سوال:قربانی واجب ہونے میں مالکِ نصاب ہونے سے کیامرادہے؟
جواب:جس شخص کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونایاساڑھے باون تولہ چاندی ہو یاسوناچاندی نصاب سےکم ہوں ، لیکن جس قدر ہیں ، ان دونوں کو ملا کر یا سونے یا چاندی کو کسی دوسرے مال کے ساتھ ملاکر،اُن دونوں کی مجموعی قیمت عیدالاضحی کے ایام میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو ، یوں ہی حاجت اصلیہ(یعنی وہ چیزیں جن کی انسان کوحاجت رہتی ہے،جیسے رہائش گاہ،خانہ داری کےوہ سامان جن کی حاجت ہو،سواری اورپہننے کے کپڑے وغیرہ ضروریاتِ زندگی)سے زائد اگرکوئی ایسی چیزمِلکیت میں ہو ، جس کی قیمت تنہا یا سونے یا چاندی کے ساتھ ملا کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرہو ، تووہ نصاب کامالک ہےاوراُس پر قربانی واجب ہے
قربانی واجب ہونے کے نصاب کے بارے میں بدائع الصنائع میں ہے :”فلا بد من اعتبارالغنى وهو أن يكون فی ملكه مائتادرهم أو عشرون ديناراأو شیء تبلغ قيمته ذلك سوى مسكنه ومايتأثث به وكسوته وخادمه وفرسه وسلاحه و مالايستغنی عنه وهونصاب صدقة الفطر“
ترجمہ:(قربانی میں)غنی یعنی مالداری کااعتبارہوناضروری ہے اوروہ یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں دوسو درہم(ساڑھے باون تولہ چاندی)یابیس دینار(ساڑھے سات تولہ سونا)ہوں یارہائش،خانہ داری کے سامان، کپڑے،خادم،گھوڑا،ہتھیاراوروہ اشیاء جن کے بغیرگزارہ نہ ہو،ان کے علاوہ کوئی ایسی چیزہو،جواس(دوسودرہم یابیس دینار)کی قیمت کوپہنچتی ہواوریہ ہی صدقہ فطرکانصاب ہے۔
(بدائع الصنائع،کتاب التضحیۃ،جلد4،صفحہ196،مطبوعہ کوئٹہ)
اورسونے کوچاندی کے ساتھ ملانے کے حوالے سےتبیین الحقائق میں ہے:”ويضم الذهب الى الفضة بالقيمة فيكمل به النصاب لأن الكل جنس واحد“ترجمہ:سونے کو چاندی کے ساتھ قیمت کے اعتبار سے ملاکر نصاب مکمل کیاجائے گا،کیونکہ یہ آپس میں ہم جنس ہیں۔
(تبیین الحقائق ، کتاب الزکاۃ ، باب زکاۃالمال ، جلد 2 ، صفحہ 80 ،مطبوعہ کوئٹہ)
سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں : ”قربانی واجب ہونے کے لیے صرف اتنا ضرور ہے کہ وہ ایام قربانی میں اپنی تمام اصلی حاجتوں کے علاوہ 56 روپیہ(اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے دور میں رائج چاندی کا نصاب) کے مال کا مالک ہو، چاہے وہ مال نقد ہو یا بیل بھینس یا کاشت، کاشتکار کے ہل بیل اس کی حاجت اصلیہ میں داخل ہیں ، ان کا شمار نہ ہو۔ “
(فتاوی رضویہ،جلد 20،صفحہ 370 )
بہارِشریعت میں ہے:
’’جوشخص دوسودرہم(ساڑھے باون تولے چاندی)یابیس دینار(ساڑھے سات تولے سونا)کامالک ہویاحاجت کے سواکسی ایسی چیزکامالک ہوجس کی قیمت دوسودرہم ہووہ غنی ہے اس پرقربانی واجب ہے۔حاجت سے مرادرہنے کامکان اورخانہ داری کے سامان جن کی حاجت ہواورسواری کاجانوراورخادم اورپہننے کے کپڑے ان کے سواجوچیزیں ہوں وہ حاجت سے زائدہیں‘‘۔
(بہارشریعت،ج03،ص333 )
یہ بات یادرہے کہ حاجت سے مرادوہ چیزیں ہوتی ہیں جن کی عموماًانسان کوضرورت ہوتی ہے اوران کے بغیرگزراوقات میں شدیدتنگی ہوتی ہے جیسے رہنے کامکان اورخانہ داری کے سامان جن کی حاجت ہواورسواری کاجانوریاگاڑی اور خادم اورپہننے کے کپڑے اورعلمِ دین سے متعلق کتابیں اورپیشے سے متعلق اوزاروغیرہ بھی حاجت میں داخل ہیں۔لیکن بہت سے لوگ اپنی حاجتِ اصلیہ سے زائدمال کو شمارکرنے میں غلطی کر جاتے ہیں،کیونکہ عام طورپرکچھ نہ کچھ حاجت اصلیہ سے زائدچیزیں موجودہوتی ہی ہیں،جن کوسونے یاچاندی کے ساتھ ملاکردیکھاجائے،تو قربانی کا نصاب بن جاتا ہے ، لیکن لوگ توجہ نہیں کرتے۔جیسے اضافی کپڑے، جوتے یا گھر میں سجاوٹ کاسامان یاتفریح کےلیے خریدا گیا ٹی وی وغیرہا،لہٰذا ان چیزوں کا ضرورخیال رکھا جائے اورکسی مفتی صاحب سے مل کرمکمل معلومات لے لی جائیں۔
Tags ان دونوں کو ملا کر یا سونے یا چاندی کو کسی دوسرے مال کے ساتھ ملاکر اُن دونوں کی مجموعی قیمت عیدالاضحی کے ایام میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو جس کی قیمت تنہا یا سونے یا چاندی کے ساتھ ملا کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرہو جیسے رہائش گاہ خانہ داری کےوہ سامان جن کی حاجت ہو سواری اورپہننے کے کپڑے وغیرہ ضروریاتِ زندگی)سے زائد اگرکوئی ایسی چیزمِلکیت میں ہو سوال:قربانی واجب ہونے میں مالکِ نصاب ہونے سے کیامرادہے؟ جواب:جس شخص کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونایاساڑھے باون تولہ چاندی ہو یاسوناچاندی نصاب سےکم ہوں لیکن جس قدر ہیں یوں ہی حاجت اصلیہ(یعنی وہ چیزیں جن کی انسان کوحاجت رہتی ہے