مسجد کی طرف اپنے گھر کا پانی گرانا کیسا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے مسجد سے بالکل ہی متصل اپنا گھر بنایا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل چھت پر موجود پرنالے پر ایک بڑا پائپ لگا کر اُس پائپ کا رخ مسجد کے احاطے کی طرف کردیا ہے۔ اس پائپ سے بارش کا پانی، یونہی ٹینکی بھرجانے کی صورت میں آنے والا پانی مسجد کے احاطے میں پریشر کے ساتھ گرتا ہے، جس سے مسجد کے فرش کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ چونکہ یہ پائپ مسجد کی محراب کے بالکل سامنے ہی لگایا گیا ہے  تو اس سے گرنے والے پانی کی چھینٹوں سے مسجد کی دیوار اور محراب کا دروازہ بھی آلودہ ہوجاتا ہے، اور اگر کبھی محراب کا دروازہ کھلا ہو تو پانی کی چھینٹوں سے محرابِ مسجدکا فرش  بھی کافی آلودہ ہوجاتا ہے۔

   آپ سے معلوم یہ کرنا کہ کیا مسجد انتظامیہ کو شرعاً  اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ زید کے اس پرنالے کو بند کروائے؟

  جواب: مسجد اللہ پاک کا بابرکت اور عظمت والا مبارک گھر ہے، اس گھر کی تعظیم کرنا اور اس کے آداب کا خیال رکھنا ہر مسلمان پر شرعاً لازم و ضروری ہے۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ مساجد کو پاک و صاف رکھیں اور ہرگز ہرگز ایسا کوئی بھی کام نہ کریں جو مسجد کی تعظیم اور اس کے آداب کے خلاف ہو۔ مسجد کے تقدس کا خیال رکھنا کتنا ضروری ہے؟  اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ مسجد میں وضو کرنا، تھوکنا، رینٹھ اور بلغم وغیرہ نکالنا سخت ممنوع و مکروہ ہے کہ اس سے مسجد آلودہ ہوتی ہے نیز مسجد کو ہر قسم کی آلودگی اور گندگی سے بچانا واجب ہے اگرچہ وہ پاک چیز ہی کیوں نہ ہو۔

   یہاں مزید ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کسی غیر کی ملکیت میں بغیر اجازتِ شرعی کسی قسم کا تصرف کرنا،  جائز نہیں،  فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اگر کوئی شخص عام گزرگاہ میں پرنالہ وغیرہ نکال دے جس سے راہ گیروں کو مشکلات کا سامنا ہو تو اس شخص کا ایسا کرنا،  جائز نہیں اور وہاں سے گزرنے والے ہر شخص کو یہ حق حاصل ہوگا  کہ وہ اس پرنالے کو توڑنے کا مطالبہ کرے۔ اب زید خود غور کرے کہ اُس کے پڑوس میں اگر کوئی گھر یا گودام ہوتا تو کیا پھر بھی زید چھت کا  پرنالہ اُس گھر یا گودام کی طرف نکالنے کی جراءت کرتا؟ ہرگز نہیں۔ اور مساجد تو کسی کی جاگیر بھی نہیں بلکہ یہ تو خاص اللہ عزوجل کی ملکیت ہیں تو زید کو یہ جراءت کیسے ہوئی کہ اُس نے معاذ اللہ! اللہ عزوجل کی ملکیت میں ایک بے جا تصرف کیا اور چھت پر موجود پرنالے پر ایک بڑا پائپ لگا کر اُس پائپ کا رخ مسجد کے احاطے کی طرف کیا جس سے وہ مسجد بھی آلودہ ہورہی ہے اور نمازیوں میں بھی کافی تشویش پائی جارہی ہے۔

   لہذا پوچھی گئی صورت میں بلا شبہ مسجد انتظامیہ کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ زید کو احاطہ مسجد میں نکالے گئے پرنالے کو بند کرنے کا پابند کرے اور فی الفور اس پرنالے کو بند کروائیں تاکہ مسجد کو ہر قسم کی آلودگی سے بچایا جاسکے۔  زید پر بھی شرعاً یہ  لازم ہے کہ اس نے مسجد میں جو بے جا تصرف کیا ہے،  اس ناجائز فعل سے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں صدقِ دل سے توبہ کرکے فوراً مسجد کی طرف نکلنے والے اُس  پرنالے کو بند کرے اور آئندہ اس معاملے میں احتیاط سے کام لے۔

   مسجد کو پاک و صاف رکھنے کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ(۱۲۵)﴾ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسمٰعیل کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لیے ۔ (القرآن الکریم،پارہ01،سورۃ البقرۃ، آیت:125)

   حضرتِ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک حدیث میں ہے:’’امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ببناء المساجد فی الدور وان تنظف وتطیب‘‘ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محلوں میں مسجدیں بنانے اور انہیں پاک صاف اور معطر رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔(سنن ابی داؤد ، کتاب الصلوٰۃ،باب اتخاذ المساجد فی الدور،ج01،ص124، مطبوعہ بیروت)

   شارح بخاری، علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمہ عمدۃ القاری میں ایک حدیثِ مبارک سے حاصل ہونے والے فوائد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:”فيه تعظیم المساجد  عن اثقال البدن وعن القازورات بالطریق الاولی وفیہ احترام جھۃ القبلۃ وفیہ  إِزَالَة البزاق وَغَيره من الأقذار من الْمَسْجِد۔“یعنی  حدیث پاک میں مسجد کو بدنی رطوبتوں سے بچاتے ہوئے اُس کی عظمت برقرار رکھنے کا ذکر ہے،یونہی حدیث پاک میں  سمتِ قبلہ کا احترام بجا لانے اور مسجد سے تھوک اور دیگر گندی چیزوں کو صاف کرنے کا ذکر ہے ۔(عمدۃ القاری  ،كتاب الصلوة،جلد4، صفحہ149،مطبوعہ بیروت)

   مسجد کو صاف ستھرا رکھنا واجب ہے۔ جیسا کہ بحر الرائق، فتاوٰی شامی، بدائع الصنائع وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے:”و النظم للاول“ ان غسل المعتکف راسہ فی المسجد لاباس بہ اذالم یلوث بالماء المستعمل فان کان بحیث یتلوث المسجد یمنع منہ لان تنظیف المسجد واجب“ یعنی اگر معتکِف مسجد میں اپنے سر کو دھوئے  اور استعمال شدہ پانی سے مسجد کو  آلودہ بھی نہ کرے تو کوئی حرج نہیں، لیکن اگر سر  دھونے سے مسجد آلودہ ہوتی ہو تو اُسے سر دھونے سے منع کیا جائے گا، کیونکہ مسجد کو صاف ستھرا رکھنا واجب ہے۔(بحر الرائق، باب الاعتكاف، ج02، ص327، مطبوعہ  بیروت)

   مسجد میں وضو کرنا، تھوکنا اور بلغم نکالنا مکروہ و ممنوع ہے۔ جیسا کہ درِ مختار میں ہے:”والوضوء فيما أعد لذلك“ یعنی مسجد میں بنائے گئے وضو خانے کے علاوہ مسجد میں وضو کرنا مکروہ ہے۔

    (قوله والوضوء)کے تحت فتاوٰی شامی میں مذکور ہے:”لأن ماءه مستقذر طبعا فيجب تنزيه المسجد عنه، كما يجب تنزيهه عن المخاط والبلغم بدائع“ ترجمہ: ”کیونکہ وضو کا پانی طبعاً گندہ  ہے تو مسجد کا اس سے بچانا واجب ہے، جیسے رینٹھ اور بلغم سے مسجد کو بچانا واجب ہے ۔“ ( رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص660، مطبوعہ  بیروت)

   حاشیہ طحطاوی علی  الدرمیں ہے:” لوجوب صیانتہ عما یقذرہ و ان کان طاھراً“یعنی اس وجہ سے کہ مسجد کو ہر گھن والی چیز سے بچانا واجب ہے اگرچہ وہ چیز پاک ہی کیوں نہ ہو۔(حاشیۃالطحطاوی علی الدر، ج01، ص 76، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوٰی عالمگیری  میں ہے:”وتكره المضمضة والوضوء في المسجد إلا أن يكون ثمة موضع أعد لذلك ولا يصلي فيه وله أن يتوضأ في إناء، كذا في فتاوى قاضي خان۔ ولا يبزق على حيطان المسجد ولا بين يديه على الحصى ولا فوق البواري ولا تحتها ، وكذا المخاط “ یعنی مسجد میں کلی کرنا اور وضو کرنا مکروہ ہے مگر اس جگہ پر  جسے وضو ہی کے لیے تیار کیا گیا ہو اور وہاں نماز نہ پڑھی جاتی ہو، ہاں مسجد میں کسی برتن میں وضو کرنا ، جائز ہے جیسا کہ فتاوٰی قاضی خان میں مذکور ہے۔ مسجد کی دیوار پر یا  مسجد میں اپنے سامنے پڑی کنکریوں یا مسجد کی چٹائی  کے  اوپر یا ان کے نیچے نہ تھوکے ۔ یونہی رینٹھ نہ نکالے ۔(فتاوٰی عالمگیری، ج01، ص110، دار الفكر بيروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ سے سوال ہوا :”مسمی عنایت اﷲ نے۔۔۔ پرنالہ مسجدکی دیوار سے ملا ہوا ر کھا جس سے مسجد کا ضرر ہے اور ایک کھڑکی بھی اسی دیوار میں جو حجرہ پر بنائی گئی ہے واسطے آمدورفت چھت حجرہ کے رکھی، عنایت اﷲ کو اس طریقہ سے مکان بنانا کیسا ہے؟“ آپ  علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشادفرماتے ہیں: ”وہ ناپاک پر نالہ کہ دیوار مسجد سے ملا ہو ابلااستحقاق شرعی رکھاہے اور اس میں مسجد کاضرر ہے،لازم ہے کہ فوراً اسے اکھیڑ دے اور بند کردے،اور حجرہ کی چھت پر آمدورفت کا اسے کوئی استحقاق نہیں۔“(فتاوٰی رضویہ، ج16،ص308-307، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بہارِ شریعت میں ہے:” مسجد میں وضو کرنا اور کُلی کرنا اور مسجد کی دیواروں یا چٹائیوں پر یا چٹائیوں کے نیچے تھوکنا اور ناک سنکنا ممنوع ہے۔۔۔۔ مسجد کو ہر گھن کی چیز سے بچانا ضروری ہے۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص 647-646، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

   فتاوٰی خلیلیہ میں ہے:”مسجد کو ہر ایسی چیز سے بچانا لازم ہے جس سے مسجد کے نجس یا آلودہ ہونے کا گمان ہو ۔

(فتاوٰی خلیلیہ ، ج 02 ، ص 524 ، ضیاء القرآن پبلیکشنز ، کراچی، ملتقطاً) 

   فتاویٰ اجملیہ میں ہے:”مسجد کی تعظیم و احترام اور تطہیر و تنظیف یعنی اس کو پاک اور ستھرا رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔۔۔  یہاں تک کہ مسجد کی دیوار اور صحن پر حتی کہ بوریوں پر تھوکنا ممنوع ہے۔۔۔۔ بالجملہ مسلمان کو اپنی عبادت گاہ مسجد کا انتہائی احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ اور وہ اپنے کسی فعل و عمل سے اہلِ مسجد کو ایذا و تکلیف ہرگز ہرگز نہ پہنچائیں۔“(فتاوٰی  اجملیہ، ج 02، ص 401-400، شبیر برادرز، لاہور، ملتقطاً)

   مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا :”اپنے ذاتی مکان کے چھپر کی ارونی کو مسجد کے اندر گرانا کیسا؟“ آپ  علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشادفرماتے ہیں: ”بلا استحقاق مسجد کی دیوار سے ملا کر پرنالہ گرانا حرام، مسجد کو بدبو اور نجاست سے بچانا فرض ہے۔۔۔۔ اپنی اولتی کا پانی مسجد میں گرانا حرام ہے۔“(فتاوٰی  بحر العلوم ، ج 05، ص 208-207، شبیر برادرز، لاہور، ملتقطاً)

   غیر کی ملکیت میں کسی بھی قسم کا تصرف کرنا حرام ہے۔ جیسا کہ درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:”لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه هذه المادة مأخوذة من المسألة الفقهية ( لا يجوز لأحد التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته ) الواردة في الدر المختار۔“ یعنی کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ غیر کی ملکیت میں اس کی اجازت کے بغیر کسی قسم کا  تصرف کرے ۔ یہ اصول اس فقہی مسئلہ سے ماخوذ ہے کہ کسی کو بھی  دوسرے کے مال میں اس کی اجازت اور ولایت کے بغیر تصرف کرنا،  جائز نہیں ، یہ مسئلہ درِ مختار میں مذکور ہے۔ (درر الحكام في شرح مجلة الأحكام، ج01، ص96، دار الجیل)

   درِ مختار   میں ہے:”لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته“ یعنی کسی شخص کو اپنے غیر کے مال میں اس کی اجازت اور ولایت کے بغیر تصرف کرنا،  جائز نہیں ۔(الدر المختار مع الرد المحتار، کتاب الغصب، ج 06، ص 200، مطبوعہ بیروت)

   عام گزرگاہ کی طرف پرنالہ وغیرہ نکالنے میں اگر لوگوں کو تکلیف کا سامنا ہو، تو ایسا تصرف  شرعاً ناجائز ہے۔ جیسا کہ تبیین الحقائق وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”(ومن أخرج إلى الطريق العامة كنيفا أو ميزابا أو جرصنا أو دكانا فلكل نزعه) أي لكل أحد من أهل الخصومة مطالبته بالنقض كالمسلم البالغ العاقل الحر أو الذمي؛ لأن لكل منهم المرور بنفسه وبدوابه، فيكون له الخصومة بنقضه“ یعنی جس نے عام راستے کی طرف بیت الخلاء یا پرنالہ یاشہتیر یا دکان بنائی تو جن لوگوں کو اس پر اعتراض ہو ان میں سے ہر شخص کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسے توڑنے کا مطالبہ کرے جیسا کہ آزاد، عاقل، بالغ مسلمان یا ذمی کافر،  کیونکہ ان میں سے ہر ایک شخص کو اپنے اوراپنے  چوپائے  کو گزرانے کا حق حاصل ہے لہذا وہ اسے توڑنے کے مطالبہ کا حق بھی رکھتا ہے۔ (تبیین الحقائق، کتاب الجنایات، ج 06، ص 142، مطبوعہ قاہرہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:” عام راستے کی طرف بیت الخلاء یا پرنالہ یا برج یا شہتیریا دکان وغیرہ نکالنا جائز ہے بشرطیکہ اس سے عوام کو کوئی ضرر نہ ہو اور گزرنے والوں میں سے کوئی مانع نہ ہو اور اگر کسی کو کوئی تکلیف ہو یا کوئی معترض ہو تو ناجائز ہے۔ “ (بہارِ شریعت، ج 03، ص 871، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے