بعض لوگ کہتےہیں کہ مذہب ایک افیون ہے جو انسان کی عملی قوت کو ختم کرکےاسے ناکارہ بنادیتاہے۔ یہ سوچ کس حد تک درست ہے؟ آئیے دلائل و براہین کی روشنی میں اس کا کچھ تجزیہ کرتے ہیں تاکہ واضح ہو کہ ان جملوں کی بنیاد علم پرہےیا جہل پر، حقائق پر ہے یا دروغ بیانی (جھوٹ بولنے) پر حقیقتِ حال یہ ہے کہ ایسے جملے وہ لَادِین اورمذہب بیزار لوگ بولتے ہیں جنہوں نے یا تو اسلام کا اصلاً مطالعہ ہی نہیں کیا یا تعصب زدہ لوگوں کی کتابوں سے اسلام کو جاننے کی کوشش کی ہوتی ہے۔ دیگر مذاہب اس کا کیا جواب دیتے ہیں یہ اُن کا معاملہ ہے، ہمارا مذہب اسلام ہے اس لئے ہم اسی کے متعلق تاریخی حقائق کی روشنی میں جواب دیتے ہیں کہ دینِ اسلام سُلانے والا ہے یا جگانے والا؟یہ افیون ہے یاغفلت و کاہلی کا نشہ اُڑانے والا؟ آپ تاریخ کا مطالعہ کرلیں کہ اسلام جس خطہ عرب میں آیا اس وقت وہاں کے لوگوں کی حالت کیا تھی؟ اُن کی اسلام کے آنے سے پہلے کی حالت پڑھ لیں اور اسلام کے بعد وہ کہاں سے کہاں پہنچے اسےدیکھ لیں۔تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب و حجاز کی اُس سرزمین کو لوگ نہ زیادہ جانتے تھے اور نہ اُن کی قوت و طاقت کا ایسا شہرہ تھا جیسے قیصر و کسریٰ، روم، یونان اور فارس کا تھا۔ مکے کی عمومی حالت یہ تھی کہ وہاں بُت پرست مذہبی لوگ تھے یا وہ تاجر جو شام و یمن جاکر کاروبار کرتے تھے۔ روم و فارس کے مقابلے میں مکہ ایک چھوٹاسا شہر تھا جس کی دس بارہ ہزار کی آبادی تھی،جہاں نہ کوئی بادشاہ تھا نہ وزیر۔ کوئی قانون،فوج یا کوئی مشہور چیز بھی نہیں تھی سوائے خانہ کعبہ کے۔ یونہی اگر تاریخ میں تلاش کریں کہ کیااسلام سے پہلے مکہ والوں کا دنیا میں کوئی ایسا کارنامہ تھا کہ باہر کے لوگ انہیں بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھیں یا کیا رُستم و اسفند یار کی طرح ان کی بہادری کے افسانے یا کارنامے دنیا میں پڑھےجاتے تھے؟ یا کیا وہاں سونے چاندی کی کانیں دستیاب تھیں؟ یا کوئی اور عظیم الشان کام تھا؟ تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوگا کہ وہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ یونہی اگر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کیا وہاں کے لوگ کسی خاص فن کے ماہر تھے کہ انہوں نے کوئی ڈیم بنایا ہو جیسے قومِ سبا نے یمن میں سدِ مآرِب کے نام سے ایک عظیم ڈیم بنایا تھا تو جواب ملے گا مکے کی صورتِ حال تو یہ تھی کہ پانی کا کوئی مستقل ذخیرہ ہی نہ تھا، صرف کنویں تھے، جن میں سب سے مشہور آبِ زم زم کا کنواں تھا، باقی اللہ تعالیٰ بارش نازل کردیتا تو گزارا ہوجاتا۔ یونہی وہاں نہ تو ارسطو اور افلاطون کی طرح کا کوئی بڑا فلسفی یا مصنف تھا جس کا فلسفہ یا کتابیں دنیا بھر میں مشہور ہوں اور نہ کوئی ماہرِ علوم و فنون بلکہ پوری قوم میں صرف دس بیس افراد تھے جنہیں پڑھنا لکھنا آتا تھا۔ تاریخ کے طالبِ علم کے سامنے اسلام سے پہلے کے خطۂ عرب کی یہی تصویر نمودار ہوگی لیکن دوسری طرف صورتِ حال یہ ہے کہ جب اسلام آیا تو تاریخ بتائے گی کہ یہی عام اور غیر معروف لوگ حاکم بھی بن گئے اور فاتح و غالب بھی، فلسفی و عالم بھی بن گئے اور علوم کے مُوجِد بھی۔ دنیا کو تہذیب سکھانے والے بھی اور بڑی بڑی سلطنتوں کو پلٹنے اور ان سے ٹیکس وصول کرنے والے بھی، دنیا کو علوم سے روشناس کرانے والے بھی اور انہیں ترقی کی شاہراہ پر چلانے والے بھی۔ پھر اسی قوم نے ایسے کارنامے دکھائے کہ جو علوم لوگوں نے کبھی سنے بھی نہ تھے اِنہوں نے یہ علوم صرف سیکھے ہی نہیں بلکہ ایجاد کرکے لوگوں کے ہاتھ میں دے دئیے مثلاً کسی کی بات یا خبر کو مستند طریقے سے آگے کیسے پہنچایا جاتا ہے؟ سندوں کا سلسلہ کیا ہوتا ہے؟ کتابِ الٰہی سے علوم کے4 دریا کیسے نکالے جاتے ہیں؟ اور کس طرح ان کو آپس کے اندر جوڑ کر اجتہادی نتائج اخذ کئے جاتے ہیں؟ اور کس انداز سے ایک نظامِ حکومت بنایا اور اس کے اصولوں کو واضح انداز میں بیان کیا جاتا ہے، یہ سب علوم عرب کے اِنہی باشندوں نے ایسے کھول کر بیان کردئیے کہ ارسطو تو کیا ارسطو سے پہلے کے لوگ بھی اس طرح بیان نہیں کرپائے۔
اس خطے میں اسلام کے آنے کے بعد علم سیکھنے سکھانے کے ادارے وجود میں آ گئے، علماء تیار ہوئے، مسجدیں آباد ہوئیں اور ہر گھر سے علم کے چشمے پھوٹ پڑے۔ قوتِ حافظہ و شاعری و زبان دانی میں پہلے بھی وہ بہت اچھے تھے لیکن اب ایسا علم، ذہانت، قوتِ استدلال، شانِ اجتہاد، ظاہری و باطنی کمالات، قلبی طہارت، پاکیزگیِ نفس، زہد و تقویٰ اور مکارمِ اخلاق کے ایسے حیرت انگیز واقعات ظہور پذیر ہوئے جن کی مثل دنیا اب بھی پیش کرنے سے قاصر ہے۔
حضرات عُمر فاروق، عبیدہ بن جراح، سعد بن ابی وقاص، عَمرو بن عاص، خالد بن ولید، امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین یہ سب مکے کے عام لوگوں سے تھوڑے سے ممتاز تھے لیکن اسلام نے ان کی امتیازی خوبیوں کو ایسا چمکایا کہ ان کے کارنامے آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں۔ یہی سلسلہ آگے محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، موسیٰ بن نصیر اور قُتَیْبہ بن مسلم علیہم الرحمۃ تک پہنچتا ہے یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے بڑی بڑی سلطنتوں کو جھکا دیا۔
مکہ مدینہ کے انہی عام لوگوں میں اسلام نے حضرات عبد اللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس، زید بن ثابت، ابوالدرداء، معاذ بن جبل، ابوہریرہ رضی اللہ عنہم جیسی ہستیوں کو علم کے سمندروں میں تبدیل کردیا۔ آپ زندگی کے شعبے گنتے جائیں اور صحابہ و تابعین و تبع تابعین کی فہرستیں بناتے جائیں، آپ کا دل گواہی دے گا کہ اسلام کی قوت نے انہیں باکمال بنا دیا۔ اب بتائیے کہ اسلام سلانے والا ہے یا جگانے والا ہے؟ اسلام بٹھانے والا ہے یا اٹھانے والا ہے؟ اسلام پست کرنے والا ہے یا بلندیاں دینے والا ہے؟
یہ اسلام کی قوتِ محرکہ، ترغیب، طاقت اور انرجی تھی جس نے لوگوں میں اتنی بیداری، ہمت، حوصلہ، جذبہ اور قوت بھر دی کہ اسلام کی آمد کے صرف دس سال پہلے کی تاریخ اور پچاس سال بعد کی تاریخ میں دنیا کے سب سے بڑے انقلاب نے جنم لیا۔ اگر اتنی سی مدت میں اتنا بڑا انقلاب کوئی مذہب پیدا کرسکتا ہے تو وہ صرف اسلام ہے جس نے عملی طور پر وہ سب کرکے دکھایا جو کوئی دوسرا نہ کرسکا۔
اب جو افیون کی بات کرنے والے ہیں یہ بیچارے خود افیون کے نشے میں ہیں جو ایسی باتیں کہتے ہیں کہ مذہب انسان کو سست بنادیتا ہے ورنہ اسلام کی جوتاریخ ہمارے سامنےہے وہ توکچھ اور ہی کہہ رہی ہے۔
چالیس دن تک ناخن یا موئے زیرِ ناف وغیرہ نہ کاٹنا
چالیس روز سے زیادہ ناخن یا مُوئے بغل یا مُوئے زیرِ ناف(یعنی بغل کے اور ناف کے نیچے کے بال) رکھنے کی اجازت نہیں، بعد چالیس روز کے گنہگار ہوں گے، ایک آدھ بارمیں گناہِ صغیرہ ہوگا۔ عادت ڈالنے سے کبیرہ ہوجائیگا، فِسْق ہوگا۔(فتاویٰ رضویہ ،ج 22،ص678)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مفتی محمد قاسم عطاری
٭…دارالافتاءاہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی