سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کےپاس صرف روپیہ ہے لیکن وہ روپیہ زید مکان بنانے کے لئے جمع کرہا ہے، کیونکہ زید کا اپنا ذاتی مکان نہیں ہے۔ اس صورت میں اس رقم کی زکوٰۃ کا کیا حکم ہوگا ؟؟ رہنمائی فرمادیں۔
پوچھی گئی صورت میں اگر یہ رقم قرض اور حاجت اصلیہ سے فارغ ہو کر نصاب کے برابر پہنچتی ہے ، تو اس صورت میں نصاب کا سال مکمل ہونے پر اس رقم کی زکوٰۃ نکالنا بلا شبہ زید پر فرض ہوگا، کیونکہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق مکان خریدنے کی نیت سے رقم رکھ لینا حاجتِ اصلیہ میں داخل نہیں۔
چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:”اذا امسکہ لینفق منہ کل ما یحتاجہ فحال الحول وقد بقی معہ منہ نصاب فانہ یزکیٰ ذلک الباقی، وان کان قصدہ الانفاق منہ ایضاً فی المستقبل لعدم استحقاق صرفہ الی حوائجہ الاصلیۃ وقت حولان الحول، بخلاف ما اذا حال الحول وھو مستحق الصرف الیھا“یعنی جب مال اس نیت سے روکے رکھا کہ جو حاجت ہوگی اس میں خرچ کروں گا پھر اس پر سال گزر گیا اور اس کے پاس اس میں سے نصاب باقی ہے تو اس باقی کی زکوٰۃ دے گا اگرچہ اس کو مستقبل میں خرچ کرنے کی نیت ہو، کیونکہ سال گزرنے کے وقت حاجتِ اصلیہ میں صرف کرنے کا اس کو استحقاق حاصل نہیں ہے، برخلاف اس کے کہ جب سال پورا ہونے کے وقت اس مال کو حاجتِ اصلیہ میں خرچ کرنے کی ضرورت ہو۔ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الزکاۃ، ج 03، ص213، مطبوعہ کوئٹہ)
بہارِ شریعت میں ہے:”حاجتِ اصلیہ میں خرچ کرنے کے روپے رکھے ہیں تو سال میں جو کچھ خرچ کیا کیا اور جو باقی رہے اگر بقدرِ نصاب ہیں تو ان کی زکوٰۃ واجب ہے، اگرچہ اسی نیت سے رکھے ہیں کہ آیندہ حاجتِ اصلیہ میں صرف ہوں گے اور اگر سالِ تمام کے وقت حاجتِ اصلیہ میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے تو زکوٰۃ واجب نہیں۔“ (بہارِ شریعت ، ج 01، ص 881، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وقار الفتاویٰ میں ہے:”مکان بنانے کے لئے، بچوں کی شادی کے لئے، سواری خریدنے کے لئے یا حج کرنے کے لئے، جو رقم اس کے پاس رکھی ہے اور وہ نصاب کو پہنچتی ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔“ (وقار الفتاویٰ، ج 02، ص 393، بزم وقار الدین)
فتاویٰ اہلسنت کتاب الزکوٰۃ میں ہے:”مکان کے لئے جمع رقم حاجتِ اصلیہ میں شمار نہ ہوگی اور اس پر زکوٰۃ نکالنا ضروری ہے۔“ (فتاویٰ اہلسنت، کتاب الزکوٰۃ، ص 100، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم