سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص تراویح کی نماز امام کے پیچھے پڑھ رہا ہے تو کیا اس میں بھی اقتداء کی نیت کرنا ضروری ہے ؟
جواب: جی ہاں! امام کے پیچھے نمازِ تراویح کی درست ادائیگی کے لیے امام کی اقتداء کی نیت کرنا ضروری ہے، کیونکہ فرض واجب ہر کسی قسم کی نماز میں اقتداء درست ہونے کی شرائط میں سے پہلی شرط ہی یہ ہے کہ مقتدی اقتداء کی نیت کرے۔
چنانچہ درِ مختار میں ہے:”الصغرى ربط صلاة المؤتم بالإمام بشروط عشرة: نية المؤتم الاقتداء۔“یعنی امامتِ صغرٰی سے مراد مقتدی کادس شرائط کے ساتھ اپنی نماز کو امام کی نماز کے ساتھ ملانا ہے ( اقتداء کی شرائط میں سے پہلی شرط) مقتدی کا اقتداء کی نیت کرنا ہے۔
(نية المؤتم) کے تحت فتاوٰی شامی میں ہے:”أي الاقتداء بالإمام، أو الاقتداء به في صلاته أو الشروع فيها أو الدخول فيها بخلاف نية صلاة الإمام. وشرط النية أن تكون مقارنة للتحريمة أو متقدمة عليها بشرط أن لا يفصل بينها وبين التحريمة فاصل أجنبي كما تقدم في النية ح “ یعنی مقتدی امام کی اقتداء کی نیت کرے یا اس کی نماز میں اقتداء کی نیت کرے یا امام کی نماز شروع کرنے یا امام میں کی نماز میں داخل ہونے کی نیت کرے برخلاف امام کے نماز پڑھانے کی نیت کرنے کے۔ نیت میں شرط یہ ہے کہ وہ تحریمہ سے ملی ہوئی ہو یا اس سے پہلے کی ہو بشرطیکہ نیت اور تحریمہ کے مابین اجنبی فاصلہ نہ پایا جائے، جیسا کہ ماقبل نیت کے باب میں یہ بات گزرچکی ہے، علامہ حلبی علیہ الرحمہ نے اسے ذکر کیا ہے ۔(ردالمحتارمع الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، ج02،ص338-337،مطبوعہ کوئٹہ)
بہارِ شریعت میں ہے:”اقتدا کی تیرہ (۱۳) شرطیں ہیں:(۱) نیت اقتدا۔“(بہارِ شریعت، ج 01،ص 562، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مزید ایک دوسرے مقام پر صدر الشریعہ علیہ الرحمہ اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں:” مقتدی کو اقتدا کی نیت بھی ضروری ہے ۔“(بہار شریعت، ج 01،ص495، مکتبۃ المدینہ ،کراچی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم