سوال: اگرکسی شخص نےزکوۃ کی رقم دی،اورکہاکہ ان پیسوں سےکسی مستحق کوسامان دلادینا،وکیل نےاپنےپاس سےاتنی رقم کاسامان مستحق شخص کودلوادیا،یہ سوچ کرکہ زکوۃ کی رقم والےپیسےمیں رکھ لوں گاکیااس طرح زکوۃ ادا ہوجائے گی ؟
جواب: زکوۃ کے وکیل نے اپنے پیسے زکوۃ میں دیدیے یا موکل کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اپنے پیسوں سے سامان خرید کر مستحق زکوۃ کو دے دیا اور موکل کے پیسے اس کے عوض میں اپنے پاس رکھ دیے تو جائز ہے اور اس طرح کرنے سے زکوۃ ادا ہوجائے گی۔ لیکن یہ نہیں کرسکتاکہ پہلے زکوۃ کے پیسے اپنے اوپرخرچ کرلے اورپھربعدمیں اپنے طور پر اپنی رقم اس کی زکوۃ میں اداکردے بلکہ پہلے اپنی رقم سے اس کی زکوۃ اداکرے پھربعدمیں اس کی رقم استعمال کرے۔
نوٹ:اس میں اس بات کابھی خیال رکھناضروری ہے کہ مستحق کو مال زکوۃ سے سامان دینے کی صورت میں یہ یاد رہے کہ جتنا سامان مستحق کے قبضہ میں دیا اس کی قیمت کے مطابق زکوۃ ادا ہوگی، لانے لیجانے کے اخرجات زکوۃ میں شمار نہیں ہوں گے۔
بہارشریعت میں ہے :”زکوۃ دینے والے نے وکیل کوزکوۃ کا روپیہ دیا وکیل نے اُسے رکھ لیا اور اپنا روپیہ زکوۃ میں دے دیا تو جائز ہے، اگر یہ نیّت ہو کہ اس کے عوض مؤکل کا روپیہ لے لے گا اور اگر وکیل نے پہلے اس روپیہ کو خود خرچ کر ڈالا بعد کو اپنا روپیہ زکوۃ میں دیا توزکوۃ ادا نہ ہوئی بلکہ یہ تبرع ہے اور مؤکل کو تاوان دے گا۔ ” (بہارشریعت، ج1،ص888،مطبوعہ:مکتبہ المدینہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم