جمعہ کے خطبہ میں خلفائے راشدین کے نام آنے کی وجہ ؟

میرا سوال یہ ہے کہ جمعہ کے خطبہ میں خلفائے راشدین کے نام کیوں آتے ہیں ؟ 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جمعہ کے خطبہ میں خلفائےراشدین رضی اللہ عنہم کا تذکرہ عظیم  تابعی بزرگ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے شروع کیا، اور  اس کی وجہ یہ تھی کہ اُس دور میں روافض کی طرف سے حضرات شیخین وحضرت عثمان رضی اللہ عنہم پرلعن طعن کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، اوردوسری طرف بعض لوگوں کی طرف سے خطبات میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر سب و شتم کیا جاتا تھا، اور ان کی خلافت کا انکار کیا جاتا تھا،  جس کے ازالے کے لیے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کے بڑے اجتماع میں خلفاء کی عظمت دلوں میں بٹھانے کے لیے ان کا تذکرہ خیر شروع فرمایا ۔

   چنانچہ ابن امیر الحاج رحمۃاللہ علیہ کی کتاب "المدخل”میں ہے :’’( وأما ) ترضى الخطيب في خطبته عن الخلفاء من الصحابة وبقية العشرة وباقى الصحابة وأمهات المؤمنين وعترة النبي صلى الله عليه وسلم رضى الله عنهم أجمعين فھو من باب المندوب لا من باب البدعة وان كان لم يفعله النبي صلى الله عليه وسلم ولا الخلفاء بعده ولا الصحابة رضى الله عنهم لكن فعله عمر بن عبد العزيز رضي الله عنه لأمركان وقع قبله وذلك أن بعض بني أمية كانوا يسبون بعض الخلفاء من الصحابة رضى الله عنهم أجمعين على المنابر فى خطبتهم فلما أن ولى عمر بن عبد العزيز رضي الله عنه أبدل مكان ذلك الترضى عنهم وقد قال مالك رضى الله عنه في حقه ھو امام هدى وأنا اقتدى به‘‘ترجمہ :اور بہر حال خطیب کا خطبہ میں صحابہ کرام میں سے خلفائے راشدین ،بقیہ عشرہ مبشرہ ،باقی صحابہ کرام ،اُمہات المؤمنین ،اہل بیت کرام رضى الله عنہم اجمعين کا ذکر کرنا (ان کے ساتھ رضی اللہ عنہ کہنا)مستحب کی قبیل سے ہے ،بدعت میں سے نہیں ہے اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ان کے بعد خلفائے راشدین ، صحابہ کرام نے یہ کام نہیں کیالیکن یہ کام خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز نے کیااس معاملے کی وجہ سے جو ان سے پہلے ہوا تھا اور وہ معاملہ یہ  ہےکہ بعض بنو اُمیہ   اپنے خطبوں میں منبروں پرصحابہ میں سے بعض خلفاء کو گالیاں دیتے تھے تو جب حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ  خلیفہ بنے تو گا لیوں کے بدلے ان صحابہ کرام کے ساتھ رضی اللہ عنہ کہنا شروع کردیا ۔اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نےعمر بن عبد العزیز کے حق میں  ارشاد فرمایاکہ وہ ہدایت والے امام ہیں اور  میں انہیں کی اقتداء کرتا ہوں ۔(المدخل لابن امیر الحاج،ج02،فصل فی اسلام الکافرفی حال الخطبۃ،ص126،دار التراث،بیروت)

   مرآۃ  المناجیح میں ہے :’’ خیال رہے کہ روافض اپنے خطبوں میں خلفائے راشدین کو گالیاں دیا کرتے تھے ان کے مقابلے میں ا ہل سنت ان کے نام لے کر ان پر درود بھیجتے ہیں۔حضرت عمر ابن عبدالعزیز نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ اہل بیت اطہار کو خطبہ میں گالیاں دیتے تھے تو انہوں نے یہ تلاوت فرمائی:”اِنَّ اللہَ یَاۡمُرُ بِالْعَدْلِ وَالۡاِحْسٰنِ”الخ۔ یہ سب بدعتیں ہیں مگر چونکہ انہیں مسلمان اچھا جانتے ہیں اس لیئے اچھی ہیں۔‘‘(مرآۃ المناجیح ،ج02،کتاب الجمعۃ ،باب التنظیف،ص330،نعیمی کتب خانہ ،گجرات)

   بہار شریعت میں ہے : ’’مستحب یہ ہے کہ دوسرے خطبہ میں آواز بہ نسبت پہلے کے پست ہو اور خلفائے راشدین وعمّین مُکَرّمین حضرت حمزہ و حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا ذکر ہو۔‘‘(بہار شریعت ،ج01،حصہ04،ص768،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

(دعوت اسلامی)

About darulfikar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے