سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بالغ شخص اگر نمازِ جنازہ میں اتنی آواز سے ہنسا کہ خود اس کے کان تک آواز آئی ،آس پاس والوں نے نہیں سنی ،تو اس صورت میں نمازِ جنازہ کا کیا حکم ہوگا؟
جواب: جو چیزیں نماز کو فاسد کرتی ہیں ، ان سے نمازِ جنازہ بھی فاسد ہوجاتی ہےاور نماز میں اتنی آواز سے ہنسنا کہ صرف اپنے کانوں تک آواز آئے ،اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے کہ یہ قابلِ سماعت ہونے کی وجہ سےکلام کے مرتبہ میں ہے ، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگر کوئی شخص نمازِ جنازہ میں اتنی آوازسے ہنسا کہ صرف اس کے کانوں تک آواز آئی ،اس سے اس کی نمازِ جنازہ فاسد ہوجائے گی۔
بدائع الصنائع میں ہے:”واما بيان ما تفسد به صلاة الجنازة فنقول : انها تفسد بما تفسد به سائر الصلوات وهو ما ذكرنا من الحدث العمد والكلام “یعنی بہرحال ان چیزوں کا بیان جن سے نمازِ جنازہ فاسد ہوتی ہے ،تو اس کے متعلق ہم کہتے ہیں:نمازِ جنازہ ان چیزوں سے فاسد ہوجاتا ہے جن سے تمام نمازیں فاسد ہوتی ہیں اور وہ ہم نے ذکر کردیں یعنی جان بوجھ کر حدث طاری کرنا، کلام کرنا۔(بدائع الصنائع، جلد2،صفحہ 349،مطبوعہ:بیروت)
قبلہ سمت سے کتنا پھریں گے تو نماز فاسد ہوگی؟
ھندیہ میں ہے:”تفسد صلاۃ الجنازۃ بما تفسد بہ سائر الصلوات إلا محاذاۃ المرأۃ“یعنی نمازِ جنازہ ان چیزوں سے فاسد ہوجاتا ہے ،جن سے تمام نمازیں فاسد ہوتی ہے سوائے محاذاتِ عورت کے۔ (فتاوی ھندیہ، جلد1،صفحہ 164،مطبوعہ:مصر)
حلبی کبیری میں ہے:”والضحک بمنزلۃ الکلام وان لم یکن قھقھۃ“یعنی ہنسنا کلام کے مرتبہ میں ہے ،اگرچہ قہقہہ نہ ہو۔(حلبی کبیری، صفحہ377،مطبوعہ:کوئٹہ)
حلبی کبیری میں ہے:”والضحک یفسد الصلاۃ لانہ کلام لکونہ مسموعا۔۔۔۔ وحد الضحک ان یکون مسموعا لہ دون جیرانہ“یعنی ہنسنا نماز کو فاسد کردیتا ہے ،کیونکہ مسموع ہونے کی وجہ سے یہ کلام ہے ۔۔۔۔اور ہنسنے کی حد یہ ہے کہ (اس میں اتنی آواز ہو کہ جو)اپنے لئے مسموع ہو،نہ کہ ساتھ والوں کے لئے ۔(حلبی کبیری، صفحہ125،مطبوعہ:کوئٹہ)
خلاصۃ الفتاوی میں ہے:”والضحک فی صلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ لاینقض الوضوء ولکن ینقض صلوۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ“یعنی نمازِ جنازہ اور سجدۂ تلاوت میں ہنسنا وضو نہیں توڑتا ،لیکن نمازِ جنازہ اور سجدۂ تلاوت کو فاسد کر دیتا ہے۔(خلاصۃ الفتاوی، جلد1،صفحہ 19،مطبوعہ:کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم