dunya ko kis ne paida kia
مسجد الحرم

کیا کائنات خود سے چل رہی ہے؟

دنیا کو کس نے بنایا اس بارے میں زبردست تحریر


کروڑوں حنفیوں کے پیشوا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ  رحمۃُ اللہِ علیہ  دہریوں [1] کے لئے تلوار کی مانند تھے اس لئے دہریے موقع کی تلاش میں رہتے کہ کب انہیں قتل کر سکیں۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ  رحمۃُ اللہِ علیہ  ایک بار مسجد میں بیٹھے تھے کہ اچانک کچھ دہریوں نے آپ کو گھیر لیا۔ انہوں نے ننگی تلواریں اٹھا رکھی تھیں وہ آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ امامِ اعظم  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے فرمایا : پہلے میری ایک بات کا جواب دو پھر میرے ساتھ جو چاہوکرنا۔ انہوں نے کہا : پوچھو (چونکہ دہریوں کا نظریہ ہے کہ دنیا خود سے قائم ہے اور رات دن اور سردی گرمی بغیر کسی خالق کے اپنے آپ بدلتے رہتے ہیں) اس لئے آپ  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے فرمایا : اچھا اُس آدمی کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو جو کہے کہ میں نے ایک ایسی کشتی دیکھی ہے جوبوجھ سےلدی ہوئی اور سامان سے خوب بھری ہوئی ہے ، سمندر میں ہر طرف سے لہروں نے اسے گھیر رکھا ہے ، ہوائیں بھی مختلف سمتوں سے چل رہی ہیں اسے چلانے والا ملّاح بھی نہیں ہے پھر بھی وہ سیدھی چلی جا رہی ہے کیا عقل اسے مانتی ہے؟ دہریوں نے کہا : ہرگز نہیں ، یہ ایسی بات ہے جسے عقل تسلیم نہیں کرتی۔


حضرت امام اعظم ابو حنیفہ  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے فرمایا : سبحٰن اللہ ، جب عقل اس بات کو مانتی ہے کہ کشتی محافظ اور چلانے والے کے بغیر سیدھی نہیں چل سکتی تو ذرا سوچو پھر اس قدر وسیع و عریض دنیا اور رات دِن کا تبدیل ہونا ، ساری کائنات کا اس قدر منظم انداز بغیر خالق کے کیسے قائم ہے؟ آپ  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی بات سُن کر وہ سب رونے لگے۔ انہوں نے کہا : آپ نے بالکل سچ فرمایا۔ انہوں نے اپنی تلواریں ہٹا لیں اور اپنے باطل عقیدے سے توبہ کر لی۔ (تفسیر کبیر ، البقرۃ ، تحت الآیۃ : 21 ، الجز الثانی ، 1 / 333)


حضرت امام اعظم  رحمۃُ اللہِ علیہ  کے اس واقعہ سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ کوئی بھی چیز خود سے نہیں بن سکتی کشتی تو بہت بڑی چیز ہے آج تک دنیا میں کوئی ایک سوئی بھی خود نہیں بنی نیز یہ بات بھی ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ سوئی بنانے کا بھی ایک مخصوص طریقۂ کار ہے ایسا نہیں ہوتا کہ سوئیاں کسی دھماکے کے نتیجے میں بَن جاتی ہیں مشاہدہ اس بات کی دلیل ہے کہ دھماکوں سے چیزیں بنتی نہیں بلکہ بگڑتی اور تباہ و برباد ہوتی ہیں۔ جب سوئی کسی دھماکے کے نتیجے میں نہیں بنتی تو یہ کہنا کہ یہ ساری کائنات ایک دھماکے کے نتیجے میں بن گئی ہے مضحکہ خیز نہیں تو اور کیا ہے؟


ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی چیزیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں اور کبھی نہ کبھی یہ فنا ہو جائیں گی۔ یہ دنیا ہمیشہ سے نہیں ہے بلکہ کسی نہ کسی وقت پیدا ہوئی ہے۔ ضرور اِن سب چیزوں کا کوئی پیدا اور فنا کرنے والا ہے۔ اس کا نامِ پاک “ اللہ “ ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے ، ہمیشہ رہے گا ، وہی تمام جہان کا بنانے والا ہے۔ آسمان ، زمین ، چاند ، تارے ، آدمی ، جانور اور جتنی چیزیں ہیں اور جتنی ہوں گی سب کو اُسی ایک “ اللہ “ نے پیدا کیا ہے اور پیدا کرے گا۔


جب پہاڑوں اور بیابان میں سفر کرنے والے آدمی کا کسی صحرا سے گزر ہوتا ہے تو وہ ریت کے ناہموار ٹیلوں اور کوہستان میں پڑے بے ترتیب پتھروں کو دیکھ کر سمجھ جاتا ہے کہ ہواؤں کے چلنے کی وجہ سے ریت کے یہ ناہموار ٹیلے پیدا ہو گئے ہیں اور یہ پتھر بارشوں کے باعث پہاڑوں سے ٹوٹ کر اِدھر اُدھر بکھر گئے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس جب یہی آدمی ایک عالیشان اور خوبصورت عمارت میں داخل ہوتا ہے کہ جہاں ہر چیز مناسب مقام پر رکھی دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً عمدہ انداز میں بچھا قالین ، ڈیوائڈر میں سجے مختلف برتن ، میز پر لگے ظروف ، دیواروں پر مینا کاری کےنقوش ، دروازوں پر لٹکے نفیس پردے تو کبھی بھی اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ یہ سب نفاست و عمدگی خود بخود معرضِ وجود میں آ گئی ہے۔ ہواؤں نے قالین بچھا دئیے ، بارش نے برتن سجا دئیے ، ژالہ باری نے میناکاری کا کام کر دیا اور تیز ہوا کے جھونکوں نے اِدھر اُدھر سے پتھر جمع کر کے عالیشان عمارت کھڑی کر دی۔ اگر کوئی ایسا کہے تو اسے سوائے پاگل اور بیوقوف کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔


عمارت میں سلیقے سے رکھی ہوئی چیزیں پکار پکار کر اعلان کر رہی ہیں کہ انہیں سلیقے سے رکھنے والا کوئی ماہر منتظم ضرور ہے جس نے انہیں سلیقہ مندی سے رکھا ہے۔ رات اور دن کا آنا ، ہواؤں کا چلنا ، دن رات کا گھٹنا بڑھنا پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ سب خود بخود نہیں بلکہ ایک مالک و خالق کے بنانے اور اس کے منظم کرنے سے ہی ترتیب میں ہے اور وہی کائنات کا خالق اور ہمارا خدا ہے۔


غور کرنے پر ایک بات سامنے آتی ہے کہ مخلوق مجموعی طور پر تین طرح کی ہے : (1)جاندار اور عاقل جیسے انسان ، جن ، فرشتے (2)جاندار اور غیر عاقل جیسے حیوانات و حشرات و پرند وغیرہ (3)بے جان و بے عقل جیسے آسمان ، زمین ، جمادات وغیرہ۔ ان سب میں  پہلی قسم اس اعتبار سے کہ اس کے پاس عقل اور حیات دونوں ہیں ، افضل ہے ، لیکن اس افضلیت کے باوجود جاندار و عاقل مخلوق نہ ہی لکڑی سے پھل نکالنے پر قادر ہے اور نہ ہی انسان کی تخلیق پر اُسے قدرت۔ جب سب سے اعلیٰ مخلوق “ جاندار و عاقل “ کا یہ حال ہے تو اس کے علاوہ اور کوئی مخلوق کیسے کسی دوسری مخلوق کو پیدا کر سکتی ہے۔ جب صفتِ حیات سے متصف مخلوق بھی قادر نہیں تو غیر حَیّ کا قادر نہ ہونا تو زیادہ واضح ہے ، ثابت ہوا کہ مخلوقات کو پیدا کرنے والا “ مخلوق کی جنس “ سے نہیں ہو سکتا بلکہ وہ ذات ان سب سے عظیم تر ہے اور وہ “ اللہ پاک “ کی ذات ہے۔


یہ بات بھی دن کی طرح ظاہر اور سورج کی طرح روشن ہے کہ اگر تمام مخلوق جمع ہوجائے تو اللہ پاک کی بنائی ہوئی مخلوقات میں سے کسی “ ادنیٰ مخلوق “ کو تخلیق کرنے پر بھی قدرت نہیں رکھتے جیسا کہ چیونٹی یا مکھی ہی کو لے لیجئے آج تک بڑے سے بڑا عقل مند بھی اس کی مثل نہ بنا سکا ، جب وہ اتنی چھوٹی سی مخلوق بنانے سے عاجز ہے تو بڑی اور عظیم مخلوقات بنانے کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ، انسان تو انسان بلکہ اللہ کو چھوڑ کر جو لوگ دوسری چیزوں کو اپنا خدا مانتے ہیں ان کے وہ خود ساختہ خدا بھی ایک چیونٹی یا مکھی تک پیدا نہیں کرسکتے۔ اس بات کی طرف قراٰنِ پاک میں یوں اشارہ کیا گیا ہے : ( اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗؕ-)ترجَمۂ کنزُالایمان : وہ جنہیں اللہ کے سوا تم پوجتے ہو ایک مکھی نہ بناسکیں گے اگرچہ سب اس پر اکٹھے ہوجائیں۔ (پ17 ، الحج : 73)  


قراٰنِ پاک میں جگہ جگہ اس بات کا روشن بیان ہے کہ کائنات کو اللہ پاک نے اکیلے پیدا کیا ہے۔ وہ مخلوقات کی تخلیق میں منفرد ہے کوئی اس کا شریک نہیں۔ جیسا کہ فرماتا ہے :


(نَحْنُ خَلَقْنٰكُمْ فَلَوْ لَا تُصَدِّقُوْنَ(۵۷) اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَؕ(۵۸) ءَاَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَهٗۤ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ(۵۹) نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَكُمُ الْمَوْتَ وَ مَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَۙ(۶۰) عَلٰۤى اَنْ نُّبَدِّلَ اَمْثَالَكُمْ وَ نُنْشِئَكُمْ فِیْ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۶۱) وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَةَ الْاُوْلٰى فَلَوْ لَا تَذَكَّرُوْنَ(۶۲) اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَؕ(۶۳) ءَاَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهٗۤ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ(۶۴) لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنٰهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُوْنَ(۶۵) اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَۙ(۶۶) بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ(۶۷) اَفَرَءَیْتُمُ الْمَآءَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَؕ(۶۸) ءَاَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ(۶۹) لَوْ نَشَآءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْ لَا تَشْكُرُوْنَ(۷۰) اَفَرَءَیْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَؕ(۷۱) ءَاَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَهَاۤ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِــٴُـوْنَ(۷۲) نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْكِرَةً وَّ مَتَاعًا لِّلْمُقْوِیْنَۚ(۷۳) فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ۠(۷۴))


 ترجَمۂ کنزُالایمان : ہم نے تمہیں پیدا کیا تو تم کیوں نہیں سچ مانتے۔ تو بھلا دیکھو تو وہ منی جو گراتے ہو۔ کیا تم اس کا آدمی بناتے ہو یا ہم بنانے والے ہیں۔ ہم نے تم میں مرنا ٹھہرایا اور ہم اس سے ہارے نہیں۔ کہ تم جیسے اور بدل دیں اور تمہاری صورتیں وہ کردیں جس کی تمہیں خبر نہیں۔ اور بیشک تم جان چکے ہو پہلی اُٹھان پھر کیوں نہیں سوچتے۔ تو بھلا بتاؤ تو جو بوتے ہو۔ کیا تم اس کی کھیتی بناتے ہو یا ہم بنانے والے ہیں۔ ہم چاہیں تو اسے روندن (پامال) کردیں پھر تم باتیں بناتے رہ جاؤ۔ کہ ہم پر چَٹّی پڑی۔ بلکہ ہم بے نصیب رہے۔ تو بھلا بتاؤ تو وہ پانی جو پیتے ہو۔ کیا تم نے اسے بادل سے اتارا یا ہم ہیں اُتارنے والے۔ ہم چاہیں تو اُسے کھاری کردیں پھر کیوں نہیں شکر کرتے۔ تو بھلا بتاؤ تو وہ آگ جو تم روشن کرتے ہو۔ کیا تم نے اس کا پیڑ پیدا کیا یا ہم ہیں پیدا کرنے والے۔ ہم نے اسے جہنم کی یادگار بنایا اور جنگل میں مسافروں کا فائدہ۔ تو اے محبوب تم پاکی بولو اپنے عظمت والے رب کے نام کی۔                              (پ27 ، الواقعۃ : 57تا74) 


ان آیات میں اللہ پاک کے خالق و مالک اور کائنات کو قائم رکھنے والا ہونے کا کیسا صاف شفاف بیان ہے۔ ایسی درجنوں آیات قراٰنِ پاک کی تلاوت کرنے والے کے ایمان کو جِلا بخشتی ہیں کہ کائنات کا خالق “ اللہ وَحْدَہٗ لَاشَریک “ ہے۔


ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


* رکنِ مجلس المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی




[1] جو یہ کہتے ہیں کہ خدا کا کوئی وجود نہیں ، ساری کائنات خودبخود چل رہی ہے۔

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے