محبت مسلم
محبت مسلم کی تعریف:
’’کسی بندے سے صرف اس لیے محبت کرے کہ ربّ تَعَالٰی اس سے راضی ہوجائے، اس میں دنیاوی غرض ریا نہ ہو، اس محبت میں ماں باپ، اولاد اہل قرابت مسلمانوں سے محبت سب ہی داخل ہیں جب کہ رضائے الٰہی کے لیے ہوں۔‘‘[1] (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۸۰، ۲۸۱)
آیت مبارکہ:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:(وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا۪- وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًاۚ-)(پ۴، آل عمران:۱۰۳) ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور اللہ کی رسّی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا (فرقوں میں بٹ نہ جانا)اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم میں بیر تھا (دشمنی تھی) اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے۔‘‘
حُجَّۃُ الْاِسْلَامحضرتِ سَیِّدُنا امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں: اس آیت مبارکہ میں ’’اِخْوَانًا یعنی بھائی ہونے‘‘سے مراد الفت و محبت قائم ہونا ہے۔[2] (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۸۱)
(حدیث مبارکہ)محبت رکھنے والوں کا انعام:
(1)حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے دن ارشاد فرمائے گا: میرے جلال کی خاطر آپس میں محبت رکھنے والے کہاں ہیں؟ آج کے دن میں انہیں اپنے عرش کے سائے میں جگہ دوں گاجبکہ میرے عرش کے علاوہ کوئی سایہ نہیں۔‘‘[3]
(2)حضورنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمارشاد فرماتے ہيں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: ’’میرے جلال کی خاطر آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن نور کے ایسے منبر ہوں گے کہ انبیاء (عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ) اور شہداء بھی ان پر رشک کریں گے۔‘‘[4] (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۸۱،۲۸۲)
محبت مسلم کا حکم:
رضائے الٰہی کی خاطر کسی سے محبت کرنا اور دین کے خاطر بھائی چارہ قائم کرنا افضل ترین نیکی اور اچھی عادت ہے۔ البتہ اس کی کچھ شرائط ہیں جن کی رعایت کرنے سے آپس میں دوستی رکھنے والے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خاطر محبت کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ نیز ان شرائط کی رعایت کرنے سے بھائی چارہ کدورتوں کی آمیزش اور شیطانی وسوسوں سے پاک و صاف رہتا ہے جبکہ اس کے سبب انسان کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور ان پر محافظت کرنے سے اسے بلند اور اعلیٰ درجات حاصل ہوتے ہیں۔[5] اللہکے واسطے کسی سے محبت کرنا بہترین نیکی ہے اور ایسی محبت اللہ تَعَالٰی کی محبت کا ذریعہ ہے۔[6] (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۸۲)
محبت مسلم کا جذبہ پیدا کرنے کے چار (4) طریقے:
(1)مسلمانوں سے محبت کے فضائل پر غور کیجئے: مسلمانوں سے محبت کرنے کاجذبہ پیدا کرنے کے لیے محبت مسلم کے فضائل پر غور کرنا چاہیے کیونکہ جب انسان کو کسی عمل کی فضیلت معلوم ہوتی ہے تو اس کا دل اس عمل کی طرف مائل ہوتا ہے اور وہ عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے لہٰذا اپنے دل میں مسلمانوں کی محبت پیدا کرنے کے لیے اس کے فضائل پر غور کیجئے۔ چنانچہ حضرت سیدنا ابو ادریس خولانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی نے حضرت سیدنا معاذ بن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے عرض کی: ’’میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے لیے آپ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ حضرت سیدنا معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا: ”تمہیں مبارک ہو، میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کویہ فرماتے سنا کہ ’’قیامت کے دن بعض لوگوں کے لیے عرش کے گِرد کُرسیاں نصب کی جائیں گی، ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح روشن ہوں گے، لوگ گھبراہٹ کا شکار ہوں گے جبکہ انہیں کوئی گھبراہٹ نہ ہوگی، لوگ خوفزدہ ہوں گے انہیں کوئی خوف نہ ہوگا، وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے دوست ہیں جن پر نہ کوئی اندیشہ ہے نہ کچھ غم۔‘‘ عرض کی گئی: ’’یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! یہ کون لوگ ہیں؟ ارشاد فرمایا: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے لیے آپس میں محبت کرنے والے۔‘‘[7]
اِحترامِ مسلم
(2)سلام و مصافحہ کی عادت بنائیے: سلام و مصافحہ کرنا حضورنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ایسی پیاری سنت ہے کہ جس پر عمل کرنے سے معاشرے میں محبت بڑھتی ہے اور دل ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں، حدیث پاک میں بھی سلام کو محبت پیدا کرنے کا سبب بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ارشاد فرمایا: ’’تم جنت میں ہرگز داخل نہیں ہوسکتے جب تک ایمان نہ لے آؤ اور تم (کامل) مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ ‘‘پھر ارشاد فرمایا: ’’آپس میں سلام کو عام کرو۔‘‘[8]
(3)حسن اَخلاق اپنائیے: حسن اَخلاق کےسبب باہم اُلفت و محبت اور موافقت پیدا ہوتی ہے جبکہ بداَخلاقی کے سبب آپس میں بغض و کینہ، حسد اور جدائی پیدا ہوتی ہے۔ حسن اَخلاق کی صفت سے متصف شخص سے ہر ایک میل میلاپ رکھنا پسند کرتا ہے جبکہ بداَخلاق سے ہر کوئی کنارہ کشی اختیار کرتا ہے اگر بندہ حسن اَخلاق کا دامن چھوڑدے اور بداخلاقی سے پیش آئے تو اپنے بھی دوری اختیار کرلیتے ہیں لہٰذا مسلمانوں سے محبت کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے۔
(4)مسلمانوں سے کینہ رکھنے کی وعیدوں پر غور کیجئے: اپنے دل کو مسلمانوں کی محبت کا گلشن بنانے کے لیے مسلمانوں سے بغض و کینہ رکھنے کی وعیدوں پر غور کرنا چاہیے کیونکہ جب دل میں کینہ ہوتا ہے تو انسان حسد، غیبت اور بہتان تراشی جیسے کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے لہٰذا جب انسان کی نظر میں کینہ پروری کی وعیدیں ہوں گی تو وہ اپنے دل کو بغض و کینہ سے پاک رکھنے کی کوشش کرےگا اور جب دل بغض سے پاک ہوگا تو یقینی طورپر دل میں مسلمانوں کی محبت گھر کرے گی۔(نجات دلانے والے اعمال کی معلومات،صفحہ۲۸۳تا۲۸۵)
[1] ۔۔۔۔مرآۃ المناجیح، ۶ / ۵۸۴۔
[2] ۔۔۔۔احیاء العلوم،۲ / ۵۷۱۔
[3] ۔۔۔۔مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب،باب فی فضل الحب فی اللہ ۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۸، حدیث:۲۵۶۶۔
[4] ۔۔۔۔ترمذی،کتاب الزھد،باب ماجاء فی الحب فی اللہ، ۴ / ۱۷۴، حدیث: ۲۳۹۷۔
[5] ۔۔۔۔احیاء العلوم، ۲ / ۵۶۸۔
[6] ۔۔۔۔مرآۃ المناجیح،۶ / ۵۸۸ ملخصًا۔
[7] ۔۔۔۔قوت القلوب ،۲ / ۳۶۴۔
[8] ۔۔۔۔مسلم، کتاب الایمان، باب بیان انہ لایدخل الجنۃ الا المؤمنون۔۔۔الخ، ص۴۷، حدیث:۵۴۔