مُخالفتِ شیطان
مُخالفتِ شیطان

مُخالفتِ شیطان

مُخالفتِ شیطان

مخالفت شیطان کی تعریف:

اللہ تَعَالٰی کی عبادت کرکے شیطان سے دشمنی کرنا، اللہ تَعَالٰی کی نافرمانی میں شیطان کی پیروی نہ کرنا اور صدقِ دِل سے ہمیشہ اپنے عقائدو اَعمال کی شیطان سے حفاظت کرنا مخالفت شیطان ہے۔[1] )نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ ۲۹۸،۲۹۹)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے:( وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸))(پ۲، البقرۃ:۱۶۸) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو بیشک وہ تمہارا کھلا دُشمن ہے۔‘‘ایک اور مقام پرفرمانِ باری تَعَالٰی ہے: (اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ-)(پ۲۲،فاطر:۶) ترجمۂ کنزالایمان: ’’بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے دشمن سمجھو۔‘‘)نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ ۲۹۹)

(حدیث)مبارکہ، شیطان کی مخالفت:

حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہمیں سمجھانے کے لیے ایک لکیر کھینچی اور ارشاد فرمایا: ’’یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا راستہ ہے، پھر اس لکیر کے دائیں بائیں متعدد لکیریں کھینچیں اور ارشاد فرمایا: ’’یہ مختلف راستے ہیں، ان میں سے ہر ایک پر ایک شیطان ہے جو لوگوں کو اس پر چلنے کی دعوت دیتا ہے۔‘‘ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: (وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُۚ-وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ )(پ۸،الانعام:۱۵۳)ترجمۂ کنز الایمان: اور یہ کہ یہ ہے میرا سیدھا راستہ تو اس پر چلو اور، اور راہیں نہ چلو۔[2])نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ ۲۹۹)

مخالفت شیطان کا حکم:

علامہ عبد الرحمٰن بن علی جوزی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’شیطان مردود کی مخالفت اللہ تَعَالٰی کے عذاب سے بچادیتی ہے اور اللہ تَعَالٰی کے اولیاء کے ساتھ جنت میں اعلیٰ مقام عطا کردیتی ہے اور اس مقام پر پہنچا دیتی ہے کہ تم ربُّ العالمین کی زیارت کرسکو گے۔‘‘[3] )نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ ۳۰۰)

شیطان کی مخالفت پر اُبھارنے کے چھ (6)طریقے:

(1)شیطان کے مقاصد پر غور کیجئے: شیطان کی مخالفت پر کمربستہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں اس کے مقاصد معلوم ہوں کیونکہ جب ہمیں اس کے ناپاک عزائم کا علم ہوگا تو ہمارے دل میں اس کے لیے نفرت پیدا ہوگی اور اس کی مخالفت کا ذہن بنے گا۔ شیطان کے چند مقاصد ہیں: (۱) بندے سے اس کا ایمان چھیننا تاکہ وہ دائمی طورپر جہنم کا حقدار بن جائے، اگر ایمان نہ چھین سکے تو پھر اس کا مقصد ہوتا ہے کہ (۲) بندے کو فسق و فجور میں مبتلا کرے، اگر یہ اپنے اس مقصد میں بھی کامیاب نہ ہوتو پھر اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ (۳) بندےکو نیک اعمال سے روکے تاکہ وہ اعلیٰ مرتبہ کو نہ پہنچ سکے۔ لہٰذا انسان کو شیطان کے مذموم مقاصد اپنے ذہن میں رکھنے چاہئیں تاکہ دل میں اس کی مخالفت کا جذبہ پیدا ہو۔ [4]

(2) اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے محبت کیجئے: شیطان اللہ تَعَالٰی اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا دُشمن ہے اسی لیے وہ ہمارا بھی دُشمن ہے اور ہمیں اس کی مخالفت کرنی ہے، جب ہم اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے محبت کریں گے تو اُن کی اطاعت کریں گے اور اُن کی اطاعت ہی شیطان کی مخالفت ہے۔

(3)نیک لوگوں کی صحبت اختیار کیجئے: صحبت انسان کی زندگی پر بڑا گہرا اثر ڈالتی ہے اگر بندہ گناہوں میں منہمک رہنے والے افراد کی صحبت میں بیٹھے گا تو اس کے لیے خود کو گناہوں سے بچانا اور اچھے اعمال کرکے شیطان کی مخالفت کرنا بہت دُشوار ہوگا لیکن اگر بندہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرے گا تو اس کے لیے نیکیاں کرنا اور بُرائیوں سے بچ کر شیطان کی مخالفت کرنا آسان ہوگا۔ لہٰذا انسان کو چاہیے کہ بُرے لوگوں کی صحبت سے بچتا رہے اور ہمیشہ نیک پرہیزگار لوگوں کی صحبت اختیار کرے۔

(4)شیطان کے فریب کو جاننے کی کوشش کیجئے: شیطان کی مخالفت کرنے کے لیے اس کے مکر و فریب کو جاننا بہت ضروری ہے، بعض اوقات شیطان نیکی کی آڑ میں بُرائی کو پیش کرتا ہے کیونکہ جب وہ بظاہر بندے کو گناہ کی طرف بلانے پر قادر نہیں ہوتا تو گناہ کو نیکی کی صورت میں پیش کرتا ہے اور بندے کو گناہ میں مشغول ہونے کا علم ہی نہیں ہوتا۔ مثلاً عالم کو نصیحت کے پیرا ئے میں کہتا ہے: کیا تم خلق خدا کی طرف نظر نہیں کرتے کہ وہ جہالت کی وجہ سے تباہ ہوئے جارہے ہیں اور غفلت کی وجہ سے ہلاکت کے قریب پہنچ گئے ہیں، کیا تم انہیں ہلاکت سے نہیں بچاؤ گے؟ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمہیں علم، فصیح زبان اور بہترین انداز سے نوازا ہے تمہیں لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنی چاہیے، اِس طرح پہلے وہ بندے کو نیکی دعوت دینے پر راضی کرتا ہے پھر آہستہ آہستہ اس کے دل میں ریاکاری، خودپسندی، تکبر و غرور، حُبّ جاہ اور دیگر باطنی بُرائیاں پیدا کردیتا ہے اور اسے اس کا علم ہی نہیں ہوتا، بندہ اپنے گمان میں نیکی کررہا ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ گناہوں کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے، لہٰذا شیطان کی مخالفت کرنے کے لیے اس کے مکر و فریب کا علم حاصل کرنا چاہیے تاکہ اس سے بچا جاسکے۔

(5)اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ذکر کیجئے: شیطان کی مخالفت کرنے اور گناہوں سے بچنے کے لیے اس کے وسوسوں سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے اور شیطانی وسوسوں سے نجات کا بہترین ذریعہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ذکر ہے۔حضرت سیدنا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’شیطان اِبن آدم کے دل پر اپنی سونڈ رکھے ہوئے ہوتا ہے اگر وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکر کرتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے اور اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو بھول جائے تو فورًا اُس کے دل پر غالب آجاتا ہے۔ [5] حضرت سیدنا قیس بن حجاج رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میرے شیطان نے مجھ سے کہا: ’’میں تم میں داخل ہوتے وقت فربہ اونٹنی کی مانند تھا اور اب چڑیا کی طرح ہو گیا ہوں۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’ایسا کیوں؟‘‘ اس نے کہا: ’’تم ذِکرُاللہ کے ذریعے مجھے پگھلاتے رہتے ہو۔‘‘ [6]

(6)بھوک سے کم کھائیے: پیٹ بھرکر کھانا شیطان کی مخالفت میں رُکاوٹ بنتا ہے کیونکہ کھانا اگرچہ حلال اور شبہ سے پاک ہو مگر اسے پیٹ بھرکر کھانے سے شہوات کو تقویت ملتی ہے اور شہوات شیطان کے ہتھیار ہیں۔ منقول ہے کہ زیادہ کھانے میں چھ خرابیاں ہیں: (۱) دل سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف نکل جاتاہے۔ (۲) دل میں مخلوق کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا کیونکہ وہ سبھی کو پیٹ بھرا گمان کرتا ہے۔ (۳) عبادت بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے۔ (۴) علم و حکمت کی بات سن کر دل میں رقت پیدا نہیں ہوتی۔ (۵) خود حکمت و نصیحت کی بات کرتا ہے تو لوگوں کے دلوں پر اس کا اثر نہیں ہوتا اور (۶) اس کے سبب کئی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ [7])نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ ۳۰۱ تا ۳۰۳)


[1] ۔۔۔۔مکاشفۃ القلوب، ص۱۱۰ماخوذا۔

[2] ۔۔۔۔سنن کبری للنسائی، کتاب التفسیر، باب سورۃ الانعام، ۶ / ۳۴۳، حدیث: ۱۱۱۷۴۔

[3] ۔۔۔۔بستان الواعظین، مجلس فی الاستعاذۃ، ص۲۷۔

[4] ۔۔۔۔اصلاح اعمال، ۱ / ۱۹۷ ماخوذا۔

[5] ۔۔۔۔موسوعہ ابن ابی الدنیا،کتاب مکائد الشیطان، ۴ / ۵۳۶، حدیث: ۲۲۔

[6] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۳ / ۹۵۔

[7] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۳ / ۱۰۲۔

قضا قربانی کا کیا حکم ہے

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے