوفی 1149ھ) المعادل شرح ملتقی الابحر میں فرماتے ہیں:”( إلا عصر يومه )۔۔۔۔يعني: أنَّه لا يُمنَعُ عن صلاة عصر يوم الغروب عند الغروب؛ لأنَّها إذا أداها أداها كما وجبت؛ لأنَّ سبب الوجوب آخر الوقت إن لم يؤدِ  قبله، فإذا أداها كما وجبت فلا يُكرَهُ  فعلها، وإنَّما يُكرَهُ تأخيرها إليه“ترجمہ:مصنف کی مرادیہ ہے کہ جس دن سورج غروب ہونے کے قریب ہو،اس دن  کی عصر ،سورج غروب ہوتے وقت  ممنوع نہیں ہے کیونکہ اس نے اسے اسی طرح اداکیاہے ،جس طرح وہ واجب ہوئی ہے ،کیونکہ وجوب کاسبب وقت کاآخری حصہ ہے،جبکہ اس سے پہلے ادانہ کی ہو۔پس جب وہ اسے اسی طرح اداکرے گاجیسے وہ واجب ہوئی تواس کاکرنامکروہ نہیں  ،مکروہ توصرف اس وقت تک موخرکرناہی ہے ۔(المعادل شرح ملتقی الابحر ،کتاب الصلاۃ،ج 1،ص 176،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   تنویرالابصارمیں ہے:”وكره صلاة۔۔۔مع شروق واستواءوغروب، إلا عصر يومه “ترجمہ:سورج طلوع ہوتے وقت اورجب وہ نصف النہارپرہواوراس کے غروب ہوتے وقت نمازمکروہ ہے ،سوائے اس  دن کی عصرکے ۔(تنویرالابصار،کتاب الصلاۃ ،ص 11،مخطوطہ)

   اوپرمذکوربعض متون میں صراحت ہے کہ عصرکے مکروہ وقت میں کوئی اورنمازپڑھنامکروہ ہے ،سوائے اس دن کی عصرکے ،جس سے واضح ہے کہ اس دن کی عصرکی ادائیگی مکروہ وقت میں مکروہ نہیں ہے ۔

   اوربعض متون میں دوسری نمازو ں کی ممانعت یاعدم جوازکاذکرہے اوراس سے اس دن کی عصرکااستثناکیاگیاہے کہ وہ ممنوع یاناجائزنہیں ہے ،جس کی وضاحت شارحین نے یہی بیان فرمائی کہ اس کامطلب یہ ہے کہ اس دن کی عصرکی ادائیگی مکروہ وقت میں کی جائے، تونمازمکروہ نہیں ہے، اگرچہ اتنی تاخیرمکروہ ہے ۔

   اس سے یہ واضح ہے کہ متون  جونقل مذہب کے لیے ہوتے ہیں ،ان سے یہ بات واضح ہے کہ عصرکے مکروہ وقت میں اس دن کی عصرکی نمازکی ادائیگی مکروہ نہیں ہے ۔

   شروح معتبرہ :

   الینابیع کاحوالہ اوپرمذکورہوا۔

   جامع المضمرات کاحوالہ اوپرمذکورہوا۔

   نہرالفائق کاحوالہ بھی اوپرمذکورہوا۔

   دررالحکام شرح غررالاحکام میں ہے:’’ فإن أداها لا يكره وقت الغروب لأنه أداها كما وجبت لأن سبب الوجوب آخر الوقت إن لم يؤد قبله فإذا أداها كما وجبت لم يكره فعلها فيه وإنما يكره تأخيرها إليه كالقضاء لا يكره فعله بعد خروج الوقت، وإنما يحرم تفويته، قالوا المراد بسجدة التلاوة ما تلاها قبل هذه الأوقات لأنها وجبت كاملة فلا تتأدى بالناقص وأما إذا تلاها فيها فجاز أداؤها فيها بلا كراهة لكن الأفضل تأخيرها ليؤديها في الوقت المستحب لأنها لا تفوت بالتأخير بخلاف العصر وكذا المراد بصلاة الجنازة ما حضرت قبل هذه الأوقات فإن حضرت فيها جازت بلا كراهة لأنها أديت كما وجبت إذ الوجوب بالحضور وهو أفضل، والتأخير مكروه ‘‘ترجمہ:اگر اس نے نماز عصر غروب کے وقت ادا کی تو کراہت نہیں ،کیونکہ اس نے ویسی ہی ادا کی ہے جیسی واجب ہوئی تھی،کیونکہ وجوب کا سبب آخری وقت ہے، جبکہ اس سے پہلے ادائیگی نہ کی ہو،تو پھر جب اس نے ویسی ہی ادا کی ہے جیسی واجب ہوئی تھی، تو اس کی ادائیگی  مکروہ نہیں۔ ہاں اس میں تاخیر مکروہ ہے جیسا کہ وقت نکل جانے کے بعد قضا کی ادائیگی مکروہ نہیں ،اور اس کی ادائیگی فوت کر دینا حرام ہے ،فقہاء نے فرمایا:سجدہ تلاوت سے مراد وہ ہے جس کی تلاوت ان اوقات سے پہلے کی ہو،کیونکہ وہ کامل طریقے سے واجب ہوا،تو اس کی ناقص طریقے سے ادائیگی نہیں ہو سکتی،بہر حال جس کی  تلاوت انہی اوقات میں کی ہو اس کی ادائیگی ان اوقات میں بلا کراہت جائز ہے، لیکن افضل یہ ہے کہ اس کی ادائیگی میں تاخیر کرے تاکہ اسے  وقتِ مستحبہ میں ادا کرے ،کیونکہ یہ تاخیر سے فوت نہیں ہوتا، بخلاف عصر کے ،یہی مراد ہوگی نماز جنازہ کے متعلق جو ان اوقات سے پہلے لایا گیا ،اور اگر انہی اوقات میں جنازہ لایا گیا، تو اس کی ادائیگی بلا کراہت جائز ہے، کیونکہ اس نے اس کی ویسی ہی ادائیگی کی ہے جیسا وہ واجب ہوا تھا،کیونکہ وجوب ،جنازہ کے حاضر ہونے سے ہوتا ہے اور یہی افضل ہے کہ ادائیگی کر دی جائے اور اس میں تاخیر کرنا ،مکروہ ہے ۔( دررالحکام شرح غررالاحکام ،کتاب الصلاۃ،بیان الاوقات المستحبہ،ج01،ص 179،مکتبۃ اولوا لالباب)

   تبیین الحقائق میں ہے:’’وقوله إلا عصر يومه أي لا يمنع عصر يومه ولا يكره الأداء في وقت الغروب؛ لأنه أداها كما وجبت؛ لأن سبب الوجوب آخر الوقت إن لم يؤد قبله، وإلا فالجزء المتصل بالأداء فأداها كما وجبت فلا يكره فعلها فيه وإنما يكره تأخيرها إليه وهذا كالقضاء لا يكره فعله بعدما خرج الوقت. وإنما يحرم تفويته ‘‘ ترجمہ:یعنی اس دن کی عصرکی نمازممنوع نہیں ہے اورنہ سورج ڈوبتے وقت اس کی ادائیگی مکروہ ہے، کیونکہ اسے اسی صفت کے ساتھ اس نے اداکیاہے ،جس صفت کے ساتھ واجب ہوئی تھی ۔لہذااس وقت میں اس کی ادائیگی مکروہ نہیں ،مکروہ توصرف اس وقت تک اس کومؤخرکرناہے اوریہ ایسے ہی ہے جیسے قضاکہ وقت نکل جانے کے بعداس کواداکرنا،مکروہ نہیں ہے ،حرام توصرف  اسے وقت سے مؤخر کرناہے۔(تبیین الحقائق،کتاب الصلوۃ،ج01،ص 230،مطبوعہ کوئٹہ)

   ابو البقاء احمد بن ضیاء قرشی حنفی رحمۃ الله تعالی علیہ (متوفی 854ھ)’’الضیاء المعنوی شرح مقدمۃ الغزنوی فی فروع الحنفیۃ ‘‘ میں فرماتے ہیں:”( لا یجوزفیھاالصلوۃ۔۔۔۔۔الا عصر یومہ)فانہ یجوز اداء عصر یومہ عند غروب الشمس بغیر کراھۃ لانہ اداھا کما وجبت “ ترجمہ :ان اوقات میں نمازجائزنہیں سوائے اس دن کی عصرکے کہ اس دن کی عصرکوسورج ڈوبتے وقت اداکرنابغیرکسی کراہت کے جائزہے، کیونکہ اس کواسی طرح اس نے اداکیاہے ،جیسے وہ واجب ہوئی ۔(الضیاء المعنوی شرح مقدمۃ الغزنوی فی فروع الحنفیۃ،کتاب الصلاۃ،ج 1،ص 438،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   در مختار میں ہے: ” (وكره) تحريما۔۔۔۔ (صلاة) مطلقا۔۔۔(مع شروق)۔۔۔ (واستواء)۔۔۔ (و غروب، إلا عصر يومه) فلا يكره فعله لأدائه كما وجب“ترجمہ:سورج طلوع ہوتے وقت اورجب وہ نصف النہارپرہواوراس کے غروب ہوتے وقت مطلقاً نمازمکروہ ہے ،سوائے اس  دن کی عصرکے ،پس   اس کواداکرنا،مکروہ نہیں ہے کہ وہ جیسے واجب ہوئی تھی ویسے اداکی گئی ہے ۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الصلاۃ،ج 2،ص 37،38،40،مطبوعہ کوئٹہ)

   برجندی شرح مختصر الوقایہ میں ہے:”والتاخیر الی تغیر الشمس یکرہ واما الاداء فغیر مکروہ لانہ مامور بہ فکیف یکون مکروھا وقیل الاداء مکروہ ایضا کذا فی الکافی“ترجمہ:سورج میں تغیرآنے تک نمازعصرکوموخرکرنامکروہ ہے اوررہی ادائیگی تووہ مکروہ نہیں ہے کیونکہ اس کی توادائیگی کااسے حکم ہے، تووہ کیسے مکروہ ہوگی اورایک قول یہ کیاگیاہے کہ ادائیگی بھی مکروہ ہے ،اسی طرح کافی میں ہے ۔(برجندی علی شرح الوقایہ،کتاب الصلاۃ،ج 1،ص 78،مطبوعہ کوئٹہ)

   امام مظفر الدین احمد بن علی ابن ساعاتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی 694ھ)  اپنی کتاب ’’مجمع البحرین‘‘ کی شرح میں فرماتے ہیں:’’وأما أستثناء عصر اليوم فدليل على أنها غير مكروهة وقت الغروب ۔۔۔ وقال أيضا : إن تأخير العصر إلى هذا الوقت يعني وقت تغير الشمس مكروه، فأما الفعل فغير مكروه لأنه مأمور بالفعل فلا يستقيم إثبات الكراهة مع الأمر به“ترجمہ: اور اس دن کی نمازِ عصر کا استثناء اس پر دلیل ہے کہ غروب کے وقت اس کی ادائیگی  مکروہ نہیں۔۔۔اورابو الفضل نے  یہ بھی  فرمایا :سورج میں تغیر آنے تک نمازِ عصر میں تاخیر کرنا مکروہ ہے اور ادائیگی مکروہ نہیں، کیونکہ وہ ادائیگی پر مامور ہے تو ادائیگی کا حکم ہونے کے ساتھ کراہت کو ثابت کرنا درست نہیں۔(شرح مجمع البحرین،کتاب الصلاۃ،ج 1،ص ،468،469،دار الافھام،ریاض)

   معتبرفتاوی :

   محیط رضوی میں ہے:’’قال مشائخنا:التاخیرالی ھذاالوقت مکروہ فاماالاداء فغیرمکروہ ،لانہ مامور بہ  ‘‘ ترجمہ:ہمارے مشائخ نے فرمایاہے :اس وقت تک عصرکی نمازکو مؤخر کرنا،مکروہ ہے اوررہی ادائیگی تووہ مکروہ نہیں ہے ،کیونکہ ادائیگی کاتواسے حکم ہے ۔(المحیط الرضوی،کتاب الصلاۃ،فصل فی الاوقات المستحبہ،ج01،ص197،دارالکتب العلمیہ،بیروت)

   محیط برھانی میں ہے:’’ الأوقات التي تكره فيها الصلاة خمسة، ثلاثة يكره فيها التطوع والفرض:وذلك: عند طلوع الشمس، ووقت الزوال، وعند غروب الشمس إلا عصر يومه، فإنه لا يكره عند غروب الشمس ‘‘ ترجمہ:جن اوقات میں نمازمکروہ ہے ،وہ پانچ ہیں ،تین میں نفل وفرض دونوں مکروہ ہیں اوروہ یہ ہیں :سورج نکلتے وقت ،نصف النہارپرسورج کے پہنچنے کے وقت اورسورج کے ڈوبنے کے وقت سوائے اس دن کی عصرکے کہ  سورج ڈوبتے وقت وہ مکروہ نہیں ہے ۔ (المحیط البرھانی،کتاب الصلاۃ، الفصل الاول فی المواقیت،ج02،ص 10،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ،کراچی)

   فتاوی ظہیریہ میں ہے:”وقیل فی کراھۃ وقت العصر تغیر الشمس ،وقیل یعتبر التغیر فی عین القرص ،وقیل اذا کانت قامت الشمس مقدار رمح لا تتغیر وفیما دونھا تغیرت ،وقیل اذا کانت یمکنہ احاطۃ النظر فقد تغیر والتاخیر الی ھذا الوقت مکروہ والفعل لیس بمکروہ “ترجمہ:عصرکے مکروہ وقت کے متعلق مختلف اقوال ہیں:ایک یہ ہے کہ سورج کے متغیرہونے کااعتبارہے اورایک قول یہ ہے کہ عین ٹکیہ میں تغیرکااعتبارہےاورکہاگیاہےکہ جب سورج ایک نیزے پررہ جائے،تومتغیرنہیں ہوتااوراس سے کم مقدارمیں متغیرہوجاتاہے اورکہاگیاہے کہ جب  اس کانظرسے احاطہ ممکن ہو،تووہ متغیرہوجائے گا۔اوراس وقت تک نمازکو مؤخر کرنا،مکروہ ہے اورنمازکی ادائیگی مکروہ نہیں ہے ۔   (فتاوی ظھیریہ،کتاب الصلاۃ،باب مواقیت الصلاۃ،ص 15،مخطوطہ)

   فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:”الاقات التی یکرہ فیھا الصلاۃ خمسۃ،ثلاثہ یکرہ فیھا التطوع ،والفرض وذالک عند طلوع الشمس ووقت الزوال وعند غروب الشمس ،الا عصر یومہ فانھا لا یکرہ عند غروب الشمس “ترجمہ:جن اوقات میں نمازمکروہ ہے، وہ پانچ ہیں ،تین میں نفل وفرض دونوں مکروہ ہیں اوروہ یہ ہیں :سورج نکلتے وقت ،نصف النہارپرسورج کے پہنچنے کے وقت اورسورج کے ڈوبنے کے وقت ،سوائے اس دن کی عصرکے کہ  سورج ڈوبتے وقت ،وہ مکروہ نہیں ہے ۔(فتاوی تاتارخانیہ،کتاب الصلاۃ،باب مواقیت الصلاۃ،ج 2،ص 13،14،مطبوعہ کوئٹہ)

   چندمزیدکتب:

   فقیہ ابواللیث نصربن محمد بن احمدبن ابراہیم سمرقندی حنفی  علیہ الرحمۃ (373ھ)بستان العارفین  للسمرقندی میں فرماتے ہیں: ’’ وتكره صلاة الفريضة في ثلاث ساعات، عند طلوع الشمس، وعند استوائها، وعند غروبها إلا عصر يومه‘‘ ترجمہ: تین اوقات میں یعنی سورج طلوع ہوتے وقت اورجب وہ نصف النہارپرہواوراس کے غروب ہوتے وقت نمازمکروہ ہے ،سوائے اس  دن کی عصرکے ۔(بستان العارفین،ص 159،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

   زین الدین ابوعبداللہ محمد بن ابی بکربن عبدالقادرحنفی رازی (المتوفی 666ھ)تحفۃ الملوک میں فرماتے ہیں:” ثلاثة يكره فيها كل صلاة وسجدة التلاوة والسهو عند طلوع الشمس واستوائها وغروبها إلا عصر يومه“ترجمہ: تین اوقات میں یعنی سورج طلوع ہوتے وقت اورجب وہ نصف النہارپرہواوراس کے غروب ہوتے وقت نمازمکروہ ہے ،سوائے اس  دن کی عصرکے ۔ (تحفۃ الملوک،فصل شروط الصلاۃ،ص 58،دار البشائر الإسلاميہ ، بيروت)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:” نمازِ عصر میں ابر کے دن تو جلدی چاہیئے، نہ اتنی کہ وقت سے پیشتر ہوجائے۔ باقی ہمیشہ اس میں تاخیر مستحب ہے۔۔۔ مگر ہرگز ہرگز اتنی تاخیر جائز نہیں کہ آفتاب کا قرص متغیر ہوجائے اُس پر بے تکلف نگاہ ٹھہرنے لگے۔۔۔۔ اور ادھر جب غروب کو بیس منٹ رہیں وقتِ کراہت آجائے گا، اور آج کی عصر کے سوا ہر نماز منع ہوجائے گی۔(فتاوی رضویہ،ج 5،ص 136،138،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   بہار شریعت میں ہے”اوقاتِ مکروہہ: طلوع و غروب و نصف النہار، ان تینوں وقتوں میں کوئی نماز جائز نہیں ،نہ فرض ،نہ واجب، نہ نفل ،نہ ادا، نہ قضا، یوہیں سجدۂ  تلاوت و سجدۂ سہو بھی ناجائز ہے، البتہ اس روز اگر عصر کی نماز نہیں پڑھی، تو اگرچہ آفتاب ڈوبتا ہو پڑھ لے ،مگر اتنی تاخیر کرنا حرام ہے ۔ ‘‘(بھار شریعت،ج 1،حصہ 3،ص 454،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   بہار شریعت میں ہے:”جنازہ اگر اوقاتِ ممنوعہ میں لایا گیا ،تو اسی وقت پڑھیں کوئی کراہت نہیں۔ کراہت اس صورت میں ہے کہ پیشتر سے تیار موجود ہے اور تاخیر کی یہاں تک کہ وقتِ کراہت آ گیا۔ان اوقات میں آیت سجدہ پڑھی تو بہتر یہ ہے کہ سجدہ میں تاخیر کرے ،یہاں تک کہ وقتِ کراہت جاتا رہے اور اگر وقت مکروہ ہی میں کر لیا ،تو بھی جائز ہے اور اگر وقتِ غیر مکروہ میں پڑھی تھی، تو وقتِ مکروہ میں سجدہ کرنا، مکروہ تحریمی ہے۔‘‘(بھار شریعت،ج 1،حصہ 3،ص 454،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے