اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
کونسا علم سیکھناضروری ہے اور اولاد کو کب کیا سیکھائیں
اس تحریر میں آپ جان سکیں گے:۔
1:۔ فرض، لازم اور ضروری علم
2:۔ فرض علوم کے لیے مشورۃً چند کتابیں
3:۔ بچوں کے بالغ ہونے سے متعلق والدین کے لئے اہم باتیں
4:۔ اس کے ساتھ اور کیا سیکھنا ضروری ہے؟
5:۔ اولاد کو کب کیا سیکھائیں
6:۔ کس عمر میں کیا سکھانا ہے کچھ مشورے
7:۔ تربیت ِ اولادکے خواہشمند والدین کے لئے چند مشورے
8:۔ فرض علوم کے بعد مُباح و جائز علم کا حاصل کرنا
9:۔ فرض چھوڑ کر نفل میں مصروف ہونا
فرض، لازم اور ضروری علم
پانچ (5)طرح کے علوم حاصل کرنا ہر عاقل بالغ (Wise, Grownup)مسلمان پرفرض ہے:
(1)اسلامی عقائد(یعنی ان عقیدوں کو جاننا کہ جن کے ذریعے آدمی سچا پکا مسلمان بنے اور ان کا انکار کرنے سے بندہ اسلام سے نکل جائے یا گمراہ ہو جائے)۔
(2)ضرورت کے مسئلے(عبادات(مثلاً نماز، روزہ،حج و زکوۃ وغیرہ) و معاملات (مثلاً ملازمت و کاروبار وغیرہ جس کام سے اس شخص کا تعلق ہے) کے ضروری مسائل)۔
(3) حلال و حرام (مثلاً کھانا کھانے ،لباس پہنے، زینت کرنے،ناخن و بال کاٹنے، نام رکھنے،عارضی استعمال کے لیے چیزیں لینے، قرض و امانت و تحفہ لینے دینے، قسم کھانے، وصیّت و تقسیمِ جائیداد وغیرہ)کے مسائل(ظاہری گناہ کی ضروری معلومات بھی اس میں شامل ہے)۔
(4)ہلاک کرنے والے اعمال کی ضروری معلومات اور ان سے بچنے کے طریقے۔
(5)نجات دلانے والے اعمال کی ضروری معلومات اور انہیں حاصل کرنے کے طریقے۔
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ
سرکارِ دو عالم، صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ یعنی علم حاصل کرناہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘(ابن ماجہ،۱ / ۱۴۶حدیث:۲۲۴) اس حدیثِ پاک سے اسکول کالج کی مُرَوَّجہ دُنیوی تعلیم نہیں بلکہ ضَروری دینی علم مُرادہے۔لہٰذا سب سے پہلے اسلامی عقائد کا سیکھنا فرض ہے،اس کے بعدنَماز کے فرائض و شرائط ومُفسِدات(یعنی نَماز کس طرح دُرُست ہوتی ہے اور کس طرح ٹوٹ جاتی ہے )پھر رَمَضانُ المُبارَک کی تشریف آوَری ہوتوجس پر روزے فرض ہوں اُس کیلئے روزوں کے ضَروری مسائل،جس پر زکوٰۃ فرض ہو اُس کے لئے زکوٰۃ کے ضَروری مسائل،اسی طرح حج فرض ہونے کی صورت میں حج کے،نکاح کرنا چاہے تو اس کے،تاجر کو تجارت کے،خریدار کو خریدنے کے،نوکری کرنے والے اورنوکر رکھنے والے کو اِجارے کے،وَعلٰی ھٰذا الْقِیاس(یعنی اوراسی پر قِیاس کرتے ہوئے )ہر مسلمان عاقِل و بالِغ مردو عورت پر اُس کی موجودہ حالت کے مطابِق مسئلے سیکھنا فرضِ عَین ہے۔اِسی طرح ہر ایک کیلئے حلال و حرام کے ضروری مسائل بھی سیکھنا فرض ہیں۔نیز مسائلِ قلب(باطِنی علم)یعنی فرائضِ قَلْبِیہ(باطِنی فرائض)مَثَلاً عاجِزی و اِخلاص اور توکُّل وغیرہا اوران کو حاصِل کرنے کا طریقہ اور باطِنی گناہ مَثَلاً تکبُّر،رِیاکاری،حَسَد،بدگمانی،بغض و کینہ،شُماتَت(یعنی کسی کی مصیبت پر خوش ہونا)وغیرہااوران کا علاج سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔(تفصیلی معلومات کیلئے فتاوٰی رضویہ جلد23صفحہ 624- 613 پر اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر دیکھیں)مُہلِکات(مُہ۔لِ۔کات )یعنی ہَلاکت میں ڈالنے والی چیزوں جیسا کہ وعدہ خِلافی،جھوٹ،غیبت،چغلی،بہتان،بدنِگاہی،دھوکا،ایذاءِ مسلم وغیرہ وغیرہ تمام صغیرہ وکبیرہ گناہوں کے بارے میں ضَروری اَحکام سیکھنا بھی فرض ہے تاکہ اِن سے بچا جا سکے۔(نیکی کی دعوت ص135-136)
فرض علوم کے لیے مشورۃً چند کتابیں
(1)اسلامی عقائد کے لیےکم ازکم:
(پہلا درجہ)(۱)کتاب العقائد(صدر الافاضل حضرت علامہ مولانامفتی نعیم الدّین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کتاب)(۲) کتاب’’بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلِ سنّت‘‘
(دوسر ا درجہ)(۳)بہارِ شریعت حصّہ01 ( ۴)کفریہ کلمات کے بارے میں سوال و
جواب(۵) دس عقیدے(اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمة اللہ علیہ کا رسالہ: اعتقاد الاحباب فی الجمیل و المصطفیٰ والاٰل والاصحاب کو آسان کر کے حاشیہ ((explanatory noteکے ساتھ لکھا گیا ہے) کامطالعہ کریں۔
(2)ضرورت کے دینی مسائل کے لیے کم از کم:
(پہلا درجہ)(۱) نماز کے احکام(۲)ملازمت کرنے یا ملازم رکھنے والوں کے لیے ”حلال طریقے سے کمانے کے 50 مدنی پھول“
(دوسر ا درجہ)(۳)بہارِ شریعت حصّہ 02 تا08 ، 11سے بیع وشراء(خرید و فروخت کے ضروری دینی مسائل) ،10سے شرکت (patnership) اور 14سے اجارہ(ملازم رکھنے اور ملازم ہونے کے ضروری دینی مسائل) کا مطالعہ کریں۔
وضاحت: جس کا جس کام سے تعلق ہے، اُسےاُس کام کے ضروری دینی مسائل سیکھنے ہیں۔مثلاً کوئی دینی ادارے کے لیے چندہ کرنا چاہے تو اُسے چندے کے مسائل سیکھنا (اس کے لیے کتاب”چندے کے بارے میں سوال جواب” کا مطالعہ کریں)۔
(3) حلال و حرام کے ضروری دینی مسائل اور ظاہری گناہوں کی ضروری معلومات کے لیے کم از کم:
(پہلادرجہ)(۱)101مدنی پھول(۲)163مدنی پھول(۳)گناہوں کے عذابات (مکمل حصّے)
(دوسر ا درجہ)(۴)سنتیں اور آداب (۵)پردے کے بارے میں سوال و جواب(۶) عدت و سوگ کے لیے کتاب : ”تجھیز و تکفین کا طریقہ “سے (۷)بہارِ شریعت حصّہ16(مکمل )، رسالہ: ” قسم کے بارے میں سوال جواب“سے قسم کھانے، حصّہ 14 سے عاریت (عارضی استعمال کے لیے چیزیں لینے)، امانت(ودیعت) و ہبہ (تحفہ لینے دینے)، حصّہ 11 سے قرض وسود ، حصّہ 19 سے وصیّت، (۸)رسالہ: ”طلاق کے آسان مسائل “سے طلاق کے ،(۹) رسالہ: ”مالِ وراثت میں خیانت مت کیجئے“سے تقسیمِ جائیداد وغیرہ کا مطالعہ کریں۔
(4)(5)مہلکات و منجیّات کے لیے کم از کم:
(پہلادرجہ)(۱)باطنی بیماریوں کا علاج(۲)نجات دلانے والے اعمال کی معلومات
(۳)بیٹے کو نصیحت
(دوسر ا درجہ)(۴)منہاج العابدین (۵)غیبت کی تباہ کاریاں(۶) کیمائے سعادت کا
مطالعہ کریں۔
اصلاحِ نیّت کے لیے کتب:
(۱)ثواب بڑھانے کے نسخے (۲) بہارِنیّت
مزیدفرض علوم پر مددگار کتابوں پر بنا ہوا تیسرا درجہ:
(۱)شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّارقادری رضوی دامت برکاتھم العالیہ کی ساری کتابیں ا و ر رسالے(۲)تمہید الایمان)۳)بہارِ شریعت
مکمل(۴)احیاء العلوم (مکمل)(۵)فتاوٰی رضویہ (مکمل)(۶)جہنّم میں لے جانے
والے اعمال(۷)جنّت میں لے جانے والے اعمال۔
چند گزارشات:
(۱) یہ سب کتابیں دعوتِ اسلامی کے مکتبۃ المدینہ سے طلب کی جاسکتی ہیں۔
(۲) درجہ بندی(پہلا / دوسرا / تیسرا درجہ) آسانی کے لیے ہے،تاہم والدین کو چاہیے کہ پہلے درجے کی کتابیں اپنی اولاد کو بالغ ہونے سے پہلے، ان کی سمجھ کے مُطابق پڑھا / سمجھا دیں یا کسی کے ذریعےپڑھانے / سمجھانے کا انتظام کریں اور بہتر یہ ہے کہ اس کی پوچھ گچھ رکھیں ان کے بارے میں سوال جواب بھی کرتے رہیں۔ بچہ 12 سال کی عمر میں جبکہ بچی 9 سال کی عمر میں بالغ وبالغہ ہو سکتے ہیں۔ فتاوٰی رضویہ جلد 11،صفحہ 560پر یہ بھی ہے(مُلخصاً): لڑکاکم سے کم بارہ سال اور لڑکی نو سال کی عمر میں بالغ ہوسکتی ہے(بچوں کو کس عمر میں کیا سیکھائیں، اس کی تفصیل آگے آرہی ہے )۔
(۳) دعوتِ اسلامی کے شعبے مدرسۃ المدینہ –آن لائن کے ذریعے بعض فرائض علوم سیکھں جاسکتے ہیں(یاد رہے کہ اس شعبے میں فیس لی جاتی ہے)۔والدین ایک بات یاد رکھیں کہ ہم کسی سنی صحیح العقیدہ قاری یا عالم صاحب کے ذریعے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ کریں یا عاشقانِ رسول کے کسی بھی ادارے میں داخل کریں، بچوں کی اخلاقی اور فرائض کی تربیت کا جائزہ ضرور لیں، اس کے لیے والدین کو اپنے اندر بھی یہ صلاحیت پیدا کرنی ہوگی۔نوجوانوں کو چاہیے کہ شادی سے پہلے ہی شریعت و سنّت کے مطابق گھر چلانے کی اور شادی کے فوری بعد تربیتِ اولاد کے انداز سیکھنے کے لیے تجربہ کار(شادی شدہ) علما کی صحبت سے برکتیں حاصل کریں۔
(۴) اگر کوئی بالغ ہو گیا اور فرض علوم سے غافل رہا تو اللہ پاک سے توبہ کرے اور فوراً فرض علوم حاصل کرنے میں مصروف ہو جائے اور ابتداءً پہلے درجے کی کتابیں پڑھ / سمجھ لے لیکن یاد رہے کہ ان سب درجوں کی کتابوں میں بھی آپ کے ضروری مسائل ہوں یہ لازم نہیں ۔ اس صورت میں اپنی ضرورت کے سب مسائل جاننے کے لیے مطالعے کے ساتھ ساتھ علماءِ کرام، مفتیانِ دین اور دارالافتاء اہلسنّت سے رابطے میں رہ کراپنی ضرورت کے دینی مسائل فوراً جانے۔
(۵) اپنی کیفیت کے مطابق اپنا شیڈول(schedule) اس طرح بنائیں کہ اس میں فرض علوم کاحصول بھی ہو، قرآن پاک کی تعلیم وتلاوت بھی اور خصوصاً تربیتِ اولاد کے لیے وقت بھی۔ اب اگر آپ میں مطالعہ کر کے فرض علوم حاصل کرنے کی صلاحیت ہے تو مطالعہ کی ترکیب کریں اور اگر اس کی صلاحیت نہیں تو استاد صاحب سے پڑھنا ہوگا(مدرسۃ المدینہ on line سے بھی پڑھا جاسکتا ہے)۔ اپنے دن بھر کے اوقات، اپنی صحت، کاروبار، گھر بار کا جائزہ لے کر مطالعے کا وقت طے کریں۔ مثلاً بعد نماز فجر(اپنے معمولات سے فارغ ہو کر) طبیعت اتنی fresh ہوتی ہے کہ ایک یا آدگا گھنٹہ مطالعہ کرسکتا ہوں تو اس کی ترکیب بنائیں یا یہ کہ اپنا کاروبار ہے ظہر کی نماز کے بعد سہولت رہتی ہے تو اس کا انتظام کریں اور اس وقت میں “فرض علوم ” کا مطالعہ کیجیے۔شام میں یا رات سونے سے پہلے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، کچھ پڑھنے پڑھانے کا ماحول بھی ہو اور کچھ باتیں بھی ہوں۔ اپنی اولاد کوایک جملہ کہنا نہ بھولیں:”بیٹا آپ کو مجھ سے کوئی کام؟” (ان شاء اللہ اس کا فائدہ آپ خود دیکھیں گے)۔اب مغرب کے بعد بھی آدھا گھنٹہ نکل سکتا ہے تو اس وقت میں “امیرِ اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّارقادری رضوی دامت برکاتھم العالیہ کی کتابوں ” کا مطالعہ کیجیے۔رات مدرسۃ المدینہ بالغان اور میسر نہ ہو تو مدرسۃ المدینہ on line سے قرآن پاک پڑھنے کا انتظام کریں ۔
(۶) اپنے مطالعے اور بچوں کے اسباق کے اہداف(targets) طے کریں۔ مہینے میں 22 دن مطالعے کے رکھیں۔ ہر ہفتے ایک دن gapeاور ایک دن emergency کے لیے رکھیں تاکہ یہ مطالعہ والدین کی خدمت، گھر والوں اور بچوں کے کام کاج میں روکاوٹ نہ بنے۔ جو وقت اور کتاب آپ نے طے کی ہے، ایک دن مطالعہ کر کے اس کے صفحات شمار(count)کریں اور اس کے مطابق مہینے بھر کے مطالعے کا طے کریں اور اس ہدف کا ہر ماہ جائزہ لیں(ان شاء اللہ اس کے فوائدآپ خود دیکھیں گے)۔
(۷) جب سب درجے ہو جائیں تو ان کی دہرائی کے ساتھ ساتھ فرض علوم کے ماہر علما سے مزید کتب کے متعلق مشورہ کریں۔
اس کے ساتھ اور کیا سیکھنا ضروری ہے؟
یاد رہے کہ فرائض علوم کے ساتھ ساتھ(1)تجوید کے ساتھ قرآن ِ پاک آنا (2) اذکار ِنماز(نماز میں تلاوت کے علاوہ جو کچھ پڑھا جاتا ہے) کا درست ہونا (3) جو قرآن حفظ ہے، اس کا حفظ باقی رکھنا بھی ضروری ہے(4)واجب علوم۔
(1):۔ میرے آقااعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت، مولانا شاہ امام احمدرضا خان رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’بِلاشُبہ اتنی تجوید جس سے تَصحِیحِ (تَص۔حِی۔حِ) حُروف ہو(یعنی قواعدِ تجویدکے مطابِق حُرُوف کودُرُست مخارِج سے ادا کر سکے)، اورغَلَط خوانی(یعنی غلط پڑھنے) سے بچے، فرضِ عَین ہے۔( فتاوٰی رضویہ،۶ / ۳۴۳)(تلاوت کی فضیلت ص 19)
(2):۔ فتاوی رضویہ جلد 6،صفحہ 262پر ہے(مُلخصاً): آدمی سے اگر کوئی قرآنی حرف غلط ادا ہوتا ہے تو اسے سیکھنے اور صحیح طرح ادا کرنے کی کوشش کرنا واجب ہے بلکہ کئی علما ء کرام نے صحیح طرح پڑھنے اس کوشش کی کوئیlimitنہیں رکھی اور حکم دیا کہ زندگی بھر، دن رات کوشش کرتا رہے اور اِس کوشش کو اس وقت تک جاری رکھے جب تک قرآنِ پاک درست پڑھنا سیکھ نہ جائے ۔
(3):۔ قراءت یا اذکارِ نماز(یعنی جو کچھ قرآنِ پاک کے علاوہ نماز میں پڑھا جاتا ہے) میں ایسی غلطی جس سے معنیٰ فاسد ہو جائیں(بگڑ جائیں) نماز فاسد ہو(یعنی ٹوٹ) جاتی ہے۔(دُرِّ مُختار مع ردالمحتار،۲ / ۴۷۳)(نماز کے احکام ص75)
(4):۔ جس نے سبحٰن ربّی العظیم میں عظیم کو عزیم ( ظ کے بجائے ز ) پڑھ دیا نماز جاتی رہی لہٰذاجس سے”عظیم “صحیح ادا نہ ہو وہ سبحٰن ربّی الکریم پڑھے۔(قانونِ شریعت،ص۱۸۶)( نماز کے احکام ص،38)
(5):۔ فرمان مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’جوشخص قراٰن پڑھے پھر اسے بھلا دے تو قیامت کے دن اللہ پاک سے کوڑھی ہو کر ملے۔‘‘( ابو داؤد،۲ / ۱۰۷،حدیث:۱۴۷۴)صدرُ الشَّریعہ ،بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :قراٰن پڑھ کر بھلا دینا گناہ ہے۔ (بہار شریعت،۱ / ۵۵۲) جو قراٰنی آیات یاد کرنے کے بعد بھلادے گا بروزِ قیامت اندھا اُٹھایا جائے گا۔ (پ۱۶،طہ:۱۲۴)اعلیٰ حضرت امام اَحمد رضا خان رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :اس سے زیادہ نادان کون ہے جسے خدا ایسی ہمّت بخشے اور وہ اسے اپنے ہاتھ سے کھودے اگرقدر اس( حفظِ قراٰنِ پاک) کی جانتا اور جو ثواب اور دَرَجات اِس پر موعود ہیں (یعنی جن کا وعدہ کیا گیا ہے) ان سے واقف ہوتا تو اسے جان ودل سے زِیادہ عزیز (پیارا) رکھتا۔ مزید فرماتے ہیں : جہاں تک ہو سکے اِس کے پڑھانے اورحفظ کرانے اور خود یاد رکھنے میں کوشش کرے تا کہ وہ ثواب جو اس پر موعود (یعنی وعدہ کئے گئے) ہیں حاصل ہوں اور بروزِ قیامت اندھا کوڑھی اُٹھنے سے نجات پائے۔( فتاوٰی رضویہ،۲۳ / ۶۴۵،۶۴۷)(بیمار عابد ص۴۸)
(6):۔ فرض عین کاعلم حاصل کرنافرض عین، فرض کفایہ کافرض کفایہ، واجب کاواجب، مستحب کا مستحب۔(فتاوی رضویہ جلد23، ص 687)ہمارے دیے گئے Syllabus(درجوں) کے مطابق مطالعہ کرنے سے ان شاء اللہ عزوجل واجب علوم بھی حاصل ہوگا اور سنّت مؤکدّہ کی معلومات بھی۔ سنّت مؤکدّہ پر عمل اور اس کی معلومات کی بھی بہت اہمیت ہے۔ سنّت مؤکدّہ وہ سنّت ہے کہ اگر ایک اٰت مرتبہ چھوڑی تو بُرا کیا اور اگر سنّت مؤکدّہ چھوڑنے کی عادت بنالی تو گناہ گار ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد 1مخرجہ ، صفحہ595 ،مُلخصاً)
مشورۃً چند مدنی پھول:
(۱) اوپر دیے گئے مدنی پھولوں پر عمل کرنے کے لیے بچوں اور بچیوں کو مدرسۃ المدینہ میں داخل کریں اور وقتاً فوقتاً ان کی پڑھائی کا جائزہ بھی لیں۔
(۲) اسلامی بھائی مدرسۃ المدینۃ بالغان اور اسلامی بہنیں مدرسۃ المدینۃ بالغات میں شرکت کریں۔
(۳) مدرسۃ المدینۃ بالغان و بالغات قریب میں نہ ہوں تو مدرسۃ المدینۃ آن لائن میں داخلہ لیں ۔
(۴) قرآنِ پاک پڑھنے کی درستی کا معاملہ ہو یا نماز درست کرنے کا مرحلہ اپنے رشتہ دار بالخصوص والدین، بھائی، بہن،بھانجے ، بھانجی،بھتیجے، بھتیجی نیز آپ کے متعلقین مثلاً پڑوسی و ملازمین وغیرہ الغرض اپنے جاننے والوں کو نہ بھولیں۔ ہر تقریب، ہر دعوت، ہر جگہ اپنے جاننے والوں کی آخرت کی خیر خواہی نہ بھولیں (اگر برادری کے بڑے ہوں یا والدین ہوں تو انتہائی عاجزی کے ساتھ عرض کر کے) قرآنِ پاک درست پڑھنے یا فرض علوم حاصل کرنے یا نمازوں کا اہتمام کرنے یا اپنی اولادوں کواس میں مصروف کرنے کے تعلق سے مُفید مشورے بھی دیں(الحمد للہ دعوتِ اسلامی کے تحت مدنی قاعدہ و ناظرہ کورس اور نماز کورس بھی ہوتا ہے اسی طرح مدرسۃ المدینہ آن لائن کے ذریعے بھی قرآنِ پاک کی درستی اور نماز سیکھانے کا سلسلہ بھی ہوتا ہے، تاہم ہر کورس سے مکمل فرض علم آجائے یا قرآنِ پاک پڑھنا درست ہو ہی جائے یہ ضروری نہیں )۔
(۵)قرآن پاک روز پڑھنے کا معمول بناکرمدنی انعام نمبر ۷۰ پرعمل کرتے ہوئے سالانہ ایک بار ختم قرآنِ پاک کریں۔
(۶) ہوسکے تو اس مرتبہ ختم قرآن کا اہتمام اس طرح کریں کہ ساتھ نوٹ بُک ہو، اس میں ہر وہ آیت، رکوع اور سورت کا پارہ نمبر و آیت نمبر وغیرہ نوٹ کرلیں جو آپ کو یاد ہیں، پھر اسے کسی جگہ جمع کر لیں(المدینہ لائبریری کے ذریعےسرچ کر کہ کسی فائل میں جمع کرنا زیادہ مُشکل نہ ہوگا) پھر ہو سکے تو ہر ہفتے یا دس دن یا پندرہ دن یامہینے میں اسے لازمی دہرائیں۔
(۷) مدنی انعام نمبر ۷۲ پرعمل کرتے ہوئےہر سال کسی سُنی عالم یا ذمہ دار مُبلّغ کو نماز وغیرہ سنائیں۔
اولاد کو کب کیا سیکھائیں
جہاں تک اولادکو سکھانے کی بات ہے تو قراٰنِ پاک سکھائے، سات برس کی عمر میں نماز کا حکم دینے کے ساتھ ہی نماز اور طہارت کے ضَروری مسائل بھی سکھائے کہ سات سے نو برس کی عمر بچوں کی تَربیت کے تعلق سے بالخُصُوص بچیوں کے لیے بےحد اَہم ہے کہ بچیاں اس کے بعد کبھی بھی بالغہ ہو سکتی ہے۔ ان عُلُوم کے سکھانے کے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم ، شرعی تقاضوں کے مطابق بھی دی جاسکتی ہے۔ والدین پر اولاد کے جو حقوق اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمة اللہ علیہ نے بیان فرمائے ہیں ان میں سے چند حقوق پیشِ خدمت ہیں: |زبان کھلتے ہی اللہ اللہ پھر پورا کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ پھر پورا کلمۂ طیبہ سکھائے۔|جب تمیزآئے اَدب سکھائے، کھانے، پینے، ہنسنے، بولنے، اُٹھنے، بیٹھنے،چلنے، پھرنے، حیا، لحاظ، بزرگوں کی تعظیم، ماں باپ، استاذ اور دُختر (یعنی بیٹی) کوشوہرکے بھی اِطاعت کے طُرُق (یعنی طریقے) و آداب بتائے۔ | قرآنِ مجید پڑھائے۔|استاذ نیک، صالح، متقی، صحیح العقیدہ، سِنّ رسیدہ کے سپرد کردے اور دُختر کو نیک پارسا عورت سے پڑھوائے۔|بعد ختمِ قرآن ہمیشہ تلاوت کی تاکید رکھے۔| عقائدِ اسلام و سنَّت سکھائے کہ لوح سادہ فطرتِ اسلامی وقبولِ حق پرمخلوق ہے (یعنی چھوٹے بچے دینِ فطرت پر پیدا کیے گئے ہیں یہ حق کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا) اس وقت کابتایا پتھر کی لکیر ہو گا۔|حضورِ اقدس، رحمتِ عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کی محبت وتعظیم ان کے دل میں ڈالے کہ اصلِ ایمان وعینِ ایمان ہے۔|حضورپُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے آل و اَصحاب و اولیاء و علما کی محبت و عظمت تعلیم کرے کہ اصلِ سنَّت و زیورِ ایمان بلکہ باعثِ بقائے ایمان ہے۔|سات برس کی عمر سے نماز کی زبانی تاکید شروع کر دے۔|علمِ دِین خُصوصاً وُضو،غسل، نماز و روزہ کے مَسائل توکل، قناعت، زُہد، اِخلاص، تواضع، اَمانت، صِدق، عدل، حیا، سلامتِ صُدُور و لسان وغیرہا خوبیوں کے فضائل ،حرص وطمع ، حُبِّ دُنیا، حُبِّ جاہ، رِیا، عجب، تکبُّر، خِیانت، کِذب، ظُلم، فحش، غیبت، حسد، کینہ وغیرہا بُرائیوں کے رَذائل(یعنی بُری صفات) پڑھائے۔ |خاص پسر (یعنی بیٹے)کے حقوق سے یہ ہے کہ اسے لکھناسکھائے۔ سورۂ مائدہ کی تعلیم دے۔ اِعلان کے ساتھ اس کاختنہ کرے۔| خاص دُختر (یعنی بیٹی) کے حقوق سے یہ ہے کہ اس کے پیدا ہونے پر ناخوشی نہ کرے بلکہ نعمتِ اِلٰہیہ جانے، اسے سینا،پرونا، کاتنا ،کھانا پکانا سکھائے اورسورۂ نور کی تعلیم دے([1])۔
مشورہً چند اہم باتیں :
(۱) 3سال کی عمر تک بچے کے سامنے ، سیکھانے کی نیّت سے” اللہ، اللہ“کہیں تاکہ اُس کےمنہ سے پہلا لفظ ” اللہ“ ادا ہو اور جب کچھ لفظ بولنے لگے تو لفظ ” اللہ“ بولنے کا عادی ہو جائے۔
(۲) 3 سے 4 سال کی عمر میں پورا کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) سکھائیں۔
(۳) 4 سال کی عمر سے ” مدنی قاعدہ“کی ترکیب فرمائیں۔ بعض بزرگوں کا معمول رہا ہے کہ وہ بچوں کی ”رسمِ بسم اللہ“(یعنی بسم اللہ شریف پڑھانے کی تقریب)4 سال،4 ماہ اور4 دن کی عمر میں کرتے۔
(۴) 4 سال کی عمر سے بچوں کو کھانے، پینے کے آداب (مثلاً ہاتھ دھو کر کھانا، بیٹھ کر کھانا، سر ڈھک کے کھانا وغیرہ)، چلنے پھرنے کے، بات چیت کے، کپڑے صحیح طرح پہننے کے، حیاء کے آداب سیکھانا شروع کر دے۔ یہ عمر ابتدائی ادب سیکھانے کے لحاظ سے اہم ترین ہے۔
(۵) 5 سال کی عمر سے بچوں کو پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اور دیگر انبیاءِ کرام(علیھم السلام)کے معجزات، صحابہ کرام و اہلِ بیتِ اطہار(علیھم الرضوان) کے واقعات،اولیاء کرام(رحمة اللہ علیہم) کی کرامات سنانا اور نعتوں و منقبتوں کے چند اشعار یاد کروانا شروع کردیں، ہو سکے تو گھر پر وقتاً فوقتاً بزرگوں کی نیاز فاتحہ کا بھی سلسلہ ہو اس سے یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ بچپن سے ہی ان بچوں کے دلوں میں بزرگوں کی محبت پیدا ہو جائے گی اور بچپن کی محبت ممکن ہے مرتے دم تک باقی رہے۔
(۶) 5 سے 7 سال کی عمر تک محبت اوراپنایت کے ساتھ علماء، قاری صاحب، امام صاحب، استاد صاحب اور بڑوں کا ادب سیکھائیں۔ اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ اولاد والدین کا بھی ادب کرے گی اور شادی کے بعد بچی اپنے شوہر کا احترام کرے گی۔
(۷) اسلامی تاریخ کے مطابق جس دن یہ 7 سال کے ہوں، ممکن ہو تو اس دن گھر میں (پردے اور شرعی احکام کی پابندی کے ساتھ) کوئی تقریب رکھ کر ، زندہ ہو توباپ ورنہ سرپرست(Guardian) اسے نماز کا حکم دے، اس سے نماز کی اہمیت اس کے بلکہ خاندان بھر کہ بچوں کے دل و دماغ میں بیٹھ جائے۔اور اس عمر سے بچوں کی نماز کی کاپی بنالیں ،ہو سکے تو روزانہ اس سے نماز پڑھنے کی کارکردگی خود لیں اور کاپی میں ٹک لگائیں، ان شاء اللہ یہ عمل بچوں کو نمازی بنانے کے لیے مُفید ثابت ہوگا۔
امیرِ اہلسنت اپنی کتاب”فیضانِ نماز” صفحہ54 پر فرماتے ہیں:
جب بچّے سات سال کے ہوجائیں تواُن سے پانچوں وَقت کی نماز ادا کروائیے تاکہ نماز کی عادت پکی ہو۔ ان کوصبح سویرے اُٹھنے اور وضو کر کے نماز پڑھنے کی عادت ڈلوایئے، مگر سردیوں میں وضو کے لئے قابلِ برداشت گرم پانی دیجئے تاکہ وہ ٹھنڈے پانی سے گھبرا کر وضو اور نماز سے جی نہ چرائیں ۔ والد صاحب کو چاہیے کہ بیٹا جب سات سال کا ہو جائے تو اُسے اپنے ساتھ مسجِد میں لے جائیں لیکن پہلے اُسے مسجد کے آداب سے آگاہ کردیں کہ مسجد میں شور نہیں مچانا، اِدھر اُدھر نہیں بھاگنا، نمازیوں کے آگے سے نہیں گزرنا وغیرہ ۔نمازِ باجماعت میں اُسے مردوں کی آخری صف کے بعد دوسرے بچوں کے ساتھ کھڑا کریں ۔ اس حکمت عملی کی بدولت اِنْ شَآءَاللہ بچّے کا مسجد کے ساتھ روحانی رشتہ قائم ہوجائے گا ۔
بچوں کو بھی اے بھائیو! پڑھوایئے نماز
خود سیکھ کرکے ان کو بھی سکھلایئے نماز
(۸) ہمارے ہاں عام طور پر ” روزہ کُشائی“ کی رسم کی جاتی ہے۔پہلی بات طاقت ہو تو بچوں کوسات سال کی عمر سے روزہ رکھوانے کا حکم ہے البتہ اگر بچے میں روزہ رکھنے کی طاقت اور روزے کو سمجھنے کی صلاحیت سات سال کی عمر سے پہلے ہی ہو تو اسے پہلے ہی روزے رکھوائے جائیں۔دوسری بات روزہ رکھنے کے بعد اگر اسے بھوک و پیاس کی شدّت ہے تو کھانا دینا لازم ہے اور اس روزے کی قضاء بھی نہیں۔” روزہ کُشائی“ والے دن بھی اگر بچے کوسخت بھوک یا پیاس ہوئی تو کھانا پانی دینا ہوگا لھذا اس رسم کی جگہ یوں کیا جائے کہ سات(7) سال پہنچنے کے بعد جو پہلا رمضان آئے،اس کے پہلے روزے میں بااہتمام بچے کو سحری کروائی جائے اور گھر والے اس کے لیے دعا بھی کریں اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔
(۹) 7 سے 9 سال کی عمرشرعی مسائل اور دینی تربیت کے لیے سب سے اہم ترین وقت ہے۔ نماز کاحکم دینے کے بعد اب نرمی سے نماز کی طرف لائے، ہوسکے تو الارم وغیرہ کے ذریعے خود اُٹھنے کا عادی بنائیں، اوقات نماز دیکھنا سیکھائیں اور نقشۂ نماز اسے دلوائیں، ساتھ ساتھ نماز، سورۂ فاتحہ و دیگر سورتیں اوراذکارِ نماز(جو کچھ نماز میں تلاوت کے علاوہ پڑھا جاتا ہے) بھی درجہ بہ درجہ سیکھائیں(سب سے پہلے لفظ “اللہ اکبر”، سورۃ الفاتحہ، کوئی ایک سورت، التحیّات اور سلام سیکھائیں اور اس کی اچھی طرح مشق کروائیں)۔ نیز اس عمر سے بچیوں کو پردے کا ذہن دینا شروع کریں۔ مردوں، لڑکوں،cousins سے الگ کرنا شروع کر دیں۔اسی طرح اب مردوں سے قرآن پاک اور دیگر تعلیم نہ دلوائیں کہ نو سال کی عمر کے بعد بچی بالغہ ہو سکتی ہے۔ 7 سے 9 سال کے اس عرصے میں کوشش کرتے رہنے سے بہت فائدہ ہوگا۔ ان شاء اللہ
(۱۰)اسی عمر میں آہستہ آہستہ بچے کی عقل کے مُطابق اسلامی عقائد بتائے جائیں۔وضو و نماز کی عملی مشق کروائی جائے،غسل و تیمم کرنے ، روزہ رکھنے اور کپڑے پاک کرنے کا طریقہ بتایا جائے(مثلاً کہا جائے کہ اگر کپڑے پر خون لگ گیا تو یوں پاک ہوگا وغیرہ)۔
(۱۱)اب اس کے اخلاق اچھے کرنے کے لیے مہلکات(یعنی ہلاکت میں ڈالنے والی چیزوں مثلاً حرص وطمع ، حُبِّ دُنیا، حُبِّ جاہ، رِیا، عجب، تکبُّر، خِیانت، کِذب، ظُلم، فحش، غیبت، حسد، کینہ وغیرہ)کی خرابیاں بیان کرے، ہو سکے تو ایسی کہانیاں سنائے کہ ان چیزوں کی نفرت پیدا ہو اسی طرح منجیات(یعنی نجات دلانے والی باتوں مثلاً توکل، قناعت، زُہد، اِخلاص، تواضع، اَمانت، صِدق، عدل، حیا، سلامتِ صُدُور و لسان وغیرہ) کی خوبیاں بیان کرے،ہو سکے تو ایسے واقعات سنائے کہ ان چیزوں کی محبّت پیدا ہو۔
نوٹ: پوانٹ نمبر ۱۰، ۱۱ ،۱۲ کے لیے دارالمدینہ، مدرسۃ المدینہ، جامعۃ المدینہ، online مدرسۃ المدینہ میں بچوں کا نصاب اور نیو مسلم کا نصاب بھی اس صورت میں فائدہ مند رہے گا۔
(۱۲)اب پہلے درجے کی کتابیں شروع کر دیں تاکہ بالغ ہونے سے پہلے یہ بچے فرض علوم جاننے والے ہوں۔بچوں کی اس تربیت کی اہمیت کو اس بات سے سمجھیں کہ حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : نابالغ نے وقت میں نماز پڑھی تھی اور اب آخر وقت میں بالغ ہوا، تو اس پر فرض ہے کہ اب پھر پڑھے ۔ (بہار شریعت،۱ / ۴۴۴ ،مسئلہ ۵ ) کہ جو نماز پہلے پڑھی تھی وہ نفل تھی اور اب بالغ ہونے کے بعد اس وقت کی نماز فرض ہوگئی۔
(۱۳)جب بچہ ۱۲ سال کا ہو تو باپ اور بچی نو سال کی ہو تو ماں اسے خصوصی مسائل خود سیکھائے، ہر گز ہر گز کسی اور کے سپرد یہ کام نہ کرے۔
(۱۴) پہلے درجے کے بعد بیٹا ہو تو سورۃ المائدہ اور بیٹی ہو تو سورۃ النور کا ترجمہ کنزالایمان(تفسیر کے ساتھ) پڑھائے یا اس سے ختم کروائے اور ہو سکے تو اس کے اختتام پر گھر میں (پردے اور شرعی احکام کی پابندی کے ساتھ) تقریب رکھے تاکہ ان سورتوں کی تعلیم کی رسم پڑ جائے۔
(۱۵)انسان عموماً اپنی زندگی کا سب سے بڑا حصّہ اپنے بچوں کی امی کے ساتھ گذارتا ہے،بچوں کی تربیت کی مدنی مہم میں بچوں کی ماں کو اپنا معاون بنانا ضروری ہے۔ اسےعلم و عمل ، زہد وتقویٰ میں ہم اپنا رفیق سفر بنانے کے ساتھ ساتھ ،نیکی کی دعوت وتربیتِ اولاد کی تربیت کے لیے دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول اور مدنی کاموں یا شعبہ جات کے ساتھ عملی طور پر وابسطہ کریں تاکہ تربیتِ اولاد کے اس فریضے کو سرانجام دینا آسان ہوجائے۔اور اس کا بہترین وقت شادی کے فوراً بعد کا ہے کہ گرم لوہے کو موڑنا آسان ہوتا ہے۔
(۱۶) بچے کے بالغ ہونے کے بعد بھی قرآنِ پاک پڑھتے رہنے اور فرض علوم کا مطالعہ کرتے رہنے کی طرف توجہ دلاتا رہے۔ اُسے ہمارا دیا ہوا دوسرا اور تیسرا درجہ پڑھنے کی بھی تلقین کرے اور محبت بھرے انداز میں پوچھ گجھ بھی جاری رکھے۔
(۱۷)بچوں کی تربیت کے حوالے سے مزید معلومات حاصِل کرنے کے لیے دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارےمکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب فیضانِ مَدَنی مذاکرہ قسط 24”بچوں کی تربیت کب اور کیسے کی جائے؟“اور فیضانِ مَدَنی مذاکرہ قسط38 ”چھٹیاں کیسے گزاریں “کا مُطالعہ کیجیے ۔
عملی زندگی (practical life )سے پہلے والدین، اولاد کی یہ تربیت کریں
اگر آپ اپنے بچوں کوکاروبار میں اپنے ساتھ شریک کرنا چاہتے ہیں یا آپ کا کوئی خاندانی پیشہ ہے اور آپ کے خاندان کے بچے وہی پیشہ اپناتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ بچہ پیدا ہوتے ہی کام کاج شروع نہیں کر دیتا۔بچوں کو کاروبار پر لگانے سے پہلے:
۱)قرآنِ مجید اور نماز پڑھنا سیکھائیں
۲)درست اسلامی عقائد سیکھائیں
۳) ضرورت کے شرعی مسائل سیکھائیں (ان سب کی اوپر تفصیل بیان ہو چکی ہے، کم از کم پہلے درجے کی کتابیں کسی سنی عالم سے پڑھائیں اور اگر خود صلاحیت ہو تو خود سیکھائیں)
۴) پھر چاہیں تو کاروبار وغیرہ میں اپنے ساتھ شریک کریں مگر بچہ سمجھ دار ہو تواُسے علم دین سیکھنے سیکھانے کے کام میں مصروف رہنے دیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سب سے ذہین بچے کو علمِ دین کے لیے وقف کیا جائے کہ راہِ خدا میں اپنی سب سے اچھی چیز پیش کرنی چاہیے تاہم ہر گھر میں کم از کم ایک عالِم ضرور ہونا چاہیے، جیسا کہ امیرِ اہلسنت بھی ترغیب دلاتے ہیں۔
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سب سے مقدم(یعنی پہلے) یہ ہے کہ بچوں کو قراٰنِ مجید پڑھائیں اور دین کی ضروری باتیں سکھائی جائیں، روزہ و نماز و طہارت اور بیع و اِجارہ (یعنی خرید و فروخت اور اُجرت وغیرہ کے لین دَین) و دیگر معاملات کے مسائل جن کی روز مرہ Day-to-day)) حاجت (یعنی ضرورت ) پڑتی ہے اور ناواقفی(یعنی معلوم نہ ہونے کی وجہ ) سے خلافِ شرع عمل کرنے کے جرم میں مبتلا ہوتے ہیں، اُ ن کی تعلیم ہو۔ اگر دیکھیں کہ بچے کوعلم کی طرف رُجحان (رُجْ ۔ حان یعنی میلان۔دلچسپی) ہے اور سمجھ دار ہے تو علم دین کی خدمت سے بڑھ کر کیا کام ہے اور اگر استطاعت (یعنی حیثیت) نہ ہو تو تصحیح و تعلیمِ عقائد(یعنی دُرست عقیدوں ) اور ضروری مسائل کی تعلیم کے بعد جس جائز کام میں لگائیں اختیار ہے۔ (بہارِ شریعت ج۲ص ۲۵۶) لڑکی کو بھی عقائد و ضروری مسائل سکھانے کے بعد کسی عورت سے سلائی اور نقش و نگار وغیرہ ایسے کام سکھائیں جن کی عورَتوں کو اکثر ضرورت پڑتی ہے اور کھانا پکانے اور دیگر اُمور ِخانہ داری (یعنی گھر کے کام کاج) میں اُس کو سلیقہ(یعنی قابلیت) ہونے کی کوشش کریں کہ سلیقے والی عورت جس خوبی سے زندَگی بسر کرسکتی ہے بدسلیقہ نہیں کرسکتی۔ (بہارِ شریعت ج۲ ص ۲۵۷)
چند گزارشات:
(۱) ہر اسکول ، مدرسے اور دینی علوم کے اداروں کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اپنا نصاب (Syllabus) اس طرح بنائیں کہ جس عمر میں جو سیکھانا چاہیے، وہ بچے سیکھ لیں۔
(۲) والدین کو چاہیے کہ جس دینی ودنیاوی ادارے سے بچے کو وابسطہ کر رہے ہیں، اس کے Syllabusکا جائزہ لیں ، اگر فرض علوم وغیرہ نہ ہوں تو اپنے بچوں کے لیے فرض علوم کا انتظام کریں اور اگر فرض علوم شامل ہوں تو یہ دیکھیں کہ آپ کا بچہ ان فرائض علوم حاصل کرنے میں صحیح طور پر مصروف ہے۔
(۳)دینی پبلیشرز(publishers) کو چاہیے کہ بچوں کی عمر کی ترتیب کے مطابق، سنی علما کی رہنمائی میں نصاب (Syllabus) تیار کریں کہ والدین خود یہ نصاب پڑھا سکیں۔
(۴) والدین کو چاہیے کہ بچوں کو صرف قاری صاحب سے قرآن پڑھانے پر اکتفا نہ
کریں بلکہ ایسے اساتذہ کا انتخاب کریں کہ جو انہیں ضروری علوم بھی پڑھائیں۔
(۵) دینی تعلیم دینے والے اداروں کو چاہیے کہ وہ ایسے والدین کے لیے ہفتہ وار تعطیل میں ضروری علوم حاصل کرنے کا انتظام کریں یا وہ ادارے جو آن لائن پڑھاتے ہیں، وہ اس کا انتظام کریں۔
(۶) والدین اگر کوئی انتظام نہ کر سکیں تو وہ ان موضوعات (topics )پر سنی علما کی لکھی ہوئی کتابوں سے مدد حاصل کریں اور آپ دعوتِ اسلامی کی web site پر جاکر home page میں موجود departs میں سے فرض علوم(frz uloom) میں جاکر بھی مدد حاصل کر سکتے ہیں۔
فرض علوم کے بعد مُباح و جائز علم کا حاصل کرنا
جو فرض علوم حاصل کر لے وہ مباح وجائز علم بعض شرائط کے ساتھ حاصل کر سکتا ہے۔ فتاوی رضویہ جلد 23،صفحہ846پر ہے:
ہاں جوشخص ضروریات دین مذکورہ (بیان کردہ فرض علوم) سے فراغت پاکر اقلیدس(Geometry)،حساب(Mathematics)،مساحت (Trigonometry)، جغرافیہ(Geography)وغیرہا وہ(جائز) فنون(علم) پڑھے جن میں کوئی امر(بات) مخالف شرعی(شریعت کے خلاف) نہیں تو ایک مباح(جائز) کام ہوگا جب کہ اس کے سبب کسی واجب شرعی میں خلل نہ پڑھے(یعنی اس پڑھنے میں یہ بھی شرط ہے کہ اس پڑھنے کے دوران بھی کوئی واجب نہ چھوٹے، کوئی گناہ کا کام نہ ہو) ۔
فتاوی رضویہ جلد 23،صفحہ 693پر ہے:
ان ضروریات اور قرآن عظیم پڑھنے کے بعد پھر اگر اردو یاگجراتی کی دنیوی کتاب جس میں کوئی بات نہ دین کے خلاف ہو نہ بے شرمی کی، نہ اخلاق وعادات پر برااثر ڈالنے کی، اور پڑھانے والی عورت سنی مسلمان پارسا(نیک)حیادار ہوتو کوئی حرج نہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔
فرض چھوڑ کر نفل میں مصروف ہونا
حضرتِ سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ پیارے آقا، مدینے والے مُصطفیٰ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ و سلم نے فرمایاکہ اﷲ پاک فرماتا ہے جو میرے کسی ولی سے عداوت(دشمنی) رکھے میں اسے اعلان جنگ دیتا ہوں اور میرے کسی بندے کا فرائض عبادتوں کے علاوہ کسی دوسرے ذریعہ سے مجھ سے قریب ہونا مجھے زیادہ پسند نہیں اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ سے قریب ہوتا رہتا ہےحتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔(بخاری،۴ / ۲۴۸،حدیث:۶۵۰۲)
حضرت ِ مفتی احمد یار خان (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) حدیثِ پاک کے اس حصّے (میرے کسی بندے کا فرائض عبادتوں کے علاوہ کسی دوسرے ذریعہ سے مجھ سے قریب ہونا مجھے زیادہ پسند نہیں)کے تحت فرماتے ہیں: یعنی مجھ تک پہنچنے کے بہت ذریعہ ہیں،مگر ان تمام ذرائع سے زیادہ محبوب ذریعہ ادائے فرائص ہے اسی لیے صوفیا فرماتے ہیں کہ فرائض کے بغیر نوافل قبول نہیں ہوتے ان کا ماخذ یہ حدیث ہے(یعنی انہوں نے یہ بات اس حدیث سے حاصل کیا) افسوس ان لوگوں پر جو فرض عبادات میں سستی کریں اور نوافل پر زور دیں ۔ اور اس حصّے (اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ سے قریب ہوتا رہتا ہےحتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں)کے تحت فرماتے ہیں :یعنی بندہ مسلمان فرض عبادات کے ساتھ نوافل بھی ادا کرتا رہتا ہے حتی کہ وہ میرا پیارا ہوجاتا ہے کیونکہ وہ فرائص و نوافل کا جامع ہوتا ہے(یعنی فرض و نفل دونوں عبادات کرتا ہے)۔(مرقات)اس کا مطلب یہ نہیں کہ فرائص چھوڑ کر نوافل ادا کرے۔ محبت سے مراد کامل محبت ہے۔(مراٰۃ المناجیح،۳ / ۳۰۸)
یاد رہے کہ فرائض و واجبات و سننِ مؤکدات کا علم حاصل کرنا اور ان پر عمل کرنا نفل عبادت میں مصروف ہونے سے بہت اہم ہے۔ امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ) کچھ اس طرح فرماتے ہیں: کوئی مستحب کیسی ہی فضیلت والا ہو جب کسی سنت مؤکدہ کے چھوٹنے کا سبب ہو تو یہ عمل اب مستحب نہیں کہلائے گا بلکہ اب یہ کام بُراہوگا۔(فتاوی رضویہ،۷ / ۴۱۰، مُلخصاً)
بلکہ یہاں تک فرمایا: جوفرض چھوڑ کر نفل میں مشغول(مصروف) ہو حدیثوں میں اس کی سخت برائی آئی اور اس کا وہ نیک کام مردود(یعنی نامقبول) قرارپایا۔(فتاوی رضویہ،۲۳ / ۶۴۸)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: اے عزیز! فرض خاص سلطانی قرض (یعنی فرض اللہ پاک کی طرف سے ایک لازم کام )ہے اور نفل گویا تحفہ و نذرانہ۔ قرض نہ دیجیے اور بالائی بیکار(فضول) تحفے بھیجیے ، وُہ قابلِ قبول ہوں گے ؟ خصوصاً اس شہنشاہ غنی کی بارگاہ میں جو تمام جہان و جہانیاں (سب دنیا)سے بے نیاز(ہے)۔۔۔ (پھر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے حدیثِ پاک نقل فرمائی)جب خلیفۂ رسول، سیّد ناصدیقِ اکبر رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی نزع کا وقت ہوا ، امیر المومنین فاروق اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ کو بلا کر فرمایا: اے عمر !اﷲ سے ڈرنا اور جان لو کہ اﷲکے کچھ کام دن میں ہیں کہ انہیں رات میں کرو ، تو قبول نہ فرمائے گا اور کچھ کام رات میں کہ انہیں دن میں کرو ، تو مقبول نہ ہوں گے اور خبردار رہو کہ کوئی نفل قبول نہیں ہوتا ، جب تک فرض ادا نہ کرلیا جائے ۔
پھر فرمایا کہ حضورِ غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب فتوح الغیب شریف میں فرض چھوڑ کر نفل عبادات کرنے والوں کو بہترین مثالوں سے سمجھایا ہے۔ فرماتے ہیں: اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے کسی شخص کو بادشاہ اپنی خدمت کے لیے بلائے ۔ یہ وہاں تو حاضر نہ ہُوا اور اس کے غلام کی خدمتگاری میں موجود رہے ۔
پھر کچھ آگے حضرت امیرالمومنین مولی المسلمین سید نا مولیٰ علی مرتضیٰ کرم اﷲتعالیٰ وجہہ کا فرمان نقل کیا: فان اشتغل بالسنن والنوافل قبل الفرائض لم یقبل منہ واھین۔یعنی فرض چھوڑ کر سنّت و نفل میں مشغول ہوگا ، یہ قبول نہ ہوں گے اور خوار کیا جائے گا۔(فتاوی رضویہ،۱۰ / ۱۷۹۔۱۸۰،ماخوذا)