سوال: کفار کی عبادت گاہوں میں وزٹ کے لیے جانا کیسا ہے ، عام عوام کا جانا یا ٹورسٹ کا جانا یا اپنے دوستوں کے ساتھ چلے جانا ، ان کے ساتھ کھانا کھانا ، ان کی دعوتوں میں شرکت کرنا کیسا ہے ؟
جواب: کفارکی عبادت گاہوں میں جانے کی ہرگز اجازت نہیں،اسی طرح ان کی محفلوں میں شرکت کرنا ، دعوتوں میں جانا ، ان سے دوستی رکھنا ، گناہ اور اللہ عزوجل و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی سخت پامالی ہے ، قرآن و حدیث میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے ۔
بدمذہبوں سے میل جول اوران کی صحبت میں بیٹھنے کی ممانعت کےمتعلق اللہ پاک ارشاد فرماتاہے 🙁 وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) ترجمۂ کنزُ العِرفان:’’اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔‘‘(القرآن الکریم، پارہ 7، سورۃ الانعام، آیت68(
مذکورہ بالا آیت کے تحت علامہ ملّا احمد جیون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سالِ وفات:1130 ھ /1718 ء )لکھتے ہیں:”وان القوم الظالمین یعم المبتدع والفاسق والکافر ، والقعود مع کلھم ممتنع‘‘ ترجمہ: آیت میں موجودلفظ(الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) بدعتی ،فاسق اور کافر سب کو شامل ہے اور ان تمام کے ساتھ بیٹھنا منع ہے۔ (تفسیراتِ احمدیہ ، سورہ انعام ، تحت الایۃ68، صفحہ 388 ، مطبوعہ: کوئٹہ )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدمذہبوں کی صحبت سے دور رہنے کا حکم ارشاد فرمایا، چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے:”فإياكم وإياهم، لا يضلونكم، ولا يفتنونكم “ترجمہ: تم ان سے دور رہو اور وہ تم سے دور رہیں ،کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں اور فتنے میں نہ ڈال دیں۔(صحیح المسلم، باب النھی عن الروایۃ عن الضعفاء ،جلد1 ،صفحه 33،مطبوعه: لاھور)
ایک موقع پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:”فلا تجالسوھم ولا تشاربوھم ولا تؤاکلوھم ولاتناکحوھم“ ترجمہ: نہ تم اُن کے پاس بیٹھو ،نہ ان کے ساتھ کھاؤ ،پیو ، نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرو۔ (کنزالعُمّال، جلد6،کتاب الفضائل ، باب ذکر الصحابۃ، صفحہ 246،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں : گر وہ میلہ اُن کا مذہبی ہےجس میں جمع ہوکر اعلانِ کفر و اَدائے رُسومِ شرک(یعنی اعلانیہ شعائرِ کفر وشرک کی ادائیگی) کریں گے تو بقصدِ تجارت بھی جانا ناجائز و مکروہِ تحریمی ہے،اور ہرمکروہِ تحریمی صغیرہ، اور ہرصغیرہ اصرار سے کبیرہ۔ علماء تصریح فرماتے ہیں کہ مَعابدِ کفّار(یعنی کفّار کی عبادت گاہوں)میں جانامسلمان کوجائزنہیں،اوراس کی علّت یہی فرماتے ہیں کہ وہ مجمعِ شیاطین (شیطانوں کے جمع ہونے کی جگہیں) ہیں، یہ قطعاً یہاں بھی مُتَحَقَّق، بلکہ جب وہ مجمع بغرضِ عبادت ِغیرِخدا (یعنی غیرِ خدا کی عبادت کےلئے)ہے،تو حقیقۃً معابدِ کفّار(کافروں کے عبادت خانے کے حکم )میں داخل کہ مَعْبَد (عبادت خانہ) بوجہِ اُن اَفعال کے مَعْبَد ہیں،نہ بسببِ سقف ودیوار(نہ کہ چھت اور دیوار کی وجہ سے)،۔۔۔اور اگر وہ مجمع مذہبی نہیں بلکہ صرف لہوولعب (کھیل کود)کا میلاہے تو محض بغرضِ تجارت جانا فی نفسہٖ ناجائز وممنوع نہیں ، جبکہ کسی گناہ کی طرف مُؤَدِّی (لے جانے والا) نہ ہو، علماء فرماتے ہیں مسلمان تاجرکوجائزکہ کنیز وغلام وآلاتِ حرب(جنگی ساز و سامان) مثلِ اَسْپ(گھوڑا) و سِلاح(لڑائی کے ہتھیار) وآہَن وغیرہ کے سوا اورمال کفّار کے ہاتھ بیچنے کے لئے دارُالحرب میں لے جائے اگرچہ اِحْتِرَاز افضل، توہندوستان میں کہ عندالتحقیق دارُالحرب نہیں ، مجمعِ غیرمذہبی کَفَرَہ (کافروں کے غیر مذہبی مجمع) میں تجارت کےلئے مال لے جانا بدرجۂ اولیٰ جواز رکھتا ہے ۔۔۔ پھر بھی کراہت سےخالی نہیں کہ وہ ہروقت مَعَاذَ اللہ محلِّ نزولِ لعنت (لعنت کے اُترنے کی جگہیں) ہیں تو اُن سے دوری بہتر، یہاں تک کہ علماء فرماتے ہیں اُن کے محلّہ میں ہو کر گزرہو تو شِتابی (جلدی) کرتاہوا نکل جائے وہاں آہستہ چلناناپسند رکھتے ہیں تورُکنا ٹھہرنابدرجۂ اولیٰ مکروہ ۔۔پھرہم صدرِکلام (ابتدائے کلام) میں ایما(اشارہ) کر چکے کہ یہ جواز بھی اُسی صورت میں ہے کہ اسے وہاں جانے میں کسی معصیَّت (گناہ)کاارتکاب نہ کرنا پڑے مثلاً جلسہ ناچ رنگ کا ہو اور اسے اُس سے دور و بیگانہ موضع (یعنی دُور الگ تھلگ مقام ) میں جگہ نہ ہو تو یہ جانا مستلزمِ معصیَّت(یعنی گناہ کو لازم کرنے والا) ہوگا اور ہرملزومِ معصیَّت، معصیَّت (گناہ کو لازم کرنے والی ہر بات خود گناہ ہے)اور جانا محض بغرضِ تجارت ہو نہ کہ تماشا دیکھنے کی نیت کہ اس نیت سے مطلقاً ممنوع اگرچہ مجمع غیر مذہبی ہو۔ (فتاوی رضویہ،ج23،ص523 تا 526ملتقطاً)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم