سوال: کافر کومسجد میں لے جاناکیسا ہے اور اگر کافر کوئی مسجد میں داخل ہوجائے تو کیا اسے وہاں رہنے دیا جائے یا نکال دیا جائے؟
جواب:مسجد اللہ تعالیٰ کا پاک گھر،نزول رحمت اور اللہ تعالیٰ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کے لئے عبادت کی جگہ ہے،اس پاک گھر میں وہی شخص داخل ہوسکتا ہے کہ جو جسم کی پاکی کے ساتھ ساتھ ،کفر و شرک کی ناپاکی سے بھی اپنے وجود کو پاک کرلے ،دنیا کی گندگیوں میں سے سب سے بڑی گندگی ،کفر وشرک کی گندگی ہے،تو جب ظاہری گندگی کے ساتھ مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ،تو کفر وشرک کی گندگی کے ساتھ مسجد میں جانا کیونکر درست ہوسکتا ہے؟اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کفار کو نجس قرار دیتے ہوئے ،مسلمانوں کو حکم دیا کہ انہیں مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا جائے ۔
البتہ ایسا کافر جو ذمی بھی ہو اور کتابی بھی ہو دین اسلام نے صرف اسے مسجد میں داخل ہونے کی اجازت دی ہے وہ بھی اس صورت میں کہ وہ تفاخر اور غلبہ کے طور پر مسجد میں داخل نہ ہو۔
پوچھی گئی صورت کا جواب یہ ہے کہ فی زمانہ چونکہ دنیا میں کوئی بھی کافر اب ذمی نہیں ،لہذاکسی بھی کافر کو بلاوجہ شرعی مسجد میں داخل کرنا ممنوع ہے ،خصوصاً کفار کو عزت و احترام اور استقبال کے ساتھ مسجد میں لانا شدید حرام ہے ،چونکہ قرآن پاک میں مسلمانوں کو حکم ہوا کہ انہیں مسجد میں داخل ہونے سے روکا جائے ،تو لامحالہ اگر یہ مسجد میں داخل ہوجائیں ،تو انہیں مسجد میں رہنے نہیں دیا جائے بلکہ انہیں وہاں سے نکالا جائے گا ،البتہ مسجد کے ضروری کام کے پیش نظر بوقت ضرورت و حاجت کے کافر کو مسجد میں لے جانا جائز ہے ،یونہی اگر کوئی کافر اسلام قبول کرنے یا اسلام کی تبلیغ یا احکام کو سننے کے لئے مسجد میں داخل ہونا چاہے، تو اس کی بھی اجازت ہے ،لیکن اس میں بھی یہ خیال رہے ،اس صورت میں اس کے ساتھ ایسا انداز اختیار کرنا جو تعظیم پر دلالت کرتا ہو ،ہرگز جائز نہیں۔
کفار نجس ہیں اور مسلمان انہیں مسجد کے قریب نہ آنے دیں ،اس بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوۡنَ نَجَسٌ فَلَایَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا ۚترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! مشرک بالکل ناپاک ہیں تو اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں ۔ (القرآن،پارہ10،سورۃ التوبہ ،آیت 28)
قرآن پاک کی مشہور تفسیر ”تفسیر صراط الجنان“ میں مذکورہ آیت مبارک کی تفسیر میں لکھا ہے :{ اِنَّمَا الْمُشْرِکُوۡنَ نَجَسٌ:مشرک بالکل ناپاک ہیں۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ مشرک بالکل ناپاک ہیں یعنی ان کو باطن کے اعتبار سے ناپاک قرار دیا ہے کہ وہ کفر و شرک کی نجاست سے آلودہ ہیں۔ حکم دیا گیا کہ اِس سال یعنی سَن 9ہجری کے بعد وہ مسجدِ حرام کے قریب نہ آنے پائیں نہ حج کے لئے نہ عمرہ کے لئے ۔
یہاں مشرکین کو منع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان مسجدِ حرام شریف میں آنے سے روکیں۔یہاں اصلِ حکم مسجد ِ حرام شریف میں آنے سے روکنے کا ہے اور بقیہ دنیا بھر کی مساجد میں آنے کے متعلق بھی حکم یہ ہے کہ کفار مسجدوں میں نہیں آسکتے ۔ خصوصاً کفار کو عزت و احترام اور استقبال کے ساتھ مسجد میں لانا شدید حرام ہے۔ (تفسیر صراط الجنان،ج4،ص100،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ الرحمہ الرحمن کفار کے مسجد میں داخل ہونے کے بارے ارشاد فرماتے ہیں:’’ یہ کہنا کہ مسجدُ الحرام شریف سے کفار کا منع ایک خاص وقت کے واسطے تھا ،اگر یہ مراد کہ اب نہ رہا تو اللہ عزو جل پر صَریح اِفتراء ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اِنَّمَا الْمُشْرِکُوۡنَ نَجَسٌ فَلَایَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا‘‘(ترجمہ کنزالعرفان:مشرک بالکل ناپاک ہیں تو اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔)یونہی یہ کہنا کہ کفار کے وُفود مسجدِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میں اپنے طریقے پر عبادت کرتے تھے محض جھوٹ ہے۔ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے لئے مسجدِ کریمہ کے سوا کوئی نشست گاہ نہ تھی جو حاضر ہوتا یہیں حاضر ہوتا کسی کافر کی حاضری معاذ اللہ بطورِاِستیلا واِستِعلاء (یعنی غلبے کے طور پر) نہ تھی بلکہ ذلیل وخوار ہوکر یا اسلام لانے کے لئے یا تبلیغِ اسلام سننے کے واسطے تھی ۔ ( فتاوی رضویہ ، ج 14، ص 389 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور )
یہاں کے کفار ذمی نہیں بلکہ حربی ہیں جیسا کہ سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ ہندوستان کے کافر ذمی ہیں یا حربی تو جوابًا آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا :” ہندوستان کے کافر ذمی نہیں، ذمی وہ کافر ہے کہ سلطنت ِ اسلام میں مطیع ُالاسلام ہو کر رہے اور جزیہ دینا قبول کرے ۔”
( فتاوی رضویہ ، ج 14، ص 139 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور )
یونہی بہار شریعت میں ہے :” یہاں کے کفار حربی ہیں ۔” ( بہار شریعت ، ج 3، ص 345، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)
( فتاوی امجدیہ ،ج3، ص 318، مطبوعہ لاہور)( فتاوی فیض الرسول ، ج 2 ، ص 457، 468، مطبوعہ لاہور)
مسجد میں صرف ذمی کافر کو داخل ہونے کی اجازت ہے اس بارے حدیث مبارک میں ہے:عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ” لا يدخل مسجدنا هذا مشرك بعد عامنا هذا، غير أهل الكتاب وخدمهم۔ترجمہ: حضر ت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس سال کے بعد ہماری اس مسجد میں کوئی مشرک نہ آنے پائے سوائے ذمیوں اور ان کے غلاموں کے۔(مسندامام احمد بن حنبل، مسند جابر بن عبد الله رضي الله عنه،ج23،ص18، مؤسسة الرسالة)
مسجد میں داخل ہونے کی اجازت صرف ذمی کتابی کے لیے ہے ،حربی کافر کو مسجد میں داخل ہونے کی ہر گزاجازت نہیں اس پر تفصیلی کلام کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں :
اولاً:یہ مسئلہ تمام متون مثل تحفۃ الفقہاء وہدایہ ووقایہ وکنز ووافی ومختار واصلاح وغرر وملتقی وتنویر اور ان کے سوا محیط سرخسی واشباہ والنظائر ووجیز کردری وخزانۃ المفتین وفتاوٰی ہندیہ سب میں ذمی کے ساتھ مقید ہے فتوٰی شائع کردہ لیڈران نے بھی یہاں عبارت درمختار میں گنجائش نہ پائی یونہی نقل کرنی پڑی کہ ”جاز دخول الذمی مسجدا “ذمی کا مسجد میں جانا جائزہے۔
سب سے اجل واعظم خود محرر مذہب امام محمد کا جامع صغیر میں ارشاد ہے: محمد عن یعقوب عن ابی حنیفۃ لاباس بان یدخل اھل الذمۃ المسجد الحرام ”یعنی امام محمد امام ابویوسف سے راوی کہ امام اعظم نے فرمایا رضی اللہ تعالٰی عنہم ذمیوں کا مسجد حرام میں جانا مضائقہ نہیں”
ثانیاً :یہاں بھی امام بدرالدین محمود عینی وغیرہ اکابر کی روایت یہ ہے کہ ہمارے امام مذہب سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مذہب میں ذمیوں میں جواز صرف کتابی کے لئے ہے یہ مشرک حربی لے دوڑے۔
عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے: قال ابوحنیفۃ یجوز الکتابی دون غیرہ واحتج بمارواہ احمد فی مسندہ بسند جیدعن جابررضی اﷲ تعالٰی عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لایدخل مسجدنا ھذا بعد عامنا ھذا مشرک الااھل العہد وخدمہم ۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایامسجد میں کتابی (ذمی) کا آنا جائزہے اور کفار کا نہیں اور امام اس پر اس حدیث سے سند لائے جو امام احمد نے اپنی مسند میں کھری اسناد کے ساتھ جابررضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا اس سال کے بعد ہماری اس مسجد میں کوئی مشرک نہ آنے پائے سوائے ذمیوں اور ان کے غلاموں کے۔
اگرکہئے حدیث میں تو مطلق ذمی کا اسثناء فرمایا کتابی کی تخصیص کہاں ہے۔ اقول (میں کہتاہوں) مشرکین عرب کو ذمی بنانا روا نہ تھا ان پر صرف دوحکم تھے اسلام لائیں ورنہ تلوار تو وہاں ذمی نہ تھے مگر کتابی، تو استثناء منقطع ہے بلکہ ہم نے مسند میں دیکھا اواخِر مسند جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ میں حدیث اس طرح ہے کہ مذکور ہوئی اور اس سے ۲۷ ورق پہلے یوں ہے: لایدخل مسجد نا ھذامشرک بعد عامنا ھذا غیر اھل الکتاب و خدمہم ۔ اس سال کے بعد ہماری اس مسجدمیں کوئی مشرک نہ آنے پائے سوائے کتابی اور ان کے غلام کے۔تو یہاں خود کتابی کی تصریح ہے۔
ثالثاً: اقول (میں کہتاہوں) للہ الحمد اس حدیث حسن نے صاف ارشاد فرمایا کہ اس سے پہلے جو کسی مشرک یا کافر غیر ذمی کے لئے اجازت تھی منسوخ ہوگئی کہ فرمایا ”بعد عامنا ھذا” (اس سال کے بعد کوئی مشرک مسجد میں نہ آنے پائے سوا ذمیوں کے) مخالفین جتنی روایات پیش کریں ان کے ذمہ لازم ہے کہ اس واقعہ کے اس ارشاد کے بعد ہونے کا ثبوت دیں ورنہ سب جوابوں سے قطع نظر ایک سیدھا سایہی جواب بس ہے کہ وہ منسوخ ہوچکا اور وہ ہر گز اس کا ثبوت نہیں دے سکتے”خصوصا بعد عامنا ھذا کا لفظ ارشاد فرمارہاہے کہ یہ ارشاد بعد نزول سورہ برأت ہے غالبا ا س کا یہ لفظ اس پاک ارشادا لہٰی انماالمشرکون نجس فلا یقربوالمسجد الحرام بعدعامہم ھذا (مشرک نرے ناپاک ہیں تو اس برس کے بعد وہ مسجد حرام کے پا س نہ آنے پائیں۔) سے ماخوذ ہے تو پہلے کے وقائع پیش کرنا محض نادانی لیکن لیڈران تو ڈھونڈھ کر منسوخات ہی پرعمل کررہے ہیں کہ اس میں اپنا بچاؤ دیکھتے ہیں۔ (فتاوی رضویہ،ج14،ص521۔526،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)
معاشرتی تباہی کے اسباب اور کے حل
مسجد کے ضروری کاموں کے لیے کافر کے مسجد میں داخل ہونے کے متعلق بحرالرائق میں ہے ”وفي الحاوي ولا بأس أن يدخل الكافر وأهل الذمة المسجد الحرام وبيت المقدس وسائر المساجد لمصالح المسجد وغيرها من المهمات” ترجمہ : حاوی میں ہے ، (حربی ) کافر یا ذمی ( کافر ) کے مسجد حرام یا بیت المقدس یا دیگر تمام مساجد میں مصالح مسجد یا دیگر ضروری امور کے لیے مسجد جانے میں کوئی حرج نہیں ۔
(بحر الرائق ، کتاب الوقف، فصل فی المسجد ، ج 5، ص 420،مطبوعہ کوئٹہ )
ردالمحتار میں اسی مسئلے کی تفصیل یوں مذکور ہے ”في البحر عن الحاوي: ولا بأس أن يدخل الكافر وأهل الذمة المسجد الحرام وبيت المقدس وسائر المساجد لمصالح المسجد وغيرها من المهمات اهـ ومفهومه أن في دخوله لغير مهمة بأسا وبه يتجه ما هنا فافهم” بحر میں حاوی قدسی کے حوالے سے ہے ، (حربی ) کافر یا ذمی ( کافر ) کے مسجد الحرام یا بیت المقدس یا دیگر تمام مساجد میں مصالح مسجد یا دیگر ضروری امور کے لیے مسجد جانے میں کوئی حرج نہیں ۔اس کا مفہوم یہ ہوا کہ غیر ضروری کام کے لیے جانے میں حرج ہے اور یہاں موجود کلام کا نتیجہ یہی نکلتا ہے لہذا سمجھ لو ۔ (رد المحتار ، کتاب الوقف ، مطلب فی جعل شئی الخ ، ج6، ص 580، مطبوعہ کوئٹہ )
اسلام قبول کرنے اور اسلامی احکامات کی تبلیغ حاصل کرنے کرنے کے لئے کافر کو مسجد میں داخل ہونے کی اجازت ہےاس بارے میں امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ الرحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں :: ’’ تم ان نجسوں کو مقد س مطہر بیت اللہ میں لے جاؤ جو تمہارے ماتھا رکھنے کی جگہ ہے وہاں ان کے گندے پاؤں رکھواؤ مگر تم کو اسلامی حس ہی نہ رہا محبت مشرکین نے اندھا بہر ا کردیا۔ جواز تھا تو یوں کہ کوئی کافر دبا،لچا،ذلیل و خوار مثلا اسلام لانے یا اسلامی تبلیغ سننے یا اسلامی حکم لینے کے لئے مسجد میں آئے یا اسکی اجازت تھی کہ خود مشرکوں نجس پرستوں کو مسلمانوں کا واعظ بنا کر مسجد میں لے جاؤ۔‘‘ (فتاوی رضویہ ، ج 14،ص 526،رضافاؤنڈیشن،لاہور)
از مفتی محمد اویس عطاری
جاری کردہ :دارالفکر شریعہ اکیڈمی