سوال: کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ ایک امام صاحب بچوں کو مسجد میں قرآن پاک پڑھاتے ہیں، کبھی کبھار ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ نمازِ عصر میں ان بچوں کے علاوہ باہر سے کوئی مرد نمازی مسجد میں نہیں آتا، تو امام صاحب انہی بچوں کے ساتھ جماعت قائم کرلیتے ہیں، بچوں کی عمر 5 سے 12 سال کے درمیان ہے۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا ان بچوں کے ساتھ جماعت ادا ہوسکتی ہے؟
جواب: جمعہ اور عیدین کے علاوہ دیگر نمازوں کی جماعت منعقد ہونے کے لئے امام کے ساتھ کم از کم کسی ایک مقتدی کا ہونا ضروری ہے خواہ وہ سمجھ دار بچہ ہی کیوں نہ ہو، لہذا پوچھی گئی صورت میں اُن سمجھدار بچوں کے ساتھ بھی جماعت ادا ہوجائے گی۔
جماعت منعقد ہونے کے لئے کم سے کم تعداد کے حوالے سے بدائع الصنائع میں ہے:”فاقل من تنعقد بہ الجماعۃ اثنان، وھو ان یکون مع الامام واحد،۔۔۔سواء کان ذلک الواحد رجلاً، او امرأۃ، او صبیاً یعقل؛۔۔۔واما المجنون و الصبی الذی لا یعقل فلا عبرۃ بھما؛ لانھما لیسا من اھل الصلاۃ فکانا ملحقین بالعدم۔“یعنی کم سے کم وہ تعداد جس سے جماعت منعقد ہو جاتی ہے دو افراد ہیںِ اور وہ امام کے ساتھ کسی بھی ایک فرد کا ہونا ہے ۔۔۔خواہ وہ ایک مرد ہو یا عورت ہو یا سمجھدار بچہ ہو ۔۔۔ہاں پاگل اور نا سمجھ بچہ کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ یہ نماز کے اہل ہی نہیں ہیں گویا یہ کالعدم ہیں۔ (بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 256، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، ملتقطاً)
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:”(واقلھا اثنان) واحد مع الامام ولو ممیزاً“یعنی جماعت کی کم سے کم تعداد دو افراد ہیں۔امام کے ساتھ کسی ایک کا ہونا اگرچہ وہ سمجھ بوجھ رکھنے والا (نابالغ )ہو۔
"ولو ممیزاً” کے تحت فتاویٰ شامی میں ہے:” ای ولو کان الواحد المقتدی صبیاً ممیزاً۔قال فی السراج:لو حلف لا یصلی جماعۃ وام صبیاً یعقل حنث اھ۔ولا عبرۃ بغیر العاقل بحر۔“یعنی اگرچہ وہ ایک مقتدی سمجھ بوجھ رکھنے والا بچہ ہی کیوں نہ ہو۔سراج میں کہا:اگر کوئی شخص یہ قسم کھالے کہ وہ جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھے گا پھر وہ کسی سمجھدار بچہ کا امام بن جائے تو وہ حانث ہو جائے گا۔ہاں ناسمجھ بچہ کا کوئی اعتبار نہیں جیسا کہ بحر میں مذکور ہے۔(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 553، مطبوعہ بیروت)
مفتی جلال الدین علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”ظہر کی جماعت کے لئے کم از کم کتنے مقتدی کا ہونا ضروری ہے؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”جمعہ اور عیدین کے علاوہ دیگر نمازوں کی جماعت کے لئے امام کے ساتھ کم از کم ایک مقتدی کا ہونا ضروری ہے۔ درِ مختار میں ہے:” واقلھا اثنان واحد مع الامام "۔“(فتاوٰی فیض الرسول، ج 01، ص 336، شبیر برادرز، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم