مفسداتِ نماز کا بیان
(نماز فاسد کرنے والی چیزوں کا بیان)
حدیث ۱: صحیح مسلم میں معاویہ بن الحکم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی، حضور اقدس صَلَی اللہُ تَعَالٰی عَلَيْہِ وَسَلَّمْ فرماتے ہیں: ”نماز میں آدمیوں کا کوئی کلام درست نہیں وہ تو نہیں مگر تسبیح و تکبیر و قراء ت قرآن۔” [1]
حدیث ۲: صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے عبداﷲ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کہتے ہیں، کہ حضور (صَلَی اللہُ تَعَالٰی عَلَيْہِ وَسَلَّمْ) نماز میں ہوتے اور ہم حضور (صَلَی اللہُ تَعَالٰی عَلَيْہِ وَسَلَّمْ) کو سلام کیا کرتے اور حضور (صَلَی اللہُ تَعَالٰی عَلَيْہِ وَسَلَّمْ) جواب دیتے، جب نجاشی کے یہاں سے ہم واپس ہوئے، سلام عرض کیا، جواب نہ دیا، عرض کی، یَا رَسُوْلَ اﷲ (عَزَّوَجَل وَ صَلَی اللہُ تَعَالٰی عَلَيْہِ وَسَلَّمْ) ہم سلام کرتے تھے اور حضور (صَلَی اللہُ تَعَالٰی عَلَيْہِ وَسَلَّمْ) جواب دیتے تھے (اب کیا بات ہے کہ جواب نہ ملا؟) فرمایا: ”نماز میں مشغولی ہے۔”[2]
اور ابوداود کی روایت میں ہے فرمایا: کہ ”اﷲ عَزَّوَجَل اپنا حکم جو چاہتا ہے، ظاہر فرماتا ہے اور جو ظاہر فرمایا ہے، اس میں سے یہ ہے کہ نماز میں کلام نہ کرو، اس کے بعد سلام کا جواب دیا” اور فرمایا: ”نماز قراء ت قرآن اور ذکر خدا کے ليے ہے، تو جب تم نماز میں ہو تو تمہاری یہی شان ہونی چاہیے۔” [3]
حدیث ۳: امام احمد و ابو داود و ترمذی و نَسائی ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے راوی، کہ حضور (صَلَی اللہُ تَعَالٰی عَلَيْہِ وَسَلَّمْ) فرماتے ہیں: ”دو سیاہ چیزیں، سانپ اور بچھو کو نماز میں قتل کرو۔” [4](بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۶۰۳، ۶۰۴)
احکام فقہیّہ
احکام فقہيہ: کلام مفسد نماز ہے، عمداً ہو یا خطاء ً یا سہواً، سوتے میں ہو، یا بیداری میں اپنی خوشی سے کلام کیا، يا کسی نے کلام کرنے پر مجبور کیا، یا اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ کلام کرنے سے نماز جاتی رہتی ہے۔ خطا کے معنی یہ ہیں کہ قراء ت وغیرہ اذکارِ نماز کہنا چاہتا تھا، غلطی سے زبان سے کوئی بات نکل گئی اور سہو کے یہ معنی ہیں کہ اسے اپنا نماز میں ہونا یاد نہ رہا۔ [5] (درمختار)
مسئلہ ۱: کلام میں قلیل و کثیر کا فرق نہیں اور یہ بھی فرق نہیں کہ وہ کلام اصلاح نماز کے ليے ہو یا نہیں، مثلاً امام کو بیٹھنا تھا کھڑا ہوگیا، مقتدی نے بتانے کو کہا بیٹھ جا، یا ہوں کہا، نماز جاتی رہی۔ [6] (درمختار، عالمگیری)
مسئلہ ۲: قصداً کلام سے اسی وقت نماز فاسد ہوگی جب بقدر تشہد نہ بیٹھ چکا ہو اور بیٹھ چکا ہے تو نماز پوری ہوگئی، البتہ مکروہ تحریمی ہوئی۔ [7] (درمختار)
مسئلہ ۳: کلام وہی مفسد ہے، جس میں اتنی آواز ہو کہ کم از کم وہ خود سُن سکے، اگر کوئی مانع نہ ہو اور اگر اتنی آواز بھی نہ ہو بلکہ صرف تصحیح حروف ہو، تو نماز فاسد نہ ہوگی۔[8] (عالمگیری)
مسئلہ ۴: نماز پوری ہونے سے پہلے بھول کر سلام پھیر دیا تو حرج نہیں اور قصداً پھیرا، تو نماز جاتی رہی۔[9] (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۵: کسی شخص کو سلام کیا، عمداً ہو یا سہواً، نماز فاسد ہوگئی، اگرچہ بھول کر السّلام کہا تھا کہ یاد آیا سلام کرنا نہ چاہيے اور سکوت کیا۔[10] (عالمگیری)
مسئلہ ۶: مسبوق نے یہ خیال کر کے کہ امام کے ساتھ سلام پھیرنا چاہيے سلام پھیر دیا، نماز فاسد ہوگئی۔ [11] (عالمگیری)
مسئلہ ۷: عشا کی نماز میں یہ خيال کر کے کہ تراویح ہے، دو رکعت پر سلام پھیر دیا۔ يا ظہر کو جمعہ تصوّر کر کے دو رکعت پر سلام پھیرا، یا مقیم نے اپنے کو مسافر خیال کر کے دو رکعت پر سلام پھیرا، نماز فاسد ہوگئی، اس پر بنا بھی جائز نہیں۔ [12] (عالمگیری)
مسئلہ ۸: دوسری رکعت کو چوتھی سمجھ کر سلام پھیر دیا، پھر یاد آیا تو نماز پوری کرکے سجدۂ سہو کرلے۔ [13] (عالمگیری)
مسئلہ ۹: زبان سے سلام کا جواب دینا بھی نماز کو فاسد کرتا ہے اور ہاتھ کے اشارے سے دیا تو مکروہ ہوئی، سلام کی نیت سے مصافحہ کرنا بھی نماز کو فاسد کر دیتا ہے۔[14] (درمختار، عالمگیری)
مسئلہ ۱۰: مُصلّی سے کوئی چیز مانگی یا کوئی بات پوچھی، اس نے سر یا ہاتھ سے ہاں یا نہیں کا اشارہ کیا، نماز فاسد نہ ہوئی البتہ مکروہ ہوئی۔ [15] (عالمگیری) مسئلہ ۱۱: کسی کوچھینک آئی اس کے جواب میں نمازی نے یَرْحَمُکَ اللہ کہا، نماز فاسد ہوگئی اور خود اسی کو چھینک آئی اور اپنے کو مخاطب کرکے یَرْحَمُکَ اللہ کہا، تو نماز فاسد نہ ہوئی اور کسی اور کو چھینک آئی اس مصلّی نے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہا، نماز نہ گئی اور جواب کی نیت سے کہا، تو جاتی رہی۔[16] (عالمگیری)
مسئلہ ۱۲: نماز میں چھینک آئی کسی دوسرے نے یَرْحَمُکَ اللہ کہا اور اس نے جواب میں کہا آمین، نماز فاسد ہوگئی۔[17]
مسئلہ ۱۳: نما زمیں چھینک آئے، تو سکوت کرے اور اَلْحَمْدُ ﷲ کہہ لیا تو بھی نماز میں حرج نہیں اور اگر اس وقت حمد نہ کی تو فارغ ہو کر کہے۔[18](عالمگیری)
مسئلہ ۱۴: خوشی کی خبر سن کر جواب میں اَلْحَمْدُ ﷲ کہا، نماز فاسد ہوگئی اور اگر جواب کی نیت سے نہ کہا بلکہ یہ ظاہر کرنے کے ليے کہ نماز میں ہے، تو فاسد نہ ہوئی، یوہیں کوئی چیز تعجب خیز ديکھ کر بقصد جواب سُبْحَانَ اللہ یا لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ یا اَللہُ اَکْبَر کہا، نماز فاسد ہوگئی، ورنہ نہیں۔ [19] (عالمگیری)
مسئلہ ۱۵: کسی نے آنے کی اجازت چاہی اس نے یہ ظاہر کرنے کو کہ نماز میں ہے، زور سے الحمد ﷲ یا اﷲ اکبر، یا سبحان اﷲ پڑھا، نماز فاسد نہ ہوئی۔ [20] (غنیہ)
مسئلہ ۱۶: بُری خبر سُن کر اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَکہا، یا الفاظ قرآن سے کسی کو جواب دیا، نماز فاسد ہوگئی، مثلاً کسی نے پوچھا، کیا خدا کے سوا دوسرا خدا ہے؟ اس نے جواب دیا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ، یا پوچھا تیرے کیا کیا مال ہیں؟ اس نے جواب میں کہا (الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ) [21] یا پوچھا کہاں سے آئے؟ کہا (وَ بِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّ قَصْرٍ مَّشِیْدٍ(۴۵)[22]یوہیں اگر کسی کو الفاظ قرآن سے مخاطب کیا، مثلاً اس کا نام یحیی ہے، اس سے کہا (یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍؕ-) [23]موسیٰ نام ہے، اس سے کہا (وَ مَا تِلْكَ بِیَمِیْنِكَ یٰمُوْسٰى(۱۷))[24]نماز فاسد ہوگئی۔[25] (درمختار)
مسئلہ ۱۷: اللہ عَزَّ وَجَلَّکا نام مبارک سُن کر جَلَّ جلالہ کہا، یا نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اسم مبارک سُن کر درود پڑھا، یا امام کی قراء ت سُن کر صَدَقَ اللہ وَصَدَقَ رَسُوْلُـہ کہا، تو ان سب صورتوں میں نماز جاتی رہی، جب کہ بقصد جواب کہا ہو اور اگر جواب میں نہ کہا تو حرج نہیں۔ یوہیں اگر اذان کا جواب دیا، نماز فاسد ہو جائے گی۔[26](درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۸: شیطان کا ذکر سُن کر اس پر لعنت بھیجی نماز جاتی رہی، دفع وسوسہ کے ليے لَا حَوْلَ پڑھی، اگر امور دنیا کے ليے ہے، نماز فاسد ہو جائے گی اور امور آخرت کے ليے، تو نہیں۔[27] (درمختار)
مسئلہ ۱۹: چاند دیکھ کر رَ بِّی وَرَبُّکَ اللہ کہا، یا بخار وغیرہ کی وجہ سے کچھ قرآن پڑھ کر دم کیا، نماز فاسد ہوگئی بیمار نے اٹھتے بیٹھتے تکلیف اور درد پر بسم اﷲ کہی تو نماز فاسد نہ ہوئی۔[28] (عالمگیری)
مسئلہ ۲۰: کوئی عبارت بوزن شعر کہ قرآن مجید میں بترتیب پائی جاتی ہے، بہ نیت شعر پڑھی نماز فاسد ہوگئی، جیسے (وَ الْمُرْسَلٰتِ عُرْفًاۙ(۱) فَالْعٰصِفٰتِ عَصْفًاۙ(۲))[29]اور اگر نماز میں شعر موزوں کیا، مگر زبان سے کچھ نہ کہا، تو اگرچہ نماز فاسد نہ ہوئی، مگر گنہگار ہوا۔[30] (عالمگیری)
مسئلہ ۲۱: نماز میں زبان پر نعم یا ارے یا ہاں جاری ہوگیا، اگر یہ لفظ کہنے کا عادی ہے، فاسد ہوگئی ورنہ نہیں۔[31](درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۲۲: مصلّی نے اپنے امام کے سوا دوسرے کو لقمہ دیا نماز جاتی رہی، جس کو لقمہ دیا ہے وہ نماز میں ہو یا نہ ہو، مقتدی ہو یا منفرد یا کسی اور کا امام۔[32] (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۲۳: اگر لقمہ دینے کی نیت سے نہیں پڑھا، بلکہ تلاوت کی نیت سے تو حرج نہیں۔ [33] (درمختار)
مسئلہ ۲۴: اپنے مقتدی کے سوا دوسرے کا لقمہ لینا بھی مفسد نماز ہے، البتہ اگر اس کے بتاتے وقت اسے خود یاد آگیا اس کے بتانے سے نہیں، یعنی اگر وہ نہ بتاتا جب بھی اسے یاد آجاتا، اس کے بتانے کو کچھ دخل نہیں تو اس کا پڑھنا مفسد نہیں۔ [34] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۵: اپنے امام کو لقمہ دینا اور امام کا لقمہ لینا مفسد نہیں، ہاں اگر مقتدی نے دوسرے سے سُن کر جو نماز میں اس کا شریک نہیں ہے لقمہ دیا اور امام نے لے لیا، تو سب کی نماز گئی اور امام نے نہ لیا تو صرف اس مقتدی کی گئی۔ [35] (درمختار)
مسئلہ ۲۶: لقمہ دینے والا قراء ت کی نیت نہ کرے، بلکہ لقمہ دینے کی نیت سے وہ الفاظ کہے۔[36] (عالمگیری وغيرہ)
مسئلہ ۲۷: فوراً ہی لقمہ دینا مکروہ ہے، تھوڑا توقف چاہیے کہ شاید امام خود نکال لے، مگر جب کہ اس کی عادت اسے معلوم ہو کہ رُکتا ہے، تو بعض ایسے حروف نکلتے ہیں جن سے نماز فاسد ہو جاتی ہے تو فوراً بتائے۔ یوہیں امام کو مکروہ ہے کہ مقتدیوں کو لقمہ دینے پر مجبور کرے، بلکہ کسی دوسری سورت کی طرف منتقل ہو جائے یا دوسری آیت شروع کر دے، بشرطیکہ اس کا وصل مفسد نماز نہ ہو اور اگر بقدر حاجت پڑھ چکا ہے تو رکوع کر دے، مجبور کرنے کے یہ معنی ہیں کہ بار بار پڑھے یا ساکت کھڑا رہے۔[37]
(عالمگیری، ردالمحتار) مگر وہ غلطی اگر ایسی ہے، جس میں فساد معنی تھا تو اصلاح نماز کے ليے اس کا اعادہ لازم تھا اور یاد نہیں آتا تو مقتدی کو آپ ہی مجبور کر ے گا اور وہ بھی نہ بتا سکے، تو گئی۔
مسئلہ ۲۸: لقمہ دینے والے کے ليے بالغ ہونا شرط نہیں، مراہق بھی لقمہ دے سکتا ہے۔[38] (عالمگیری) بشرطیکہ نماز جانتا ہو اور نماز میں ہو۔
مسئلہ ۲۹: ایسی دعا جس کا سوال بندے سے نہیں کیا جا سکتا جائز ہے، مثلاً اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ اور جس کا سوال بندوں سے کیا جا سکتا ہے، مفسد نماز ہے، مثلاً اَللّٰھُمَّ اَطْعِمْنِیْ یا اَللّٰھُمَّ زَوِّجْنِیْ . [39] (عالمگیری)
مسئلہ ۳۰: آہ، اوہ، اُف، تف یہ الفاظ درد یا مصیبت کی وجہ سے نکلے یا آواز سے رویا اور حرف پیدا ہوئے، ان سب صورتوں میں نماز جاتی رہی اور اگر رونے میں صرف آنسو نکلے آواز و حروف نہیں نکلے، تو حرج نہیں۔[40] (عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۳۱: مریض کی زبان سے بے اختیار آہ ،اوہ نکلی نماز فاسد نہ ہوئی، یوہیں چھینک کھانسی جماہی ڈکار میں جتنے حروف مجبوراً نکلتے ہیں، معاف ہیں۔[41](درمختار)
مسئلہ ۳۲: جنت و دوزخ کی یاد میں اگر یہ الفاظ کہے، تو نماز فاسد نہ ہوئی۔[42] (درمختار)
مسئلہ ۳۳: امام کا پڑھنا پسند آیا اس پر رونے لگا اور ارے، نعم، ہاں، زبان سے نکلا کوئی حرج نہیں ، کہ یہ خشوع کے باعث ہے اور اگر خوش گلوئی کے سبب کہا، تو نماز جاتی رہی۔[43] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۳۴: پھونکنے میں اگر آواز پیدا نہ ہو تو وہ مثل سانس کے ہے مفسد نہیں، مگر قصداً کرنا مکروہ ہے اور اگر دو حرف پیدا ہوں، جیسے اف، تف، تو مفسد ہے۔ [44] (غنیہ)
مسئلہ ۳۵: کھنکارنے میں جب دو حرف ظاہر ہوں، جیسے اح مفسد نما زہے، جب کہ نہ عذر ہو نہ کوئی صحیح غرض، اگر عذر سے ہو، مثلاً طبیعت کا تقاضا ہو یا کسی صحیح غرض کے ليے، مثلاً آواز صاف کرنے کے ليے یا امام سے غلطی ہوگئی ہے اس ليے کھنکارتا ہے کہ درست کرلے يا اس ليے کھنکارتا ہے کہ دوسرے شخص کو اس کا نماز میں ہونا معلوم ہو، تو ان صورتوں میں نما ز فاسد نہیں ہوتی۔[45] (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۳۶: نماز میں مصحف شریف سے دیکھ کر قرآن پڑھنا مطلقاً مفسد نماز ہے، يوہيں اگر محراب وغيرہ ميں لکھا ہو اسے ديکھ کر پڑھنا بھی مفسد ہے، ہاں اگر یاد پر پڑھتا ہو مصحف یا محراب پر فقط نظر ہے، تو حرج نہیں۔[46](درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۳۷: کسی کاغذ پر قرآن مجید لکھا ہوا دیکھا اور اسے سمجھا نماز میں نقصان نہ آیا، یوہیں اگر فقہ کی کتاب دیکھی اور سمجھی نماز فاسد نہ ہوئی، خواہ سمجھنے کے ليے اسے دیکھا یا نہیں، ہاں اگر قصداً دیکھا اور بقصد سمجھا تو مکروہ ہے اور بلا قصد ہوا تو مکروہ بھی نہیں۔[47] (عالمگیری، درمختار) یہی حکم ہر تحریر کا ہے اور جب غیر دینی ہو تو کراہت زیادہ۔
مسئلہ ۳۸: صرف تورات يا انجیل کو نما ز میں پڑھا تو نماز نہ ہوئی، قرآن پڑھنا جانتا ہو یا نہیں۔[48](عالمگیری) اور اگر بقدر حاجت قرآن پڑھ لیا اور کچھ آیات تورات و انجیل کی، جن میں ذکرِ الٰہی ہے پڑھیں، تو حرج نہیں مگر نہ چاہیے۔
مسئلہ ۳۹: عملِ کثیر کہ نہ اعمال نماز سے ہو نہ نما زکی اصلاح کے ليے کیا گیا ہو، نماز فاسد کر دیتا ہے، عملِ قلیل مفسد نہیں، جس کام کے کرنے والے کو دُور سے دیکھ کر اس کے نماز میں نہ ہونے کا شک نہ رہے، بلکہ گمان غالب ہو کہ نماز میں نہیں تو وہ عملِ کثیر ہے اور اگر دُور سے دیکھنے والے کو شبہہ و شک ہو کہ نماز میں ہے یا نہیں، تو عملِ قلیل ہے۔[49] (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۴۰: کرتا یا پاجامہ پہنا یا تہبند باندھا، نماز جاتی رہی۔[50] (غنیہ)
مسئلہ ۴۱: ناپاک جگہ پر بغیر حائل کے سجدہ کیا نماز فاسد ہوگئی، اگرچہ اس سجدہ کو پاک جگہ پر اعادہ کرے۔ [51] (درمختار) یوہیں ہاتھ یا گھٹنے سجدہ میں ناپاک جگہ پر رکھے، نماز فاسد ہوگئی۔ [52] (ردالمحتار)
مسئلہ ۴۲: ستر کھولے ہوئے یا بقدر مانع نجاست کے ساتھ پورا رکن ادا کرنا، یا تین تسبیح کا وقت گزر جانا، مفسد نماز
ہے۔ یوہیں بھیڑ کی وجہ سے اتنی دیر تک عورتوں کی صف میں پڑ گیا، یا امام سے آگے ہوگیا، نماز جاتی رہی۔ [53] (درمختار وغیرہ) اور قصداً ستر کھولنا مطلقاً مفسد نماز ہے، اگرچہ معاً [54] ڈھانک لے، اس میں وقفہ کی بھی حاجت نہیں۔
مسئلہ ۴۳: دو کپڑے ملا کر سیے ہوں ان میں استر [55] ناپاک ہے اور ابرا [56] پاک، تو ابرے کی طرف بھی نماز نہیں ہوسکتی، جب کہ نجاست بقدر مانع مواضع سجود میں ہو اور سِلے نہ ہوں تو ابرے پر جائز ہے، جب کہ اتنا باریک نہ ہو کہ استر چمکتا ہو۔[57](درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۴۴: نجس زمین پر مٹی چونا خوب بچھا دیا، اب اس پر نماز پڑھ سکتے ہیں اور اگر معمولی طرح سے خاک چھڑک دی ہے کہ نجاست کی بُو آتی ہے، تو ناجائز ہے جب کہ مواضع سجود پر نجاست ہو۔ [58](منیہ)
مسئلہ ۴۵: نماز کے اندر کھانا پینا مطلقاً نماز کو فاسد کر دیتا ہے، قصداً ہو یا بھول کر، تھوڑا ہو یا زیادہ، یہاں تک کہ اگر تل بغير چبائے نگل لیا یا کوئی قطرہ اُس کے مونھ میں گرا اور اس نے نگل لیا، نماز جاتی رہی۔[59](درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۴۶: دانتوں کے اندر کھانے کی کوئی چیز رہ گئی تھی اس کو نگل گیا، اگر چنے سے کم ہے نماز فاسد نہ ہوئی مکروہ ہوئی اور چنے برابر ہے تو فاسد ہوگئی۔ دانتوں سے خون نکلا، اگر تھوک غالب ہے تو نگلنے سے فاسد نہ ہوگی، ورنہ ہو جائے گی۔ [60] (درمختار، عالمگیری) غلبہ کی علامت یہ ہے کہ حلق ميں خون کا مزہ محسوس ہو، نماز اور روزہ توڑنے میں مزے کا اعتبار ہے اور وضو توڑنے میں رنگ کا۔
مسئلہ ۴۷: نماز سے پیشتر [61] کوئی چیز میٹھی کھائی تھی اس کے اجزا نگل ليے تھے، صرف لعاب دہن میں کچھ مٹھاس کا اثر رہ گیا، اُس کے نگلنے سے نماز فاسد نہ ہوگی۔ مونھ میں شکر وغیرہ ہو کہ گھل کر حلق میں پہنچتی ہے، نماز فاسد ہوگئی۔ گوند مونھ میں ہے اگر چبایا اور بعض اجزا حلق سے اتر گئے، نماز جاتی رہی۔ [62] (عالمگیری)
مسئلہ ۴۸: سینہ کوقبلہ سے پھیرنا مفسد نما زہے، جب کہ کوئی عذر نہ ہو یعنی جب کہ اتنا پھیرے کہ سینہ خاص جہت کعبہ سے پینتالیس (۴۵) درجے ہٹ جائے اور اگر عذر سے ہو تو مفسد نہیں، مثلاً حدث کا گمان ہوا اور مونھ پھیرا ہی تھا کہ گمان کی غلطی ظاہر ہوئی تو مسجد سے اگر خارج نہ ہوا ہو، نما زفاسد نہ ہوگی۔ [63] (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۴۹: قبلہ کی طرف ایک صف کی قدر چلا، پھر ایک رکن کی قدر ٹھہر گیا، پھر چلا پھر ٹھہرا، اگرچہ متعدد بار ہو جب تک مکان نہ بدلے، نماز فاسد نہ ہوگی، مثلاً مسجد سے باہر ہو جائے یا میدان میں نماز ہو رہی تھی اور یہ شخص صُفوف سے متجاوز ہوگیا کہ يہ دونوں صورتیں مکان بدلنے کی ہیں اور ان میں نماز فاسد ہو جائے گی۔ یوہیں اگر ايک دم دو صف کی قدر چلا، نماز فاسد ہوگئی۔ [64] (درمختار، ردالمحتار، عالمگیری)
مسئلہ ۵۰: صحرا میں اگر اس کے آگے صفیں نہ ہوں بلکہ یہ امام ہے اور موضع سجود سے متجاوز ہوا، تو اگر اتنا آگے بڑھا جتنا اس کے اور سب سے قریب والی صف کے درمیان فاصلہ تھا تو فاسد نہ ہوئی اور اس سے زیادہ ہٹا تو فاسد ہوگئی اور اگر منفرد ہے تو موضع سجود کا اعتبار ہے یعنی اتنا ہی فاصلہ آگے پیچھے دہنے بائیں کہ اس سے زیادہ ہٹنے میں نماز جاتی رہے گی۔ [65](عالمگيری)
مسئلہ ۵۱: کسی کو چوپایہ نے ایک دم بقدر تین قدم کے کھینچ لیا یاڈھکیل دیا، تو نماز فاسد ہوگئی۔ [66] (درمختار)
مسئلہ ۵۲: ایک نماز سے دوسری کی طرف تکبیر کہہ کر منتقل ہوا، پہلی نماز فاسد ہوگئی، مثلاً ظہر پڑھ رہا تھا عصر یا نفل کی نیت سے اﷲ اکبر کہا ظہر کی نماز جاتی رہی پھر اگر صاحبِ ترتیب ہے اور وقت میں گنجائش ہے تو عصر کی بھی نہ ہوگی، بلکہ دونوں صورتوں میں نفل ہے، ورنہ عصر کی نیت ہے تو عصر اور نفل کی نیت ہے تو نفل۔ یوہیں اگر تنہا نماز پڑھتا تھا اب اقتدا کی نیت سے اﷲ اکبر کہا یا مقتدی تھا اور تنہا پڑھنے کی نیت سے اﷲ اکبر کہا تو نماز فاسد ہوگئی۔ یوہیں اگر نماز جنازہ پڑھ رہا تھا اور دوسرا جنازہ لایا گیا دونوں کی نیت سے اﷲ اکبر کہا یا دوسرے کی نیت سے تو دوسرے جنازہ کی نماز شروع ہوئی اور پہلے کی فاسد ہوگئی۔[67] (درمختار)
مسئلہ ۵۳: عورت نماز پڑھ رہی تھی، بچہ نے اس کی چھاتی چوسی اگر دودھ نکل آیا، نماز جاتی رہی۔ [68] (درمختار)
مسئلہ ۵۴: عورت نماز میں تھی، مرد نے بوسہ لیا یا شہوت کے ساتھ اس کے بدن کو ہاتھ لگایا، نماز جاتی رہی اور مرد نماز ميں تھا اور عورت نے ايسا کيا تو نماز فاسد نہ ہوئی، جب تک مرد کو شہوت نہ ہو۔ [69] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۵۵: داڑھی يا سر ميں تيل لگايا يا کنگھا کيا يا سرمہ لگايا نماز جاتی رہی، ہاں اگر ہاتھ ميں تيل لگا ہوا ہے اس کو سر يا بدن ميں کسی جگہ پونچھ ديا تو نماز فاسد نہ ہوگی۔ [70] (منيہ، غنیہ)
مسئلہ ۵۶: کسی آدمی کو نماز پڑھتے میں طمانچہ یا کوڑا مارا نماز جاتی رہی اور جانور پر سوار نماز پڑھ رہا تھا دو ایک بار ہاتھ یا ایڑی سے ہانکنے میں نماز فاسد نہ ہوگی، تین بار پے در پے کریگا تو جاتی رہے گی۔ ایک پاؤں سے ایڑ لگائی اگر پے در پے تین بار ہو نماز جاتی رہی ورنہ نہیں اور دونوں پاؤں سے لگائی تو فاسد ہوگئی، لیکن اگر آہستہ پاؤں ہلائے کہ دوسرے کو بغور دیکھنے سے پتہ چلے، تو فاسد نہ ہوئی۔[71] (منیہ، غنیہ)
مسئلہ ۵۷: گھوڑے کو چابک سے راستہ بتایا اور مارا بھی، نماز فاسد ہوگئی، نماز پڑھتے میں گھوڑے پر سوار ہوگیا، نماز جاتی رہی اور سواری پر نماز پڑھ رہا تھا اتر آیا، فاسد نہ ہوئی۔ [72] (منیہ، قاضی خاں)
مسئلہ ۵۸: تین کلمے اس طرح لکھنا کہ حروف ظاہر ہوں، نماز کو فاسد کرتا ہے اور اگر حرف ظاہر نہ ہوں، مثلاً پانی پر یا ہوا میں لکھا تو عبث ہے، نماز مکروہ تحریمی ہوئی۔ [73](غنیہ)
مسئلہ ۵۹: نماز پڑھنے والے کو اٹھا لیا پھر وہیں رکھ دیا، اگر قبلہ سے سینہ نہ پھرا، نماز فاسد نہ ہوئی اور اگر اس کو اٹھا کرسواری پر رکھ دیا، نماز جاتی رہی۔ [74] (عالمگیری)
مسئلہ ۶۰: موت و جنون و بے ہوشی سے نماز جاتی رہتی ہے، اگر وقت میں ا فاقہ ہوا تو ادا کرے، ورنہ قضا بشرطیکہ ایک دن رات سے متجاوز نہ ہو۔ [75] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۶۱: قصداً وضو توڑا یا کوئی موجب غسل پایا گیا یا کسی رکن کو ترک کیا، جبکہ اس نماز میں اس کو ادا نہ کر لیا ہو، يا بلاعذر شرط کو ترک کیا، یا مقتدی نے امام سے پہلے رکن ادا کر لیا اور امام کے ساتھ یا بعد میں پھر اس کو ادا نہ کیا، یہاں تک کہ امام کیساتھ سلام پھیر دیا، يا مسبوق نے فوت شدہ رکعت کا سجدہ کر کے امام کے سجدۂ سہو میں متابعت کی، یا قعدۂ اخیرہ کے بعد سجدۂ نماز یا سجدۂ تلاوت یاد آیا اور اس کے ادا کرنے کے بعد پھر قعدہ نہ کیا، یا کسی رکن کو سوتے میں ادا کیا تھا اس کا اعادہ نہ کیا، ان سب صورتوں میں نماز فاسد ہوگئی۔ [76] (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۶۲: سانپ بچھو مارنے سے نماز نہیں جاتی جب کہ نہ تین قدم چلنا پڑے نہ تین ضرب کی حاجت ہو، ورنہ جاتی رہے گی، مگر مارنے کی اجازت ہے اگرچہ نماز فاسد ہوجائے۔ [77] (عالمگیری، غنیہ)
مسئلہ ۶۳: سانپ بچھو کو نماز میں مارنا اس وقت مباح ہے، کہ سامنے سے گزرے اور ایذا دینے کا خوف ہو اور اگر تکلیف پہنچانے کا اندیشہ نہ ہو تو مکروہ ہے۔[78] (عالمگیری)
مسئلہ ۶۴: پے در پے تین بال اکھیڑے یا تین جوئیں ماریں یا ایک ہی جوں کو تین بار ميں مارا نماز جاتی رہی اور پے در پے نہ ہو، تو نماز فاسد نہ ہوگی مگر مکروہ ہے۔ [79] (عالمگیری ، غنیہ)
مسئلہ ۶۵: موزہ کشادہ ہے اسے اتارنے سے نماز فاسد نہ ہوگی اور موزہ پہننے سے نماز جاتی رہے گی۔ [80] (عالمگیری)
مسئلہ ۶۶: گھوڑے کے مونھ ميں لگام دی يا اس پر کاٹھی کسی يا کاٹھی اتار دی نماز جاتی رہی۔[81] (عالمگيری)
مسئلہ ۶۷: ایک رکن میں تین بار کھجانے سے نماز جاتی رہتی ہے، یعنی یوں کہ کھجا کر ہاتھ ہٹا لیا پھر کھجایا پھر ہاتھ ہٹالیا وعلیٰ ہذا اور اگر ایک بار ہاتھ رکھ کر چند مرتبہ حرکت دی تو ایک ہی مرتبہ کھجانا کہا جائے گا۔ [82] (عالمگیری، غنیہ)
مسئلہ ۶۸: تکبیرات انتقال میں اللہ یا اکبر کے الف کو دراز کیا آللہ یا آکبر کہا یا بے کے بعد الف بڑھایا اکبار کہا نماز فاسد ہو جائے گی اور تحریمہ میں ایسا ہوا تو نماز شروع ہی نہ ہوئی۔ [83] (درمختار وغیرہ) قراء ت یا اذکارِ نماز میں ایسی غلطی جس سے معنی فاسد ہو جائیں، نما زفاسد کر دیتی ہے، اس کے متعلق مفصّل بیان گزر چکا۔
مسئلہ ۶۹: نمازی کے آگے سے بلکہ موضع سجود [84] سے کسی کا گزرنا نماز کو فاسد نہیں کرتا، خواہ گزرنے والا مرد ہو یا عورت، کُتّا ہو یا گدھا۔ [85] (عامۂ کتب)
مسئلہ ۷۰: مصلّی کے آگے سے گزرنا بہت سخت گناہ ہے۔
حدیث میں فرمایا: کہ ”اس میں جو کچھ گناہ ہے، اگر گزرنے والا جانتا تو چالیس تک کھڑے رہنے کو گزرنے سے بہتر جانتا”، راوی کہتے ہیں: ”میں نہیں جانتا کہ چالیس دن کہے يا چالیس مہینے يا چالیس برس۔” [86]یہ حدیث صحاح ستہ میں ابی جہیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہوئی اور بزار کی روایت میں چالیس برس [87] کی تصریح ہے۔ اور
ابن ماجہ کی روایت ابی ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے یہ ہے کہ رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ”اگر کوئی جانتا کہ اپنے بھائی کے سامنے نماز میں آڑے ہو کر گزرنے میں کیا ہے؟ تو سو برس کھڑا رہنا اس ايک قدم چلنے سے بہتر سمجھتا۔” [88]
امام مالک نے روایت کیا کہ کعب احبار فرماتے ہیں: ”نمازی کے سامنے گزرنے والا اگر جانتا کہ اس پر کیا گناہ ہے؟ تو زمین میں دھنس جانے کو گزرنے سے بہتر جانتا۔” [89]
امام مالک سے روایت صحيح بخاری و صحيح مسلم میں ہے ابو جحيفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کہتے ہیں، میں نے رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مکّہ میں دیکھا حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ابطح میں چمڑے کے ایک سُرخ قبہ کے اندر تشریف فرما ہیں اور بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے وضو کا پانی لیا اور لوگ جلدی جلدی اسے لے رہے ہیں جو اس میں سے کچھ پا جاتا اسے مونھ اور سینہ پر ملتا اور جو نہیں پاتا وہ کسی اور کے ہاتھ سے تری لے لیتا پھر بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک نیزہ نصب کر دیا اور رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سُرخ دھاری دار جوڑا پہنے تشریف لائے اورنیزہ کی طرف مونھ کر کے دو رکعت نماز پڑھائی اور میں نے آدمیوں اور چوپاؤں کو نیزے کے اُس طرف سے گزرتے دیکھا۔ [90]
مسئلہ ۷۱: میدان اور بڑی مسجد میں مصلّی کے قدم سے موضع سجود تک گزرنا ناجائز ہے۔ موضع سجود سے مراد یہ ہے کہ قیام کی حالت ميں سجدہ کی جگہ کی طرف نظر کرے تو جتنی دور تک نگاہ پھیلے وہ موضع سجود ہے اس کے درمیان سے گزرنا ناجائز ہے، مکان اور چھوٹی مسجد میں قدم سے دیوار قبلہ تک کہیں سے گزرناجائز نہیں اگر سترہ نہ ہو۔[91] (عالمگیری، درمختار)
مسئلہ ۷۲: کوئی شخص بلندی پر پڑھ رہا ہے اس کے نیچے سے گزرنا بھی جائز نہیں، جبکہ گزرنے والے کا کوئی عضو نمازی کے سامنے ہو، چھت یا تخت پر نماز پڑھنے والے کے آگے سے گزرنے کا بھی یہی حکم ہے اور اگر ان چیزوں کی اتنی بلندی ہو کہ کسی عضو کا سامنا نہ ہو، تو حرج نہیں۔[92] (درمختار وغيرہ)
مسئلہ ۷۳: مصلّی کے آگے سے گھوڑے وغیرہ پر سوار ہو کر گزرا، اگر گزرنے والے کا پاؤں وغیرہ نیچے کا بدن مصلّی کے سر کے سامنے ہوا تو ممنوع ہے۔ [93] (ردالمحتار)
مسئلہ ۷۴: مصلّی کے آگے ستُرہ ہو یعنی کوئی ايسی چیز جس سے آڑ ہو جائے، تو سُترہ کے بعد سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں۔ [94] (عامۂ کتب)
مسئلہ ۷۵: سُترہ بقدر ایک ہاتھ کے اونچا اور انگلی برابر موٹا ہو اور زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ اونچا [95]ہو۔[96] (درمختار ردالمحتار)
مسئلہ ۷۶: امام و منفرد جب صحرا میں یا کسی ایسی جگہ نماز پڑھیں، جہاں سے لوگوں کے گزرنے کا اندیشہ ہو تو مستحب ہے کہ سُترہ گاڑیں اور سُترہ نزدیک ہونا چاہیے، سُترہ بالکل ناک کی سیدھ پر نہ ہو بلکہ داہنے یا بائیں بھوں کی سیدھ پر ہو اور دہنے کی سيدھ پر ہونا افضل ہے۔ [97] (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۷۷: اگر نصب کرنا نا ممکن ہو تو وہ چیز لنبی لنبی رکھ دے اور اگر کوئی ایسی چیز بھی نہیں کہ رکھ سکے تو خط کھینچ دے خواہ طول میں ہو یا محراب کی مثل۔ [98] (درمختار، عالمگیری)
مسئلہ ۷۸: اگر سُترہ کے ليے کوئی چیز نہیں ہے اور اس کے پاس کتاب یا کپڑا موجود ہے، تو اسی کو سامنے رکھ لے۔[99] (ردالمحتار)
مسئلہ ۷۹: امام کا سُترہ مقتدی کے ليے بھی سُترہ ہے، اس کو جدید سُترہ کی حاجت نہیں، تو اگر چھوٹی مسجد میں بھی مقتدی کے آگے سے گزر جائے، جب کہ امام کے آگے سے نہ ہو حرج نہیں۔ [100] (ردالمحتار وغیرہ)
مسئلہ ۸۰: درخت اور جانور اور آدمی وغیرہ کا بھی سُترہ ہو سکتا ہے کہ ان کے بعد گزرنے میں کچھ حرج نہیں۔[101] (غنیہ) مگر آدمی کو اس حالت میں سُترہ کیا جائے، جب کہ اس کی پیٹھ مصلّی کی طرف ہو کہ مصلّی کی طرف مونھ کرنا منع ہے۔
مسئلہ ۸۱: سوار اگر مصلّی کے آگے سے گزرنا چاہتا ہے، تو اس کا حیلہ یہ ہے کہ جانور کو مصلّی کے آگے کرلے اور اس طرف سے گزر جائے۔ [102] (عالمگیری)
مسئلہ ۸۲: دو شخص برابر برابر امام کے آگے سے گزر گئے، تو مصلّی سے جو قریب ہے وہ گناہ گار ہوا اور دوسرے کے (درمختار ردالمحتار)ليے یہی سُترہ ہوگیا۔ [103] (عالمگیری)
مسئلہ ۸۳: مصلّی کے آگے سے گزرنا چاہتا ہے تو اگر اس کے پاس کوئی چیز سُترہ کے قابل ہو تو اسے اس کے سامنے رکھ کر گزر جائے پھر اسے اٹھالے، اگر دو شخص گزرنا چاہتے ہیں اور سُترہ کو کوئی چیز نہیں تو ان میں ايک نمازی کے سامنے اس کی طرف پيٹھ کرکے کھڑا ہو جائے اور دوسرا اس کی آڑ پکڑ کر گزر جائے، پھر وہ دوسرا اس کی پیٹھ کے پیچھے نمازی کی طرف پشت کر کے کھڑا ہو جائے اور یہ گزر جائے، پھر وہ دوسرا جدھر سے اس وقت آیا اسی طرف ہٹ جائے۔[104](عالمگیری، ردالمحتار)
مسئلہ ۸۴: اگر اس کے پاس عصا ہے مگر نصب نہیں کرسکتا، تو اسے کھڑا کر کے مصلّی کے آگے سے گزرنا جائز ہے، جب کہ اس کو اپنے ہاتھ سے چھوڑ کر گرنے سے پہلے گزر جائے۔
مسئلہ ۸۵: اگلی صف میں جگہ تھی، اسے خالی چھوڑ کر پیچھے کھڑا ہوا تو آنے والا شخص اس کی گردن پھلانگتا ہوا جا سکتا ہے ، کہ اس نے اپنی حُرمت اپنے آپ کھوئی۔ [105](درمختار)
مسئلہ ۸۶: جب آنے جانے والوں کا اندیشہ نہ ہو نہ سامنے راستہ ہو تو سُترہ نہ قائم کرنے میں بھی حرج نہیں، پھر بھی اَولیٰ سُترہ قائم کرناہے۔ [106] (درمختار)
مسئلہ ۸۷: نمازی کے سامنے سُترہ نہیں اور کوئی شخص گزرنا چاہتا ہے يا سُترہ ہے مگر وہ شخص مصلّی اور سُترہ کے درمیان سے گزرنا چاہتا ہے تو نمازی کو رخصت ہے کہ اسے گزرنے سے روکے، خواہ سُبْحَانَ اللہ کہے یا جہر کے ساتھ قراء ت کرے يا ہاتھ، یا سر، یا آنکھ کے اشارے سے منع کرے اس سے زیادہ کی اجازت نہیں، مثلاً کپڑا پکڑ کر جھٹکنا یا مارنا، بلکہ اگر عملِ کثیر ہوگیا، تو نماز ہی جاتی رہی۔ [107] (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۸۸: تسبیح و اشارہ دونوں کو بلا ضرورت جمع کرنا مکروہ ہے، عورت کے سامنے سے گزرے تو تصفیق سے منع کرے، یعنی دہنے ہاتھ کی انگلیاں بائیں کی پشت پر مارے اور اگر مرد نے تصفیق کی اور عورت نے تسبیح ، تو بھی فاسد نہ ہوئی،
مگر خلافِ سُنّت ہوا۔ [108] (درمختار)
مسئلہ ۸۹: مسجد الحرام شریف میں نماز پڑھتا ہو تو اُس کے آگے طواف کرتے ہوئے لوگ گزر سکتے ہیں۔ [109] (ردالمحتار)(بہارِ شریعت ،جلد اول،حصہ دوم،صفحہ۶۰۴تا ۶۱۸)
[1] ۔۔۔۔۔۔ ”صحیح مسلم”، کتاب المساجد… إلخ، باب تحریم الکلام في الصلاۃ… إلخ، الحدیث: ۵۳۷، ص۲۷۲.
[2] ۔۔۔۔۔۔ ”صحیح البخاري”، کتاب مناقب الأنصار، باب ہجرۃ الحبشۃ، الحدیث: ۳۸۷۵، ج۲، ص۵۸۱.
[3] ۔۔۔۔۔۔ ”سنن أبي داود”، کتاب الصلاۃ، باب ردالسلام في الصلاۃ، الحدیث: ۹۲۴، ج۱، ص۳۴۸.
[4] ۔۔۔۔۔۔ ”سنن أبي داود”، کتاب الصلاۃ، باب العمل في الصلاۃ ، الحدیث: ۹۲۱، ج۱، ص۳۴۸.
[5] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃوما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۴۵۔۴۴۷.
[6] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول، ج۱، ص۹۸.
[7] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۴۶.
[8] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول، ج۱، ص۹۸.
[9] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ… إلخ، ج۲، ص۴۴۹. وغیرہ
[10] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول، ج۱، ص۹۸.
[11] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول، ج۱، ص۹۸.
[12] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[13] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول، ج۱، ص۹۸.
[14] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، و ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۵۰.
[15] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول، ج۱، ص۹۸.
[16] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[17] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[18] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[19] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول، ج۱، ص۹۹.
[20] ۔۔۔۔۔۔ ”غنیۃ المتملي”، کتاب الصلاۃ، مفسدات الصلاۃ، ص۴۴۹.
[21] ۔۔۔۔۔۔ پ۱۴، النحل: ۸.
[22] ۔۔۔۔۔۔ پ۱۷، الحج: ۴۵
[23] ۔۔۔۔۔۔ پ۱۶، مریم: ۱۲.
[24] ۔۔۔۔۔۔ پ۱۶، طٰہٰ: ۱۷
[25] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ… إلخ، ج۲، ص۴۵۸.
[26] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ… إلخ، ج۲، ص۴۶۰.
[27] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ… إلخ، ج۲، ص۴۶۰.
[28] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع في ما یفسد الصلاۃ… إلخ، الفصل الأول، ج۱، ص۹۹.
[29] ۔۔۔۔۔۔ پ۲۹، المرسلت: ۲ ۔ ۱.
[30] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول، ج۱، ص۱۰۰.
[31] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۶۲، وغیرہ .
[32] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ… إلخ، ج۲، ص۴۶۱، وغیرہ .
[33] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[34] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[35] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[36] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ… إلخ، ج۲، ص۴۶۱.
[37] ۔۔۔۔۔۔ ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، مطلب المواضع التی لا یجب… إلخ، ج۲، ص۴۶۲. و ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول، ج۱، ص۹۹.
[38] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، الفصل الأول، ج۱، ص۹۹.
[39] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، الفصل الأول، ج۱، ص۱۰۰.
[40] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۰۱، و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، مطلب: المواضع التی لا یجب فیھا ردالسلام، ج۲، ص۴۵۵.
[41] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۵۶.
[42] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[43] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق.
[44] ۔۔۔۔۔۔ ”غنیۃ المتملي”، کتاب الصلاۃ، مفسدات الصلاۃ، ص۴۵۱.
[45] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۵۵، وغیرہ.
[46] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ… إلخ، ج۲، ص۴۶۳.
[47] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول، ج۱، ص۱۰۱. و ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۷۹.
[48] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول، ج۱، ص۱۰۱.
[49] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، ج۲، ص۴۶۴، وغیرہ.
[50] ۔۔۔۔۔۔ ”غنیۃ المتملي”، کتاب الصلاۃ، مفسدات الصلاۃ، ص۴۵۲.
[51] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۶۶.
[52] ۔۔۔۔۔۔”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، و مطلب في التشبہ باہل الکتاب، ج۲، ص۴۶۶.
[53] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”،کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۶۷. وغیرہ
[54] ۔۔۔۔۔۔ فوراً۔
[55] ۔۔۔۔۔۔ نیچے کی تہ۔
[56] ۔۔۔۔۔۔ اوپر کی تہ۔
[57] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، و مطلب في التشبہ باہل الکتاب، ج۲، ص۴۶۷.
[58] ۔۔۔۔۔۔”منیۃ المصلي”، حکم ما اذا کان تحت قدمی المصلي نجس، ص۱۷۰.
[59] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ… إلخ، مطلب المواضع التی لا یجب… إلخ، ج۲، ص۴۶۲.
[60] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، الفصل الأول، ج۱، ص۱۰۲. و ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ… إلخ، ج۲، ص۴۶۲.”کافی” اور ”فتح القدیر” کی تحقیق یہ ہے کہ اگر حلق میں اس کا مزہ محسوس ہو تو مطلقاً نماز فاسد ہوگئی اور یہی حکم روزہ کا ہے اور یہ قول با قوت معلوم ہوتا ہے اور احتیاط ضروری ہے۔ ۱۲ منہ
[61] ۔۔۔۔۔۔ پہلے۔
[62] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول، ج۱، ص۱۰۲.
[63] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ… إلخ، ج۲، ص۴۶۸. و ”الفتاوی الرضویۃ (الجدیدۃ)”، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۶، ص۷۵، وغیرہما.
[64] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، مطلب في التشبہ باہل الکتاب، ج۲، ص۴۶۸.
[65] ۔۔۔۔۔۔”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، مطلب في التشبہ باہل الکتاب،ج۲، ص۴۶۹.
[66] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۷۰.
[67] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۶۲.
[68] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۷۰.
[69] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، مطلب في المشی في الصلاۃ، ج۲، ص۴۷۰.
[70] ۔۔۔۔۔۔”منیۃ المصلي”، بیان مفسدات الصلاۃ، ص۴۱۴، و ”غنیۃ المتملي”، مفسدات الصلاۃ، ص۴۴۲.
[71] ۔۔۔۔۔۔”منیۃ المصلي”، بیان مفسدات الصلاۃ، ص۴۱۵، و ”غنیۃ المتملي”، مفسدات الصلاۃ، ص۴۴۳.
[72] ۔۔۔۔۔۔”منیۃ المصلي”، المرجع السابق، و ”الفتاوی الخانیۃ”، کتاب الصلاۃ، فصل فیما یفسد الصلاۃ، ج۱، ص۶۴.
[73] ۔۔۔۔۔۔”غنیۃ المتملي”، مفسدات الصلاۃ، ص۴۴۴.
[74] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ، النوع الثاني، ج۱، ص۱۰۳.
[75] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، مطلب في المشی في الصلاۃ، ج۲، ص۴۷۲.
[76] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۷۲. وغیرہ
[77] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ، النوع الثاني، ج۱، ص۱۰۳.
[78] ۔۔۔۔۔۔”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ، النوع الثاني، ج۱، ص۱۰۳.
[79] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، و ”غنیۃ المتملي”، مفسدات الصلاۃ، ص۴۴۸.
[80] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ، النوع الثاني، ج۱، ص۱۰۳.
[81] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ، النوع الثاني، ج۱، ص۱۰۳.
[82] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۱۰۴، و ”غنیۃ المتملي”، مفسدات الصلاۃ، ص۴۴۸.
[83] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ ویکرہ فیھا، ج۲، ص۴۷۳، وغیرہ .
[84] ۔۔۔۔۔۔ موضع سجود سے کیا مراد ہے یہ آگے مذکور ہوگا۔ ۱۲ منہ
[85] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۸۰.
[86] ۔۔۔۔۔۔ ”صحیح مسلم”، کتاب الصلاۃ، باب منع الماربین یدی المصلي، الحدیث: ۵۰۷، ص۲۶۰.
[87] ۔۔۔۔۔۔ ”مسند البزار”، مسند زید بن خالد الجہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، الحدیث: ۳۷۸۲، ج۹، ص۲۳۹.
[88] ۔۔۔۔۔۔ ”سنن ابن ماجہ”، ابواب اقامۃ الصلوات و السنۃ فیھا، باب المروربین یدي المصلي، الحدیث: ۹۴۶، ج۱، ص۵۰۶.
[89] ۔۔۔۔۔۔ ”الموطا”، کتاب قصر الصلاۃ في السفر، باب التشدید في ان یمر احد بین یدي المصلي، الحدیث: ۳۷۱، ج۱، ص۱۵۴.
[90] ۔۔۔۔۔۔ ”صحیح مسلم”، کتاب الصلاۃ، باب سترۃ المصلي و الندب إلی الصلاۃ… إلخ، الحدیث: ۲۵۰۔(۵۰۳)، ص۲۵۷.
[91] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، الفصل الأول، ج۱، ص۱۰۴. و ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ، وما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۷۹.
[92] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۸۰.
[93] ۔۔۔۔۔۔ ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ،باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، مطلب إذا قرأ قولہ… إلخ، ج۲، ص۴۸۰.
[94] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، الفصل الأول، ج۱، ص۱۰۴.
[95] ۔۔۔۔۔۔ یہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ردالمحتار میں ہے: سنت یہ ہے کہ نمازی او ر سترہ کے درمیان فاصلہ زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ ہو۔
[96] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۸۴.
[97] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، ج۲، ص۴۸۴. وغیرہ
[98] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، الفصل الأول، ج۱، ص۱۰۴. و ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج۲، ص۴۸۵. ان دونوں صورتوں سے یہ مقصود نہیں کہ گزرنا جائز ہو جائیگا بلکہ اس لیے ہیں کہ نمازی کا خیال نہ بٹے۔ ۱۲
[99] ۔۔۔۔۔۔”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، مطلب إذا قرأ قولہ… إلخ، ج۲، ص۴۸۵. اس سے بھی وہی مقصود ہے کہ نمازی کا دل نہ بٹے ورنہ کتاب یا کپڑا رکھنے سے اس کے آگے سے گزرنا، جائز نہ ہوگا، ہاں اگر بلندی اتنی ہو جائے جو سترہ کے لیے درکار ہے، تو گزرنا بھی جائز ہو جائیگا۔ ۱۲ منہ
[100] ۔۔۔۔۔۔ ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، مطلب إذا قرأ قولہ… إلخ، ج۲، ص۴۸۷، وغیرہ .
[101] ۔۔۔۔۔۔ ”غنیۃ المتملي”، فصل کراھیۃ الصلاۃ، ص۳۶۷.
[102] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، الفصل الأول، ج۱، ص۱۰۴.
[103] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، الفصل الأول، ج۱، ص۱۰۴.
[104] ۔۔۔۔۔۔ ”الفتاوی الھندیۃ”، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، الفصل الأول، ج۱، ص۱۰۴. و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب إذا قرأ قولہٰ… إلخ، ج۲، ص۴۸۳.
[105] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، ج۲، ص۴۸۳.
[106] ۔۔۔۔۔۔ المرجع السابق، ص۴۸۷.
[107] ۔۔۔۔۔۔”الدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب إذا قرأ قولہٰ… إلخ، ج۲، ص۴۸۵.
[108] ۔۔۔۔۔۔ ”الدرالمختار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، ج۲، ص۴۸۶.
[109] ۔۔۔۔۔۔ ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب إذا قرأ قولہٰ… إلخ، ج۲، ص۴۸۲.