مسافر کی نماز

مسافر کی نماز/ مسائل

نمازِ مسافر کا بیان

مسائل فقہیّہ

شرعاً مسافر وہ شخص ہے جو تین دن کی راہ تک جانے کے ارادہ سے بستی سے باہر ہوا۔ (”الفتاوی الرضویۃ”، ج۸، ص۲۴۳.)

مسئلہ ۱: دن سے مراد سال کا سب ميں چھوٹا دن اور تین دن کی راہ سے یہ مراد نہیں کہ صبح سے شام تک چلے کہ کھانے پینے، نماز اور دیگر ضروریات کے ليے ٹھہرنا تو ضرور ہی ہے، بلکہ مراد دن کا اکثر حصہ ہے مثلاً شروع صبح صادق سے دوپہر ڈھلنے تک چلا پھر ٹھہر گیا پھر دوسرے اور تيسرے دن يوہيں کیا تو اتنی دور تک کی راہ کو مسافت سفرکہیں گے دوپہر کے بعد تک چلنے میں بھی برابر چلنا مراد نہیں بلکہ عادۃً جتنا آرام لینا چاہے اس قدر اس درمیان میں ٹھہرتا بھی جائے اور چلنے سے مراد معتدل چال ہے کہ نہ تیز ہو نہ سُست، خشکی میں آدمی اور اونٹ کی درمیانی چال کا اعتبار ہے اور پہاڑی راستہ میں اسی حساب سے جو اس کے ليے مناسب ہو اور دریا میں کشتی کی چال اس وقت کی کہ ہوا نہ بالکل رُکی ہو نہ تیز۔ [1] (درمختار، عالمگیری وغیرہما)

مسئلہ ۲: سال کا چھوٹا دن اس جگہ کا معتبر ہے جہاں دن رات معتدل ہوں یعنی چھوٹے دن کے اکثر حصہ میں منزل طے کر سکتے ہوں لہٰذا جن شہروں میں بہت چھوٹا دن ہوتا ہے جیسے بلغار کہ وہاں بہت چھوٹا دن ہوتا ہے، لہٰذا وہاں کے دن کا اعتبار نہیں۔ [2] (ردالمحتار)

مسئلہ ۳: کوس کا اعتبار نہیں کہ کوس کہیں چھوٹے ہوتے ہیں کہیں بڑے بلکہ اعتبار تین منزلوں کا ہے اور خشکی میں میل کے حساب سے اس کی مقدار ۵۷ ــــ ۳ ۸ میل ہے۔[3] (فتاویٰ رضویہ)

مسئلہ ۴: کسی جگہ جانے کے دو راستے ہیں ایک سے مسافت سفرہے دوسرے سے نہیں تو جس راستہ سے یہ جائے گا اس کا اعتبار ہے، نزدیک والے راستے سے گیا تو مسافر نہیں اور دور والے سے گیا تو ہے، اگرچہ اس راستہ کے اختیار کرنے میں اس کی کوئی غرض صحیح نہ ہو۔ [4] (عالمگیری، درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۵: کسی جگہ جانے کے دو راستے ہیں، ایک دریا کا دوسرا خشکی کا ان میں ایک دو دن کا ہے دوسرا تین دن کا، تین دن والے سے جائے تو مسافر ہے ورنہ نہیں۔ [5] (عالمگیری)

مسئلہ ۶: تین دن کی راہ کو تیز سواری پر دو دن يا کم ميں طے کرے تو مسافر ہی ہے اور تين دن سے کم کے راستہ کو زيادہ دنوں ميں طے کيا تو مسافر نہيں۔ [6] (درمختار، عالمگيری)

مسئلہ ۷: تین دن کی راہ کو کسی ولی نے اپنی کرامت سے بہت تھوڑے زمانہ میں طے کیا تو ظاہر یہی ہے کہ مسافر کے احکام اس کے ليے ثابت ہوں مگر امام ابن ہمام نے اس کا مسافر ہونا مستبعد فرمایا۔ [7] (ردالمحتار)

مسئلہ ۸: محض نیت سفر سے مسافر نہ ہو گا بلکہ مسافر کا حکم اس وقت سے ہے کہ بستی کی آبادی سے باہر ہو جائے شہرمیں ہے تو شہر سے، گاؤں میں ہے تو گاؤں سے اور شہر والے کے ليے یہ بھی ضرور ہے کہ شہر کے آس پاس جو آبادی شہر سے متصل ہے اس سے بھی باہر ہو جائے۔ [8] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۹: فنائے شہر سے جو گاؤں متصل ہے شہر والے کے ليے اس گاؤں سے باہر ہو جانا ضرور نہیں۔ يوہيں شہر کے متصل باغ ہوں اگرچہ ان کے نگہبان اور کام کرنے والے ان میں رہتے ہوں ان باغوں سے نکل جانا ضروری نہیں۔[9] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۰: فنائے شہر يعنی شہر سے باہر جو جگہ شہر کے کاموں کے ليے ہو مثلاً قبرستان، گھوڑ دوڑ کا میدان، کوڑا پھینکنے کی جگہ اگر یہ شہر سے متصل ہو تو اس سے باہر ہو جانا ضروری ہے۔ اور اگرشہر و فنا کے درمیان فاصلہ ہو تو نہیں۔ [10] (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۱: آبادی سے باہر ہونے سے مراد یہ ہے کہ جدھر جا رہا ہے اس طرف آبادی ختم ہو جائے اگرچہ اس کی محاذات میں دوسری طرف ختم نہ ہوئی ہو۔ [11] (غنیہ)

مسئلہ ۱۲: کوئی محلہ پہلے شہر سے ملا ہوا تھا مگر اب جدا ہوگیا تو اس سے باہر ہونا بھی ضروری ہے اور جو محلہ ویران ہوگیا خواہ شہر سے پہلے متصل تھا یا اب بھی متصل ہے اس سے باہر ہونا شرط نہیں۔[12] (غنیہ، ردالمحتار)

مسئلہ ۱۳: اسٹیشن جہاں آبادی سے باہر ہوں تو اسٹیشن پر پہنچنے سے مسافر ہو جائے گا جبکہ مسافت سفر تک جانے کا ارادہ ہو۔

مسئلہ ۱۴: سفر کے ليے یہ بھی ضروری ہے کہ جہاں سے چلا وہاں سے تین دن کی راہ کا ارادہ ہو اور اگر دو دن کی راہ کے ارادہ سے نکلا وہاں پہنچ کر دوسری جگہ کا ارادہ ہوا کہ وہ بھی تین دن سے کم کا راستہ ہے، يوہيں ساری دنیا گھوم آئے مسافر نہیں۔ [13] (غنیہ، درمختار)

مسئلہ ۱۵: یہ بھی شرط ہے کہ تین دن کا ارادہ متصل سفر کا ہو،ا گر یوں ارادہ کیا کہ مثلاً دو دن کی راہ پر پہنچ کر کچھ کام کرنا ہے وہ کر کے پھر ایک دن کی راہ جاؤں گا تو یہ تین دن کی راہ کا متصل ارادہ نہ ہوا مسافر نہ ہوا۔ [14] (فتاویٰ رضویہ)

مسئلہ ۱۶: مسافر پر واجب ہے کہ نماز میں قصر کرے یعنی چار رکعت والے فرض کو دو پڑھے اس کے حق میں دو ہی رکعتیں پوری نماز ہے اور قصداً چار پڑھیں اور دو پر قعدہ کیا تو فرض ادا ہوگئے اور پچھلی دو رکعتیں نفل ہوئيں مگر گنہگار و مستحق نار ہوا کہ واجب ترک کیا لہٰذا تو بہ کرے اور دو رکعت پر قعدہ نہ کیا تو فرض ادا نہ ہوئے اور وہ نماز نفل ہوگئی ہاں اگر تیسری رکعت کا سجدہ کرنے سے پیشتر اقامت کی نیت کر لی تو فرض باطل نہ ہوں گے مگر قیام و رکوع کا اعادہ کرنا ہوگا اور اگر تیسری کے سجدہ میں نیت کی تو اب فرض جاتے رہے، يوہيں اگر پہلی دونوں یا ایک میں قراء ت نہ کی نماز فاسد ہوگئی۔[15] (ہدایہ، عالمگیری، درمختار وغیرہا)

مسئلہ ۱۷: یہ رخصت کہ مسافر کے ليے ہے، مطلق ہے اس کا سفر جائز کام کے ليے ہو یا ناجائز کے ليے بہرحال مسافر کے احکام اس کے ليے ثابت ہوں گے۔[16] (عامۂ کتب)

مسئلہ ۱۸: کافر تین دن کی راہ کے ارادہ سے نکلا دو دن کے بعد مسلمان ہوگیا تو اس کے ليے قصر ہے اور نابالغ تین دن کی راہ کے قصد سے نکلا اور راستہ میں بالغ ہوگیا، اب سے جہاں جانا ہے تین دن کی راہ نہ ہو تو پوری پڑھے حیض والی پاک ہوئی اور اب سے تین دن کی راہ نہ ہو تو پوری پڑھے۔[17] (درمختار)

مسئلہ ۱۹: بادشاہ نے رعایا کی تفتیش حال کے ليے مُلک میں سفر کیا تو قصر نہ کرے جبکہ پہلا ارادہ متصل تین منزل کا نہ ہوا اور اگر کسی اور غرض کے ليے ہو اور مسافتِ سفر ہو تو قصر کرے۔ [18] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۲۰: سُنّتوں میں قصر نہیں بلکہ پوری پڑھی جائیں گی البتہ خوف اور رواروی[19] کی حالت میں معاف ہیں اور امن کی حالت میں پڑھی جائیں۔ [20] (عالمگیری)

مسئلہ ۲۱: مسافر اس وقت تک مسافر ہے جب تک اپنی بستی میں پہنچ نہ جائے یا آبادی میں پورے پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرلے، یہ اس وقت ہے جب تین دن کی راہ چل چکا ہو اور اگر تین منزل پہنچنے سے پیشتر واپسی کا ارادہ کر لیا تو مسافر نہ رہا اگرچہ جنگل میں ہو۔[21] (عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۲۲: نیتِ اقامت صحیح ہونے کے ليے چھ شرطیں ہیں:

(۱) چلنا ترک کرے اگرچلنے کی حالت میں اقامت کی نیت کی تو مقیم نہیں۔

(۲) وہ جگہ اقامت کی صلاحیت رکھتی ہو جنگل یا دریا غیر آباد ٹاپُو میں اقامت کی نیت کی مقیم نہ ہوا۔

(۳) پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت ہو اس سے کم ٹھہرنے کی نیت سے مقیم نہ ہوگا۔

(۴) یہ نیت ایک ہی جگہ ٹھہرنے کی ہو اگر دو موضعوں میں پندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ ہو، مثلاً ایک میں دس دن دوسرے میں پانچ دن کا تو مقیم نہ ہوگا۔

(۵) اپنا ارادہ مستقل رکھتا یعنی کسی کا تابع نہ ہو۔

(۶) اس کی حالت اس کے ارادہ کے منافی نہ ہو۔ [22] (عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۲۳: مسافر جا رہا ہے اور ابھی شہر یا گاؤ ں میں پہنچا نہیں اور نیت اقامت کر لی تو مقیم نہ ہوا اور پہنچنے کے بعد نیت کی تو ہوگیا اگرچہ ابھی مکان وغیرہ کی تلاش میں پھر رہا ہو۔ [23] (عالمگیری)

مسئلہ ۲۴: مسلمانوں کا لشکر کسی جنگل میں پڑاؤ ڈال دے اور ڈیرہ خیمہ نصب کر کے پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرلے تو مقیم نہ ہوا اور جو لوگ جنگل میں خيموں ميں رہتے ہیں وہ اگر جنگل میں خیمہ ڈال کر پندرہ دن کی نیت سے ٹھہریں مقیم ہوجائیں گے، بشرطیکہ وہاں پانی اور گھاس وغیرہ دستیاب ہوں کہ ان کے ليے جنگل ویسا ہی ہے جیسے ہمارے ليے شہر اور گاؤں۔ [24] (درمختار)

مسئلہ ۲۵: دو جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کی اور دونوں مستقل ہوں جیسے مکّہ و منیٰ تو مقیم نہ ہوا اور ایک دوسرے کی تابع ہو جیسے شہر اور اس کی فنا تو مقیم ہوگیا۔ [25] (عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۲۶: یہ نیت کی کہ ان دو بستیوں میں پندرہ روز ٹھہرے گا ایک جگہ دن میں رہے گا اور دوسری جگہ رات میں تو اگر پہلے وہاں گیا جہاں دن میں ٹھہرنے کا ارادہ ہے تو مقیم نہ ہوا اور اگر پہلے وہاں گیا جہاں رات میں رہنے کا قصد ہے تو مقیم ہوگیا، پھر يہاں سے دوسری بستی میں گیا جب بھی مقیم ہے۔[26] (عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۲۷: مسافر اگر اپنے ارادہ میں مستقل نہ ہو تو پندرہ دن کی نیت سے مقیم نہ ہوگا، مثلاً عورت جس کا مہر معجل شوہر کے ذمّہ باقی نہ ہو کہ شوہر کی تابع ہے اس کی اپنی نیت بیکار ہے اور غلام غیر مکاتب کہ اپنے مالک کا تابع ہے اور لشکری جس کو بیت المال یا بادشاہ کی طرف سے خوراک ملتی ہے کہ یہ اپنے سردار کا تابع ہے اور نوکر کہ یہ اپنے آقا کا تابع ہے اور قیدی کہ يہ قید کرنے والے کا تابع ہے اور جس مالدار پر تاوان لازم آیا اور شاگرد جس کو استاذ کے یہاں سے کھانا ملتا ہے کہ یہ اپنے استاذ کا تابع ہے اور نیک بیٹا اپنے باپ کا تابع ہے ان سب کی اپنی نیت بے کار ہے بلکہ جن کے تابع ہیں ان کی نیتوں کا اعتبار ہے ان کی نیت اقامت کی ہے تو تابع بھی مقیم ہیں ان کی نیت اقامت کی نہیں تو یہ بھی مسافر ہیں۔ [27] (درمختار، ردالمحتار، عالمگیری)

مسئلہ ۲۸: عورت کا مہر معجل باقی ہے تو اسے اختیار ہے کہ اپنے نفس کو روک لے لہٰذا اس وقت تابع نہیں۔ يوہيں مکاتب غلام کو بغیر مالک کی اجازت کے سفر کا اختیار ہے لہٰذا تابع نہیں ا ور جو سپاہی پادشاہ یا بیت المال سے خوراک نہیں لیتا وہ تابع نہیں اور اجیر جو ماہانہ یا برسی پر نوکر نہیں بلکہ روزانہ اس کا مقرر ہے وہ دن بھر کام کرنے کے بعد اجارہ فسخ کرسکتا ہے لہٰذا تابع نہیں اور جس مسلمان کو دشمن نے قید کیا اگر معلوم ہے کہ تین دن کی راہ کو لے جائے گا تو قصر کرے اور معلوم نہ ہو تو اس سے دریافت کرے، جو بتائے اس کے موافق عمل کرے اور نہ بتایا تو اگر معلوم ہے کہ وہ دشمن مقیم ہے تو پوری پڑھے اور مسافر ہے تو قصر کرے اور یہ بھی معلوم نہ ہوسکے تو جب تک تین دن کی راہ طے نہ کر لے، پوری پڑھے اور جس پر تاوان لازم آیا وہ سفر میں تھا اور پکڑا گیا اگر نادار ہے تو قصر کرے اور مالدار ہے اور پندرہ دن کے اندر دینے کا ارادہ ہے یا کچھ ارادہ نہیں جب بھی قصر کرے اور یہ ارادہ ہے کہ نہیں دے گا تو پوری پڑھے۔ [28] (ردالمحتار وغيرہ)

مسئلہ ۲۹: تابع کو چاہیے کہ متبوع [29]سے سوال کرے وہ جو کہے اس کے بموجب عمل کرے اور اگر اس نے کچھ نہ بتایا تو دیکھے کہ مقیم ہے یا مسافر اگر مقیم ہے تو اپنے کو مقیم سمجھے اور مسافر ہے تو مسافر اور یہ بھی نہ معلوم، تو تین دن کی راہ طے کرنے کے بعد قصر کرے اس سے پہلے پوری پڑھے۔ اور اگر سوال نہ کرے تو وہی حکم ہے کہ سوال کیا اور کچھ جواب نہ ملا۔ [30] (ردالمحتار)

مسئلہ ۳۰: اندھے کے ساتھ کوئی پکڑ کر لے جانے والا ہے اگر یہ اس کا نوکر ہے تو نابینا کی اپنی نیت کا اعتبار ہے اور اگر محض احسان کے طور پر اس کے ساتھ ہے تو اس کی نیت کا اعتبار ہے۔ [31] (ردالمحتار)

مسئلہ ۳۱: جو سپاہی سردار کا تابع تھا اور لشکر کو شکست ہوئی اور سب متفرق ہوگئے تو اب تابع نہیں بلکہ اقامت و سفرمیں خود اس کی اپنی نیت کا لحاظ ہے۔ [32] (ردالمحتار)

مسئلہ ۳۲: غلام اپنے مالک کے ساتھ سفر میں تھا۔ مالک نے کسی مقیم کے ہاتھ اسے بیچ ڈالا اگر نماز میں اسے اس کا علم تھا اور دو پڑھیں تو پھر پڑھے۔ يوہيں اگر غلام نماز میں تھا اور مالک نے اقامت کی نیت کرلی، اگر جان کر دو پڑھیں تو پھر پڑھے۔ [33](ردالمحتار)

مسئلہ ۳۳: غلام دو شخصوں میں مشترک ہے اور وہ دونوں سفر میں ہیں ایک نے اقامت کی نیت کی دوسرے نے نہیں تو اگر اس غلام سے خدمت لینے میں باری مقرر ہے تو مقیم کی باری کے دن چار پڑھے اور مسافر کی باری کے دن دو۔ اور باری مقرر نہ ہو تو ہر روز چار پڑھے اور دو رکعت پر قعدہ فرض ہے۔ [34] (عالمگیری)

مسئلہ ۳۴: جس نے اقامت کی نیت کی مگر اس کی حالت بتاتی ہے کہ پندرہ دن نہ ٹھہرے گا تو نیت صحیح نہیں، مثلاً حج کرنے گیا اور شروع ذی الحجہ میں پندرہ دن مکۂ معظمہ میں ٹھہرنے کا ارادہ کیا تو یہ نیت بیکار ہے کہ جب حج کا ارادہ ہے تو عرفات و منیٰ کو ضرور جائے گا پھر اتنے دنوں مکۂ معظمہ میں کیونکر ٹھہر سکتا ہے اور منیٰ سے واپس ہو کر نیت کرے تو صحیح ہے۔ [35] (عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۳۵: جو شخص کہیں گیا اوروہاں پندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ نہیں مگر قافلہ کیساتھ جانے کا ارادہ ہے اور یہ معلوم ہے کہ قافلہ پندرہ دن کے بعد جائے گا تو وہ مقیم ہے اگرچہ اقامت کی نیت نہیں۔ [36] (درمختار)

مسئلہ ۳۶: مسافر کسی کام کے ليے یا ساتھیوں کے انتظار میں دو چار روز یا تیرہ چودہ دن کی نیت سے ٹھہرا یا یہ ارادہ ہے کہ کام ہو جائے گا تو چلا جائے گا اور دونوں صورتوں میں اگر آجکل آجکل کرتے برسیں گزر جائیں جب مسافر ہی ہے، نماز قصر پڑھے۔[37](عالمگیری وغيرہ)

مسئلہ ۳۷: مسلمانوں کا لشکر دارالحرب کو گیا یا دارالحرب میں کسی قلعہ کا محاصرہ کیا تو مسافر ہی ہے اگرچہ پندرہ دن کی

نیت کر لی ہو اگرچہ ظاہر غلبہ ہو۔ يوہيں اگر دارالاسلام میں باغیوں کا محاصرہ کیا ہو تو مقیم نہیں اور جو شخص دارالحرب میں امان لے کر گیا اور پندرہ دن کی اقامت کی نیت کی تو چار پڑھے۔ [38] (غنیہ، درمختار)

مسئلہ ۳۸: دارالحرب کا رہنے والا وہیں مسلمان ہوگیا اور کفار اس کے مار ڈالنے کی فکر میں ہوئے وہ وہاں سے تین دن کی راہ کا ارادہ کرکے بھاگا تو نماز قصر کرے اور اگر کہیں دو ایک ماہ کے ارادہ سے چھپ گیا جب بھی قصر پڑھے اور اگر اسی شہر میں چھپا تو پوری پڑھے اور اگر مسلمان دارالحرب میں قید تھا وہاں سے بھاگ کر کسی غار میں چھپا تو قصر پڑھے اگرچہ پندرہ دن کا ارادہ ہو اور اگر دارالحرب کے کسی شہر کے تمام رہنے والے مسلمان ہو جائیں اور حربیوں نے ان سے لڑنا چاہا تو وہ سب مقیم ہی ہیں۔ يوہيں اگر کفار ان کے شہر پر غالب آئے اور یہ لوگ شہر چھوڑ کر ایک دن کی راہ کے ارادہ سے چلے گئے جب بھی مقیم ہیں اور تین دن کی راہ کا ارادہ ہو تو مسافر پھر اگر واپس آئے اور کفار نے ان کے شہر پر قبضہ نہ کیا ہو تو مقیم ہو گئے اور اگر مشرکوں کا شہر پر تسلّط ہوگیا اور وہاں رہے بھی مگر مسلمانوں کے واپس آنے پر چھوڑ دیا تو اگر یہ لوگ وہاں رہنا چاہیں تو دارالاسلام ہوگیا، نمازیں پوری کریں اور اگر وہاں رہنے کا ارادہ نہیں بلکہ صرف ایک آدھ مہینا رہ کر دارالاسلام کو چلے جائیں گے تو قصر کریں۔[39] (عالمگیری)

مسئلہ ۳۹: مسلمانوں کا لشکر دارالحرب میں گیا اور غالب آیا اور اس شہر کو دار الاسلام بنایا تو قصر نہ کریں اور اگر محض دو ایک ماہ رہنے کا ارادہ ہے تو قصر کریں۔ [40] (عالمگیری)

مسئلہ ۴۰: مسافر نے نماز کے اندر اقامت کی نیت کی تو یہ نماز بھی پوری پڑھے اور اگر یہ صورت ہوئی کہ ایک رکعت پڑھی تھی کہ وقت ختم ہوگیا اور دوسری میں اقامت کی نیت کی تو یہ نماز دو ہی رکعت پڑھے اس کے بعد کی چار پڑھے۔ يوہيں اگر مسافر لاحق تھا اور امام بھی مسافر تھا امام کے سلام کے بعد نیتِ اقامت کی تو دو ہی پڑھے اور امام کے سلام سے پیشتر نیت کی تو چار پڑھے۔[41](درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۴۱: ادا و قضا دونوں میں مقیم مسافر کی اقتدا کر سکتا ہے اور امام کے سلام کے بعد اپنی باقی دو رکعتیں پڑھ لے اور ان رکعتوں میں قراء ت بالکل نہ کرے بلکہ بقدر فاتحہ چپ کھڑا رہے۔ [42] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۴۲: امام مسافر ہے اور مقتدی مقیم، امام کے سلام سے پہلے مقتدی کھڑا ہوگیا اور سلام سے پہلے امام نے اقامت کی نیت کر لی تو اگر مقتدی نے تیسری کا سجدہ نہ کیا ہو تو امام کے ساتھ ہولے، ورنہ نماز جاتی رہی اورتیسری کے سجدہ کے بعد امام نے اقامت کی نیت کی تو متابعت نہ کرے، متابعت کریگا تو نماز جاتی رہے گی۔)الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۲۸. (ردالمحتار) (

مسئلہ ۴۳: یہ پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ حکم صحت اقتدا کے ليے شرط ہے کہ امام کا مقیم یا مسافر ہونا معلوم ہو خواہ نماز شروع کرتے وقت معلوم ہوا ہو یا بعد میں، لہٰذا امام کو چاہيے کہ شروع کرتے وقت اپنا مسافر ہونا ظاہر کر دے اور شروع میں نہ کہا تو بعد نماز کہہ دے کہ اپنی نمازیں پوری کر لو میں مسافر ہوں۔ [43] (درمختار) اور شروع میں کہہ دیا ہے جب بھی بعد میں کہہ دے کہ جو لوگ اس وقت موجود نہ تھے انھيں بھی معلوم ہو جائے۔

مسئلہ ۴۴: وقت ختم ہونے کے بعد مسافر مقیم کی اقتدا نہیں کر سکتا وقت میں کر سکتا ہے اور اس صورت میں مسافر کے فرض بھی چار ہوگئے یہ حکم چار رکعتی نماز کا ہے اور جن نمازوں میں قصر نہیں ان میں وقت و بعد وقت دونوں صورتوں میں اقتدا کرسکتا ہے وقت میں اقتدا کی تھی نماز پوری کرنے سے پہلے وقت ختم ہوگیا جب بھی اقتدا صحیح ہے۔[44](درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۴۵: مسافر نے مقیم کی اقتدا کی اور امام کے مذہب کے موافق وہ نماز قضاہے اور مقتدی کے مذہب پر ادا، مثلاً امام شافعی المذہب ہے مقتدی حنفی اور ایک مثل کے بعد ظہر کی نماز اس نے اس کے پیچھے پڑھی تو اقتدا صحیح ہے۔[45] (ردالمحتار)

مسئلہ ۴۶: مسافر نے مقیم کے پیچھے شروع کر کے فاسد کر دی تو اب دو ہی پڑھے گا یعنی جبکہ تنہا پڑھے یا کسی مسافر کی اقتدا کرے اور اگر پھر مقیم کی اقتدا کی تو چار پڑھے۔[46](ردالمحتار)

مسئلہ ۴۷: مسافر نے مقیم کی اقتدا کی تو مقتدی پر بھی قعدۂ اولیٰ واجب ہوگیا فرض نہ رہا تو اگر امام نے قعدہ نہ کیانماز فاسد نہ ہوئی اور مقیم نے مسافر کی اقتدا کی تو مقتدی پر بھی قعدۂ اولیٰ فرض ہوگیا۔[47] (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۴۸: قصر اور پوری پڑھنے میں آخر وقت کا اعتبار ہے جبکہ پڑھ نہ چکا ہو، فرض کرو کسی نے نماز نہ پڑھی تھی اور وقت اتنا باقی رہ گیا ہے کہ اللہ اکبر کہہ لے اب مسافر ہوگیا تو قصر کرے اور مسافر تھا اسوقت اقامت کی نیت کی تو چار پڑھے۔ [48](درمختار)

مسئلہ ۴۹: ظہر کی نماز وقت میں پڑھنے کے بعد سفر کیا اور عصر کی دو پڑھیں پھر کسی ضرورت سے مکان پر واپس آیا اور ابھی عصر کا وقت باقی ہے، اب معلوم ہوا کہ دونوں نمازیں بے وضو ہوئیں تو ظہر کی دو پڑھے اور عصر کی چار اور اگر ظہر و عصر کی پڑھ کر آفتاب ڈوبنے سے پہلے سفر کیا اور معلوم ہواکہ دونوں نمازیں بے وضو پڑھی تھیں تو ظہر کی چار پڑھے اور عصر کی دو۔ [49] (عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۵۰: مسافر کو سہو ہوا اور دو رکعت پر سلام پھیرنے کے بعد نیتِ اقامت کی اس نماز کے حق میں مقیم نہ ہوا اور سجدۂ سہو ساقط ہوگیا اور سجدہ کرنے کے بعد نیت کی تو صحیح ہے اور چار رکعت پڑھنا فرض، اگرچہ ایک ہی سجدہ کے بعدنیت کی۔[50](عالمگیری)

مسئلہ ۵۱: مسافر نے مسافروں کی امامت کی، اثنائے نماز 4 میں امام بے وضو ہوا اور کسی مسافر کو خلیفہ کیا، خلیفہ نے اقامت کی نیت کی تو اس کے پیچھے جو مسافر ہیں ان کی نمازیں دو ہی رکعت رہیں گی۔ يوہيں اگر مقیم کو خلیفہ کيا جب بھی مقتدی مسافر دوہی پڑھیں اور اگر امام نے حدث کے بعد مسجد سے نکلنے سے پہلے اقامت کی نیت کی تو چار پڑھیں۔[51] (عالمگیری)

مسئلہ ۵۲: وطن دو قسم ہے ۔

(۱) وطن اصلی۔

(۲) وطن اقامت۔

وطن اصلی: وہ جگہ ہے جہاں اس کی پیدائش ہے یا اس کے گھر کے لوگ وہاں رہتے ہیں یا وہاں سکونت کر لی اور یہ ارادہ ہے کہ يہاں سے نہ جائے گا۔

وطن اقامت : وہ جگہ ہے کہ مسافر نے پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا وہاں ارادہ کیا ہو۔[52] (عالمگیری)

مسئلہ ۵۳: مسافر نے کہیں شادی کر لی اگرچہ وہاں پندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ نہ ہو، مقیم ہوگیا اور دو شہروں میں اس کی دو عورتیں رہتی ہوں تو دونوں جگہ پہنچتے ہی مقیم ہو جائے گا۔[53] (ردالمحتار)

مسئلہ ۵۴: ایک جگہ آدمی کا وطنِ اصلی ہے، اب اس نے دوسری جگہ وطن اصلی بنایا اگر پہلی جگہ بال بچے موجود ہوں تو دونوں اصلی ہیں ورنہ پہلا اصلی نہ رہا، خواہ ان دونوں جگہوں کے درمیان مسافت سفر ہو یا نہ ہو۔ [54] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۵۵: وطن اقامت دوسرے وطن اقامت کو باطل کر دیتا ہے یعنی ایک جگہ پندر دن کے ارادہ سے ٹھہرا پھر دوسری جگہ اتنے ہی دن کے ارادہ سے ٹھہرا تو پہلی جگہ اب وطن نہ رہی، دونوں کے درمیان مسافت سفر ہو یا نہ ہو۔ یوہیں وطن اقامت وطن اصلی و سفر سے باطل ہو جاتا ہے۔[55] (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۵۶: اگر اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر دوسری جگہ چلا گیا اور پہلی جگہ مکان و اسباب وغیرہ باقی ہیں تو وہ بھی وطن اصلی ہے۔[56] (عالمگیری)

مسئلہ ۵۷: وطنِ اقامت کے ليے یہ ضرور نہیں کہ تین دن کے سفر کے بعد وہاں اقامت کی ہو بلکہ اگر مدتِ سفر طے کرنے سے پیشتر اقامت کر لی وطنِ اقامت ہوگیا۔ [57] (عالمگیری، درمختار)

مسئلہ ۵۸: بالغ کے والدین کسی شہر میں رہتے ہیں اور وہ شہر اس کی جائے ولادت نہیں نہ اس کے اہل وہاں ہوں تو وہ جگہ اس کے ليے وطن نہیں۔ [58] (ردالمحتار)

مسئلہ ۵۹: مسافر جب وطن اصلی میں پہنچ گیا، سفر ختم ہوگیا اگرچہ ا قامت کی نیت نہ کی ہو۔ [59] (عالمگیری)

مسئلہ ۶۰: عورت بیاہ کر سُسرال گئی اور یہیں رہنے سہنے لگے تو میکا اس کے ليے وطنِ اصلی نہ رہا یعنی اگر سُسرال تین منزل پر ہے وہاں سے میکے آئی اور پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کی تو قصر پڑھے اور اگر میکے رہنا نہیں چھوڑا بلکہ سُسرال عارضی طور پر گئی تو میکے آتے ہی سفر ختم ہوگیا نماز پوری پڑھے۔

مسئلہ ۶۱: عورت کو بغیر محرم کے تین دن یا زیادہ کی راہ جانا ناجائز ہے بلکہ ایک دن کی راہ جانا بھی۔ نابالغ بچہ یا مَعتُوہ کے ساتھ بھی سفر نہیں کرسکتی، ہمراہی میں بالغ محرم یا شوہر کا ہونا ضروری ہے۔ [60] (عالمگیری وغیرہ) محرم کے ليے ضرور ہے کہ سخت فاسق بے باک غیر مامون نہ ہو۔ (بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ چہارم،صفحہ۷۴۰تا ۷۵۲)


[1] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۳۸. و الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۲۴.

[2] ۔۔۔۔۔۔ ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۲۵.

[3] ۔۔۔۔۔۔ بہارِ شريعت کے مطبوعہ نسخوں ميں فتاویٰ رضويہ کے حوالے سے ۵۷ ــــ ۳ ۸ میل مرقوم ہے، یہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ فتاویٰ رضويہ (جديد ج۸، ص۲۷۰، اور فتاویٰ رضويہ (قديم ج۳، ص۶۶۹، ميں مجددِ اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عليہ رحمۃ الرحمن نے ساڑھے ستاون (۵۷ ــــ ۱ ۲ ) ميل لکھا ہے۔

فقیہ اعظم ہند علامہ مفتی محمد شريف الحق امجدی عليہ رحمۃ اللہ القوی ”نزھۃ القاری”، جلد 2، صفحہ 655 پر فرماتے ہیں: ”مجددِ اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَيْہِ رَحْمْۃُ الَّرحْمٰن نے ظاہر مذہب کو اختیار فرما کر تین منزل کی یہ مسافت( ساڑھے ستاون میل)بیان فرمائی ہے۔ جدالممتار میں لکھتے ہیں: والمعتاد المعھود فی بلادنا أن کل مرحلۃ ۱۲ کوس، وقد جربت مرارا کثيرۃ بمواضع شہیرۃ أن المیل الرائج فی بلادناخمسۃ أثمان کوس المعتبر ہہنا، فاذا ضربت الاکواس فی ۸، وقسم الحاصل علی ۵ کانت أمیال رحلۃ واحدۃ ۱۹۔۵/۱، وأميال مسيرۃ ثلاثۃ أيام ۵۷۔۵/۳ أعنی ۶۔۵۷. (”جدالممتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۱، ص۳۵۹.) ہمارے بلاد میں معتاد ومعہود یہ ہے کہ ہر منزل بارہ کوس کی ہوتی ہے میں نے بار بار بکثرت مشہور جگہوں میں آزمایا ہے کہ اس وقت ہمارے بلاد میں جو میل رائج ہے۔ وہ ــــ ۵ ۸ کوس جب کوسوں کو ۸ میں ضرب دیں اور حاصل ضرب کو ۵ پر تقسیم کریں تو حاصل قسمت میل ہو گا، اب ایک منزل ۱۹ ــــ ۱ ۵ میل کی ہوئی اور تین دن کی مسافت ۵۷ ــــ ۳ ۵ میل یعنی ۵۷-۶ میل۔” (”نزہۃ القاری شرح صحيح البخاری”، ابواب تقصير الصلوۃ، ج۲، ص۶۶۵.)

بہارِ شريعت کے مطبوعہ نسخوں ميں فتاویٰ رضويہ کے حوالے سے ۵۷ ــــ ۳ ۸ میل مرقوم ہے، یہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ فتاویٰ رضويہ (جديد ج۸، ص۲۷۰، اور فتاویٰ رضويہ (قديم ج۳، ص۶۶۹، ميں مجددِ اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عليہ رحمۃ الرحمن نے ساڑھے ستاون (۵۷ ــــ ۱ ۲ ) ميل لکھا ہے۔

فقیہ اعظم ہند علامہ مفتی محمد شريف الحق امجدی عليہ رحمۃ اللہ القوی ”نزھۃ القاری”، جلد 2، صفحہ 655 پر فرماتے ہیں: ”مجددِ اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَيْہِ رَحْمْۃُ الَّرحْمٰن نے ظاہر مذہب کو اختیار فرما کر تین منزل کی یہ مسافت( ساڑھے ستاون میل)بیان فرمائی ہے۔ جدالممتار میں لکھتے ہیں: والمعتاد المعھود فی بلادنا أن کل مرحلۃ ۱۲ کوس، وقد جربت مرارا کثيرۃ بمواضع شہیرۃ أن المیل الرائج فی بلادناخمسۃ أثمان کوس المعتبر ہہنا، فاذا ضربت الاکواس فی ۸، وقسم الحاصل علی ۵ کانت أمیال رحلۃ واحدۃ ۱۹۔۵/۱، وأميال مسيرۃ ثلاثۃ أيام ۵۷۔۵/۳ أعنی ۶۔۵۷. (”جدالممتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۱، ص۳۵۹.) ہمارے بلاد میں معتاد ومعہود یہ ہے کہ ہر منزل بارہ کوس کی ہوتی ہے میں نے بار بار بکثرت مشہور جگہوں میں آزمایا ہے کہ اس وقت ہمارے بلاد میں جو میل رائج ہے۔ وہ ــــ ۵ ۸ کوس جب کوسوں کو ۸ میں ضرب دیں اور حاصل ضرب کو ۵ پر تقسیم کریں تو حاصل قسمت میل ہو گا، اب ایک منزل ۱۹ ــــ ۱ ۵ میل کی ہوئی اور تین دن کی مسافت ۵۷ ــــ ۳ ۵ میل یعنی ۵۷-۶ میل۔” (”نزہۃ القاری شرح صحيح البخاری”، ابواب تقصير الصلوۃ، ج۲، ص۶۶۵.)

بہارِ شريعت کے مطبوعہ نسخوں ميں فتاویٰ رضويہ کے حوالے سے ۵۷ ــــ ۳ ۸ میل مرقوم ہے، یہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ فتاویٰ رضويہ (جديد ج۸، ص۲۷۰، اور فتاویٰ رضويہ (قديم ج۳، ص۶۶۹، ميں مجددِ اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عليہ رحمۃ الرحمن نے ساڑھے ستاون (۵۷ ــــ ۱ ۲ ) ميل لکھا ہے۔

فقیہ اعظم ہند علامہ مفتی محمد شريف الحق امجدی عليہ رحمۃ اللہ القوی ”نزھۃ القاری”، جلد 2، صفحہ 655 پر فرماتے ہیں: ”مجددِ اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَيْہِ رَحْمْۃُ الَّرحْمٰن نے ظاہر مذہب کو اختیار فرما کر تین منزل کی یہ مسافت( ساڑھے ستاون میل)بیان فرمائی ہے۔ جدالممتار میں لکھتے ہیں: والمعتاد المعھود فی بلادنا أن کل مرحلۃ ۱۲ کوس، وقد جربت مرارا کثيرۃ بمواضع شہیرۃ أن المیل الرائج فی بلادناخمسۃ أثمان کوس المعتبر ہہنا، فاذا ضربت الاکواس فی ۸، وقسم الحاصل علی ۵ کانت أمیال رحلۃ واحدۃ ۱۹۔۵/۱، وأميال مسيرۃ ثلاثۃ أيام ۵۷۔۵/۳ أعنی ۶۔۵۷. (”جدالممتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۱، ص۳۵۹.) ہمارے بلاد میں معتاد ومعہود یہ ہے کہ ہر منزل بارہ کوس کی ہوتی ہے میں نے بار بار بکثرت مشہور جگہوں میں آزمایا ہے کہ اس وقت ہمارے بلاد میں جو میل رائج ہے۔ وہ ــــ ۵ ۸ کوس جب کوسوں کو ۸ میں ضرب دیں اور حاصل ضرب کو ۵ پر تقسیم کریں تو حاصل قسمت میل ہو گا، اب ایک منزل ۱۹ ــــ ۱ ۵ میل کی ہوئی اور تین دن کی مسافت ۵۷ ــــ ۳ ۵ میل یعنی ۵۷-۶ میل۔” (”نزہۃ القاری شرح صحيح البخاری”، ابواب تقصير الصلوۃ، ج۲، ص۶۶۵.)

[4] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۳۸. و الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۲۶.

[5] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۳۸.

[6] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۳۹. و الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۲۶.

[7] ۔۔۔۔۔۔ ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۲۶.

[8] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۲۲.

[9] ۔۔۔۔۔۔ ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۲۲.

[10] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[11] ۔۔۔۔۔۔غنیۃ المتملي”، فصل في صلاۃ المسافر، ص۵۳۶.

[12] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۲۳.

[13] ۔۔۔۔۔۔ غنیۃ المتملي”، فصل في صلاۃ المسافر، ص۵۳۷. و الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۲۳، ۷۲۴.

[14] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الرضویۃ”، ج۸، ص۲۷۰.

[15] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۳۹. و الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۳۳. و الھدایۃ”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۱، ص۸۰.

[16] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۳۹.

[17] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۴۶.

[18] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، مطلب في الوطن الأصلي إلخ، ج۲، ص۷۴۵.

[19] ۔۔۔۔۔۔ یعنی خوف وگھبراہٹ۔

[20] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۳۹.

[21] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، و الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۲۸.

[22] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۳۹. و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۳۳.

[23] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۳۸.

[24] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۳۹. و الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۳۲.

[25] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۴۰. و الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۲۹.

[26] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۴۰. و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۳۰.

[27] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۴۱. و الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، مطلب في الوطن الأصلي إلخ، ج۲، ص۷۴۱۔۷۴۴.

[28] ۔۔۔۔۔۔ ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، مطلب في الوطن الأصلي إلخ، ج۲، ص۷۴۲، وغيرہ.

[29] ۔۔۔۔۔۔ يعنی جس کے تابع ہے۔

[30] ۔۔۔۔۔۔ ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، مطلب في الوطن الأصلي إلخ، ج۲، ص۷۴۳.

[31] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[32] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۴۰. و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۳۰.

[33] ۔۔۔۔۔۔ ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، مطلب في الوطن الأصلي إلخ، ج۲، ص۷۴۴.

[34] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[35] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۴۱.

[36] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۴۰. و الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۲۹.

[37] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۲۹.

[38] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۳۹، وغيرہ .

[39] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۳۱.

[40] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۴۰.

[41] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[42] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۳۵، وغيرہ .

[43] ۔۔۔۔۔۔ ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۳۵.

[44] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۳۵ ۔ ۷۳۶.

[45] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۳۶.

[46] ۔۔۔۔۔۔ ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۳۶.

[47] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[48] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۳۶.

[49] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۳۸.

[50] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۴۱۔۱۴۲. و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج۲، ص۷۳۸.

[51] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۴۱۔۱۴۲.

[52] ۔۔۔۔۔۔ یعنی نماز کے دوران۔

[53] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۴۲.

[54] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۴۲.

[55] ۔۔۔۔۔۔ ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، مطلب في الوطن الأصلي إلخ، ج۲، ص۷۳۹.

[56] ۔۔۔۔۔۔ الدرالمختار و ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، مطلب في الوطن الأصلي و وطن الاقامۃ، ج۲، ص۷۳۹.

[57] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.

[58] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۴۲.

[59] ۔۔۔۔۔۔ ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، مطلب في الوطن الأصلي إلخ، ج۲، ص۷۳۹.

[60] ۔۔۔۔۔۔ الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ج۱، ص۱۴۲.

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے